Saturday 13 December 2014





پیر طریقت  رہبر شریعت  منبع جود و سخا  پیکر عشق مصطفے ﷺ  حامل اسرار اولیاء  عالم باعمل  غوث الزماں حضرت مولانا پیر الحاج
 محمد عنایت احمد نقشبندی  مجددی
 المعروف پیر عنایت سرکار


نظرثانی و مرتب : محمد اسلم لودھی
        پروف ریڈنگ : پروفیسر ذوالفقارعلی



فہرست مضامین
-1
انتساب
3
-2
دیباچہ
8
-3
عرضِ مصنف
10
-4
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
11
-5
پیش لفظ
14
-6
فضائل وضو اور فرائض وضو
19
-7
نماز پڑھنے کا طریقہ
23
-8
فرض نماز کے بعد کی دعا
26
-9
وتر معہ دعائے قنوت
29
-10
نمازِ جنازہ
30
-11
نمازِ عیدین
32
-12
نفل نمازیں
34
-13
صلوٰة تسبیح
35
-14
نمازِ حاجات
36
-15
فضیلتِ نماز
42
-16
ظاہری حواسِ خمسہ
62
-17
نمازِ اسلاف
65
-18
نماز کی پہچان
67
-19
درودشریف کی فضیلت
75
-20
تفسیر
77
-21
القرآن
84
-22
فضیلت نامِ محمد ﷺ
86
-23
حدیث رسولِ مقبولﷺ اور درود پڑھنے کا طریقہ
89
-24
بے مثل وظیفہ
91
-25
نگاہِ اقبال میں درودِ خضریٰ کی فضیلت
99
-26
درودِ شفا
97
-27
حدیث شریف
100
-28
فضائل و ثمرات درودوسلام
102
-29
محبت
109
-30
عشق و محبت
112
-31
ایک بخیل منافق
119
-32
محبت حب رسول اللہ ﷺ
121
-33
قرآنی نکات اور حدیثِ مبارکہ سے اللہ والوں کی شان
130
-34
حضرت کرمانوالے رحمتہ اللہ علیہ
133
-35
ذاتی مشاہدات
135
-36
تصورِ شیخ
143
-37
منزل کا حصول
145
-38
حضرت باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ
152
-39
اولیاء کی اقسام
163
-40
علم اور علماء کی فضیلت
167
-41
علماء سوء کی سزا
170
-42
فضلت حسنِ اخلاق
175
-43
فضیلت رحم
180
-44
امانت اور توبہ
185
-45
کلمہ طیبہ کی برکات
197
-46
ذکر کی فضیلت
205
-47
دعا
214
ماں ہی میری رہنمائی کرتی ہے             پیر عنایت سرکار 
شجرہ طیبہ خواجگان قادریہ و رزاقیہ رحمانیہ
آپ  کے وضائف

حصہ دوم
گدی نشین
    -1 گنج سخا حضرت پیر محمد عمر دام برکاتہ عالیہ
    -2گنج عطا حضرت محمد عثمان دام برکاتہ عالیہ
خلفائے عظام ۔۔۔ تعارف و حالات زندگی
    -1    حضرت سید گلزار الحسن شاہ 
    -2    صوفی عبدالمجید عاجز دام برکاتہ عالیہ
    -3    صوفی سراج دین دام برکاتہ عالیہ
مشاہدات :
    صاحبزادہ محمد عمر کی رحلت پر ایک تاثراتی مضمون        محمد اسلم لودھی
    سفر آخرت۔ پیر عنایت سرکار             محمد اسلم لودھی
    روحانیت کا سفر                 محمد اسلم لودھی
     چند خواب اور ان کی تعبیر                محمد اسلم لودھی
    مشاہدات                      صوفی اخترحسین









فرمانِ رسول اللہ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

عن ابی ھریرة رضی الله عنہ عن النبی صلی الله عنہ وسلم قال اجتنبوا سبع الموبقات قالوا یارسول الله وما ھن قال الشرک بالله والسحرو قتل النفس التی حرم الله الا بالحق واکل الربا واکل مال الیتم والتولی یوم الزحف وقذف المحصنات الغافلات المومنات۔
 (البخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد‘ نسائی)
ترجمہ: ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسولِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سات ایسی چیزوں سے بچ جاؤ جو ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والی ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ”یارسول اللہ! صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وہ کون سی چیزیں ہیں؟“ حضورِ پُرنور صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ سے شرک کرنا اور جادو کرنا کسی ایسے انسان کو قتل کرنا جس کا خون اللہ نے حرام کیا ہو‘ سود کھانا‘ یتیم کا مال کھانا‘ جہاد کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔“

####




دیباچہ

الحمدلله ہم رب العزت کے بے حد شکرگزار ہیں کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی آخر الزمان صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اُمتی ہونے کا شرف بخشا لیکن یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ہمیں اپنے دین کا زیادہ علم نہیں ہے۔ نہ ہمیں وضو کا صحیح طریقہ آتا ہے اور نہ ہی نماز کی خشوع و خضوع کے ساتھ ادائیگی کا فن ہم جانتے ہیں۔ لاعلمی کے عالم میں ہماری عمریں بڑھتی جاتی ہیں لیکن شرمندگی کے مارے کسی سے دین کے احکامات کے بارے میں سیکھنے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔ بزرگانِ دین اور علمائے کرام کی محفل میں بیٹھنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ ہم دنیا کے جھمیلوں اور رنگینیوں میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ اپنے مرکز کی جانب واپسی کا ہم تصور بھی نہیں کرتے یوں اپنے دین سے ناآشنائی طول اختیار کرتی جاتی ہے اور ہمیں اپنی اس خامی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب موت کا فرشتہ روح قبض کرنے کے لیے ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اس وقت صرف پچھتاوا ہی ہمارا مقدر بنتا ہے۔ پیر طریقت اور رہبر شریعت حضرت مولانا محمد عنایت احمد دام علیہ برکاتہ جو ایک عظیم روحانی ہستی ہیں ہزاروں عقیدت مند دن کے ہر پہر آپ کی زیارت اور فیض حاصل کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کے لیے یہ کتاب اپنے قلم سے تصنیف فرمائی ہے جن میں وظائف‘ درود شریف کی برکتیں اور پڑھنے کا طریقہ اور نماز پڑھنے کے مسنون طریقے بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں فرض نمازوں اور نفلی نمازوں کے طریقہ ادائیگی کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ فلسفہٴ نماز کا ذکر اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے کیونکہ ہم جیسے کم علم مسلمانوں کو اس بات کا علم نہیں کہ نمازِ فجر حضرت آدم علیہ السلام نے صبح ہونے کا شکر ادا کرنے کے لیے پڑھی‘ نمازِ ظہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بچ جانے اور قربانی کے لیے دُنبہ آنے کی خوشی میں ادا کی اسی طرح نمازِ عصر حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال بعد دوبارہ زندہ ہونے کی خوشی میں اظہارِ تشکر کے طور پر پڑھی‘ نمازِ مغرب حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی توبہ قبول ہونے پر ادا کی اور نمازِ عشا نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمائی۔
سچ تو یہ ہے کہ پیرومرشد حضرت مولانا عنایت احمد دام برکاتہ علیہ نے یہ کتاب لکھ کر نہ صرف اُمتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم کیا ہے بلکہ ہم جیسے ہزاروں کم علموں کو دینِ حق کی جانب لانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اس کتاب کا مطالعہ بچوں‘ نوجوانوں‘ عورتوں اور بزرگوں حتیٰ کہ ہر مسلمان کو باقاعدگی اور اہتمام سے کرنا چاہیے کیونکہ یہ کتاب ایک ولی کامل نے اپنے قلم سے تحریر فرمائی ہے اس لیے اس کی فضیلت اور برکت سے ہمیں ضرور فیض یاب ہونا چاہیے۔ بے شک اس کتاب کا دیباچہ لکھنا میرے لیے سعادت سے کم نہیں۔
....................
اس وقت جبکہ پیرو مرشد حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی  مجددی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دو سال سے زائد عرصہ گزر چکاہے اس کو نئے سرے سے ترتیب دی جارہی ہے اس میں پہلا تو وہی ہے جو پیر و مرشد کے ہاتھوں کالکھا ہوا ہے جس میں بے پناہ معرفت کی باتیں اور علم و دانش کے بیکراں سمندر موجزن ہیں اس حصے کو جوں کا توں کتاب میں شامل کیاجارہا ہے جبکہ دوسرے حصے میں آپ  کے خلفاء کے حالات زندگی  بیعت کرنے کے واقعات اور دیگر معلومات شامل کی جارہی ہیں تاکہ آپ  کے مریدوں کو خلفاء کے بارے میں جاننے میں کوئی دقت نہ ہو اور بوقت ضرورت وہ ان سے رابطہ کرسکیں ۔اسی حصے میں خلفاء کے بعد پیرو مرشد  کے ساتھ کیے گئے سفر  مشاہدات اور تاثرات شامل کیے جارہے ہیں۔میں کوشش کررہا ہوں کہ ان قابل ذکر شخصیات کا تذکرہ بھی اسی کتاب میں شامل کردوں جو زندگی میں پیرو مرشد  کے قریب رہے ہیں اور انہیں آپ  کے قریب رہنے سے بے پناہ سعادتیں حاصل ہوئی ہیں پھر ایسے قابل ذکر مریدوں کا ذکر بھی اس کتاب میں شامل کیا جارہا ہے جنہیں اپنی زندگی میں پیرومرشد  کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی بے شک ان کے مشاہدات بھی کتاب میں محفوظ کرکے اگلی نسلوں تک پہنچانے کی سعادت میں حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔
اس بات میں شک نہیں کہ پیرو مرشد  کا حلقہ بہت وسیع تھا اور لاہور سے باہر بھی بے شمار مرید  عقیدت مند موجود ہیں ان سب تک پہنچنا تو شاید ممکن نہ ہولیکن میری حتی المقدور کوشش ہے کہ جہاں تک میری رسائی ممکن ہو وہاں تک پہنچ کر اس کتاب کو ایک ایسی شکل دے کر انٹرنیٹ پر آن لائن بھی کردوں کہ روز قیامت تک راہ ہدایت کے مسافر اس سے حسب ضرورت اور توفیق استفادہ کرتے رہیں۔
اس لمحے میں بطور خاص پروفیسر ذوالفقار علی صاحب کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں جنہوں نے اس کتاب کی پروف ریڈنگ کا فریضہ انجام دیا بے شک وہ پیر و مرشد  سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں اور جب بھی میں مزار شریف پر دعا کے لیے پہنچا تو وہ جنازگاہ کے ننگے فرش پر  دربار شریف کی طرف چہرہ کرکے مجھے بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ اہل علم بھی ہیں اور اہل دانش بھی ۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے ۔آمین
پیر سید منور شاہ صاحب  جن کی زندگی کا بیشتر حصہ پیرو مرشد  کے ساتھ گزرا ہے ان کے مشاہدات کا ذکر بھی اس کتاب میں کیا جارہا ہے ۔ خلیفہ اول تو حضرت سید گلزار الحسن شاہ صاحب تھے جو قضائے الہی سے رحلت فرما چکے ہیں ان کے بعد خلیفہ اول کے مرتبے پر حضرت صوفی عبدالمجید عاجز دام برکاتہ عالیہ فائز ہوچکے ہیں منصب ولایت پر فائز ہونے اور پیرو مرشد کے بہت قریب ہونے کی بنا پر آپ کا مقام بہت بلند ہے جبکہ خلیفہ دوم کے مرتبے پر حضرت صوفی سراج دین نقشبندی فائز ہیں آپ بھی منزل ولایت کے اعلی درجوں پر فائز ہیں اور بے شمار لوگ آ پ سے فیض حاصل کرتے ہیں ۔
یہاں بطور ان حضرات کا ذکر کرنابھی ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے پیرو مرشد  کے تدفین سے لے کر تمام مذہبی رسومات کی ادائیگی تک  مزار شریف کی تہہ در تہ اور ڈئزاین کے مطابق تعمیر پر اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کیے رکھیں میرے لیے وہ احباب بھی قابل احترام ہیں جنہوں نے دامے درمے قدمے سخنے مزار شریف کی تعمیر میں گراں قدر مالی تعاون کیا اور قبرستان کے اس حصے کو ( جہاں پیرو مرشد دفن ہیں ) اپنی کاوشوں سے گل و گلزار میں تبدیل کردیا ہے ۔
قابل احترام صوفی محمد ہدایت الرحمن اورصوفی محمد منشا کو دربار شریف کا اگر دربان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا آپ دونوں شخصیات نے اپنی زندگی کا بیشتر پیرو مرشد  کی غلامی اور خدمت میں ہی صرف کیے رکھا ۔ اللہ تعالی انہیں اس خدمت عظیم کا اجر عظیم عطا فرمائے ۔
        ناچیز
محمد اسلم لودھی
سپاس گزار  خدمت گزار
882/8-B مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور
    0300-9409732
E-Mail : aslamlodhi@yahoo.com
####













عرضِ مصنف
بے حد حمد اور بے شمار تعریف اس واجب الوجود کے لیے جس نے تمام اشیاء کو عدم سے وجود عطا کیا بلکہ یہ سمجھو کہ اپنی ذات کو جلوہ نما کیا۔ درحقیقت ہر چیز میں اسی کے صفاتی جلوے نظر آتے ہیں اور لامحدود درود و سلام سیدالمرسلین رحمتہ العالمین اشرف المخلوقات خلاصہ موجودات کی ذات پاک پر اور ان کی آل و اصحاب پر جو حضور علیہ الصلوٰة والسلام تک پہنچنے کا ذریعہ اور واسطہ ہیں۔
(صلی الله علیہ خیرخلقہ محمد والہ واصحابہ اجمعین)
میرے محسن پیر بھائی الحاج جنید اشرف صاحب نے ایک دن فرمایا کہ درود شریف کی فضیلت میں کچھ تحریر کیا جائے جب کہ درود شریف کی فضیلت میں پہلے بھی بہت سے علماء اور صوفیائے کرام نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ کہاں یہ ذرہ ناچیز خاکپائے علمائے کرام کہ فضیلت درود پاک پر کچھ تحریر کرے۔
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنور نام تو گفتن کمال بے ادبسیت
رب العزت بحرمت نبی کریم رؤف الرحیم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدق سے اس تحریر کو قبول فرمائے۔ میں جنید محمد بابر صاحب کا مشکور ہوں جنہوں نے اشاعت کا اہتمام کیا۔ رب العالمین سیدالمرسلین خاتم النبین صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اس خدمت کو قبول فرمائے اور ذریعہٴ نجات بنائے۔ آمین!

                مولانامحمد عنایت احمد
                جامع مسجد طہ  گلبرگ تھرڈ لاہور
               

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ (عربی)
از حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی الله عنہ
ان نلت یاریح العبا یوما الی بیت الحرام
بلغ سلامی روضة فیھا النبی المحترم
من وجھہ شمس الضحی من خدہ بدر الدجی
من زاتہ نور الھدی من کفہ بعر الیھم
قرانہ برھاننا نسغالا دیان مغت
از جآء نا احکامہ کل الصعف مادا العدم
اکبارنا مجروحة من سیف ھجر المصطفے
طوبی لاھل مدینة فیھا النبی المعتشم
لست براج مغردا بل اقربائی کلھم
بالعشر اشفع یاشفح بالصاد والنون والقلم
یارحمة للعالمین انت شفیع المذنبین
ادرک لنا یوم العزین فضل وجودا او الکرم
یامصطفے یا مجتبے ارحم علی عصیاننا
مجبورة اعملنا زنبا وطمعا والظلم
یارحمة للعالمین ادرک لذین العابدین
محبوس ایدی الظلمین فی الموکباء لمزوحم
ترجمہ: ”اگر گزرے تو اے بادِ صبا کسی دن حرم کی زمین تک میراسلام پہنچا دے اس روضے میں جس میں نبی عزت والے ہیں جن کا چہرہ مبارک سورج کی طرح چمکتا ہے جن کے رخسار چاند کی طرچمکتے ہیں۔ جن کی ذات نورِ ہدایت ہے۔ جن کی ہتھیلی دریا ہمتوں کا ہے۔ ان کا قرآن ہمارے لیے دلیل ہے۔ اگلے دینوں کو منسوخ کرنے والا۔ جب ہمارے لیے اس کے احکام آ گئے۔ تمام صحیفے منسوخ ہو گئے۔ ہمارے جگر زخمی ہیں۔ تلوار ہجر محمد مصطفی ﷺ سے خوش خبری ہو مدینے والوں کو جن میں نبی عزت والے ہیں۔ نہیں ہوں میں امیدوار اکیلا بلکہ میرے تمام قریبی و رشتہ دار قیامت میں سفارش کرائے۔ سفارش کرنے والے بحرمت صادقوں کے قلم سے اے رحمت جہانوں کے آپ ہیں گنہگاروں کی سفارش کرنے والے پالیجیے ہم کو غمناک دن میں بزرگی اور بخشش اور کرم کے اے برگزیدہ دل پسندیدہ ذات پاک ہمارے گناہوں پر رحمت ہمارے اعمال موجود ہیں۔ گناہ اور طمع اور ظلم سے اے رحمت تمام جہانوں کے لیے پالیجیے زین العابدین رضی اللہ عنہ کو جو قیدی ہیں ظالموں کے ہاتھ میں لڑی بہت اور خام والی ہیں۔

####












نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
امابعد فاعوذبالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم

واقیموا الصلوٰة واتوالزکوة وارکعو مع الراکعین۔ (پارہ ۱ البقرہ:۱۴۳)
ترجمہ: ”اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“













پیش لفظ
فضیلتِ نماز

یقیمون الصلوٰة: قائم کرتے ہیں۔ اقامت سے بنا اس کے معنی ہیں قائم کرنا۔
اقامت الصلوٰة: سے مراد ہے کہ پوری شرائط اور پابندی کے ساتھ نماز باقاعدگی سے ادا کرنا۔
صلوٰة: کے لفظ معنی دعا کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں (صلوٰة) عبادت خاص کو کہتے ہیں۔ اس کا نام صلوٰة اس لیے رکھا گیا کہ اس عبادت میں سب سے زیادہ دعا کا حصہ ہے اس میں زبان‘ دل‘ جسم سے اور ظاہری و باطنی اعضاء سے بھی دعا کی جاتی ہے۔
نماز خداوند قدوس کے آگے جھکنے سے اپنی بندگی کا اظہار کرنے اور اللہ عزوجل سے گہرا تعلق پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
بدنی عبادتوں میں سب سے زیادہ افضل عبادت نماز ہے اس میں اخلاقی اور طبی فائدے بھی ہیں۔
پانچ مرتبہ امام کے پیچھے کھڑے ہو کر آپس میں بھائی بھائی ہونے کا اقرار اور دِلوں کو حسد‘ بغض‘ تکبر‘ کینہ سے پاک ہونے کا عہد کرنے کا نام صلوٰة ہے۔
اور نماز ہی سے محبت‘ مساوات‘ اخوت‘ عبادت‘ روحانی خشوع و خضوع اور اطاعت امیر کا درس ملتا ہے۔
اسی لیے نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا۔ حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الصلوٰة عماد الدین۔
”یعنی نماز دین کا ستون ہے۔“
قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر نماز کی ادائیگی کا حکم فرمایا مگر یہ کسی جگہ نہیں بتایا کہ نماز اس طریقہ سے پڑھو اور کس کس وقت کتنی کتنی رکعت پڑھو۔ جس کا منشا یہ ہے کہ رب فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں احکامِ عبادت بتا دیئے اب اگر طریقہ عبادت سمجھنا چاہتے ہو تو میرے حبیب نبی کریم رؤف الرحیم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لاڈلے نبی رحمت مجسم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک فعل اور قول کو دیکھو ان کی زندگی ہمارے لیے تمام احکام کی مکمل تفسیر ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة۔
ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔
”یعنی محبوب کی اداؤں کا نام نماز اور عبادت ہے جو ان کی اداؤں کو اپنائے گا وہ کامیاب ہو جائے گا۔“
اگر کوئی شخص رکوع اور سجدہ میں قرآن پاک کی تلاوت کرے۔
قیام میں التحیات پڑھے‘ ترتیب بدل دے تو بے شک نماز اس کی باطل تصور ہوگی۔
جب حکم نازل ہوا (اقیموا الصلوٰة) ”نماز قائم کرو“ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دربارِ رسالت مآب صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
کیف نصلی یارسول الله۔
”اے اللہ کے رسول! (صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) ہم نماز کس طرح ادا کریں؟“
رحمت مجسم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صلوا کما رایتمونی اصلی۔
”نماز ایسے ادا کرو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔“
معلوم ہوا کہ محبوب کی اداؤں کا نام نماز ہے۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اس منظر کا نقشہ اپنی بصیرت بھری قلم کے ذریعہ یوں کھینچتے ہیں۔
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی مجھے کیا خبر تھی سجود کی
تیرے نقش پا کی تلاش تھی جو جھکا رہا نماز میں
الغرض جو اسرار محبوب رب العالمین صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر معراج میں ظاہر کیے وہ صیغہ راز ہی میں رکھے گئے۔
فاوحی الی عبدہ ما اوحی۔
ترجمہ: ”اس نے جو وحی کی وہ کسی کو کیوں بتائے۔“
ہاں اتنا ضرور علم ہے کہ وہاں سے اُمت کے لیے پچاس وقت کی نمازوں کا دن رات میں تحفہ عطا ہوا۔
واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہایت ادب سے عرض کیا‘ یاحبیب اللہ! (صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) یہ نمازیں جو مالک کبریا نے آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تحفہ میں عطا فرمائی ہیں وہ تو بہت زیادہ ہیں‘ کچھ کم کروائیں لہٰذا سرکارِ مدینہ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر بارگاہِ خداوندی سے پچاس نمازوں کو کم کروا کر پانچ کروا لائے اور اپنی اُمت کو پانچ نمازوں کی پابندی کی ہی تلقین فرمائی۔
نکتہ:
معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام وصال کے بعد بھی فیض پہنچا سکتے ہیں۔ الحمدلله ہمارا یہ عقیدہ ہے‘ ہمارا یہ مسلک ہے‘ ہمارا یہ مذہب ہے کہ انبیاء علیہم السلام و بزرگانِ دین رحمہم اللہ علیہم اجمعین باذن اللہ باعطااللہ رب کی مخلوق کی مدد فرماتے ہیں لہٰذا یہ پانچ نمازیں علیحدہ علیحدہ مواقعوں پر انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی ادا کیں۔
نمازِ فجر:
نمازِ فجر حضرت آدم علیہ السلام نے صبح ہونے کے شکر میں ادا کی کیونکہ انہوں نے جنت میں رات نہ دیکھی تھی۔ (شامی جلداوّل)
نمازِ ظہر:
نمازِ ظہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جان محفوظ رہنے اور دُنبہ قربانی کے آنے پر شکریہ کے طور پر ادا کی۔
نمازِ عصر:
نمازِ عصر حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر اظہارِ تشکر کے طور پر پڑھی۔
نمازِ مغرب:
نمازِ مغرب حضرت داؤد علیہ السلام نے توبہ قبول ہونے کی خوشی میں پڑھی کیونکہ ان کی توبہ نمازِ مغرب کے وقت قبول ہوئی تھی۔
نمازِ عشا:
نمازِ عشا حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ادا فرمائی۔ یہ نمازِ پنج گانہ بھی ہر حال میں ادا کرنی چاہئیے اس کے بہت سے فائدے ہیں۔ نماز مومن اور کافر میں فرق پیدا کرتی ہے۔
نماز ایمان و کفر میں وجہٴ امتیاز ہے۔ نماز سے ہر جائز عمل میں برکت ہوتی ہے۔ (طحاوی شریف باب صلوٰة الوسطی)
اقیموا الصلوٰة۔
” نماز قائم رکھیں۔“
اس سے مراد یہ ہے کہ نماز کے دوران غفلت اور لاپرواہی کا اظہار نہ کریں بلکہ اس کے تمام ارکان پورے ادا کریں۔ فرائض اور مستحبات کی بھی حفاظت کرتے ہوئے کسی رُکن کی ادائیگی میں خلل نہ آنے دیں۔ تمام مفسلات و مکروہات سے بچتے ہوئے حقوقِ عبادت اچھی طرح ادا کرتے رہیں۔
حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت ارشاد فرمایا ”الصلوٰة“ یعنی اے میرے امتیو! نماز کی پابندی کرنا۔ دوسری سانس میں ارشاد فرمایا ”عورتوں اور باندیوں کے حقوق کا خیال رکھنا۔“
اور تیسری سانس میں فرمایا:
”خدایا! مجھے اوپر والے ساتھیوں کے پاس پہنچا دے۔“
اس کے بعد حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ظاہری طور سے وصال فرما گئے۔
####


فضائل وضو اور فرائض

یآیھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوٰة فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق وامسحوا برء وسکم وارجلکم الی الکعبین۔ (کنزالایمان)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھوؤ۔“ (کنزالایمان)
تفسیر:
وضو کے چار فرض ہیں۔ سیدعالم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے تھے اگرچہ ایک وضو سے بھی بہت سی نمازیں فرائض و نوافل ادا کرنا درست ہے مگر نماز کے لیے جداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا موٴجب ہے۔
بعض مفسرین کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لیے جداگانہ وضو فرض تھا۔ بعد میں یہ حکم منسوخ کیا گیا۔
کہنیاں بھی دھونے کے حکم میں داخل ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے جمہور اسی پر ہے چوتھائی سر کا مسح فرض ہے یہ مقدار حدیث مغیرہ سے ثابت ہے اور یہ حدیث آیت کا بیان ہے۔ یہ وضو کا چوتھا فرض ہے حدیث صحیح میں ہے سید دوعالم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق اصحابِ رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہیں کیا۔ (پارہ۶ سورہ مائدہ:۲۷)
وضو کے چار فرض ہیں:
(۱) چہرہ دھونا (۲)کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا (۳)سر کے چوتھائی حصے کا مسح کرنا (۴) دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھونا
نوٹ: ”اگر دھوتے ہوئے ایک بال برابر بھی کوئی اعضا خشک رہ گیا تو وضو نہ ہوگا۔“
سیدالانبیاء صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بہترین طریقے سے وضو کیا پھر دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے دل میں دنیا کی کسی چیز کا خیال نہ آیا تو وہ گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔
دوسری روایت میں ہے ان دو رکعت میں کوئی نامناسب حرکت نہ کی ہو تو گویا اس کے ماضی کے گناہ بخش دیئے گئے۔
نبی آخرالزمان صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم کو وہ نہ بتلاؤں جس کی بدولت اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہارے درجات بلند فرمائے گا۔ وہ ہے تکلیف دہ اوقات میں وضو کرنا‘ نماز کے لیے مساجد کی راہ لینا‘ ایک نماز کے بعد دوسری نمازکا انتظار کرنا اور سرحدات ممالک اسلامی پر پہرہ دینا آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تین مرتبہ دہرایا۔
حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایک اعضاء وضو کو دھو کر فرمایا یہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز کو قبول نہیں کرتا۔ دوبارہ وضو فرما کر فرمایا اس سے دوہرا اجر ملتا ہے پھر آپ نے تیسری مرتبہ اعضاء وضو کو دھو کر فرمایا یہ مجھ سے پہلے ہو گزرنے والے انبیاء علیہم السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وضو ہے جو اللہ کے خلیل ہیں۔
حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے وضو کرتے وقت اللہ کو یاد کیا اللہ تعالیٰ اس کے تمام جسم کو پاک کر دیتا ہے اور جو شخص وضو کرتے وقت اللہ کو یاد نہیں کرتا اس کا وہی حصہ پاک ہوتا ہے جس پر پانی گرایا جاتا ہے۔
فرمانِ نبی صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جو حالتِ وضو میں بھی وضو کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے نامہٴ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وضو پر وضو نورلاعلیٰ نور ہے‘ یہ سب احکام تجدید وضو کی ترغیب کے لیے ہیں۔
فرمانِ مصطفی صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جب مسلمان وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو منہ سے گناہ نکل جاتے ہیں جب وہ ناک صاف کرتا ہے تو اس کے ناک کے گناہ دُھل جاتے ہیں جب وہ منہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے گناہ دُھل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پتلیوں کے نیچے سے تمام گناہ صاف ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کانوں کے نیچے کے گناہ بھی نکل جاتے ہیں پھر اس کا مسجد کی طرف روانہ ہونا اور نماز پڑھنا عبادت میں داخل ہو جاتا ہے اور روایت ہے کہ باوضو مسلمان روزہ دار کی طرح ہے۔
نبی صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے جس نے وضو کیا اور خوب اچھی طرح سے وضو کیا آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر یہ کہا:
اشھد ان لا الہ الا الله وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔
تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے وہ جنت میں داخل ہو جائے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے اچھا وضو شیطان کو دُور بھگا دیتا ہے۔
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص باوضو ذکراللہ اور استغفار کرتے ہوئے رات گزارے روحیں جس حالت میں قبض کی جاتی ہیں اسی حالت میں اسے روزِ قیامت اُٹھایا جائے گا۔
جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
۱) پاخانہ کرنے سے
۲) ریح خارج ہونے سے
۳) پیشاب کے مقام سے۔ کسی چیز کا نکلنا
۴) پیپ زدہ پانی کا نکل کر بدن پر بہہ جانا
۵)منہ بھر کے قے آنا
۶) سہارا لگا کر یا لیٹ کر سو جانا
۷) نماز میں قہقہہ مار کر ہنسنا
۸) کسی وجہ سے بے ہوش ہو جانا
۹) دُکھتی آنکھ سے پانی کا بہنا
چند ضروری مسائل:
۱) بغیر وضو قرآن مجید کو چھونا جائز نہیں۔
۲) سونے یا کچھ کھانے پینے سے پہلے وضو کرنا سنت ہے۔ خون یا پیپ اتنی مقدار میں خارج ہو جو بہہ نہ سکے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
۳) اگر کسی کے زخم سے ہر وقت خون یا پیپ بہتی ہو یا ہر وقت پیشاب کا قطرہ آتا ہو یا ریح خارج ہو ہر نماز کے وقت وضو کرے اس کی نماز ہو جائے گی کیونکہ وہ معذور تصور ہوگا جب تک نماز کا وقت رہے گا یہ وضو باقی رہے گا۔
(بہارِ شریعت)













نماز پڑھنے کا طریقہ

انما الاعمال بالنیات۔
ترجمہ: ” بے شک عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔“
نیت دل کے ارادہ کو کہتے ہیں یعنی جو نماز پڑھی ہے اس عمل کا پہلے دل سے ارادہ کرے اور زبان سے نیت کرنا بھی مستحب ہے۔
مثلاً میں نے نیت کی نمازِ فجر کی دو رکعت نماز فرض منہ طرف کعبہ شریف (اگر امام کے پیچھے ہو تو کہے پیچھے اس امام کے) اور دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اس طرح لے جائے کہ دونوں ہتھیلیاں قبلہ رو ہوں۔
نماز ادا کرنے کا طریقہ:
تکبیرتحریمہ:
اللہ اکبر (کہہ کر دونوں ہاتھ کانوں تک لے کر جانا)
ثناء:
سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔
تعوذ:
اعوذ بالله من الشیطن الرجیم۔
تسمیہ:
بسم الله الرحمن الرحیم۔

سورة فاتحہ:
الحمدلله رب العالمین الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین۔ ایاک نعبد وایاک نستعین۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین۔
پھر آہستہ کہے۔ آمین!
سورة کوثر:
انا اعطینک الکوثر۔ فصل لربک وانحر انا شانئک ھوالابتر۔
اللہ اکبر (کہتے ہوئے رکوع میں جائیں)
تسبیح رکوع:
سبحان ربی العظیم۔ (تین یا سات مرتبہ رکوع میں پڑھے)
تسمیعہ:
سمع الله لمن حمدہ۔
قومہ:
پھر دونوں ہاتھ چھوڑ کر سیدھا کھڑا ہو جائے اورتمحید کہے۔
تمحید:
ربنالک الحمد پھر سجدہ کرے۔ (اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں جانا)
سجدہ کی تسبیح:
سبحان ربی الاعلیٰ (اسی دوران دوسرا سجدہ کرے اللہ اکبر کہہ کر اُٹھنا۔
قعدہ تشہد:
التحیات لله والصلوت والطیبت السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ السلام علینا وعلی عبادالله الصلحین۔
اشھدان لا الہ الا الله واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
درود شریف:
اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔
پھر دعا اسی حالت میں پڑھے۔
رب اجعلنی مقیم الصلوٰة ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء۔ ربنا اغفرلی ولوالدی وللموٴمنین یوم یقوم الحساب۔
 سلام:
السلام علیکم و رحمة الله (داہنی اور اسی طرح باہنی طرف سلام کہے)

####










فرض نماز کے بعد کی دعا

اللھم انت السلام ومنک السلام والیک یرجع السلام تبارکت ربنا وتعالیت یاذاالجلال والاکرام۔
آیت الکرسی:
فرض نماز کے بعد آیتہ الکرسی پڑھنے والا جنت میں داخل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
الله لا الہ الا ھو الحی القیوم لاتاخذہ سنة ولا نوم لہ مافی السموت ومافی الارض من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولایحیطون بشی ء من علمہ الا بماشآء وسیع کرسیہ السموات والارض ولایوٴدہ حفظھما وھوالعلی العظیم۔

آیتہ الکرسی کے فوائد و فضائل
اس آیت کا نام آیت الکرسی ہے اس کے فوائد بے شمار ہیں۔
فضائل:
اس بے مثال قرآنی آیت کے اعلیٰ مسائل اور ذات و صفات کا بیان ہے۔
۱) آیت الکرسی میں اسمِ اعظم بھی ہے اللہ لا الہ الا ھو۔
۲) اسی اسمِ مبارک سے اللہ کے ولی آن کی آن میں مشرق اور مغرب کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔
۳) سورہٴ بقرہ سیدالقرآن اور آیت الکرسی سیدالبقر۔
۴) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمیں آیت الکرسی عرش کے نیچے سے عطا کی گئی۔ (بخاری شریف)
احمد نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ آیت الکرسی چہارم قرآن ہے۔ (درمنثور)
۶) ترمذی شریف میں ہے کہ ہر چیز کی کوئی زینت ہے اور قرآن کی زینت سورہٴ البقرہ ہے اور سورہٴ البقرہ کی زینت آیت الکرسی ہے۔
۷) آیت الکرسی پڑھنے والے پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے جو اس کی نیکیاں لکھتا اور گناہ مٹاتا رہتا ہے دوسرے روز کی اسی ساعت تک یہ ہی کرتا رہتا ہے۔ (درمنثور)
حضرت علی شیرخدا فاتح خیبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرے تو اس میں اور جنت میں صرف موت کی آڑ ہوگی اور وہ مرتے ہی جنت میں داخل ہو جائے گا اس کو ہمیشہ پڑھنے والا صدیقین اور شہداء میں شمار ہوگا۔
ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جن کو پکڑ لیااور اس سے پوچھا کہ انسان تم سے کیونکہ بچیں تو اس جن نے عرض کیا کہ صبح و شام آیتہ الکرسی پڑھ لیا کریں۔ صبح کو یہ واقعہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس خبیث نے سچ کہا۔ (روح البیان)
ایک صحابی نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر اپنے گھر کی بے برکتی کے متعلق عرض کیا تو مختارِ کل نبیٴ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آیت الکرسی پڑھا کرو۔ (درمنثور)
گھر کی حفاظت:
جو کوئی سفر کے وقت اپنے گھر پر آیت الکرسی پڑھ کر دَم کر جائے تو بفضلِ خدا اس کا مال اور اہل وعیال اس بندے کی واپسی تک محفوظ رہیں گے۔ (درمنثور)
آیت الکرسی سے شیطان بھاگتے ہیں‘ پریشان حال لوگوں کو سکون اور آرام حاصل ہوتا ہے جملہ امراض میں پڑھنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ غصہ شہوات دور ہوتی ہے بشرطیکہ اکل حلال اور صدق مقال اور اخلاص بھی شامل ہو۔
آیتہ الکرسی کی فضیلت اور فضائل بے حد حساب( بے شمار) ہیں۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا تو جانتا ہے کہ قرآن شریف میں کونسی آیت بہت بزرگ ہے اس نے پہلے تو کہا اللہ اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم زیادہ جانتے ہیں پھر کہا یہ آیت اللہ لا الہ الا ھوالحی القیوم۔
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مبارک ہو تجھ کو۔ (رواہ مسلم)

####












وتر مع دعائے قنوت

نمازِ وتر واجب ہے اگر یہ نماز چھوٹ جائے تو فرض کی طرح اس کی قضا لازم ہے اس کا وقت عشا کے فرضوں کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ بہتر یہ ہے کہ رات کے آخر میں نمازِ تہجد کے ساتھ پڑھی جائے جس کو خوف ہو کہ اُٹھ نہیں سکے گا وہ عشا کی نماز کے ساتھ سونے سے پہلے پڑھ لے اس کی تین رکعتیں ہی ہیں۔ دو رکعتیں پڑھ کر قعدہ کیا جائے اور تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے۔ تیسری رکعت میں تسمیہ‘ سورہٴ فاتحہ اور سورت پڑھ کر دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ باندھ لے اور دعائے قنوت آہستہ پڑھنا واجب ہے۔
دعائے قنوت:
اللھم انا نستعینک ونستغفرک ونوٴمن بک ونتوکل علیک ونثنی علیک الخیر۔ ونشکرک ولانکفرک ونخلع ونترک من یفجرک اللھم ایاک نعبدو ولک نصلی ونسجد والیک نسعی ونحفد ونرجو رحمتک و نخشی عذابک انا عذابک بالکفار ملحق۔

####






نمازِ جنازہ

ولاتصل علی احدمنھم ابدا۔ ان (کفارومنافقین) میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا۔ (ہاں مومنوں کی پڑھنا)
جنازہ کی نماز فرضِ کفایہ ہے۔ فرضِ کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر چند آدمی بھی پڑھ لیں تو فرض ادا ہو گیا اور اس کے دو رُکن ہیں۔ چار بار تکبیر کہنا‘ کھڑے ہو کر پڑھنا اور اس کی تین سنتیں ہیں‘ اللہ کی حمد و ثناء کرنا‘ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا اور میت کے لیے دعا کرنا۔ میت سے مراد وہ ہے جو زندہ پیدا ہوا پھر مر گیا۔ جو مرا ہوا پیدا ہو اس کی نمازِ جنازہ نہیں ہوگی۔ نیز میت کا سامنے ہونے ضروری ہے۔ غائب کی نماز نہیں اگر کئی میتیں جمع ہو جائیں تو سب کے لیے ایک ہی نماز کافی ہے سب کی نیت کرے اگر علیحدہ علیحدہ پڑھ لی جائیں تو افضل ہے۔
طریقہٴ نماز:
پہلے نیت کر کے امام اور مقتدی کانوں تک ہاتھ اُٹھائیں اور اللہ اکبر کہتے ہوئے ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر ثناء پڑھیں۔ وتعالیٰ جدک کے بعد وجل ثنا وک ولا الہ غیرک پڑھیں پھر بغیر ہاتھ اُٹھائے تکبیر کہیں اگر نماز جنازہ میں پڑھا جانے والا درود پاک نہ آتا ہو تو درود ابراھیمی جو نماز میں پڑھا جاتا ہے وہی پڑھ لیں ۔پھر بغیر ہاتھ اُٹھائے تکبیر کہیں اور دعا پڑھیں۔ مقتدی آہستہ کہے اور امام بلند آواز سے۔
بالغ مرد و عورت کی دعا:
اللھم اغفرلحینا ومیتنا وشاھدنا وغائبنا وصغیرنا وکبیرنا وذکرنا وانثنا اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان۔
ترجمہ: ”الٰہی بخش دے ہمارے ہر زندہ اور ہمارے ہر مرنے والے ہمارے حاضر کو اور ہمارے ہر غیرحاضر کو۔ ہمارے ہر چھوٹے اور ہر بڑے کو اور ہمارے ہر مرد کو اور ہماری ہر عورت کو الٰہی تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے تو جس کو موت دے ایمان پر موت دے۔“
نابالغ لڑکے کی دعا:
اللھم اجعلہ لنا فرطا واجعلہ لنا اجرا وذٓخرا وجعلہ لنا شافعا ومشفعا۔
ترجمہ: ”الٰہی اس لڑکے کو ہمارے لیے آگے پہنچ کر سامان کرنے والا بنا دے اور اس کو ہمارے لیے اجر کا موٴجب اور وقت پر کام آنے والا بنا دے اور اس کو ہماری سفارش کرنے والا بنا دے اور جس کی سفارش منظور ہو جائے۔“
نابالغ لڑکی کی دعا:
اللھم اجعلھا لنا فرطاواجعلھا لنا اجرا وذخرا واجعلھا لنا شافعة و مشفعة۔
ترجمہ: ”الٰہی اس لڑکی کو ہمارے لیے آگے پہنچ کر سامان کرنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لیے کا موٴجب اور وقت پر کام آنے والی بنا دے اور اس کی ہمارے لیے سفارش منظور ہو جائے۔“

####






نمازِ عیدین

ولتکملوا العدة ولتکبروا الله۔
 ترجمہ: ”روزوں کی گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو۔“
یعنی تکبیریں کہو۔ فرمایا:
فصل لربک وانحر۔
ترجمہ: ”اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔“
عیدین کی نماز واجب ہے سب پر نہیں بلکہ ان پر جن پر جمعہ فرض ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت اور دونوں نمازوں کا وقت سورج کے بقدر ایک نیزہ بلند ہونے سے لے کر زوال تک ہے مگر عیدالفطر میں کچھ دیر کرنا اور عیدالاضحیٰ میں جلدی کرنا مستحب ہے ان نمازوں سے پہلے اذان و اقامت نہیں ہے‘ ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے۔
طریقہٴ نماز:
پہلے نیت کریں۔ دو رکعت نماز عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ واجب مع زائد چھ تکبیروں کے پیچھے امام صاحب منہ قبلہ شریف پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور ثناء پڑھیں اس کے بعد امام بلند اور مقتدی آہستہ سے تین تکبیریں کہیں۔ دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں اور تیسری کے بعد باندھ لیں پھر امام بلند آواز سے سورہٴ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع و سجود کرے گا۔ دوسرے رکعت میں فاتحہ اور قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے امام و مقتدی ہاتھ اُٹھا کر تین تکبیریں کہہ کر ہاتھ چھوڑ دیں اور چوتھی تکبیر کہتے وقت ہاتھ کانوں تک نہ اُٹھائیں بلکہ رکوع میں جائیں اور قاعدے کے مطابق نماز پوری کریں۔
عید کے مستحباب:
حجامت بنوانا‘ ناخن ترشوانا‘ مسواک و غسل کرنا‘ اچھے کپڑے پہننا‘ خوشبو لگانا‘ عیدگاہ کو پیدل جانا‘ راستے میں تکبیر کہتے ہوئے جانا‘ دوسرے راستہ سے واپس آنا‘ عید الفطر میں نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا اور کوئی میٹھی چیز کھانا‘ کھجوریں ہوں تو طاق ہوں۔ تین‘ پانچ‘ سات تو بہتر۔ آپس میں ملنا مصافحہ کرنا‘ مبارک باد دینا۔
کلماتِ تکبیر:
الله اکبر الله اکبر لا الہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد۔
نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز کے فوراً بعد یہی تکبیر ایک بار کہنا واجب اور تین بار کہنا افضل ہے‘ اسے تکبیر تشریح کہتے ہیں۔

####











نفلی نمازیں

نمازِ اشراق:
اس نماز کی بڑی فضیلت ہے۔ نمازِ اشراق کی صرف دو رکعتیں ہیں۔ نمازِ فجر کے بعد بیٹھ کر ذکرالٰہی کرتا رہے اور جب سورج بلند ہو جائے تو نمازِ اشراق پڑھے۔
(نوٹ) سورج بلند ہونے سے پہلے یہ نماز پڑھنی منع ہے۔
نمازِ چاشت:
اس نفل نماز کو پڑھنے والے کے سب گناہ بخشے جاتے ہیں چاہے اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اس کے لیے جنت الفردوس میں سونے کا محل ہوگا۔ اس نماز کی کم از کم دو رکعتیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔ (افضل بارہ ہیں) اس نماز کی ادائیگی کا وقت سورج بلند ہونے سے لے کر زوال تک ہے۔

####


نمازِ تسبیح

اس نماز کا بے انتہا اجروثواب ہے اس نفل نماز کی چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں مکروہ وقت کے علاوہ جب چاہے یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ظہر سے پہلے پڑھے۔
طریقہ:
تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے۔ ثنا کے بعد پندرہ مرتبہ یہ کلمات پڑھے،
سبحان الله والحمدلله ولا الہ الا الله والله اکبر۔
پھر تعوذ اور تسمیہ اور سورت پڑھ کر دس مرتبہ پہلے والے کلمات پڑھے۔
پھر رکوع میں جا کر تسبیح کے بعد دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے پھر رکوع میں سجدہ میں جا کر تسبیح کے بعد دس مرتبہ سجدہ میں تسبیح کے بعد دس مرتبہ پھر دوسری رکعت میں فاتحہ سے پہلے مرتبہ (اس طرح ہر رکعت میں 75 مرتبہ یہ تسبیح پڑھے)

####







نمازِ حاجات اور تہجد

مشکل حاجات کے برلانے کے لیے چار رکعتیں پڑھے۔
پہلی رکعت میں فاتحہ شریف کے بعد لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین۔ فاستحبنا لہ ونجینہ من الغم۔ وکذلک ننجی الموٴمنین۔ (۱۰۰ مرتبہ)
دوسری رکعت میں ”رب انی مسنی الضروانت ارحم الرحمین۔“ (۱۰۰ مرتبہ)
تیسری رکعت میں ”وافوض امری الی الله ان الله بصیر بالعباد۔“
چوتھی رکعت میں ”حسبنا الله ونعم الوکیل“ (100 مرتبہ سلام پھیرنے کے بعد سجدے میں رب انی مغلوب فانتعر (100 مرتبہ)
نمازِ تہجد:
عشا کی نماز بعد رات کو سو کر اُٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جاتی ہے اسے تہجد کہتے ہیں اس نماز کی بڑی فضیلت ہے۔
طریقہ:
پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد پانچ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیں اور دوسری رکعت میں تین مرتبہ بعد فاتحہ کے سورہٴ اخلاص پڑھیں۔کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت نماز اداکرنا پسندیدہ عمل تصور کیاجاتاہے ۔
نمازِ تہجد کی فضیلت:
نمازِ تہجد کی فضیلت کے متعلق قرآن حکیم میں متعدد آیات ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے۔ ان ربک یعلم انک تقوم ادنیٰ ثلثی اللیل بے شک تیرا رب جانتا ہے تو دوتہائی رات کے قریب کھڑا ہوتا ہے۔ مزید فرمان ہے:
ان ناشئة اللیل ھی اشد و طاء واقوم قیلا۔
”نفس کو کچلنے کے لیے رات کا اُٹھنا بے شک بہت سخت اور درست بات ہے۔ ایک آیت ہے۔“
تتجافی جنوبھم عن المضاجع۔
”ان کی کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں۔“
ایک اور آیت ہے:
امن ھو قانت اناء اللیل۔
” وہ جو رات بھر عبادت کرتا ہے۔“
مزید فرمایا گیا ہے:
والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاما۔
”جو اپنے رب کے سامنے سجدہ اور قیام کرتے رات گزارتے ہیں۔“
مزید فرمانِ الٰہی ہے:
استعینوا بالصبر والصلوٰة۔
”اللہ تعالیٰ سے صبر اور نماز سے مدد مانگو۔“
ایک قول ہے کہ اس سے قیام شب مراد ہے اور صبر کے ساتھ مجاہدہ نفس میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوتے وقت گدی میں شیطان تین گرہیں لگا دیتا ہے یہ گرہیں لگاتے وقت کہتا ہے رات لمبی ہے سوتا رہے جب ذکرالٰہی کے لیے بیدار ہو جاتا ہے تو ایک گرہ کھلتی ہے جب وضو کرتا ہے تو دوسری کھل جاتی ہے اور نماز کی ادائیگی پر تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور انسان خوش و خرم صبح کا آغاز کرتا ہے۔ وہ ہلکا پھلکا ہوتا ہے جو نہیں جاگتا نہ نماز ادا کرتا ہے وہ سست اور بدمزاج حالت میں بیدار ہوتا ہے اور سارا دن اس پر نحوست کا غلبہ رہتا ہے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص کے بارے میں عرض کیا گیا وہ رات کو سوتا ہے اور دن نکلے بیدار ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایسے آدمی کے کان میں شیطان پیشاب کر دیتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ شیطان کے پاس ناک کی نسوار‘ چاٹنے اور چھڑکنے کی دوا ہے جب وہ کسی انسان کی ناک میں نسوار ڈالتا ہے تو وہ بدخلق ہو جاتا ہے اور جب چاٹنے کی دوا دے تو وہ بدزبان ہو جاتا ہے اور جب کسی انسان پر دوائی چھڑکتا ہے تو وہ صبح تک سویا رہتا ہے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بندہ رات کے وقت دو رکعت نمازِ تہجد ادا کرے یہ اس کے لیے دنیا کے مال متاع سے بہتر ہے اگر میری اُمت پر یہ گراں نہ ہوتی تو میں اسے فرض کر دیتا۔
صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا رات میں ایک ایسی گھڑی ہے اس میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے جو بھلائی مانگے اللہ عطا کر دیتا ہے۔
ایک روایت ہے اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی کچھ بھلائی مانگے یہ ساری رات رہتی ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پائے مبارک بیداری کی بدولت سوج جاتے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے ماضی اور مستقبل میں ہر خطا سے محفوظ نہیں فرمایا؟ اس پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکرگزار نہ بنوں؟
فرمانِ الٰہی ہے:
لئن شکرتم لازدنکم۔
”اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔“
حضورِ پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم پر زندگی‘ موت‘ قبر اور حشر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو۔ رات کا کچھ حصہ باقی ہو تو اُٹھ کر اللہ کی رضا کے لیے اپنے گھر کے کونوں میں نماز پڑھا کرو اور تمہارا گھر آسمان سے ایسا چمکدار نظر آئے جسے اہل زمین کو ستارے چمکتے نظر آتے ہیں۔
فرمانِ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ تمہارے لیے لازم ہے شب بیداری کرو۔ تم سے پہلی اُمتوں کے نیک بندوں کا طریقہ ہے۔ بے شک رات کا قیام اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث اور گناہوں کا کفارہ ہے۔ نیز جسمانی بیماریوں کو دُور کرنے اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شب بیداری کرنے والے کو اگر نیند آ جائے تو اس کے نامہٴ اعمال میں رات بھر کی عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اس شخص کو بخش دیا جاتا ہے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ سفر کا ارادہ کرتے وقت رختِ سفر باندھتے ہو کہ نہیں؟ عرض کیا! ہاں آپ ﷺ نے پوچھا تو قیامت کے دن کے لیے کیا زادِ راہ ہے؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ نہ بتلاؤں جو تجھے قیامت کے دن نفع پہنچائے۔ عرض کیا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں فرمایئے آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سخت گرمی کے لیے روزے رکھو اور قبر کی تاریکی دُور کرنے کے لیے تہجد کے نفل پڑھو اور قیامت کے عذاب سے بچنے کے لیے حج کرو مسکین پر صدقہ کرو کلمہ حق کہو اور بُرائی سے بچ کر رہو۔
روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کا طریقہ تھا جب دوسرے سو جاتے تو وہ نوافل اور تلاوت میں مشغول ہو جاتا۔ بعدازاں دعا مانگتا یااللہ مجھے نارِ جہنم سے بچا۔ یہ اس کا معمول تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے معاملہ عرض کیا گیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب وہ ایسا کرنے لگے تو مجھے بلا لینا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے دعا سنی تو صبح اسے فرمایا اے فلاں ابن فلاں! تو نے اللہ سے جنت کیوں نہ مانگ لی اس نے عرض کی یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میرا وہ مقام کہاں اور میرے اعمال اس قابل کہاں اس پر جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کو بتا دیجیے کہ اللہ نے اسے دوزخ سے پناہ دے کر جنت عطا کر دی۔
روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ ابن عمر  کیا خوب آدمی ہے۔ کاش یہ رات کو عبادت کیا کرے اس پر آپ نے اسے بتلایا تو پھر آپ ہمیشہ کے لیے شب بے دار رہے۔
حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔ رات کو نماز پڑھنے کے بعد فرماتے دیکھو نافع صبح تو نہیں ہو گئی۔ میں عرض کرتا نہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پھر نماز پڑھنے لگ جاتے کچھ وقت بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دریافت فرماتے اے نافع! کہیں سحر تو نہیں ہو گئی؟ سحر ہونے پر عرض کرتا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم استغفار کرتے حتیٰ کہ فجر ہو جاتی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک رات حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام نے جو کی روٹی خوب سیر ہو کر کھائی اور رات کے وظائف کو پڑھے بغیر سو گئے اور صبح کو آنکھ کھلی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا اے یحییٰ! کیا تو نے میرے گھر سے عمدہ گھر اور پڑوس سے عمدہ پڑوس تلاش کر لیا ہے مجھے اپنے جلال اور عزت کی قسم اگر تو جنت پر نگاہ ڈال لے تو شوقِ طلب سے تیری چربی پگھل جائے اور روح پرواز کر جائے اگر تو جہنم کو دیکھ لے تو تیری چربی پگھل جائے اور آنکھوں سے پیپ بہنے لگے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت فرمائے جو رات کو اُٹھے اور نماز ادا کر لے پھر بیوی کو جگائے اور اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑک دے پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اُٹھے‘ نماز پڑھے اگر خاوند پڑھنے میں تساہل یا سستی اختیار کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑک دے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیدار ہوا اس نے بیوی کو جگایا اور دونوں نے دو نفل ادا کیے تو اللہ انہیں کثیر ذکر کرنے والے مرد عورتوں میں شمار کرے گا۔
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رات کی فرض نماز (عشا) کے بعد قیامِ شب یعنی تہجد افضل ترین عبادت ہے۔
امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور پاک رحمتِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنے وظائف کو رات میں کسی سبب ادا کرنے سے قاصر رہا ہو اگر انہیں نمازِ فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے تو اس کے لیے ایسا لکھا جائے گا جیسے اس نے رات ہی کو پڑھا۔

####

فضیلتِ نماز

نماز چونکہ افضل ترین عبادت ہے ہم قرآن حکیم کا اتباع کرتے ہوئے اس کی ترغیب دینے کے لیے دوسری مرتبہ اس کا ذکر کر رہے ہیں جیسا کہ تحریر کر چکے ہیں نماز کے فضائل کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ آیات و احادیث ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد ہے بندے پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اسے دو رکعت نماز پڑھنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔
جناب محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے اگر مجھے جنت اور دو رکعت نماز دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے تو میں دو رکعت کو اس لیے پسند کروں گا کیونکہ وہ رضائے الٰہی ہے اور جنت میں میری رضا ہے۔
روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کر کے انہیں فرشتوں سے بھر دیا وہ عباداتِ باری سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوتے۔ ہر آسمان کو عبادت کی قسموں پر تقسیم کرتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو صور پھونکنے تک پاؤں پر کھڑے ہیں‘ دوسرے سجدہ میں رہتے ہیں۔ میرے اللہ کے جلال کے آگے گرے پڑے ہیں۔ علیین اور عرش والے صف میں ذکرالٰہی کر رہے ہیں وہ اللہ کی حمد کرتے ہوئے اہلِ زمین کے لیے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی کیفیتوں میں نماز جمع کر دی ہے تاکہ ان کی عبادت کا حصہ اہلِ ایمان کو حاصل کرنے کے لیے آسانی ہو۔ قرآن مجید کی تلاوت اور عبادت کا شرف انہیں عطا کر کے فرشتوں سے زیادہ عزت بخشی اس کا شکر قرآن مجید کو مکمل شرائط و حدود کے ساتھ نفاذ ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
الذین یئومنون بالغیب ویقیمون الصلوٰة ومما رزقنھم ینفقون۔ (سورة البقرہ:۳)
ترجمہ: ”جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں۔“
مزید فرمان ہے:
واقیموا الصلوٰة (سورة البقرہ:۴۳)
”اور نماز قائم کرو۔“
واقم الصلوٰة۔ (سورة طٰہٰ:۴۱)
”اور نماز قائم کرو۔“
اور مزید فرمانِ الٰہی ہے:
مقیمین الصلوٰة۔ (النساء:۱۶۲)
”اور جو نماز قائم کرنے والے ہیں۔“
قرآنِ حکیم میں نماز کا جہاں کہیں ذکر ہے وہاں اسے قائم کیے جانے کا حکم بھی ہے اور منافقوں کے حالات بیان کرکے فرمایا:
فویل للمصلین الذین ھم عن صلوتھم ساھون۔ (سورة المائدہ)
”ان کے لیے نقصان ہے جو اپنی نمازوں میں تساہل برتتے ہیں۔“
خالقِ کائنات نے نماز کا ذکر کرنے کے بعد منافقین کا بھی ذکر کیا ہے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک تم میں بعض نماز ادا کرتے ہیں مگر انہیں پوری نماز کا ثواب نہیں ملتا بلکہ کسی کو تہائی‘ چوتھائی‘ پانچواں‘ چھٹا یا دسواں حصہ تک ملتا ہے یعنی جس قدر وہ نماز میں منہمک ہوتا ہے اسی قدر اس کو ثواب ملتا ہے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مزید فرمان ہے کہ جس نے قلب کی حضوری سے نماز ادا کی وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو گیا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔
نماز کی شان تب بنتی ہے کہ وہ اللہ کے حضور قلب کی حضوری کے ساتھ پیش ہو اگر نماز کی طرف متوجہ نہ ہو اور خیال نفسانی خواہشات کے گرد گھوم رہا ہو تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنی درخواست پیش کرنے کے لیے کسی بادشاہ کے دربار میں کھڑا ہو جائے جب بادشاہ اسے دیکھے تو وہ بادشاہ کو دیکھنے کی بجائے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی درخواست منظور نہ ہو گی۔ دوسری نماز کی مثال ایسے ہے جیسے کہ دعوتِ ولیمہ ہو جسے بادشاہ نے منعقد کر رکھا ہے‘ ہر طرح کے لذیذ کھانوں سے دسترخوان سجا رکھے ہوں یہی کیفیت نماز کی ہے اللہ کی طرف سے اس کی دعوت وقت مقررہ پر ملتی ہے اسے مختلف قسم کے افعال و افکار سے مزین کر رکھا ہے اس میں افعال کھانے اور افکار مشروبات ہیں۔
روایت ہے کہ نماز کے بارہ افعال تھے جنہیں بارہ سے چھ کر دیا گیا لہٰذا نمازی حضرات ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ان کی نماز مکمل ہو تو چھ نماز سے پہلے اور چھ نماز کے اندر ہیں۔
حضور ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھوڑا عمل جسے علم کے ساتھ کیا جائے وہ زیادہ عمل سے بہتر ہے جو لاعلمی اور جہالت میں کیا جائے۔
پہلا طہارت
جگہ جسم اور لباس کا پاک ہونا
دوسرا وضو ہے:
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق بغیر وضو نماز نہیں ہوتی۔
تیسرا لباس ہے:
خذوا ذینتکم عندکل مسجد۔ (سورة الاعراف:۳۱)
ترجمہ: ”ہر نماز کے وقت بہتر لباس پہنو جس سے تمہاری زینت کا اظہار ہو۔“
چوتھا وقت کی پابندی ہے:
جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ان الصلوٰة کانت علی المومنین کتبا موقوتا۔ (سورة النساء:۱۰۳)
ترجمہ:”بے شک نماز مومنوں پر وقتِ مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔“
پانچواں قبلہ کی طرف منہ کرنا:
حکم باری تعالیٰ ہے:
فول وجھک شطر المسجد الحرام وحیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہ۔ (سورة البقرہ:۱۴۴)
ترجمہ: ”پس اپنا چہرہ مسجد حرام کعبہ کی طرف پھیر دو تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے چہرہ کو کعبہ کی طرف پھیر دو۔“
چھٹی نیت:
نبیٴ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔
ساتویں تکبیر:
آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز‘ تکبیر تحریمہ سے ہے یعنی جب اللہ اکبر کہا تو نماز شروع ہو گئی اس میں کوئی حرکت کرنا حرام ہے۔ نماز سے فراغت یعنی سلام پھیر کر نماز ختم کر کے کام شروع کرنا حلال ہے۔
آٹھواں قیام کرنا:
اس کے لیے فرمانِ رب العزت ہے:
وقوموا لله قانتین۔ (البقرہ:۲۳۸)
”باادب نماز کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہو جاؤ۔ (یعنی پڑھو)“
نواں سورة فاتحہ کا پڑھنا:
حکم باری تعالیٰ ہے:
فاقرء وا ماتیسر من القرآن۔ (الزمل:۲۰)
”پس قرآن پڑھو جس قدر تمہیں آسانی ہو۔“
دسواں رکوع کرنا:
اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وارکعوا مع الراکعین۔ (البقرہ:۴۳)
”اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“
گیارہواں سجدہ کرنا:
اس کے لیے حکمِ الٰہی ہے:
واسجدوا۔ (الحج:۷۷)
”اور سجدہ کرو۔“
بارہواں قعود یا قعدہ
 اس کے متعلق ارشادِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جب کسی نے آخری سجدہ سے سر اُٹھایا اور تشہد پڑھنے کے بعد بیٹھ گیا تو اس کی نماز مکمل ہو گئی۔
اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”پس اللہ کی خالص عبادت کرو۔“
علم حاصل کرنے کی تین وجوہات ہیں ایک یہ کہ فرض اور سنت میں تمیز کی جائے‘ دوسرے وضو کے فرائض اور سنتوں کے متعلق معلومات ہوں تاکہ احسن طریقے سے نماز کی تکمیل کی جائے‘ تیسرا شیطان کا پوری ہمت سے مقابلہ کرنا ہے۔
وضو تین چیزوں سے مکمل ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ دل کو کینہ‘ حسد اور دھوکہ سے پاک رکھے۔ دوسرے بدن کو گناہوں سے پاک رکھے۔ تیسرے پانی کو ضائع نہ کیا جائے مگر اعضاء بدن ٹھیک طریقہ سے دھوئے جائیں۔
لباس کی پاکیزگی کے لیے تین چیزیں لازم ہیں۔ لباس‘ حلال کمائی سے بنایا جائے۔ ظاہری نجاست اور گندگی سے پاک صاف ہو۔ سنت کے مطابق ہو اس میں فخر اور دِکھاوا شامل نہ ہو۔
پابندی وقت کا تین چیزوں پر انحصار ہے۔ سورج‘ چاند‘ ستاروں سے نماز کے وقت کا تعین کرنا۔آذان کی آواز سننے کے لیے متوجہ رہیں۔ دل نماز کا دھیان کرتا رہے۔
قبلہ رُخ ہونے کے لیے تین باتیں ضروری ہیں تمہارا چہرہ قبلہ کی طرف ہو۔ دوسرے دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو تیسرے نماز خضوع و خشوع سے ادا کی جائے یعنی اللہ کے حضور انکساری ظاہر کی جائے۔
نیت کا دارومدار بھی تین چیزوں پر ہے تمہیں علم ہونا چاہیے کہ کونسی نماز پڑھ رہے ہو۔ یہ یقین ہو کہ تو اللہ کے حضور کھڑا ہے اور وہ تجھے دیکھ رہا ہے دل میں اللہ کا خوف ہونا چاہیے۔ تمہیں علم ہے اللہ تعالیٰ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے لہٰذا حالتِ نماز میں دنیاوی خیالات و تفکرات سے دل کو مکمل طور پر خالی ہونا چاہیے۔
تکبیر کی تکمیل تین چیزوں سے ہے۔ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے عظیم ہونے کا اقرار کر کے صحیح طریقے سے اللہ اکبر کہو دوسرا یہ کہ کانوں تک دونوں ہاتھ برابر اُٹھائے جائیں تیسرے تکبیر کہتے ہوئے دل حاضر ہو اور وہ بھی تکبیر کہے۔
قیام کے لیے تین باتیں لازم ہیں۔ نگاہ‘ سجدہ گاہ پر ہو‘ دوسرے دل اللہ کی طرف ہو اور تیسرا دائیں بائیں نہ دیکھا جائے۔
قرأت کی تکمیل تین باتوں سے ہے۔ ترتیل یعنی صحیح تلفظ کے ساتھ پوری دل جمعی سے سورة فاتحہ پڑھنا اس سورة کی آیات کے معنوں پر غور کرنا اورجو پڑھا جائے اس پر عمل بھی کیا جائے۔
رکوع اپنی تکمیل لیے تین باتوں کا محتاج ہے پشت سیدھی رہے نہ اونچی نہ نیچی دونوں ہاتھ گھٹنوں پر ہوں اور انگلیاں کھلی ہونی چاہئیں اطمینان کے ساتھ رکوع کیا جائے تسبیحات پڑھے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں جاگزیں ہو۔
سجدہ ان تینوں باتوں سے ہے جو ضروری ہیں۔ دونوں ہاتھ کانوں کے برابر رکھے جائیں۔ بازو زیادہ نہ پھیلائے جائیں پُرسکون طریقے سے تسبیحات پڑھی جائیں۔
قعدہ کی تکمیل کے لیے تین باتیں لازم ہیں۔ بائیں پاؤں پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے دوسرے تشہد پڑھے اور اللہ کی عظمت کا سکہ دل پر بٹھائے۔ اپنے لیے اور تمام اہلِ ایمان کے لیے خلوص سے دعا کرے۔ دعا مکمل کر کے سلام پھیر دے۔
سلام کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ قلب اور نیت صاف ہو دائیں جانب کے محافظ فرشتوں اور مردوں اور عورتوں کو سلام کر رہا ہوں پھر بائیں طرف سلام پھیرے لیکن کندھوں سے آگے نظریں نہ بڑھیں۔
اخلاص بھی تین باتوں سے مکمل ہوتا ہے اوّل نماز میں اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے نہ کہ لوگوں کی۔ دوم یہ یقین ہو کہ سب توفیق اللہ کی عطا کردہ ہے اس کی حفاظت کی جائے تاکہ روزِ محشر اللہ کے حضور پیش کر سکے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
من جآء بالحسنة۔
”جو شخص نیکیاں لے کر آیا۔“
یہ نہیں فرمایا:
من عمل بالحسنة۔
”جو نیک عمل کرے۔“
لہٰذا ضروری ہے کہ نیکیاں ایسی ہوں جو محفوظ رہیں نہ کہ بُرے اعمال سے برباد ہوں اور اللہ کے حضور جانے سے قاصر رہیں۔
کلامِ الٰہی ہے:
قد افلح الموٴمنون الذین ھم فی صلوتھم خشعون۔
”وہ صاحبِ ایمان نجات حاصل کریں گے جو اپنی نمازیں خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
علماء کے نزدیک خشوع دو معنوں میں مستعمل ہے بعض نے اسے افعالِ قلب جیسا کہ خوف اور ڈر۔ بعض نے اسے ظاہری اعضاء کے افعال میں شمار کیا ہے۔ مثلاً اطمینان سے کھڑا ہونا‘ فضولیات اور بے توجہی سے اجتناب اور بے پروائی سے بچنا۔ خشوع کے بارے میں دوسرا اختلاف یہ ہے کہ یہ فرائض میں داخل ہے یا فضائل میں جو اسے فرائضِ نماز میں سمجھتے ہیں وہ اس حدیث کو دلیل بناتے ہیں:
لیس لعبد من صلاتہ الا ماعقل۔
ترجمہ: ”بندے کا نماز میں وہی حصہ ہے جو وہ سمجھتا ہے۔“
ارشادِ خالقِ کائنات ہے:
اقم الصلوٰة من الغفلین۔
ترجمہ: ”تم غفلت کرنے والے نہ بنو۔“
اس کو دلیل بنا کر خشوع کو فرائضِ نماز میں شمار کیا ہے۔
امام بیہقی نے محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ:
نبیٴ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب نماز ادا فرماتے تو آسمان کی طرف نظر فرماتے تب یہ آیت نازل ہوئی۔ مسند عبدالرزاق میں اضافہ ہے کہ پھر آپ کو خشوع کا حکم ہوا پھر آپ نے نگاہ کو سجدہ گاہ کی طرف کر لیا۔ حاکم اور بیہقی نے جناب ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ خاتم النبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب نماز پڑھتے تو آسمان کی طرف نگاہ فرماتے جس پر اس آیت کا نزول ہوا تب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سراقدس کو جھکا لیا جناب انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانچ نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے نہر بہتی ہو وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اس کے جسم پر میل رہ جائے گی؟ یعنی نماز انسان کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے اور گناہِ کبیرہ کے سوا کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔ یہ مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب خشوع و خضوع اور حضور قلب سے نماز ادا کی جائے ورنہ منہ پر مار دی جاتی ہے۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جس نے دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے دل میں کسی قسم کا دنیاوی خیال نہ آیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیئے گئے۔
فرمان خاتم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ نماز کا فرض ہونا اور حج کے مناسک کا حکم دیئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو اگر ان فرائض کی ادائیگی میں دل میں اللہ کی عظمت اور ہیبت کا خیال نہ ہو تو ذکر بے معنی ہو جائے گا۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
جسے نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اسے اللہ تعالیٰ سے دُوری کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
حضرت بکر بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے اگر تو چاہتا ہے کہ اللہ کے پاس بغیر اجازت کے چلا جائے اور اسے بغیر ترجمان کے گفتگو کرے پوچھا گیا ”کیسے؟“
آپ نے کہا وہ اس طرح کہ مسجد میں وضو کرو دو رکعت نماز شروع کرو اپنے اللہ کے حضور خود کو حاضر کر کے باتیں شروع کرو۔
صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم اور حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپس میں باتیں کرتے تھے جب نماز کا وقت آتا تو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے ہم ایسے ہو جاتے جیسے ایک دوسرے کو پہچانتے ہی نہیں۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
اللہ تعالیٰ اس نماز کی طرف نظر نہیں کرتا جس میں بدن کے ساتھ ساتھ بندے کا دل حاضر نہ ہو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ایک میل کے فاصلے تک ان کے دل کی دھڑکن سنی جاتی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے:
خضوع اور خشوع کے ساتھ اگر دو رکعت ادا کی جائیں تو وہ غافل دل والے کی ساری رات کی عبادت سے افضل ہے۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔ ایک زمانہ ہوگا جب میری اُمت کے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو مساجد میں حلقہ بنا کر بیٹھیں گے۔ دنیا اور اس کی محبت کا ذکر کریں گے اللہ کو ایسی مجالس کی کوئی ضرورت نہیں۔
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”میں تمہیں بتاؤں برا چور کون ہے؟“ عرض کیا حضور وہ کون؟ فرمایا وہ جو نماز کا چور ہو پھر عرض کیا گیا نماز کی چوری کیسی؟ اس پر فرمایا وہ رکوع اور سجود مکمل نہ کرتا ہو۔
خاتم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے روزِ حشر سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا اگر نماز پوری ہوگی تو حساب آسان ہو جائے گا اگر نمازیں کم نکلیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا اس کے نوافل سے نمازیں پوری کر دو۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ کا جسم کانپنے لگتا اور دانت بجنے لگتے۔ پوچھنے پر آپ نے فرمایا امانت کی ادائیگی کا فرض پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے‘ نہیں معلوم کیسے ادا ہوگا۔ رب العلمین ہمیں پانچ وقت کی نماز اور نمازِ تہجد کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نماز میں ذوق عطا فرمائے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے بندے کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا جو رکوع اور سجدہ میں کمر سیدھی نہیں کرتے۔“
فرمانِ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے ”جس نے وقت پر نماز پڑھی‘ صحیح وضو کیا‘ رکوع اور سجود خشوع کے ساتھ کیے وہ نماز سفید روشن ہوتی ہے اور اوپر چڑھتی ہوئی کہتی ہے اللہ تیری حفاظت کرے جیسے تو نے میری حفاظت کی مگر وہ جو بے وقوف نماز ادا کرتے ہیں‘ وضو اس کا درست نہ ہو نہ ہی اس کے رکوع سجود خشوع سے آراستہ ہوں اس کی سیاہ رنگ کی نماز اوپر جاتی کہہ رہی ہوتی ہے‘ اللہ تجھے برباد کرے تو نے مجھے برباد کیا اسے سیاہ کپڑے میں لپیٹ کر اس کے منہ پر مار دیاجاتا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نماز ایک پیمانہ ہے جس نے اسے پورا کیا وہ کامیاب ہوا جس نے اس میں کمی کی وہ مستحق عذاب ہوا۔ بعض علماء نے فرمایا نماز کی مثال تاجر کے مانند ہے اسے نفع تب ملتا ہے جب اس کا مال خالص ہو اسی طرح فرائض ادا کیے بغیر نفل بھی قبول نہیں ہوتے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے وقت فرماتے لوگو! اُٹھو! اللہ نے تمہارے لیے جو آگ جلائی اسے نماز کے ذریعے بجھا دو۔
فرمانِ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے: نماز جس کو بے حیائی اور بُرائی سے نہ روکے اسے اللہ تعالیٰ سے دُوری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
پھر فرمایا: غافل کی نماز بے حیائی اور بُرائی سے نہیں روک سکتی۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں کھڑے ہونے والے کئی ایسے نمازی بھی ہیں جن کو قیام میں تھکاوٹ اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آپ ﷺنے اس سے غافل کی نماز مراد لیا ہے۔
نبی معظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز میں بندے کو اسی قدر اجر ملے گا جس قدر اس نے توجہ سے نماز ادا کی ہوگی۔
عارفین کے نزدیک نماز چار چیزوں کا نام ہے: علم کے ساتھ آغاز‘ حیا کے ساتھ قیام‘ تعظیم سے ادائیگی اور خشیتِ الٰہی کے ساتھ اختتام۔
ایک شیخ کا قول ہے: جس کا دل نماز کی حقیقت کو نہ سمجھا اس کی نماز فاسد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں الافیح یعنی کشادہ نہر ہے اس میں ایسی حوریں ہیں جو زعفران سے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ موتیوں سے دل بہلاتی ہیں‘ یہ ستر ہزار زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں۔ ان کی آواز داؤد علیہ السلام کی لحن سے زیادہ حسین ہے اور یہ کہتی ہیں ہم ان کے لیے ہیں جو خضوع و خشوع کے ساتھ قلب کی حضوری سے نماز ادا کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے میں ایسے نمازی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دوں گا اور اسے دیدار سے مشرف فرماؤں گا جو خضوع اور خشوع سے نماز ادا کرتا ہے۔
نماز کیسے ادا ہو:
اللہ تعالیٰ نے حضور موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی اے موسیٰ! جب تو مجھے یاد کرے تو اس طرح سے کہ اپنے اعضاء معطل کر کے کامل اطمینان اور خشوع سے میرا ذکر کر‘ اپنی زبان کو دل کا مطیع بنا۔ میرے سامنے عاجزی سے کھڑا ہو۔ خوفزدہ دل اور زبان صادق سے مجھے پکار۔
ایک روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اپنی اُمت کے نافرمانوں سے کہو کہ وہ مجھے یاد نہ کریں اس لیے کہ میں نے فیصلہ دے رکھا ہے کہ جو مجھے یاد کرے گا۔میں اسے یاد کروں گا ۔ جب نافرمان مجھے بغیر توبہ کے یاد کریں گے تو میں انہیں لعنت سے یاد کروں گا ۔
یہ حال تو ان لوگوں کا ہے جو گناہ گار ہیں مگر یادِ الٰہی سے غافل نہ ہیں۔ ان کا کیا حال ہوگا جو بدکار اور غافل ہیں۔
بعض اصحابِ کرام کا قول ہے نماز میں جس قدر انسان سکون‘ اطمینان‘ لذت اور سرور حاصل کرتا ہے اسی قدر وہ قیامت میں پُرسکون ہوگا۔
حضور نبیٴ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں ایک شخص کو اپنی داڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں خشوع ہوتا جس کے دل میں خشوع نہیں اس کی نماز رائیگاں گئی۔
اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں خضوع اور خشوع کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔
فی صلوتھم خاشعون۔
ترجمہ: ” وہ اپنی نماز میں خشوع کرنے والے۔“
علی صلوتھم یحافظون۔
ترجمہ: ”اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“
علی صلوتھم دائمون۔
ترجمہ: اپنی نمازوں کے دوام بخشتے ہیں۔“
کسی بزرگ کا قول ہے: نمازی تو بہت ہیں مگر خشوع سے نماز ادا کرنے والے کم ہیں۔ حاجی تو بہت ہیں لیکن نیک سیرت کم ہیں۔ پرندے بہت ہیں مگر بلبلیں کم ہیں۔ عالم تو بہت ہیں مگر عامل کم ہیں۔
صحیح نماز:
صحیح نماز خشوع و خضوع اور انکساری کا نام ہے یہی قبولیت کی علامت ہے اس لیے کہ جائز ہونے کی ایک شرط ہے اسی طرح قبول ہونے کی بھی شرط ہے۔ جائز ہونے کے لیے فرائض کی ادائیگی ہے اور قبولیت کے لیے خشوع ضروری ہے۔ فرمانِ رب العزت ہے:
قد افلح الموٴمنون الذین ھم فی صلوتھم خشعون۔ (سورة المومنون:۱ تا۲)
ترجمہ: ” بے شک مومن کامیاب ہوئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں۔“
اور تقویٰ کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:
انما یتقبل الله من المتقین۔ (سورة المائدہ)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو قبول کرتا ہے۔“
خاتم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے کامل خضوع اور خشوع سے دو رکعت نماز ادا کی وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو گیا گویا اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے۔
نماز میں طرح طرح کے فضول خیالات آنے سے غفلت پیدا ہوتی ہے اور صحیح معنوں میں انسان نماز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ ان خیالات سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے اس کے کئی ایک طریقے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھی جائے۔ نمازی منقش چادریں اور خوب صورت لباس نہ پہنے جونہی ان پر نظر پڑے گی نمازی متوجہ ہوگا۔
روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جب ابوجہم کی پیش کردہ چادر اوڑھ کر نماز پڑھی اس پر کچھ نشانات تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے بعد فوراً اسے اُتار کر فرمایا اسے ابوجہم کو فوراً واپس کر دو اس لیے کہ اس نے شروع ہی میں مجھے غیرمتوجہ کرنے کی کوشش کی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ نئے جوتے پہن کر نماز پڑھی نماز کے بعد انہیں اُتار دیا اور پرانے پھر پہن لیے۔ فرمایا نماز میں ان کی طرف نظر اُٹھ گئی تھی۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ منبر پر جلوہ افروز تھے اس وقت تک سونا مرد کے لیے حرام نہیں ہوا تھا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اُتار کر پھینک دیا اور فرمایا اس نے مجھے مصروف کیا کبھی اس پر اور کبھی تم پر نظر پڑتی ہے۔
حضور ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھی۔ اچانک ایک پرندہ اُڑا درختوں سے نکلنے کی راہ تلاش کرنے لگا۔ آپ متوجہ ہوئے اور اپنی نماز کی رکعت کی تعداد بھول گئے۔ آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اپنی نماز کا ذکر کر کے کہنے لگے۔ یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں نے باغ اللہ کی راہ میں دے دیا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جس طرح چاہیں خرچ کریں کیونکہ اس کی وجہ سے مجھے نماز بھول گئی۔
ایک اور شخص کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا ایک باغ تھا جس میں پھل دار کھجوریں تھیں وہ ان میں محو ہو گیا اور اسے یاد نہ رہا کہ اس نے کتنی رکعت نماز ادا کی۔ وہ حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یہ باغ اللہ کی راہ میں حاضر ہے آپ اسے جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں آپ نے اسے پچاس ہزار میں فروخت کر دیا۔
اسلاف میں سے بعض کا قول ہے نماز میں چار چیزیں انتہائی بُری ہیں کسی دوسری متوجہ ہونا‘ منہ پر ہاتھ پھیرنا‘ کنکریاں صاف کرنا اور گزرگاہ پر نماز شروع کر دینا۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف اتنی دیر تک متوجہ رہتا ہے جب تک وہ نماز سے توجہ نہیں ہٹاتا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی حالت میں ایک گاڑے ہوئے کیل کی طرح ساکن ہوتے۔
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ حال تھا کہ وہ رکوع میں اس قدر ساکن ہوتے کہ پرندے انہیں پتھر سمجھ کر ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے جب دنیاوی شان و شوکت والے انسانوں کے حضور لوگ انتہائی تعظیم سے حاضر ہوتے ہیں تو اس ا حاکم الحاکمین کے حضور بھی عجز اور سکون سے حاضری کیوں نہ دی جائے۔
تورات شریف میں ہے اے انسان! میری بارگاہ میں روتے ہوئے حاضری دو کیونکہ تمہارا اللہ تمہارے دل سے بھی قریب ہے۔
روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں فرمایا بسا اوقات انسان اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو جاتا ہے مگر وہ اللہ کے لیے نماز درست نہیں کر سکتا۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا اس کا خضوع اور خشوع پورا نہیں ہوتا نہ انکساری پیدا ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوا پھر اس کی نماز کیسے کامل ہوئی۔
ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ سے اس آیت:
الذین ھم عن صلوتھم ساھون۔
کے معنی دریافت کیے گئے۔ انہوں نے فرمایا یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو نماز میں بھول جاتا ہے‘ اسے اتنا یاد نہیں رہتا کہ اس نے دو رکعت پڑھیں یا تین؟
حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فرمانِ الٰہی اس شخص کے بارے میں ہے جو نماز کو بھول جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے فرائض ادا کیے بغیر مجھ سے نجات حاصل نہ کر سکیں گے۔
نمازوں کے فضائل:
پہلی اُمتوں کی عمریں بھی زیادہ ہوا کرتی تھیں اور عبادتیں بھی مگر اس اُمت کے لوگوں کی عمریں بھی کم اور عبادت بھی بلحاظ کم عمر کم ہیں پھر ثواب میں اس اُمت کو دوسری اُمتوں پر فوقیت حاصل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل لوگوں کی غفلت اور خواب کو بھی عبادت میں شامل کرنے کے لیے ان کی عبادت کے ثواب و اجر کو دوسروں کی نسبت سے بڑھا دیا۔ چنانچہ بارگاہِ نبوت سے ارشاد ہوتا ہے:
من صلی العشاء فی جماعة کان کقیام نصف لیة ومن صلی الفجر فی جماعة کان کقیام لیة۔ (الحدیث)
ترجمہ :جس نے نماز عشاء باجماعت پڑھی گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے نماز فجر باجماعت پڑھی گویا رات بھر قیام کیا ۔
نماز فجر
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ترجمہ فرماتے ہیں جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی اس نے آدھی رات عبادت کرنے کا ثواب حاصل کر لیا اگر وہ صبح کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھے گا تو ساری رات کی عبادت اس کے حصہ میں لکھ دی جائے گی۔ فجر کا نمازی رات بھر سونے کے باوجود مفت میں عنداللہ قائم اللیل یعنی ساری رات جاگ کر عبادت کرنے والا شمار ہونے لگا۔
صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
”لوگو! تم قیامت میں اپنے رب کی زیارت سے مشرف کیے جاؤ گے لیکن دیدارِ الٰہی کے حاصل کرنے کا مجرب عمل صبح کی نماز ہے اسے کبھی نہ چھوڑنا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت کے اندر نہ رات ہوگی نہ دن۔ ارشادِ خداوندی ہے:
لایرون فیھا شمساو لازمھریراً۔
ترجمہ: ”وہاں نہ سورج کی گرمی پائیں گے اور نہ سردی کو۔“
مطلب یہ کہ ایسا نورانی وقت ہو گا جیسے کہ دنیا میں صبح کا وقت تھا تو صبح کا وقت دیدارِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے کیونکہ جب دیدارِ الٰہی کے وقت کے ساتھ مشابہ وقت ہمیں عبادت اور بارگاہِ خداوندی میں بذریعہ نماز حاضری کے لیے میسر آ گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس کے صلے میں اصلی دیدارِ الٰہی اور بارگاہِ الوہیت میں خصوصی و عینی حاضری بھی بفضل اللہ تعالیٰ نصیب ہوگی۔
کیونکہ ھل جزاء الاحسان الاحسان۔
ترجمہ : احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔
یعنی نیکی کا بدلہ نیکی ہے تو حاضری کا بدلہ حضوری ہوگا اور صبح کی نماز کا بدلہ انشاء اللہ دیدارِ الٰہی ہوگا۔
ظہر کی نماز:
ظہر کی نماز پڑھنے والوں کی دعائیں خصوصیت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک دن یہودیوں نے حضور سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ یاحضرت آپ کی اُمت پر جو پانچ نمازیں فرض ہوئی ہیں اور ان نمازوں کے لیے جو یہ مخصوص اوقات مقرر کیے گئے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کے وقت کے تعین کی وجہ یہ ہے کہ کچھ فرشتے ایسے ہیں جو سورج ڈھلنے کے بعد خصوصیت کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں اور اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور بندوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نماز فرض فرما دی ہے تاکہ نمازیوں کو ملائکہ کا ساتھ میسر ہو جائے اور جو دعا کریں قبول ہو جائے ان کے اعمال فوراً آسمان پر چڑھ جائیں۔
نماز عصرکے فائدے
نمازِ عصر ادا کرنے والے کے حق میں فرشتے نیکی کی گواہی دیتے ہیں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال کی نگرانی کے لیے کچھ فرشتے مقرر کیے ہیں۔ ان کی یہ ڈیوٹی ہے رات کے فرشتے اور ہیں اور دن کے اور۔
وتجتمع ملائکة اللیل والنھار صلوٰة العصر۔ (الحدیث)
رات دن کے تمام فرشتے عصر کی نماز میں حاضر ہوتے ہیں پھر جب دن کے فرشتے عصر کے وقت رب العزت کے حضور حاضر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ عرض کرتے ہیں الٰہی! وہ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے ہی انسانوں کو مفسد و خونریز کہا تھا۔
اب تم خود ہی ان کی عبادت گزاری اور نیکی کی گواہی دے رہے ہو۔
حضرت یونس علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے چار اندھیروں میں قید کر دیا اوّل دریا کا اندھیرا‘ پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا‘ پھر اس مچھلی کو ایک اور مچھلی نے نگل لیا تھا اس کے پیٹ کا اندھیرا اور چوتھا رات کا اندھیرا جب اس مصیبت کے عالم میں حضرت یونس علیہ السلام نے ان اندھیروں سے گھبرا کر مچھلی کے پیٹ کے اندر اللہ تعالیٰ کی جناب میں سجدہ کیا اور یہ آیتہ کریمہ پڑھی:
لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔
 تو فوراً بارگاہِ خداوندی سے مچھلی کو حکم ہوا کہ بہت جلد یونس علیہ السلام کو دریا کے کنارے اُگل دے۔ چنانچہ حکمِ الٰہی پاتے ہی مچھلی نے دریا کے کنارے پر آ کر حضرت یونس علیہ السلام کو اُگل دیا تو اس وقت عصر کا وقت تھا اور یونس علیہ السلام نے ان چار اندھیروں سے نجات پائی تھی اور یہاں عصر کی نماز پڑھنے والا انشاء اللہ بُری موت اور بُرے خاتمہ کے اندھیرے قبر کے اندھیرے اور پل صراط کے اندھیرے سے نجات پائے گا۔
نمازِ مغرب کے خصوصی فائدے:
مغرب کے وقت حضرت آدم علیہ السلام کا سجدہ اور توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے اس وقت شکرانے کی نماز ادا کی۔ اللہ نے اس وقت پر اُمتِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر نماز مغرب فرض فرما دی کہ جو آدمی مغرب کی نماز ادا کرے سارے دن کے گناہوں سے پاک ہو جائے گا اور جو دعا کرے قبول ہوگی۔
حضرت یعقوب علیہ السلام تقریبا چالیس سال تک حضرت یوسف علیہ السلام کے جدائی کے غم میں غمگین رہے۔لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور قاصد نے مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتہ لا کر آپ کے چہرے پر ڈالا تو خدا برحق نے اس کی برکت سے یعقوب علیہ السلام کو ان کی کھوئی ہوئی نظر لوٹا دی۔ قرآن پاک میں ہے فارتد بصیراً کہ یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ آپ کا سارا غم جاتا رہا اور تمام رنج راحت اور خوشی میں تبدیل ہو گیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس کا شکر ادا کرنے کے لیے مغرب کے وقت تین رکعتیں پڑھیں۔ ایک رکعت تو اپنی کھوئی ہوئی نظر واپس لوٹ آنے کے شکر میں‘ دوسری رکعت حضرت یوسف علیہ السلام کے زندہ لوٹ آنے پر اور تیسری رکعت حضرت یوسف علیہ السلام کے دین و ایمان پر پوری طور پر قائم رہنے پر پھر وہ نماز مغرب‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام پر فرض کر دی تھی اور اس کے بعد آخری اُمت پر بھی۔
حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مسلمان مغرب کی نماز پڑھتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جو دعا یہ نمازی اس وقت کرتا ہے‘ وہ قبول ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالیہ سے جو حاجت بھی طلب کرے اللہ کے فضل سے وہ مل جاتی ہے تو جس طرح یعقوب علیہ السلام کی مراد مغرب کے وقت پوری ہوئی تھی اسی طرح مغرب کی نماز پڑھنے والے کی مرادیں اللہ پاک پوری فرماتا ہے۔
نمازِ عشا:
نمازِ عشا ادا کرنے والوں کو قیامت میں مکمل نور عطا ہوگا۔ عشا کے وقت کا اندھیرا قبر اور قیامت کے اندھیرے کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ والصلوٰة نور نماز نور ہے اس لیے ایسے اندھیرے کے وقت عشا کی نماز فرض ہوئی تاکہ اس عبادت اور نماز کا نور قبر کے اندھیرے کو اُجالے میں تبدیل کر دے تو جو آدمی عشا کی نماز پڑھے گا۔ رزق اللہ نورا فی قبرہ اللہ تعالیٰ اسے قبر میں نورِ کامل عطا کرے گا۔
بشرالمشائین فی الظلمات الی المساجد بالنور التام یوم القیمة۔
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ اے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی اُمت کو خوشخبری سنا دیجیے کہ جو آدمی اندھیرے میں عشا کی نماز کے لیے مسجد میں جائے گا اسے قیامت کے دن مکمل روشنی عطا کی جائے گی۔“

####

ظاہری حواسِ خمسہ

انسان میں پانچ حواس ظاہری ہیں جن پر انسان کی زندگی کا لطف اور ذائقہ موقوف ہے۔
اگر یہ حواس نہ ہوتے تو آدمی بالکل گوشت کا لوتھڑا ہوتا۔ یہ بالکل کسی کام نہ ہوتا۔ پانچ حواس ظاہری یہ ہیں،
(۱)آنکھ (۲)ناک (۳)کان (۴)زبان (۵)گرم و سرد کی پہچان
دنیا کی تمام نعمتوں کا دارومدار انہی حواس پر ہے اور انسان سینکڑوں نعمتیں ان کے ذریعے سے استعمال کرتا ہے تو یہ پانچ حواس ظاہری اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ انسان پر ان نعمتوں کا شکر بجالانا لازم تھا تو اللہ تعالیٰ نے پانچ وقتوں کی نمازیں فرض فرما دیں۔ ہر ایک حاسہ کے مقابلے میں بطورِ شکر ایک نماز ہے پھر دیکھیے جس حد تک یہ پانچوں حواس کام کر سکتے تھے ان کے مطابق ہی نماز کی رکعتیں مقرر فرمائیں مثلاً قوتِ حاسہ یعنی چھونے سے گرم و سرد کا معلوم کرنا اب یہ ایک ایسی نعمت تھی کہ جس کے ذریعے صرف دو باتیں معلوم کی جاسکتی تھیں یعنی اس کے ذریعے کسی چیز کا گرم یا سرد ہونا معلوم کیا جا سکتا ہے اور یہ قوت احساس انسان کے سارے جسم کے اندر موجود ہے اب اس کے شکر میں صبح کی نماز جو تقریباً ساری رات کے بعد پڑھی جاتی ہے اور اس کی رکعتیں بھی دو مقرر کی گئی ہیں تاکہ اس نعمت کا جس کے دو اثر ہیں یعنی گرم و سرد کا معلوم کرنا اور وہ سارے جسم کے اندر موجود ہے۔ نمازِ فجر کی دو رکعتیں پڑھنے سے شکریہ ادا ہو جائے اور سارے گناہ معاف ہو جائیں۔
قوتِ شامہ:
یعنی سونگھنے کی طاقت:
یہ حاسہ چاروں طرف برابر کام کرتا ہے‘ چاروں طرف کی خوشبو وغیرہ کو بتاتا ہے اس لیے اس کے شکریہ میں ظہر کی چار رکعتیں مقرر ہوئیں یا یوں سمجھو کہ قوتِ شامہ یعنی ناک چار کام کرتی ہے۔ خوشبو اور بدبو کو معلوم کرنا دوطرح کی سانس لینا۔ ایک اندر اور دوسرا باہر کا تو یہ سب مل کر چار نعمتیں بنتی ہیں۔
قوتِ ذائقہ:
یعنی چکھنے کی طاقت (زبان) کھٹا‘ میٹھا‘ نمکین یا تلخ اشیاء کا ذائقہ معلوم کر سکتی ہے اس لیے عصر کی نماز چار رکعت والی مقرر ہوئی یا یوں سمجھ لیجیے کہ زبان چار قسم کا کلام کرتی ہے۔
(۱)کسی کی تعریف (۲)مذمت (۳) بُرائی کارآمد کلام (۴) بے کار وغیر مفید کلام تو یہ چار طرح کا کلام ہوا جو بجائے خود بڑی نعمت ہے اس کے شکریہ کی ادائیگی کے لیے عصر کی چار رکعتیں فرض ہوئی ہیں۔
قوتِ باصرہ:
یعنی دیکھنے کی طاقت (آنکھیں) تین طرف سے دیکھ سکتی ہیں‘ سامنے‘ داہنی جانب اور بائیں جانب لیکن پیچھے کچھ نہیں دیکھ سکتیں لہٰذا اس کے مقابلے میں تین رکعت والی مغرب کی نماز فرض ہوئی۔
قوتِ سامعہ:
یعنی سننے کی طاقت (کان) چاروں طرف برابر کام دیتے ہیں اور ہر ایک کی بات سنتے ہیں رات کے اندھیرے میں آنکھیں بے کار ہو جاتی ہیں لیکن کان برابر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اس کے مقابلے میں عشا کی چار رکعتیں مقرر ہوئیں تاکہ انسان ان تمام نعمتوں کے شکر سے بری ہو جائے تو اگر یہ نمازیں فرض نہ ہوتیں تو انسان اللہ کی نعمتوں کے شکریہ سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا۔

####

نمازِ اسلاف

روزِ محشر کہ جانگداز بود
اولیں پرسش نماز بود
حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب نماز پڑھنے کے لیے جاتے تو کانپنے لگتے اور چہرے مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ ان سے سبب دریافت کیا گیا تو امیرالمومنین نے فرمایا کہ یہ وقت ایسی امانت کے ادا کرنے کا ہے کہ آسمانوں اور پہاڑوں پر اللہ تعالیٰ نے وہ امانت پیش کی تھی اور اس کے اُٹھا لینے کے واسطے کہا تھا سب نے خوف کے مارے اس کے اُٹھانے سے انکار کیا اور ہم نے اس امانت کو اُٹھا لیا اور مروی ہے کہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت وضو کرتے تھے تو رنگ زرد ہوجاتا تھا۔ ان سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ یہ وضو کرتے وقت تمہاری کیا حالت ہو جاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جانتے نہیں ہو کہ اب میں کس کے روبرو کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔
مروی ہے کہ حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ سے ان کی نماز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب وقتِ نماز آتا ہے تو اچھی طرح تربتر وضو کرتا ہوں اور میں جس مکان میں نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں تھوڑی دیر وہاں بیٹھ جاتا ہوں تاکہ میرے اعضاء قرار پکڑ جائیں پھر اُٹھتا ہوں میں نماز کے واسطے اور کعبہ کو دونوں بھنوؤں کے درمیان کرتا ہوں‘ پل صراط کو اپنے قدموں کے نیچے اور جنت کو اپنی داہنی طرف اور دوزخ کو بائیں طرف اور ملک الموت کو اپنے پیچھے سمجھتا ہوں اور اپنی نماز کو آخری نماز تصور کرتا ہوں کہ شاید اس کے بعد زندگی رہے یا نہ رہے پھر خوف اور رجاء کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہوں اس طرح سب افعال نماز بیان کر کے فرمایا کہ مع اخلاص کے ان کو ادا کرتا ہوں پھر فرمایا کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ نماز میری قبول ہوئی یا نہ ہوئی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ دو رکعتیں کہ متوسط اور مفکر میں بہتر ہیں کہ تمام رات قیام دل کی غفلت سے ہو۔ پس مومن نماز کے وقت عظمتِ الٰہی دل میں خوف اور رحمت کی امید اپنی لحاظ میں رکھے اور یہ بات تب حاصل ہوتی ہے اور نماز کے اندر خطروں اور وسوسوں کو دل سے دُور کرے۔ (تفسیر عزیزی)

####

نماز کی پہچان

پہچان کہ نماز ایک عبادت ہے کہ اوّل سے آخر تک خدا کا راستہ اس میں پاتے ہیں اور اسی میں ان کے مقامات کھلتے ہیں جیسا کہ طہارت یعنی پاکی اور وضو کرنا مریدوں کے لیے توبہ کی جگہ ہے اور کسی پیر سے تعلق کرنا قبلہ کے پانے کے بجائے اور ہمیشہ کا ذکر قرأت کی جگہ اور تواضع رکوع کی جگہ اور نفس کی معرفت سجدہ کرنے کے بجائے اور اس یعنی محبت کا مقام تشہد کے بجائے اور دنیا سے تنہا ہونا جائے اسلام کے اور مقامات سے باہر آنے کے ہے۔ فی صلوٰة دائمون نماز دائم تب ہوگی کہ پہلے ایسی صورت حاصل ہو۔
بے نمازی کے لیے مقامِ عبرت:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تقریبا ساٹھ بار نماز کا حکم دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اور اس کے ایمان اور کفر کے درمیان فرق نماز کو چھوڑنا ہے۔ (مسلم)
۱) حضرت عمر‘ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنا کفر ہے۔
۲) امام مالک اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہما کے نزدیک بے نماز ی واجب القتل ہے۔
۳) ہمارے امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اسے قید کر کے سخت سزا دی جائے اور اتنا مارا جائے کہ اس کے بدن سے خون بہنے لگے یہاں تک کہ توبہ کرلے یا اسی حالت میں مر جائے۔
۴) حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بے نمازی مرتد ہے اگر مر جائے تو نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے نہ اسے مسلمانوں میں دفن کیا جائے بلکہ کسی کھڈ میں پھینک دیا جائے۔
بے نمازی کی میدانِ حشر میں رسوائی قرآن مجید کی رو سے:
قیامت کے دن جب سخت گھڑی ہوگی اور شروع سے لے کر قیامت تک کے سارے انسان محشر میں جمع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی ظاہر ہوگی اور سجدہ گاہ کی طرف لوگوں کو بلایا جائے گا جو خوش نصیب اہلِ ایمان دنیا میں نماز پڑھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا کرتے تھے وہ فوراً سجدہ میں چلے جائیں گے لیکن جو لوگ تندرست ہونے کے باوجود نمازیں نہیں پڑھتے تھے ان کی کمریں اس وقت تختے کی مانند ہو جائیں گی اور وہ سجدہ نہ کر سکیں گے ان پر سخت ذلت و خواری کا عذاب چھا جائے گا ان کی نگاہیں شرمندگی اور ندامت سے نیچی ہوں گی اور وہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ بھی نہ سکیں گے۔ دوزخ کے عذاب سے پہلے ذلت و خواری کا یہ عذاب انہیں سر محشر تمام لوگوں کے سامنے اُٹھانا پڑے گا۔
روایت ہے کہ روزِ محشر نماز کے بارے میں بازپرس ہوگی اگر نمازیں لکھی ہوں گی تو اس کا سارا عمل قبول ہوگا اور اگر اس میں کوئی بھی کمی ہوئی تو اس کے تمام اعمال رد کر دیئے جائیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ فرض نمازیں ترازو کی طرح ہیں جس نے اس کو پورا کیا اس کا اجر ملے گا۔
حضرت برید قاشی رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہایت مناسب اور موزوں ترین تھی۔
فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ میری اُمت کے دو آدمی نماز کے لیے کھڑے ہوئے ان کا رکوع وسجود بظاہر ایک جیسا ہوتا ہے مگر ان دونوں کی نمازوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ایک میں خشوع ہوگا اور دوسری اس کے بغیر۔
بدنصیب شخص کے بارے میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے:
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: جانتے ہو بدنصیب کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کی کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بدنصیب بے نمازی ہے کیونکہ بے نمازی کو اسلام اور آخرت سے کچھ نصیب نہیں ہوگا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے نمازی کا حشر قیامت کے دن قارون‘ فرعون‘ ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔
نماز میں سستی کرنے والوں کے لیے چودہ طرح کا عذاب:
دنیا کے پانچ عذاب:
۱) اس کی زندگی میں برکت نہیں رہتی۔
۲) صلحا کا نور اس کے چہرے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
۳) اس کے نیک کاموں کا اجر ہٹا دیا جاتا ہے۔
۴) اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
۴) نیک لوگوں کی دعاؤں میں اس کا حق نہیں رہتا۔
موت کے وقت تین عذاب:
۱)ذلت سے مرتا ہے۔
۲) بھوکا مرتا ہے۔
۳) پیاسا مرتا ہے اگر سمندر کا تمام پانی بھی پی لے تو پیاس نہیں بجھتی۔
قبر کے تین عذاب:
۱) اس پر قبر اتنی تنگ کر دی جاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
۲) قبر میں آگ جلا دی جاتی ہے۔
۳) قبر میں ایک سانپ اس پر ایسی شکل کا مسلط کر دیا جاتا ہے کہ جس کی آنکھیں آگ کی ہوتی ہیں اور دانت لوہے کے اتنے لمبے کے ایک دن پورا چل کر اس کی انتہا تک پہنچا جائے اور اس کی آواز بجلی کی کڑک کی طرح ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے تجھ پر مسلط کیا ہے کہ تجھے فجر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے آفتاب نکلنے تک اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک اور عصر کی نماز کی وجہ سے مغرب تک اور مغرب کی نماز کی وجہ سے عشا تک اور عشا کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے فجر تک ڈنگ مارے جاؤں جب وہ سانپ ایک دفعہ اس کو ڈنگ مارے گا تو مرنے والا ستر ہاتھ زمین میں دھنس جائے گا اسی طرح قیامت تک اس کو عذاب ہوتا رہے گا۔
قبر سے نکلنے کے بعد کے تین عذاب:
۱) حساب سختی سے لیا جائے گا۔
۲) حق تعالیٰ شانہ کا اس پر غصہ ہوگا۔
۳) جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
نماز کا اہتمام کرنے والوں کے لیے پانچ اعزازواکرام:
۱) اس سے رزق کی تنگی ہٹا دی جاتی ہے۔
۲) اس سے عذابِ قبر ہٹا دیا جاتا ہے۔
۳) قیامت کے دن ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ نہایت خوش و خرم ہر شخص کو دکھاتے پھریں گے۔
۴) پل صراط سے بجلی کی طرح گزر جائیں گے۔
۵) حساب اعمال سے محفوظ رہیں گے۔
نمازیوں کا اعزاز و اکرام:
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نمازی کے ہاتھ پاؤں اور منہ قیامت کے روز آفتاب کی طرح چمکتے ہوں گے اور بے نمازی اس دولت سے محروم رہیں گے۔ نیز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نمازیوں کا حشر قیامت کے روز نبیوں‘ شہیدوں اور ولیوں کے ساتھ ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا نماز سے باجماعت نماز پڑھنا ستائیس مرتبے افضل ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز میں چند افراد کو غیرحاضر پا کر ارادہ فرمایا کہ ایک آدمی کو نماز پڑھانے کے لیے مقرر فرما کر ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو غیرحاضر ہیں۔ ان کے گھروں کو جلانے کا حکم دوں۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان کے گھروں کو لکڑیوں کے گٹھوں کے ساتھ جلانے کا حکم دوں اگر ان کو معلوم ہوتا کہ نماز میں شامل ہونے سے موٹی ہڈی کا گوشت یا جانور کے پائے ملیں گے تو ضرور آتے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے باجماعت نماز ادا کی اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر لیا۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ادھر موٴذن نے اذان دی میں سب سے پہلے مسجد میں آ گیا یہ میرا معمول بیس سال سے ہے۔
محمد بن واسع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں۔
#… ایسا بھائی اگر میں ٹیڑھا چلوں تو وہ مجھے سیدھا کردے۔
#… اس قدر رزق عطا کیا جائے جس کی بازپرس نہ ہو۔
#…ایسی نماز جس کی غلطیاں معاف کر دی جائیں اور اس کا ثواب عطا کیا جائے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ چند دنوں کی نمازوں میں امامت فرمائی جب نماز سے فارغ ہوئے تو شیطان کے متعلق فرمایا کہ وہ مجھے بہکا رہا تھا۔ مجھے دوسروں سے اپنی برتری کا احساس ہوا لہٰذا اب کبھی امامت نہیں کروں گا۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جو علماء کی صحبت میں کبھی حاضر نہیں رہا۔
امام نخعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بغیر علم کے امامت کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو سمندر کی پیمائش کرے لیکن کمی بیشی کو نہ جانے۔
حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے میری نماز باجماعت رہ گئی تو مجھ سے اس کی تعزیت صرف حضرت ابواسحاق بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کی اگر میرا بیٹا فوت ہو جاتا تو دس ہزار آدمی تعزیت کو آتے کیونکہ لوگ دین کے نقصان کو دنیا کے نقصان سے کمتر تصور کرتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے جس نے اذان سنی اور اس کا جواب نہ دیا تو اس نے بھلائی کا ارادہ نہیں کیا اس کو بھلائی نصیب نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے جو اذان سن کر اس کا جواب نہ دے تو اس کے کانوں کو سیسہ سے بھر دیا جائے گا۔
حضرت میمون رحمتہ اللہ علیہ مسجد میں گئے تو انہیں کہا گیا کہ نماز ہو چکی ہے لوگ جا چکے ہیں آپ نے سن کر انا لله وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا نماز باجماعت مجھے عراق کی حکومت سے افضل ہے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے چالیس دن باجماعت نماز ادا کی اور اس کی تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے برأت لکھ دیتا ہے ایک نفاق اور دوسری جہنم سے۔
فرمایا قیامت کو قبروں سے ایسے لوگ اٹھیں گے جن کے چہروں پر یہ تابانی ہوگی فرشتے ان سے سوال کریں گے تمہارے کون سے اعمال ہیں؟ وہ کہیں گے اذان سنتے ہی فوراً وضو کر لیا اور کسی کام سے لگے ہوئے تو اسے نماز کے لیے چھوڑ دیا۔
یہی وہ لوگ تھے جن کے ستاروں کی طرح چہرے ہوں گے۔ ایک گروہ کے چہرے چاند کی طرح دمکتے ہوں گے۔ وہ سوال پر جواب دیں گے کہ ہم وقتِ مقررہ سے پہلے وضو کر کے نماز کے لیے تیار ہو جاتے تھے پھر تیسرا گروہ ہو گا جن کے چہرے مانند آسمان کے ہوں گے ان سے سوال ہوگا تو کہیں گے وقتِ مقررہ سے قبل مسجد میں پہنچ کر نماز کا انتظار کرتے تھے۔
ایک روایت ہے۔ سلف الصالحین میں سے کسی کی اگر تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی ہے تو انہیں تین دن صدمہ رہتا جس کے لیے تعزیت کرتے۔
اللہ ہمیں نماز باجماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

####
یاصاحب والجمال یاسید البشر
من وجھک المنیر لقد نور القمر
لایمکن الشفاء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجبی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ وآلہ
آمین!

####

درود شریف کی فضیلت

ان الله وملئکتة یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔
”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اوپر نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔“ (ترجمہ کنزالایمان)
حضرات محترم اس آیتِ کریمہ میں بے شمار نکات موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
نکتہ:
یہ ہے کہ اللہ پاک لفظ ان کو لایا اور ان زبان عرب میں اس کلام میں استعمال ہوتا ہے جس کلام کو شک اور شبہ سے پاک کرنا مقصود ہو اس آیت میں بھی ان لا کر یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ خود اور اس کے ملائکہ جو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اس میں ان بتاتا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
نکتہ۲:
اس آیت میں یہ ہے کہ اللہ پاک یصلون مضارع کا صیغہ ہے جو زمانہ حال اور مستقبل دونوں پر دلالت کرتا ہے۔ مضارع کا صیغہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر خداوند کریم اور ملائکہ کا درود بھیجنا کسی زمانہ پر بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ قیامت تک بھیجتے رہیں گے۔
نکتہ۳:
اللہ کریم اس آیت میں لفظ صلوٰة اور سلام دونوں کو لایا ہے اور صلوٰة کے معنی لغت میں مطلق دعا کے ہیں اور سلام اس دعا کو کہتے ہیں کہ جس دعا میں داعی کی غرض خاص آسمانی بلیات سے مدعولہ یعنی جس کے لیے دعا کرتا ہے۔کو محفوظ رکھنا ہوتی ہے اور یہاں بھی خداوند کریم دونوں لفظوں کو لایا ہے اور بتا رہا ہے کہ رحمتِ خداوندی اور استغفار ملائکہ سے غرض فقط حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت مکان اور عظمت شان ہی نہیں بلکہ انسان کو دنیاوی اور آسمانی دونوں بلاؤں سے محفوظ رکھنا بھی مطلوب ہے۔
حدیث شریف میں مروی ہے:
کہ مختارِ کل نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ درود بھیجنے والے کے نام سے مجھ تک پہنچتا ہے۔“
امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:
کہ حضرت ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں آپ پر بکثرت درود بھیجتا ہوں اور اب میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اوقاتِ مقررہ میں سے درود شریف کے واسطے کس قدر وقت مقرر کروں؟ ارشاد فرمایا جس قدر چاہے اگر زیادہ کرے گا تو تیرے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ آدھا وقت مقرر کروں؟ فرمایا جس قدر تو چاہے تو جتنا بھی زیادہ کرے گا وہ تیرے لیے ہی بہتر ہوگا۔ تو میں نے عرض کیا:
جعلت لک صلا تی کلھا۔
یعنی میں نے درودشریف کے واسطے اپنا تمام وقت مقرر کر لیا اس پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اذقال یلغی ھمک ویغفرلک ذنبک۔
یعنی اب تیری تمام مہمات دینی اور دنیوی پوری ہوا کریں گی اور تیر ے لیے تیرے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

تفسیر

ظھرالفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس۔
ترجمہ: ”خرابی خشکی اور تری میں ان بُرائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں۔“
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا خشکی زبان ہے اور تری دل۔ پس اگر زبان بگڑی تو دنیا والے اس پر روئیں گے اور اگر دل بگڑا تو فرشتے اس کے حال پر افسوس کریں گے۔
تفسیر:
کفر اور گناہوں کی وجہ سے قحط سالی‘ بیماری‘ وبائی امراض‘ سیلاب‘ آگ لگنا‘ رزق میں بے برکتی ہوتی ہے اور بارش نہ ہونے سے دریائی جانور اندھے ہو جاتے ہیں۔ سیپ میں موتی نہیں بنتے غرض یہ کہ گناہوں سے خشکی اور دریائی مخلوق کو مصیبت آ جاتی ہے اور آج کل جنگوں میں خشکی اور سمندر سب جگہ ہی آفت ہوتی ہے بہرحال آیت بالکل صحیح ہے۔اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی تکالیف انسان کے بعض گناہوں کی سزا ہے اصل سزا تو آخرت میں ملے گی یا یہ مطلب ہے کہ اکثر گناہ رب معاف فرماتا ہے‘ بعض پر گرفت کرتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انسانوں کی بدعملی سے کبھی جانوروں پر بھی مصیبت آ جاتی ہے۔ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے جیسے کبھی جانوروں کی وجہ سے ہم پر بارش ہو جاتی ہے‘ کثرتِ زنا سے قتل و غارت ہوتی ہے‘ زکوٰة نہ دینے سے بارش رُکتی ہے‘ کم تولنے سے حاکم ظالم مقرر ہوتے ہیں‘ سودخوری سے زلزلے آتے ہیں۔
انا مدینة العلم
وابوبکرا اساسھا وعمر حیطانھا
وعثمان سقفھا وعلی بابھا
(الحدیث رواہ الدیلمی)

####

القرآن

ان الله وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔
ترجمہ: ”بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر۔ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔“
تفسیر مع مسائل:
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درودوسلام بھیجنا واجب ہے ہر ایک مجلس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرنے والے اور سننے والے پر بھی ایک مرتبہ درود پڑھنا اور اس سے زیادہ پڑھنا مستحب ہے۔ یہی قول معتمد ہے اور اس پر جمہور ہے اور نماز کے قعدہ آخیرہ میں بعد تشہد درودشریف پڑھنا سنت ہے اور آپ کے تابع کر کے آپ کے آل و اصحاب اور دوسرے مومنین پر بھی درود بھیجا جا سکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ کے نامِ اقدس کے بعد ان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل طور پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ان میں سے کسی پر بھی درود شریف بھیجنا مکروہ ہے۔
مسئلہ:
درود شریف میں آل و اصحاب کا ذکر متوارث ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر درودشریف مقبول نہیں۔ (درود شریف) یہ اللہ کی طرف سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تکریم ہے۔
علماء نے اللھم صلی علی محمد کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ یارب محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو عظمت عطا فرما دنیا میں ان کا دین بلند اور ان کی دعوت غالب فرما اور ان کی شریعت کے اوّلین اور آخرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر انبیاء مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر ان کی شان بلند کر دے۔
مسئلہ:
درود شریف کی بہت برکتیں اور فضیلتیں ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب درود بھیجنے والا مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ترمذی حدیث شریف کے مطابق بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے۔
ان الله وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔
ترجمہ: ”بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر۔ اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔“
اس سے چند مسائل معلوم ہوئے۔ اوّل یہ کہ درودشریف تمام احکام سے افضل ہے کیونکہ اللہ نے کسی حکم میں اپنے فرشتوں کا اور اپنا ذکر نہیں فرمایا کہ ہم بھی یہ کرتے ہیں تم بھی یہی کرو (سوا ئے درود شریف کے۔ دوم یہ کہ فرشتے بغیر تخصیص ہمیشہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ سوم یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر رحمتِ الٰہی کا نزول ہماری دعا پر موقوف نہیں جب کچھ نہ تھا تب بھی رب تعالیٰ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر رحمتیں بھیج رہا تھا۔ ہمارا درود شریف پڑھنا رب سے بھیک مانگنے کے لیے ہے وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا۔ ہمیں بھیک مانگنے کا تیرا آستاں بتایا۔ حضور ﷺ حیات النبی ﷺ ہیں اور سب کا درود و سلام سنتے ہیں بلکہ جواب دیتے ہیں جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے جیسے نمازی یا سونے والا وغیرہ
پنجم یہ کہ تمام مسلمانوں کو ہمیشہ ہر حال میں درود شریف پڑھنا چاہیے کیونکہ رب تعالیٰ اور فرشتے ہمیشہ ہی درود بھیجتے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ درود مکمل کرنے کے لیے آل پاک کا ذکر بھی چاہیے لہٰذا اس آیت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود سے مراد خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آل پاک پر درود ہے۔ (صواعق)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارا درودشریف سنتے ہیں:
ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ شرح شفائے امام قاضی عیاض میں اس مسئلہ کی دلیل میں لکھتے ہیں کہ جب کسی تنہا مکان میں جاؤ جہاں کوئی نہ ہو یوں کہو:
السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ۔
فرماتے ہیں:
لان روح النبی صلی الله علیہ والہ وسلم حاضرة فی بیوت اھل الاسلام۔
ترجمہ: ”حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی روح تمام مسلمانوں کے گھروں میں حاضر ہے۔)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دنوں میں اچھا دن جمعہ ہے اس روز مجھ پر بہت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کی مٹی میں کچھ رہ نہیں جاتا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الله حرم علی الارض اجساد الانبیاء۔
”اللہ نے پیغمبروں کے جسم مٹی پر حرام کیے ہیں‘ مٹی ان کو نہیں کھاتی۔“ (مشکوٰة باب الجمعہ)
مررت بقبر موسی فاذا ھوفیہ قائم یصلی۔
”معراج کی رات میں موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہیں۔“ (اتباء الاذکیا للسیوطی)
بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مایزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی اجیتہ فکنت سمعہ الذی یسمع لبھا وبصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا وان سألنی لاعطینہ۔
”میرا بندہ کثرتِ نوافل سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس کو دوست بنا لیتا ہوں میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور دیتا ہوں۔“
جیسے دُور دراز سے سننا‘ دیکھنا یا سنانا یا پہنچانا وغیرہ تو جب بالجملہ علائق دنیوی سے پاک ہو کر بالکل الی الله وفی الله وبالله ہو جائے کیونکہ وہ صفات حقیقیہ سے متصف ہو گا۔
قال النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورھم فانھم حضور یصلون۔
’ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں بے شک وہ وہاں نماز بھی پڑھتے ہیں۔“ (انباء الاذکیاء للسیوطی)
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم من صلی علی عند قبری سمعتہ فمن صلی غائبا بلغتہ۔
نبی کریم ِﷺ نے فرمایا ”جو شخص میری قبر کے پاس آ کر درود پڑھے تو میں خود سنتا ہوں اور جو کہیں دُور بیٹھ کردرود پڑھا جائے وہ مجھ تک پہنچادیاجاتا ہے۔“ (انباء الاذکیاء للسیوطی)
قال النبی صلی الله علیہ والہ وسلم ان لله تعالیٰ ملکا اعطاہ اسماع الخلائق قائم علی قبری فما من احد یصلی علی الابلغنیھا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اللہ کا ایک فرشتہ ہے جسے تمام جہاں کی باتیں سنائی دینے کا رُتبہ عطا کیا ہے۔ وہ میری قبر پر کھڑا رہتا ہے جہاں کہیں سے بھی کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچاتا ہے۔“ (انبیاء الاذکیا للسیوطی)
حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
یامصطفے یامجتبے ارحم علی عصیاننا
ترجمہ : ” اے مصطفے اے مجتبہ ہمارے گناہوں پر رحم فرمائیے ۔“
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں اپنے حجرہ میں جہاں رسولِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدفون ہیں‘ کھلے کپڑوں جایا کرتی اور دل میں کہتی کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو میرے شوہر ہیں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے باپ ہیں مگر جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ دفن ہوئے تو پھر میں پردہ میں آتی۔
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ!
 میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے۔
یہاں اختصار سے چند احادیثِ مبارکہ کا ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ پڑھنے والے مستفیض ہو سکیں ورنہ بے شمار آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں پیارے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیات واضح ہے۔
روایت یوں ہے کہ ایک دن جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں نے آسمان پر ایک ایسا فرشتہ دیکھا ہے جو تخت نشین تھا اور ستر ہزار فرشتے اس کی خدمت میں حاضر تھے اس کی ہر سانس سے اللہ تعالیٰ فرشتہ پیدا کرتا تھا اور اب اس فرشتے کو کوہِ قاف پر شکستہ روتے ہوئے دیکھا اس نے مجھے سفارش کے لیے کہا میں نے پوچھا تجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی اس نے کہا میں شبِ معراج تخت پر بیٹھا رہا اور تعظیم کے لیے کھڑا نہ ہوا تو لہٰذا یہ میرا حشر ہوا۔ جبرائیل امین علیہ السلام نے رو رو کر اللہ کے حضور التجا کی۔ اللہ نے مجھے فرمایا کہ اس معتوب کو کہو کہ میرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے چنانچہ اس معتوب فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا‘ اللہ نے اس کی لغزش کو معاف کر کے نئے پر عطا کر دیئے۔

####

فضیلتِ نام محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

صلوٰة مسعودی میں دُرِمنثور کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ حضرت ابونعیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ ایک اسرائیلی دو سو سال تک بُرائیوں میں پھنسا رہا۔ وہ اللہ کی نافرمانی کرتا رہا۔ وہ توبہ کیے بغیر مر گیا لوگوں نے اس کا لاشہ اُٹھا کر ایک گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیغام بھیجا کہ آپ جائیں اس شخص کو اُٹھوا کر نمازِ جنازہ ادا کریں اور اسے دفنائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی اے الٰہ العالمین! تمام لوگ اس کی بُرائیوں کی شہادت دیتے ہیں اور اس کی دو سو سالہ زندگی اس کے فسق و فجور کی گواہی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بے شک اس کی دو سو سالہ زندگی گناہوں سے لبریز ہے مگر وہ میرا مجرم تھا اسے ایک عادت تھی کہ وہ جب توریت کا مطالعہ کرتا تو نامِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آتا تو اسے چوم لیتا پھر اس اسمِ مبارک کو آنکھوں سے لگاتا اور چومتا اس کی یہ عادت مجھے بے حد پسند تھی۔ لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ میں نے اسمِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے اسے بخش دیا ہے۔
نعت رسول اللہ دی دا ایہہ جان نتیجہ سارا
دو سو سالاں دی گمراہی رب نے دھوتی یارا
گزری عمر حلوائی دی بھی اندر نافرمانی
برکت نال حبیب تیرے دی رہے نہ سرگردانی
نام حبیب تیرے بن میرا ہور وسیلہ ناہیں
نام حبیب تیرے دا چماں ٹھنڈک اکھیاں تائیں
تفسیر روح البیان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت بیان کی گئی ہے۔ امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مقاصد حسنہ میں اس کی سند لکھی ہے۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرا نام سن کر انگوٹھے آنکھوں کو لگائے گا اس کا مقام جنت الفردوس میں ہوگا۔ یہ ایک مستند حدیث ہے جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت مجدد ماتہ حاضرہ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا رسالہ” تقبیل الابہامین“ اس مسئلہ پر بڑا قیمتی مواد دیتا ہے۔ (شفاء القلوب‘ حضرت مولانا مولوی محمد نبی بخش رحمتہ اللہ علیہ)

####

حلیہ شریف آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

قد مبارک درمیانہ یعنی نہ بہت دراز نہ بہت مختصر‘ جسم مبارک کا رنگ سفیدی مائل سرخ جیسے گلاب کا پھول‘ نہ خالص چٹا نہ گندمی‘ بال باریک تیز سیاہ جیسے کہ واللیل اذا سجی کچھ گھونگر والے خمدار‘ نہ بالکل سیدھے نہ بالکل لچھے دار‘ مبارک گیسو اکثر تابگوش اور کبھی تابدوش یعنی کان کی لو تک اور کبھی کندھوں تک سرمبارک بڑا بہت خوب صورت‘ چوڑی پیشانی باریک اور لمبی بھنویں (پروٹے) ان بھنوؤں کے درمیان باریک سی رگ جو کبھی چمکتی تھی‘ آنکھیں بڑی بڑی‘ پلک لمبی‘ آنکھ کی سفیدی بہت تیز اور پتلیاں خوب سیاہ جن کا سرمہ مازاغ البصر وما طغی یعنی رب کو دیکھ کر نہ چھپکیں‘ باریک اور لمبی ناک شریف رخسار مبارک کا رنگ چمک دار نہ بہت اُبھرے ہوئے اور نہ دبے ہوئے بلکہ درمیانی‘ چوڑا منہ‘ پتلے پتلے ہونٹ جیسے گلاب کی پتی‘ چمک دار سفید اور چھوٹے چھوٹے دانت جیسے سچے موتیوں کی لڑیاں اور ان کے درمیان میں معمولی سی کھڑکیاں‘ گھنی داڑھی جس کا رنگ سیاہ درمیانی ریش سجی مبارک چاندی کی طرح صاف اور سفید گردن شریف دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ یہ کبوتر کے انڈے کے برابر تھی‘ کچھ ابھرا ہوا گوشت تھا جس پر بال تھے اور پڑھنے میں آتا ہے محمد اسی مہرنبوت کو دیکھ کر حضرت سلمان فارسی وغیرہ ایمان لائے۔ خوب چوڑا سینہ رحمت کا گنجینہ‘ گلے شریف سے ناف تک بالوں کی باریک سی لہر‘ شکم مبارک سینے کے برابر نہ اُبھرا ہوا نہ دبا ہوا اس کے ماسوا بھرے ہوئے بازو جن پر کچھ بال کسی قدر لمبی کلائیاں چوڑی اور بھری ہوئی ہتھیلیاں‘ کندھوں اور کلائیوں پر بال مبارک انگلیاں پتلی اور لمبی پنڈلیاں بھری ہوئی جن پر رونگٹھے‘ ایڑھیاں پتلی اور قدم بھرے ہوئے کہ زمین پر پورے جم جائیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ چاندنی رات میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سرخ جبہ زیب تن فرمائے تشریف فرما تھے۔ میں کبھی آسمان کے چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنے مدینے کے چاند صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو۔ قسم ہے رب کی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم چاند سے زیادہ حسین معلوم ہوتے ہیں۔
چہرہ انور بارعب تھا جو اچانک دیکھ لیتا اس کے دل میں رعب اور ہیبت آسمانی طاری ہو جاتی اور جس کو صحبت میں رہنا نصیب ہو جاتا‘ وہ اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا مانوس ہو جاتا کہ اور جگہ اس کا دل نہ لگتا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ نیچی رہتی تھی۔
اک ماہ بدن‘ گورا سا بدن‘ نیچی نظریں کل کی خبریں
وہ سنا کہ سخن‘ دکھلا کے پھبن مرا پھونک گئے سب تن من دھن
چہرہ انور پر فکر کے آثار نمایاں رہتے تھے جیسے کچھ سوچ رہے ہیں جب کسی طرف نظر فرماتے تو پوری طرح ادھر منہ پھیر کر۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی قہقہہ نہ فرمایا۔ اکثر تبسم فرماتے تو دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ اس نور میں گم شدہ سوئی تلاش کی جا سکتی تھی۔
سوزن گم شدہ ملتی ہے تبسم سے ترے
شام کو صبح بناتا ہے اجالا تیرا
پسینہ شریف میں گلاب کی تیز خوشبو جب کسی گلی سے گزرتے تو مکانوں والے لوگ پہچان جاتے اور مدینہ کے لوگ اس پسینہ کو خوشبو کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ (مشکوٰة) چلنے کی حالت میں زمین لپٹتی تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آہستہ چلتے مگر ساتھیوں کے ہمراہ تیز چلنا پڑتا کبھی خضاب نہ لگایا کیونکہ سر شریف میں تقریباً چودہ بال اور داڑھی شریف میں چھ بال سفید ہوئے تھے یعنی کل بیس بال سفید تھے۔
قارئینِ کرام رات کو سوتے وقت اس حلیہ شریف کا مطالعہ کریں اور پاک بستر پر پاک کپڑے پہن کر باوضو قبلہ رو سویا کریں اگر ممکن ہو تو سوتے وقت عطر بھی لگا لیں اور ہمیشہ اس امید پر سوئیں کہ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت ہو جائے جس نے خواب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کو دیکھا۔ وہ نفسانی‘ شیطانی یا خیالی نہیں ہوتا بلکہ واقعی ہوتا ہے۔ چہرہٴ انور کو نورانی دیکھنا اپنی قوتِ ایمانی کی دلیل ہے اس کے خلاف دیکھنا اپنی کمزوری ایمان کی علامت ہے۔

####

حدیث رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک بھیجتا ہے اس کے دس گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہوتے ہیں۔ (مشکوٰة شریف)
صلی الله حبیبہ محمد وآلہ وسلم
درود شریف پڑھنے کا طریقہ:
فتاویٰ شامی کے موٴلف علامہ سید ابن عابدین رحمتہ اللہ علیہ کے ثبت میں اس کی باضابطہ سند موجود ہے۔
اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ عشا کی نماز کے بعد تازہ وضو کر کے دو رکعت نماز نفل پڑھے۔ پہلی رکعت میں الحمدشریف کے بعد سورة قل یایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں بعد الحمد سورة اخلاص پڑھے۔ فارغ ہونے پر قبلہ رو ایسی جگہ بیٹھے جہاں سو نا ہو۔
اور صدق دل سے توبہ کرتے ہوئے ایک ہزار بار استغفرالله العظیم پڑھے اس کے بعد دو زانو مودبانہ بیٹھ کر یہ تصور باندھ لے کہ رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوں اور عرض کر رہا ہوں سو بار‘ دو سو بار‘ تین سو بار غرضیکہ پڑھتا جائے جب نیند کا غلبہ ہو تو اسی جگہ دائیں کروٹ پر قبلہ کی طرف منہ کر کے سو جائے جب پچھلی رات جاگے تو پھر ایسی جگہ مودبانہ بیٹھ کر صبح کی نماز تک درود شریف پڑھتا رہے۔ درود پڑھتے وقت اپنی حاجت یا حل مشکلات کا تصور رکھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ایک رات یا تین راتوں میں مراد برآئے گی۔ آخری رات جمعہ کی ہو تو بہتر ہے۔
درود شریف یہ ہے:
اللھم صل وسلم وبارک علی سیدنا محمد قد ضاقت حیلتی ادرکنی یارسول الله۔
ترجمہ: ”یااللہ! ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام اور برکتیں بھیج۔ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دستگیری کیجیے‘ میرا حیلہ اور کوشش تنگ آ چکے ہیں۔“

####

بے مثل وظیفہ

شیخ المحدثین شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ:
آپ اخبار الاخیار کے اختتام پر دربارِ الٰہی میں دعا کرتے ہیں یااللہ! میرے پاس کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ جو تیری بارگاہ بے کس پناہ کے لائق ہو۔ میرے سارے اعمال کوتاہیوں اور فسادنیت میں ملوث ہیں۔ سوا ایک عمل کے۔ وہ عمل کونسا ہے؟ وہ ہے تیرے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نہایت انکساری‘ عاجزی اور محتاجی کے ساتھ درود و سلام کا تحفہ حاضر کرنا۔ اے میرے رب کریم وہ کون سا مقام ہے جہاں اس درود و سلام کی مجلس کی نسبت زیادہ خیروبرکت اور رحمت کا نزول ہوگا۔ اے میرے پروردگار! مجھے سچا یقین ہے کہ یہ درود وسلام والا عمل تیرے دربارِ عالی میں قبول ہوگا۔ اس عمل کے رد ہو جانے کا خوف نہیں۔ (اخبار الاخیار ص۳۲)
حضرت توکل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی:
فرمایا کہ بندہ جب عبادت اور یادِ خدا میں مشغول ہوتا ہے تو اس پر فتنے اور آزمائشیں بکثرت وارد ہوتی ہیں اور درود شریف کا خاصہ یہ ہے کہ اس کا ورد کرنے والے پر کوئی فتنہ اور مصیبت نہیں آتی اور حفاظتِ الٰہی شاملِ حال ہوتی ہے۔
درود شریف:
ارشاد:
ارشاد فرمایا تمام عبادتیں رد ہو سکتی ہیں مگر درود شریف کبھی رد نہیں ہو سکتا پھر فرمایا کہ اکثر بندہ جس وقت اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے تو اس پر ابتدا میں فتنے وارد ہوتے ہیں۔ درود شریف کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ورد کرنے والے پر کوئی فتنہ نہیں آتا اور حفاظتِ الٰہی شاملِ حال ہو جاتی ہے۔
ارشاد:
ایک روز فرمایا ہم نے دیکھا ہے کہ جب آسمان سے بلیات زمین پر آتی ہیں تو زمین کی بلیات سے صالحین اور نیک لوگوں کے گھر دریافت کرتی ہیں تاکہ وہاں جائیں مگر جب درود شریف پڑھنے والے کے مکان پر آتی ہیں تو درود شریف کے خادم ملائکہ ان کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے بلکہ ان کو پڑوس سے بھی دُور پھینک دیتے ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کو مرشد کامل نہ ملے یا کسی پر اس کا عقیدہ نہ ٹھہرتا ہو تو درود شریف محبت کے ساتھ پڑھے اس کے پڑھنے سے اس کو پرورش روح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جائے گی اور جس بزرگ سے اس کو فیض ملنا ہوگا اس کی طرف خودبخود اس کی طبیعت متوجہ ہو جائے گی اگر کسی بزرگ سے نہیں فیض نہیں ملنا ہوگا تو خاص روح پاک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت حاصل ہو جائے گی اور اس میں مستغرق ہو کر واصل باللہ ہو جائے گا۔
ارشاد:
ایک روز فرمانے لگے کہ درود شریف بڑی ہی برکت والی چیز ہے اس میں بڑی موج ہے۔ کسی نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کونسا درود افضل ہے؟ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام درود عمدہ اور بہتر ہیں مگر مراتب عرض کی اور
صلی الله علی سیدنا محمد و آل سیدنا محمد بعدد کل معلوم لک وبعد کل زرة مائة الف الف مرة وبارک وسلم وصل علیہ۔
اس میں بڑی موج دیکھی ہے۔ ایک دفعہ ہم نے جو پڑھا تو دیکھا کہ ایک باغ ہے اور ایک نوری چبوترہ پر حضور رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں میں جا کر نہایت ادب سے ملا تو آپ سینے سے لگا کر ملے اور پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دیا تو معلوم ہوا کہ اس درود شریف میں حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بہت ہی خوشنودی ہے اور ترقی کا حال ہم بیان نہیں کر سکتے کہ تمہاری عقل سے آگے ہے۔
ذکر خیر ص۱۵۳
(حضرت خواجہ توکل شاہ صاحب انبالوی)

####

نگاہِ اقبال میں درودِ خضریٰ کی فضیلت


 جب پہلی بار خطیب پاکستان حضرت رحمتہ اللہ علیہ کو عارضہٴ قلب لاحق ہوا تو آپ ماہر امراضِ قلب جناب ڈاکٹر رؤف یوسف (لاہور) کے پاس ای سی جی کروانے کے لیے تشریف لے گئے۔
دورانِ گفتگو ڈاکٹر رؤف صاحب نے بتایا کہ علامہ محمد اقبال کے ساتھ میرے بہت گہرے تعلقات تھے۔ ایک دن میں نے علامہ محمد اقبال صاحب سے پوچھا کہ کچھ دنوں سے میں آپ کے مزاج میں نمایاں تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ آپ کے اشعار و افکار عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور تصوف کے ڈھانچے میں ڈھلتے جا رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ تو علامہ نے فرمایا کہ بعض بزرگوں کی زیارت اور صحبت نے میرے دل میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیا ہے ان میں سے ایک بزرگ قطب الاقطاب حضرت خواجہ محمد امین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ آلو مہار شریف والے ہیں اور دوسرے بزرگ حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ ہیں جب میں آلومہار شریف حاضر ہوا تو حضرت خواجہ نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور نگاہِ مسرت سے میری طرف دیکھا پھر سر اور پشت پر ہاتھ پھیرا اور زبان سے فرمایا کہ تم بڑے خوش نصیب ہو اللہ تبارک و تعالیٰ تم سے ملتِ اسلامیہ کی خدمات کا کام لیں گے۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ کثرت سے درود و خضریٰ پڑھا کرو۔ علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے اچانک یوں محسوس ہوا جیسے میرے جسم سے بوجھ اُترتا جا رہا ہے‘ سینے میں ایک ہیجانی سی کیفیت پیدا ہونے لگی اور اس کے بعد میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
 ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
 (مقالات خطیب اسلام ابوالکلام صاحب زادہ فیض الحسن رحمتہ اللہ علیہ ص۳۷)
ڈاکٹر عبدالمجید ملک نے علامہ محمد اقبال سے پوچھا کہ آپ حکیم الامت کیسے بن گئے ۔علامہ محمداقبال نے بلاتوقف فرمایا یہ تو کوئی مشکل نہیں آپ چاہیں تو آپ بھی حکیم الامت بن سکتے ہیں۔ ملک صاحب نے استعجاب سے پوچھا وہ کیسے ؟ تو علامہ اقبال نے فرمایا میں نے گن کر ایک کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھا اگر آپ بھی اس نسخہ پر عمل کریں تو آپ بھی حکیم الامت بن سکتے ہیں۔
درود شریف کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے:
صلی الله علی حبیبہ سیدنا محمد وآلہ وسلم
وضو کریں خوشبو لگائیں اور قبلہ رو دو زانو بیٹھیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بیداری یا خواب میں نصیب ہو چکی ہو تویہ تصور کریں کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سامنے موجود ہیں اور میں صلوٰة و سلام عرض کر رہا ہوں‘ نہایت تعظیم اور شان حضورو پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیشِ نظر حیا سے آنکھیں جھکی رہیں اور یہ یقین رہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھ رہے ہیں اور صلوٰة و سلام سن رہے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں اور اللہ کی ایک صفت یہ بھی ہے:
انا جلیس من ذکرنی۔
”یعنی میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے۔“
لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس صفت کا مظہر بنایا گیا لہٰذا آپ بھی اپنے ذکر کرنے والوں کے ہم نشین ہیں۔
اسی دن سے میرا معمول ہے کہ روزانہ پانچ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ الحمدلله اسی فیضان کا اثر ہے کہ میرے سینے میں عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سمندر موٴجزن ہے اور میں الحمدلله یقین کی حد تک اس امر کا قائل ہوں کہ واقعی اہل اللہ کی نظر کیمیا اثر ہوتی ہے اور ان کی توجہات کا فیضان قلب و نظر میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔
زیارت رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:
جو شخص جمعہ کی رات کو باوضو ہو کر پاکیزہ لباس پہن کر بعد از نمازِ عشا دو رکعت نماز پڑھ کر پچیس بار سورة اخلاص پڑھے گا اور پھر اس کے بعد مندرجہ ذیل درود شریف ایک ہزار مرتبہ پڑھے تو اس شخص کو ایک ہفتہ کے اندر اندر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوگی۔
صلی الله علی سیدنا محمد النبی الامی۔ (شفاالتوب ص۲۷۶)

####

درودِ شفا

اللھم صلی علی سیدنا محمد طب القلوب ودوآئھا وعافیة الابدان وشفآئھا ونور الابصار وضیآئھا وعلی الہ وصحبہ وسلم۔
ترجمہ: ” اے اللہ درود بھیج ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر جو دِلوں کے طبیب اور ان کی دوائیں جسم کے لیے عافیت اور ان کی شفا ہیں آنکھوں کا نور اور ان کی چمک ہیں اور آپ ﷺ کی آل اور اصحاب پر درود اور سلام بھیج۔“
خاصیت جسمانی و روحانی بیماریوں سے شفا:
امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس درود شریف کو ایک بار پڑھا جائے چھ لاکھ بار درود شریف پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
اللھم صل علی سیدنا محمد عدد مافی علم الله صلوة دآئمة بدوام ملک الله۔
ترجمہ: ”یااللہ درود بھیج ہمارے سردار محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر اس تعداد کے مطابق جو اللہ کے علم میں ہے ایسا درود جو اللہ تعالیٰ کے دائمی ملک کے ساتھ دوامی ہو۔“ (صلوٰة غوثیہ)
یہ درود شریف اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی بیاض سے لیا گیا ہے۔ درود شریف یہ ہے:
اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد معدن الجود والکرم والہ وبارک۔
ترجمہ: ”ہمارے سردار اور آقا کرم و سخا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پر درود برکت اور سلام بھیج۔“
درودِ جمعہ:
صلی الله علی النبی الامی والہ صلی الله علیہ وسلم صلاة وسلاما علیک یارسول الله۔
بعد نمازِ جمعہ مدینہ طیبہ کی طرف منہ کر کے دست بستہ کھڑے ہو کر سو بار پڑھیں جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو جمعہ کے دن صبح خواہ ظہر یا عصر کے بعد پڑھیں جو کہیں اکیلا ہو تنہا پڑھے یونہی عورتیں اپنے گھروں میں پڑھ سکتی ہیں اس کے چالیس فائدے ہیں جو صحیح اور معتبر حدیثوں سے ثابت ہیں۔
۱) اس کے پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ تین ہزار رحمتیں اُتارے گا۔
۲) اس پر دو ہزار بار اپنا سلام بھیجے گا۔
۳) پانچ ہزار نیکیاں اس کے نامہٴ اعمال میں لکھے گا۔
۴) اس کے پانچ ہزار گناہ معاف فرمائے گا۔
۵) اس کے پانچ ہزار درجے بلند کرے گا۔
۶) اس کے ماتھے پر لکھ دے گا کہ یہ منافق نہیں۔
۷) اس کے ماتھے پر تحریر فرمائے گا کہ یہ دوزخ سے آزاد ہے۔
۸) اللہ اسے قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔
۹) اس کے مال میں ترقی دے گا۔
۱۰) اس کی آل اولاد میں برکت دے گا۔
۱۱) دشمنوں پر غلبہ دے گا۔
۱۲) دِلوں میں محبت پیدا کرے گا۔
۱۳) کسی دن خواب میں برکت زیارتِ اقدس سے مشرف ہوگا۔
۱۴) ایمان پر خاتمہ ہوگا۔
۱۵) روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس سے مصافحہ کریں گے۔
۱۶) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اس کے لیے واجب ہوگی۔

####

حدیث شریف

ان الجنة تشتاق الی خمسة قاری القرآن وحافظ اللسان مسطعم الجیعان وملبس العریان ومن صلی علی حبیب الرحمن۔
ترجمہ: ”یعنی رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تحقیق جنت مشتاق ہو رہا ہے پانچ قوموں کے لیے۔ ایک قرآن شریف تلاوت کرنے والا‘ دوسرا اپنی زبان کو فضولیات سے روکنے والا‘ تیسرا بھوکوں کو کھانا کھلانے والا‘ چوتھا ننگوں کو کپڑا پہنانے والا اور پانچواں خدا کے محبوب پر درود بھیجنے والا۔
”قرآن شریف کی تلاوت کرنے والا“
جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک آفتاب سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے میں دوہرا ثواب ملتا ہے اور بغیر دیکھ کر پڑھنے میں ایک ثواب۔ چند چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے‘ قرآن پاک کعبہ معظمہ۔ ماں باپ کا چہرہ محبت سے اور عالمِ دین کی شکل دیکھنا عقیدت سے۔ قرآن کی تلاوت اور موت کی یاد دل کو اس طرح صاف کر دیتی ہے جیسے کہ زنگ آلود لوہے کو صیقل۔
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت کے دوران کسی سے کلام نہ فرماتے تھے اور اگر کلام کرنا پڑ جائے تو کلام کے دوران میں قرآن شریف بند رکھتے اور پھر بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتے۔
سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کو ختم کرتے وقت اپنے اہلِ قرابت کو جمع فرماتے اور دعا کرتے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اس وقت رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ جو قرآن پاک پڑھ کر حق تعالیٰ کی حمد کرے اور درود پڑھے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو رحمتِ الٰہی اس کو تلاش کرتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔ الم ایک حرف نہیں ہے بلکہ الف‘ لام‘ میم تین حروف ہیں فقط اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گی۔
فرمایا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میں تم میں دو چیزوں کو چھوڑے جا رہا ہوں جب تک انہیں پکڑ رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت۔
قرآن پاک کی تلاوت اور اس کی برکات اس وقت نصیب ہوتی ہیں جب پڑھنے والے کا تعلق صاحبِ قرآن سے ہو۔
مغز قرآں روح ایماں جان و دیں
ہست حب رحمت اللعالمین
زبان:
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے تین چیزوں زبان‘ دل اور شرم گاہ کی حفاظت کی میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو آدمی بغیر توشہ (نیک عمل) کے قبر میں گیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے دریا کا سفر بغیر کشتی کے کیا جائے یعنی جس طرح بغیر کشتی کے دریا میں ڈوبنے کا خدشہ لاحق رہتا ہے اسی طرح بغیر عمل کیے مر جانا بھی مصیبت میں ڈال دے گا۔

####

فضائل و ثمرات درود و سلام

درود و سلام کے فضائل اور ثمرات مختصراً درج کیے جاتے ہیں تاکہ برادرانِ دین ذوق و شوق سے بکثرت صلوٰة و سلام نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حضور عرض کرتے رہیں۔
۱) درود و سلام پڑھنے سے اللہ کریم کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ (قرآن مجید)
۲) درود و سلام پڑھنے میں اللہ تعالیٰ کی موافقت ہوتی ہے۔ (قرآن مجید)
۳) درود و سلام پڑھنے میں فرشتوں کی موافقت ہوتی ہے۔ (قرآن مجید)
۴) درود و سلام پڑھنے والے کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
(س ص۵۷)
۵) جو ایک بار درود پڑھے اللہ کریم اس پر دس بار رحمت بھجتا ہے۔ (م‘ ج ص۴۰)
۶) جمعرات اور جمعہ کو فرشتے درود شریف چاندی کے صحیفوں میں سونے کے قلم سے لکھتے ہیں۔ (ص ص۵۷)
۷) جو ایک بار سلام عرض کرے‘ اللہ تعالیٰ اس پر دس سلام بھیجتا ہے۔ (۱۸)
۸) درود و سلام پڑھنے سے بھولی ہوئی چیز یاد آ جاتی ہے۔ (کنز۱لعمال ص۳۵۳)
۹) اللہ کریم درود شریف پڑھنے والے کو دس نیکیاں عطا فرماتا ہے۔ (ج ص۱۴۹)
۱۰) اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔ (ج ص۲۹)
۱۱) اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے۔
۱۲) اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے۔ (ترمذی اوّل)
۱۳) اللہ کریم فرماتا ہے کہ اے حبیب! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جو مسلمان آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایک بار درود بھیجتا ہے میرے فرشتے اس پر دس بار درود بھیجتے ہیں۔
۱۴) جمعہ کے روز کثرت سے درود پڑھنے والا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوگا۔ (طبرانی)
۱۵) جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن درود شریف پڑھنے والے کی سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں‘ ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی۔ (بیہقی)
۱۶) جو درود شریف پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحمت بھیجتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حضور سلام عرض کرتا ہے‘ اللہ کریم اس پر سلام بھیجتا ہے۔ (ص ص۶۱)
۱۷) دعا سے پہلے‘ درمیان اور آخر میں درود و سلام پڑھنے کا حکم ہے اس سے دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ (کنز العمال )
۱۸) درود و سلام پڑھنے سے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (کنزاوّل)
۱۹) کثرت سے درودو سلام پڑھنا مسلمان کو قرب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ (کنزالعمال)
۲۰) بندے کے دنیوی اور آخرت کے اہم معاملات میں درود وسلام کفایت کرتا ہے۔ (کنزالعمال)
۲۱) درود و سلام تنگ دستی دُور کرتا ہے۔ (۱۵۵)
۲۲) درود و سلام پڑھنے والا پاک ہو جاتا ہے۔ (س ص۵۸)
۲۳) صلوٰة و سلام پڑھنے والے کو فوت ہونے سے پہلے جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔
۲۴) بکثرت درودو سلام پڑھنا قیامت کی ہولناکیوں سے نجات کا باعث بن جاتا ہے۔ (س ص۸۴)
۲۵) درود و سلام پڑھنے والے پر نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جواب فرماتے ہیں۔
۲۶) درود و سلام سے مجلس مزین ہو جاتی ہے۔ (س ص۶۷)
۲۷) محتاجی دُور ہو جاتی ہے۔
۲۸) بخل مٹ جاتا ہے اور بدبختی دُور ہو جاتی ہے۔
۲۹) جو شخص ہر روز پچاس بار درود شریف پڑھتا ہے قیامت کے دن فرشتے اس سے مصافحہ کریں گے۔
۳۰) سیدھی راہ چلا جاتا ہے۔
۳۱) درود و سلام پل صراط پر بہت زیادہ نور ملنے کا ذریعہ ہے۔
۳۲) اللہ کریم درود خواں کی اچھی صفت آسمان اور زمین والوں میں بیان کرتا ہے۔
۳۳) درود خواں کے دل میں رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق زیادہ ہوتا جاتا ہے۔
۳۴) درود و سلام پڑھنے والا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب ہو جاتا ہے۔
۳۵) درود و سلام پڑھنے سے دل زندہ ہو جاتا ہے اور ہدایت کا باعث بن جاتا ہے۔
۳۶) درود و سلام پڑھنے والے کا نام اور اس کے باپ کا نام نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا جاتا ہے۔
۳۷) صلوٰة و سلام پل صراط پر ثبات قدمی اور پار چلے جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
۳۸) درود شریف پڑھنے سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق میں سے کچھ حق ادا ہو جاتا ہے۔
۳۹) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ صلوٰة و سلام پڑھنے سے اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت کا قدرے شکریہ ادا ہو جاتا ہے۔
۴۰) جس مجلس میں درود و سلام پڑھا جائے اس مجلس والوں پر قیامت کے روز کوئی حسرت نہیں ہوگی۔ (س ص۸۰‘ لواقح)
۴۱) صلوٰة و سلام پڑھنے والے کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (س ص۸۰‘ لواقح)
۴۲) اس کے نامہٴ اعمال میں احد پہاڑ کے برابر ثواب لکھا جاتا ہے۔
۴۳) رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے روز اس کی گواہی دیں گے۔
۴۴) دس بار درود پڑھنے والے سے اللہ راضی ہوگا۔ (حفض ص۴۷)
۴۵) اللہ کریم کے عذاب سے امان ہوگی۔ (س ص۴۹)
۴۶) بکثرت درود شریف پڑھنے والے کو عرشِ الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا۔
۴۷) حشر میں نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا۔ (فض ۴۷)
۴۸) حوضِ کوثر پر جانا نصیب ہوگا۔
۴۹) پل صراط سے چمکنے والی بجلی کی طرح گزر جائے گا۔
۵۰) پیاس کی تلخی سے محفوظ ہوگا
۵۱) موت سے پہلے اپنا جنت والا گھر دیکھ لے گا۔
۵۲) درود و سلام کا ثواب بیس غزوات (جہادوں) کے ثواب سے زیادہ ہے۔
 (کنزالعمال ص۵۲)
۵۳) درود شریف کی برکت سے مال بڑھ جاتا ہے۔
۵۴) درود و سلام عبادت ہے اور اللہ کریم کے نزدیک تمام اعمال سے زیادہ محبوب ہے۔
۵۵) درود و سلام پڑھنا اہلِ سنت کی نشانی ہے۔ (انوارقدسیہ)
۵۶) اس سے مجلس معطر ہو جاتی ہے۔ (فض ص۴۸)
۵۷) بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ (فض۴۸)
۵۸)درود شریف پڑھنے والا خود بھی اور اس کی اولاد بھی اس سے نفع حاصل کرتی ہے۔
۵۹) اس سے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔
۶۰) درود و سلام پڑھنے والے کی قبر میں نور آ جاتا ہے۔
۶۱) حشر میں درود خواں کے لیے نور ہوگا۔
۶۲) دشمنوں پر فتح ملتی ہے۔
۶۳) نفاق اور میل کچیل سے دل پاک ہو جاتا ہے۔
۶۴) اس سے تمام مومن آپس میں محبت کرنے لگ جاتے ہیں اور منافق جلتے رہتے ہیں۔
۶۵) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت خواب میں نصیب ہوتی ہے۔
۶۶) کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بیداری میں ہونے لگتی ہے۔
۶۷) درود خواں کی ذات‘ عمل‘ عمر اور اس کی بھلائیوں کے اسباب میں برکت ہوتی ہے۔
۶۸) صلوٰة و سلام پڑھنے والے کی شفاعت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضرور فرمائیں گے۔
۶۹) صبح و شام جو شخص دس دس بار ہر روز درود شریف پڑھا کرے گا‘ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت پائے گا۔
۷۰) جو شخص سو بار درود و سلام پڑھے اللہ کریم اس کی پیشانی پر نفاق سے پاک ہو جانا اور دوزخ سے بَری ہو جانا لکھ دیتا ہے۔
۷۱) جو مومن سو بار درود و سلام پڑھے اللہ کریم اس کو سو شہیدوں کے ساتھ جنت میں جگہ دے گا۔
۷۲) جو ایک بار درود و سلام پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر بار رحمت بھیجتے ہیں۔
۷۳) درود و سلام پڑھنے والے کے لیے دو فرشتے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے دعا پر آمین کہتے ہیں۔ (طبرانی)
۷۴) درود شریف کی مجلس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت چھا جاتی ہے اور جو گناہ گار بھولا بھٹکا اس مجلس میں تماش بینی کے طور پر شامل ہو جائے‘ وہ بھی محروم نہیں رہتا۔ (ص۴۰)
۷۵) نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خود درود و سلام کا جواب دیتے ہیں۔ (ابوداؤد)
۷۶) ایک بار درود و سلام پڑھنے والے کا درود و سلام قبول ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اسی سال کے گناہ مٹا دیتا ہے۔
۷۷) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر جب اُمتی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس بار سلام بھیجتا ہے۔
۷۸) ایک بار درود شریف پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے دس دس بار صلوٰة بھیجتے ہیں۔
۷۹) پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا گناہوں کو اس سے زیادہ مٹا دیتا ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰة وسلام عرض کرنا گردن آزاد کرنے سے زیادہ افضل ہے۔
۸۰) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے کتاب میں میرے نام کے ساتھ درود شریف لکھا‘ فرشتے اس کے لیے بخشش مانگتے رہیں گے جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے گا۔
۸۱) نماز میں درود شریف نہ پڑھا جائے تو نماز کامل نہیں ہوتی۔ (ابن ماجہ‘ جوہر)
۸۲) جو شخص جمعہ کے روز نمازِ عصر کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے مندرجہ ذیل درودوسلام اسی بار پڑھے اس کے اسی سال کے گناہ بخشے جائیں اور اس کے حساب میں اسی سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے۔
اللھم صلی علی سیدنا محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما۔

####

محبت

سنا ہے کہ ایک شخص نے بُری صورت کو جنگل میں دیکھ کر پوچھا:
”تو کون؟“
اس نے جواب دیا:
”تیرا ہی بُرا عمل “۔ تجھ سے نجات کی کوئی صورت؟
اس نے جواب دیا:
”ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا۔“
آقائے نامدار مدنی تاجدار ختم رسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”میرے اوپر درود بھیجنا پل صراط کے لیے نور ہے جو مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اسی سال کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔“
درود کا منکر:
ایک آدمی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں بھیجتا تھا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی اس شخص نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے ناراض ہیں اسی لیے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ نہیں فرمائی؟ آپ نے جواب دیا: نہیں میں تجھے پہچانتا ہی نہیں اس نے عرض کی حضور! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ مجھے کیسے نہیں پہچانتے؟ علماء کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے امتیوں کو ان کی ماں سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علماء نے سچ اور درست فرمایا لیکن تو نے مجھ پر درود نہ بھیج کر اپنی یاد نہیں دِلائی۔ میرا اُمتی جتنا مجھ پر درود بھیجتا ہے اسے اتنا ہی میں پہچانتا ہوں یہ بات اس شخص کے دل میں اُتر گئی اس نے روزانہ ایک سو مرتبہ درود پڑھنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہوا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اب تجھے پہچانتا ہوں اور تیری شفاعت کروں گا اس طرح سے وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا محب بن گیا۔ حکمِ ربانی ہے:
قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں کو دعوتِ اسلام دی اس پر انہوں نے جواباً کہا کہ ہم تو اللہ کے بیٹوں کی طرح ہیں اور اس سے بہت محبت کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کہا آپ انہیں فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع داری کرو۔ میں اللہ کا رسول اور پیامبر ہوں میں اس کا پیغام اور حجت بن کر آیا ہوں۔ میری اتباع میں اللہ تمہیں محبوب جانے گا اور وہ غفور و رحیم ہے وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔
مومنو! اصل محبت اللہ کے احکام پر چلنا ہے اس کی عبادت کریں اس کی رضا جوئی حاصل کریں۔ اللہ کی مومنوں سے محبت یہ ہے کہ اجر عطا فرمائے اور ان کے گناہ معاف کر دے‘ اپنی رحمت سے انہیں نوازتے ہوئے عزت عطا فرمائے۔
جو شخص چار چیزوں کو چھوڑے بغیر ان چار چیزوں کا دعوے دار ہو وہ جھوٹا ہے۔
۱) جو جنت کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر نیکی نہیں کرتا۔
۲) جو شخص نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اعلان کرتا ہے مگر علماء اور صلحاء کو دوست نہیں رکھتا۔
۳) جو آگ سے ڈرنے کا دعوے دار ہے مگر گناہ نہیں چھوڑتا۔
۴) جو شخص اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے مگر تکالیف پر شکوہ کرے۔
حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتی ہیں    #
تعصی الا لہ وانت تظھر حبہ
وھل رأیت محبا غیر سکران
اے میرے مولا تیری محبت کی یاد نے مجھے بے خود بنا دیا کیا تو نے کسی ایسے محب کو دیکھا ہے جو مدہوش نہ ہو۔
کہا جاتا ہے کہ جب اونٹ مست ہو جاتا ہے تو چالیس دن تک وہ گھاس وغیرہ کچھ نہیں کھاتا اور اس پر پہلے سے دوگنا بوجھ لاد دیا جائے تو وہ بھی اُٹھا لیتا ہے کیونکہ اس کا دل اپنے محبوب کی یاد میں تڑپتا ہے نہ کہ چارے کی خواہش میں۔
جب اونٹ اپنے محبوب کی یاد میں اپنی خواہشات کو چھوڑ دیتا ہے کیا تو نے بھی کبھی اپنی ناجائز خواہشات کو چھوڑا ہے کیا کبھی کھانا پینا بند کیا ہے‘ کیا اپنے وجود پر کبھی بارگراں ڈالا ہے؟ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارا اظہارِ اُلفت کرنا بالکل جھوٹ ہے‘ یہ تمہیں دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا کیونکہ یہ خالق کو پسند نہیں ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:
”جو جنت کا امیدوار ٹھہرا اس نے نیکیوں میں جلدی کی جو جہنم سے ڈرا اس نے اپنی ناجائز خواہشات سے منہ موڑ لیا جسے موت کا یقین آ گیا وہ لذاتِ دنیا سے کنارہ کش ہو گیا۔“
حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اللہ علیہ سے محبت کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
”محبت نام ہے ارادوں کو ختم کر دینے‘ تمام صفتوں اور حاجتوں کو مردہ کر دینے اور اپنے وجود کو اشارات کے سمندر میں ڈبو دینے کا۔“

عشق و محبت

محبت کی تعریف:
کسی پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا نام محبت ہے اگر اس میں شدت ہو تو اسے عشق کہا جاتا ہے‘ یہ ترقی کرتی رہتی ہے اس میں عاشق معشوق کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ مال و دولت ہر چیز اس پر قربان کر دیتا ہے۔ زلیخا کو لیجیے اس نے اپنا حسن‘ مال و دولت سب کچھ حضرت یوسف علیہ السلام پر قربان کر دیا اس کے لعل و موتی ستر اونٹوں کے بوجھ کے برابر تھے جسے حضرت یوسف علیہ السلام کے نام پر قربان کر دیا۔ وہ آپ کی ذات کے سوا سب کچھ بھول گئی حتیٰ کہ اسے آسمان کے ہر ستارے میں یوسف کا نام نظر آنے لگا۔
مجنوں کا نام لیلیٰ:
کسی نے مجنوں سے پوچھا:
”تمہارا نام کیا ہے؟“ بولا ”لیلیٰ“ کسی نے کہہ دیا لیلیٰ مر گئی اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو میرے دل میں ہے‘ میں ہی لیلیٰ ہوں۔
مجنوں کا ایک دن لیلیٰ کے مکان کے قریب سے گزر ہوا وہ ستاروں کو دیکھتے ہوئے گزرنے لگا۔ کسی نے کہا لیلیٰ کے گھر کی طرف دیکھو شاید تجھے وہ نظر آ جائے اس نے کہا میرے لیے لیلیٰ کے گھر کے اوپر چمکنے والے ستارے کی زیارت ہی کافی ہے۔
محبت کی ابتدا اور انتہا:
منصور حلاج کو قید میں جب اٹھارہ دن ہوئے تو شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے جا کر دریافت کیا:
”منصور محبت کیا ہے؟“
اس نے کہا یہ سوال کل پوچھنا۔
دوسرے دن اسے مقتل کی طرف لے جا رہے تھے تو شبلی کو دیکھ کر کہا ”محبت کی ابتدا جلنا اور انتہا قتل ہو جانا۔“
اشارہ:
منصور نے جب اس رمز کو پا لیا۔
الاکل شی ماخلا الله باطل۔
”اللہ کی ذات کے سوا ہر شے باطل ہے۔“
ذاتِ الٰہی حق ہے تو وہ اپنا نام تک بھول گیا کسی نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ تو جواب دیا میں حق ہوں۔
متنبیٰ میں ہے محبت کا صدق تین چیزوں سے ظاہر ہوتا ہے‘ محب محبوب کی باتوں کو سب سے اچھا سمجھتا ہے اس کی مجلس سب سے بہتر اور اس کی رضا سب پر ترجیح ہوتی ہے۔
عشق پردہ داری اور رازوں کو افشا کرتا ہے۔ وجد ذکر کی لطافت کے وقت روح کا غلبہ شوق کا بار اُٹھانے سے عاجز ہوتا ہے اگر وجد کے وقت انسان کا بازو بھی کٹ جائے تو اسے محسوس نہیں ہوتا۔
حکایت:
ایک آدمی دریائے فرات میں نہا رہا تھا اس نے کسی کو یہ آیت پڑھتے سنا:
وامتازوا الیوم ایھا المجرمون۔
”اے مجرمو! آج علیحدہ ہو جاؤ۔“
یہ سنتے ہی وہ تڑپنے لگا اور ڈوب گیا۔
محمد بن عبداللہ بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے بصرہ میں ایک بلند مقام پر کھڑے نوجوان کو یہ کہتے سنا جو عاشقوں کی موت مرنا چاہے اسے اس طرح مرنا چاہیے کیونکہ عشق میں موت کے بغیر مزہ نہیں یہ کہہ کر نیچے چھلانگ لگا دی اور مر گیا۔ لوگوں نے جب اسے اُٹھایا تو وہ مر چکا تھا۔ جناب جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
”تصوف اپنی پسند کو ترک کر دینے کا نام ہے۔“
حکایت:
”زہر الریاض“ میں حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے ایک واقعہ اس طرح درج ہے کہ آپ نے خانہ کعبہ کے ستون کے نزدیک ایک برہنہ نوجوان کو دیکھا جس کا دل رو رہا تھا آپ لکھتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا:
”کون ہو؟“
اس نے کہا ”عاشق“
اس نے مجھ سے دریافت کیا تو کون ہے؟ میں نے کہا تیری ہی طرح کا عاشق۔ وہ رو پڑا‘ اسے روتا دیکھ کر میں نے بھی رونا شروع کر دیا اس نے چیخ ماری اور اس کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے اس پر کپڑا ڈالا اور کفن لینے کے لیے چلا آیا‘ واپسی پر دیکھا تو وہاں وہ موجود نہ تھا اس پر میرے منہ سے آواز نکلی ”سبحان اللہ“ اس پر ندا آئی اے ذوالنون اس کی زندگی میں اسے شیطان اور مالک دوزخ نے ڈھونڈا مگر پا نہ سکے۔ رضوان نے بھی ڈھونڈا مگر تلاش نہ کر سکا پھر وہ کہاں ہے جواب آیا:
ھو فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔
ترجمہ: ”اپنے عشق اور کثرتِ عبادت اور توبہ کی وجہ سے وہ اپنے قادر اللہ کے حضور پہنچ گیا۔“
عاشق کی پہچان:
کسی شیخ سے عاشق کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا عاشق وہ ہے جو میل میلاپ سے دُور ہو اور تنہائی پسند ہو‘ غوروفکر میں ڈوب کر خاموش رہے جب تلاش کیا جائے تو نہ ملے جب بلایا جائے تو نہ سنے جب بات کریں نہ سمجھے جب مصیبت آئے تو غم زدہ نہ ہو‘ نہ بھوک اور نہ برہنگی کا احساس کرے نہ کسی کی دھمکیوں سے مرعوب ہو۔ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے التجائیں کرے اس کی رحمت سے محبت رکھے نہ کہ دنیا کے لیے دنیا والوں سے جھگڑا کرے۔
ابوتراب بخشی رحمتہ اللہ علیہ علاماتِ عشق بیان کرتے ہیں:
لاتخذ من فلل حبیب دلائل
ولد من دیہ تخف الحبیب وسائل
دھوکہ نہ دے اس لیے کہ محبوب کے پاس دلائل اور عاشق کے پاس محبوب کے تحفوں کے وسائل ہیں۔
منھا تنعمہ بمر بلائہ
وسرورہ فی کل ماھو فاعل
ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی سخت آزمائش سے لطف اندوز ہوتا ہے اور محبوب جو کچھ کرتا ہے اس پر وہ خوش ہوتا ہے۔
فالمنع منہ عطیئة مقبولة
والعقر اکرام وبر عاجل
اس کی طرف منہ کرنا بھی عطیہ ہے اور فقر اس کی عزت افزائی اور ایک فوری نیکی ہے۔
ومن الدلائل ان تریف فی عزمہ
طوع الحبیب وان الح العاذل
ایک علامت یہ ہے کہ وہ محبوب کی اطاعت کا پختہ ارادہ رکھتا ہے اگرچہ ملامت کرنے والے ملامت کرتے رہیں۔
ومن الدلائل ان یری متبسما
والقلب فیہ من الحبیب بلائل
ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے مسکراتا ہوا ہی پاؤ گے اگرچہ اس دل میں محبوب کی محبت کی آگ سلگ رہی ہوتی ہے۔
ومن الدلائل ان یریٰ متفھما
لکلام من یخطی لدیہ السائل
ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے خطاکاروں کی گفتگو سمجھتا ہوا پاؤ گے۔
ومن الدلائل ان یرین متقشفا
متحفظا من کل ماھو قائل
ایک اور علامت یہ ہے کہ تم اسے ہر اس کا نگہبان پاؤ گے جو وہ کہتا ہے۔
حکایت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک باغ کے پاس سے گزرے وہاں ایک نوجوان باغ کو پانی دے رہا تھا اس نے آپ سے کہا آپ اللہ سے عشق کا ایک ذرہ مجھے عطا کرا دیجیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا وہ بہت زیادہ ہے تم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ نوجوان نے کہا اچھا آدھا ہی سہی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی اور اللہ نے عطا کر دیا۔ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے ایک مدت کے بعد پھر وہاں آئے تو دیکھا نوجوان غائب ہے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ! اس نوجوان سے میری ملاقات کرا دے۔ وہ نوجوان آیا اور آسمان کی طرف تکتا رہا۔ آپ کے سلام کا نہ جواب دیا‘ نہ گفتگو کی مگر خاموش رہا اس پر وحی نازل ہوئی اے عیسیٰ! جس کے دل میں میری محبت کا آدھا ذرہ موجود ہو وہ لوگوں کی کیسے سنے گا اگر اسے آری سے دو ٹکڑے بھی کر دیا جائے تو یہ نہیں بولے گا۔
 جب کوئی شخص تین باتوں کا کہے اور ان سے پاک نہ رہے وہ جھوٹا ہے:
۱) جو شخص ذکر اللہ کی خدمت کا دعوے دار ہو اور طالبِ دنیا ہو۔
۲) اپنے اعمال کے اخلاص کا اعلان کرے اور لوگوں سے عزت افزائی کا طالب ہو۔
۳) اپنے خالق سے دعویٰ محبت بھی ہو اور اپنے نفس کی پرورش بھی کرے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے میری اُمت پر ایک وقت آئے گا جب کچھ افراد پانچ چیزوں سے محبت کریں گے اور پانچ کو بھول جائیں گے۔
۱) دنیا سے محبت اور آخرت فراموش
۲) مخلوق سے محبت اور مگر خالق فراموش
۳) مخلوق سے محبت اور یومِ حساب فراموش
۴) گناہوں سے محبت اور توبہ سے غافل
۵) مکانوں سے محبت اور قبرفراموش
حضرت منصور بن عمار رحمتہ اللہ علیہ نے ایک نوجوان کو یوں نصیحت فرمائی:
اے نوجوان! تجھے جوانی دھوکے میں نہ ڈالے کتنے جوان ایسے تھے جنہوں نے توبہ کو پسِ پشت ڈال کر اپنی امیدوں کو طویل کر لیا۔ موت کو بھلا دیا یہ سوچتے رہے کہ کل توبہ کر لیں گے پرسوں توبہ کر لیں گے حتیٰ کہ موت نے آ لیا وہ اندھیری قبر میں جا سوئے نہ انہیں مال نے نہ غلاموں نے نہ اولاد نے اور نہ ہی ماں باپ الغرض کسی نے بھی کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ اللہ کا فرمان ہے:
لاینفع مال ولابنون الا من اتی الله بقلب سلیم۔
اس دن احوال اور اولاد کچھ فائدہ نہ دیں گے۔ اے رب ذوالجلال ہمیں موت سے پہلے توبہ کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں خوابِ غفلت سے ہوشیار فرما اور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے باریاب فرما۔ آمین!
مومن کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر گھڑی توبہ کرتا ہے اور اپنے سابقہ گناہوں پر شرمسار رہتا ہے۔ تھوڑی سی متاع دنیا پر راضی اور دنیاوی مشاغل کو بھول کر آخرت کی فکر اسے دامن گیر ہوتی ہے اس کے ساتھ خلوصِ قلب سے اللہ کی عبادت کرتا رہے۔

####



ایک بخیل منافق

ایک منافق انتہائی بخیل تھا اس نے اپنی بیوی سے عہد لیا کہ اگر تو نے کسی کو کچھ دیا تو میری طرف سے طلاق۔ ایک دن وہ گھر موجود نہ تھا‘ سائل نے اللہ اور رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کے نام پر سوال کیا۔ بیوی نے تین روٹیاں اسے دے دیں۔ وہ جانے لگا تو بخیل آ گیا اس نے بیوی سے کہا کسی سائل کو کچھ نہیں دینا۔ بیوی نے کہا اس نے اللہ کے نام پر سوال کیا میں رد نہ کر سکی۔ کنجوس نے تنور بھڑکایا اور بیوی سے کہا اللہ کے نام پر اس میں داخل ہو جا وہ زیورات پہن کر اس میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو گئی۔ وہ بخیل چلایا زیورات چھوڑتی جا اس نے کہا آج محبوب سے ملاقات کا دن ہے‘ بن سنور کر جاؤں گی‘ وہ تنور میں اُتر گئی اس نے اوپر ڈھکنا دے دیا۔ تیسرے دن دیکھا صحیح سالم بیٹھی ہوئی ہے۔ غیب سے آواز آئی تجھے معلوم نہیں کہ آگ ہمارے دوستوں کو نہیں جلاتی۔
آسیہ کا ایمان:
آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا ایمان اپنے شوہر فرعون سے چھپایا ہوا تھا۔ فرعون کو پتہ چلا تو اس نے میخیں منگوا کر اس کے جسم میں گڑوا کر کہا اب بھی وقت ہے اپنا عقیدہ چھوڑ دے۔ حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم میرے وجود پر قادر ہو لیکن میرا دل میرے رب کی پناہ میں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب وہاں سے گزرے تو آسیہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کیا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں اور اللہ تیرے کارناموں پر فخر کرتا ہے۔ سوال کر کہ تیری حاجت پوری ہو۔ آپ نے دعا کی‘ اے میرے رب! مجھے اپنی رحمت سے جنت میں جگہ دے اور فرعون کے ظلم سے نجات دے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا جب لوگ ہٹ جاتے تو فرشتے اس پر سایہ فگن رہتے اور وہ جنت میں اپنا گھر دیکھتی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب فرعون نے آسیہ کو دھوپ میں لٹا کر میخیں ان کے جسم میں گڑوائیں اور ان کے سینہ پر چکی کے پاٹ رکھوا دیئے تو آپ نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر دعا کی:
رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة۔
ترجمہ: ”اے میرے رب! میرے لیے اپنی رحمت سے جنت میں مکان بنا۔“
جناب حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ اس دعا کے طفیل اللہ تعالیٰ نے آسیہ رضی اللہ عنہ کو فرعون کے عذاب سے نجات دِلا کر جنت میں جگہ دی جہاں وہ ذی حیات ہے۔
یہ حکایت واضح کرتی ہے کہ مصائب اور تکالیف میں اللہ سے پناہ طلب کرنا‘ اس سے مانگنا اور سوال کرنا مومنین اور صالحین کا طریقہ ہے۔

####

محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

حکمِ الٰہی ہے:
قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله۔
”اے میرے رسول! آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو‘ اللہ تمہیں محبوب رکھے گا۔“
اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے یہ جان لو بندے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہی اس کی اطاعت ہے۔بندہ جب اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ کمالاتِ حقیقی صرف اللہ ہی کے لیے ہیں اور مخلوق کے کمالات بھی درحقیقت اللہ کے کمالات ہیں اور اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں تو اس کی محبت اللہ کے ساتھ اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس بندہ کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے۔ یہی محبت میں اضافہ کا باعث ہے اس بناء پر محبت کو اطاعت کے ارادوں کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ کی عبادت کو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تابع داری کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کچھ لوگوں نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور اطاعتِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم محبتِ الٰہی کا موٴجب بنی۔
بشر حافی کا مقام:
حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”بشر حافی جانتے ہو اللہ نے تجھے اپنے ہم عصروں پر بلند مقام کیوں عطا کیا۔“ عرض کیا ”نہیں“ آپ نے فرمایا اس لیے کہ تم نیکوں کی خدمت کرتے ہو‘ دوستوں کو نصیحت کرتے ہو‘ میری سنت اور اہلِ سنت سے محبت کرتے ہو‘ اپنے دوستوں سے حسنِ سلوک روا رکھتے ہو۔“
ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔“
شرعة الاسلام اور آثار مشہورہ میں ہے کہ جب مذہب میں فتنے پیدا ہو جائیں اور مخلوق میں پراگندگی رونما ہو جائے اس وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا ثواب سو شہیدوں کے اجر کے برابر ہے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”میری تمام اُمت جنت میں جائے گی ماسوا اس کے جس نے انکار کیا۔“
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اتباع کی وہ جنتی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے انکار کیا۔ ہر وہ عمل جو میرے طریقے کے مطابق نہیں وہ گناہ ہے۔
ایک عارف کا قول ہے: اگر تو کسی پیر کو ہوا میں اُڑتا‘ پانی پر چلتا‘ آگ وغیرہ کھاتا دیکھے لیکن وہ اللہ کے کسی فرض اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی کسی سنت کا تارک ہو تو وہ جھوٹا ہے اس کا دعویٰ محبت باطل اس کی کرامت شعبدہ بازی ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”کوئی شخص بھی اللہ تک اس کی توفیق کے بغیر نہیں پہنچتا اور اللہ تک پہنچنے کا راستہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تقلید اور اطاعت ہے۔“
حضرت احمد الحواری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ:
”اتباع سنت کے بغیر ہر عمل باطل ہے۔ شرعة الاسلام فرمانِ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جس نے سنت کو ضائع کیا اس پر میری شفاعت واجب نہیں۔“
اللہ کا عاشق:
ایک شخص نے ایک دیوانے سے ایک ایسا عمل سرزد ہوتے دیکھا جو توقع کے خلاف تھا۔ وہ معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ کہہ سنایا۔ آپ نے جواب دیا‘ اللہ کے بہت سے عاشق ہیں کہ کچھ چھوٹے بڑے‘ عاقل دیوانے جس کو تم نے دیکھا‘ وہ اللہ کا عاشق دیوانہ تھا۔
حکایت:
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے پیرومرشد حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ بیمار ہوگئے‘ ہمیں ان کی بیماری کے اسباب کا پتہ نہ چل رہا تھا‘ ہمیں کسی حکیم حاذق کا پتہ ملا۔ ہم ان کا قارورہ اس حکیم کے پاس لے گئے وہ حکیم کچھ دیر توجہ سے دیکھتا رہا پھر بولا یہ کسی عاشق کا قارورہ نظر آتا ہے۔ یہ سنتے ہی میں بے ہوش ہو گیا اور بوتل میرے ہاتھ سے گر پڑی جب واپس آ کر میں نے حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ سے حال کہہ سنایا تو آپ نے تبسم فرما کر فرمایا اسے اللہ سمجھے اسے کیسے معلوم ہوا؟ میں نے پوچھا کیا محبت کے اثرات پیشاب میں بھی ظاہر ہوتے ہیں؟ فرمایا ”ہاں“
حضرت فضیل رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے: جب تجھ سے کوئی پوچھے تو اللہ سے محبت کرتا ہے تو چپ ہو جا اگر تو نے نفی میں جواب دیا تو وہ کفر ہوگا اگر ہاں کہا تو تیرے اندر عاشقوں جیسی کوئی صفت موجود ہی نہیں لہٰذا تو جھوٹا سمجھا جائے گا۔ بس خاموشی اختیار کرو اور ناراضگی سے بچ جا۔
جناب سفیان رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
”جو شخص اللہ کے دوست کو دوست رکھتا ہے وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے جو اللہ کا احترام کرنے والے کا احترام کرتا ہے وہ یقینا اللہ کا احترام کرتا ہے۔“
حضرت سہل رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
”اللہ کی محبت کی نشانی قرآن کی محبت ہے۔ حب اللہ اور حب قرآن کی نشانی حب نبی ہے‘ حب نبی کی نشانی نبی کی سنت سے محبت ہے‘ حب سنت کی نشانی آخرت کی محبت ہے‘ آخرت کی محبت دنیا سے بغض کا نام ہے اور دنیا سے بغض معمولی مال دنیا پر قناعت اور آخرت کے لیے دنیا کو خرچ کرنا ہے۔“
واذکروا الله ذکرا کثیرا وسجوہ یکرة واصیلا۔
ترجمہ: ”اللہ کا تم بہت زیادہ ذکر کرو اور اس کی تسبیح صبح و شام بیان کرو۔“
حکایت:
حضرت عبداللہ اور احمد بن حرب ایک جگہ اکٹھے تھے وہاں احمد بن حرب نے خشک گھاس کا ٹکڑا کاٹا۔ حضرت عبداللہ نے کہا تجھے پانچ چیزیں حاصل ہو گئی ہیں یہی تیرے فعل سے تیرا دل اللہ کی تسبیح سے غافل ہوا۔ نفس کو ماسوا اللہ کے دوسرے کاموں کی عادت ڈالی۔ اپنے نفس کے لیے راستہ بنایا ہے اب وہ تیرے پیچھے پڑے گا تو نے نفس کو اللہ کی تسبیح سے روکا‘ قیامت کے دن اسے اللہ کے حضور پیش ہوتے وقت ایک حجت مل گئی۔
حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے شیخ جرجانی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس پسے ہوئے ستو دیکھے ان سے پوچھا ستو کے علاوہ اور کچھ کیوں نہیں کھاتے؟ انہوں نے جواب دیا میں نے کھانا کھانے اور ستو پینے میں ستر تسبیحوں کا اندازہ لگایا ہے اس لیے چالیس سال سے ستو کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تاکہ تسبیحوں کا وقت ضائع نہ ہو۔
حضرت سہل بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ پندرہ دن میں ایک مرتبہ اور ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ کھاتے۔ بعض اوقات ستر دنوں تک کچھ نہ کھاتے جب کھانا کھاتے تو کمزور ہو جاتے جب بھوکے رہتے تو طاقت ور ہو جاتے۔
حضرت ابوحماد الاسود رحمتہ اللہ علیہ تیس برس کعبہ کے مجاور رہے مگر کسی نے کھاتے پیتے نہ دیکھا اور نہ ہی وہ ذکر اللہ سے غافل ہوئے۔
حکایت:
حضرت عمرو بن عبیداللہ رحمتہ اللہ علیہ تین کاموں کے علاوہ کبھی گھر سے نہ نکلتے تھے۔ نماز باجماعت‘ مریضوں کی عیادت اور جنازوں میں شرکت۔ ان کا فرمان ہے میں نے لوگوں کو چور اور راہزن پایا۔ عمر ایک عمدہ جوہر ہے جس کی قیمت کا تصور نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس سے آخرت کا خزانہ حاصل کرنا چاہیے۔ آخرت کے لیے دنیا میں ریاضت اس لیے ضروری ہے کہ ظاہر اور باطن ایک ہو۔ ظاہر اور باطن پر اختیار کے بغیر حالت سنبھالنا مشکل ہے۔
حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ریاضت کی ابتدا میں جب مجھے نیند تنگ کرتی تو میں نمک کی سلائی آنکھوں میں پھیر لیتا جب زیادہ غلبہ کرتی تو گرم سلائی آنکھوں میں لگاتا۔
حضرت ابراہیم بن حاکم کا قول ہے کہ میرے والد محترم کو جب نیند آنے لگتی تو وہ دریا کے اندر اتر کر اللہ کی تسبیح کرتے جسے سن کر دریا کی مچھلیاں اکٹھی ہو جاتیں اور مل کر تسبیح کرتیں۔
حضرت وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ نے نیند اُڑائے جانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ چالیس برس تک نیند نہ آئی انہوں نے تمام راتیں عبادت میں گزاریں۔
حضرت حسن حلاج رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے جسم کو تیرہ جگہوں سے بیڑیوں میں جکڑ رکھا تھا اس حالت میں وہ دن رات ہزار نفل ادا کرتے۔
جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ ابتدا میں اپنی دُکان پر جاتے اس میں پردہ ڈال کر چار سو نفل ادا کر کے لوٹ آتے۔
حضرت حبشی بن داؤد نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی۔
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ہمیشہ باوضو رہے اگر وضو ٹوٹ جائے تو فوراً وضو کر لے اور دل میں اس تصور کو جاگزیں کرے کہ وہ حضور کے روضہٴ اقدس کی جالی کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ دُکھ برداشت کرے‘ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہ دے‘ گناہوں سے توبہ کرے‘ ریاکاری سے خود کو محفوظ رکھے‘ استغفار کرتا رہے جو شخص نیکوں کے احترام کو نہیں جانتا‘ اللہ تعالیٰ ان کی صحبت سے محروم کر دیتا ہے جو عبادت گزاروں کی عزت نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کے دل کو عبادت کی لذت سے محروم کر دیتا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ سے سوال:
آپ سے سوال کیا گیا اے ابوعلی! آدمی نیک کب ہوتا ہے آپ نے جواب دیا ۔
 جب اس کی نیت میں نصیحت‘ دل میں خوف‘ زبان پر سچائی اور اس کے اعضاء سے اعمالِ صالحہ کا صدور ہوتا ہے۔
شبِ معراج حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تمام لوگوں سے پرہیز گار بننا پسند ہے تو دنیا سے بے رغبت اور آخرت سے رغبت کیجیے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کی یارب العالمین! دنیا سے بے رغبتی کیسے ہو؟ فرمانِ الٰہی ہوا دنیا کے مال سے بقدرِ ضرورت کھانے اور پینے اور پہننے کی چیزیں لے لیجیے اور کل کے لیے ذخیرہ نہ کیجیے اور ہمیشہ میرا ذکر کرتے رہیے۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا ذکر کو ہمیشگی دوام کیسے ہو؟ جواب ملا لوگوں سے علیحدگی اختیار کیجیے۔ نماز اور بھوک کو اپنی غذا بنایئے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے دنیا سے بے رغبتی جسم و جان کی تازگی ہے‘ دنیا سے راغب ہونا غم و اندوہ میں فراوانی پیدا کرنا ہے‘ دنیا کی محبت ہر بُرائی کی جڑ ہے اور کنارہ کشی ہر خیروبرکت کی جڑ ہے۔
بیمار دل کا علاج:
ایک مرد صالح ایک معالج کے قریب سے گزرا جو بیماروں کو دیکھ رہا تھا اس نے کہا تیرے پاس دل کا بھی علاج ہے؟ وہ بولا بتاؤ دل میں کیا بیماری ہے؟ نوجوان نے کہا گناہوں کی ظلمت نے اسے سخت کر دیا ہے۔ معالج نے کہا اس کا علاج صبح و شام گریہ و استغفار‘ اپنے گناہوں کی معافی کی طلب اور اللہ کی اطاعت۔ دوا تو یہ ہے مگر شفا اللہ کے پاس ہے اس مرد صالح نے کہا بے شک تم اچھے طبیب ہو۔
دوآقاؤں کی خدمت:
ایک شخص نے ایک غلام خریدا‘ غلام نے غلامی میں آنے سے قبل تین شرطیں طے کیں:
۱) جب نماز آئے ادائیگی سے نہیں روکنا۔
۲) دن کو جو چاہو کام لو مگر رات کو نہیں۔
۳) ایسا کمرہ دو جس میں میرے سوا کوئی اور نہ آئے۔
مالک نے شرائط مان لیں۔ غلام نے گھر میں خراب سا کمرہ اپنے لیے منتخب کر لیا۔ مالک نے پوچھا‘ یہ کمرہ کیوں پسند کیا؟ غلام نے جواب دیا یہ کمرہ اللہ کے ہاں چمن ہے۔ غلام دن کو اپنے مالک کی خدمت اور رات کو مالکِ حقیقی کی عبادت کرتا۔ ایک رات مالک نے دیکھا کہ اس غلام کے سر پر نورانی قندیل روشن ہے اور کمرہ منور ہے اور غلام سربسجود ہے۔ صبح ہوئی اور قندیل غائب ہو گئی اس نے سارا ماجرا بیوی سے بیان کیا کہ نوکر کی یہ دعا بھی تھی کہ اگر میں غلام نہ ہوتا‘ رات دن عبادت کرتا‘ دوسری رات مالک اور مالکہ نے اکٹھے اس نورانی قندیل کو دیکھا اور غلام کو آزاد کر دیا۔ غلام نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا کر کہا:
یاصاحب السر ان السر قد ظھرا
ولا ارید حیاتی بعد ما شتھرا
اے صاحبِ راز! راز ظاہر ہو گیا اب میں راز کے ظاہر ہونے پر شہرت کی زندگی نہیں چاہتا۔ اے الٰہی! اب مجھے موت دے دے۔
اور گر کر مر گیا۔ واقعی صالح عاشق ایسے ہی ہوتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام سے دوست کی فرمائش:
زہر الریاض میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دوست آپ سے کہنے لگا میرے لیے اللہ سے دعا کر دیجیے کہ مجھے معرفت عطا ہو۔ آپ کی دعا کرنے سے ایسا ہوا آپ کا وہ دوست آبادی چھوڑ کر جنگلوں میں چلا گیا۔ آپ نے اللہ سے دعا کی ”وہ میرا دوست کہاں گیا؟“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اے موسیٰ! جو مجھے صحیح معنوں میں پہچان لیتا ہے‘ وہ مخلوق کی دوستی کبھی نہیں پسند کرتا لہٰذا وہ غائب ہوا۔“
روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام اکٹھے بازار جا رہے تھے‘ ایک عورت نے زور سے انہیں ہٹایا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کہا رب کی قسم! مجھے اس کا پتہ نہیں چلا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا‘ آپ کا بدن تو میرے ساتھ ہے مگر دل کہاں ہے؟ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا اے خالہ کے بیٹے! اگر میرا دل ایک لمحہ کے لیے بھی غیراللہ کی طرف ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے رب کو پہچانا ہی نہیں۔
کہا گیا ہے کہ سچی معرفت یہ ہے کہ انسان دنیا اور آخرت کو چھوڑ کر صرف اللہ کا ہو جاتا ہے۔ وہ شراب الفت کا ایسا جام پی کر اللہ کے دیدار کے بغیر ہوش میں نہیں آتا ایسا شخص ہی صاحبِ ہدایت ہے۔
رب العالمین نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے ایک ذرہ اپنی محبت کا ہمیں بھی عطا فرمائے۔ آمین!

####

قرآنی نکات اور حدیثِ مبارکہ سے اللہ والوں کی شان

وقال انی ذاھب الی ربی سیھدین۔(پارہ۲۳ سورة الصفت)
ترجمہ: ”اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب وہ مجھے راہ دے گا۔“
تفسیر:
معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا کے لیے کہیں ہجرت کرنا‘ رب کی طرف جانا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مہاجر ہو کر شام کی طرف تشریف لے گئے تھے اور فرمایا کہ میں رب کی طرف جا رہا ہوں یہاں ہدایت سے مراد‘ ہجرت گاہ کی طرف رہبری ہے۔
یبنی اذھبوا فتحسو من یوسف واخیہ ولاتایئسوا من روح الله۔
ترجمہ: آئے میرے بیٹو۔ جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔“
تفسیر:
معلوم ہوا کہ تلاشِ محبوب کے لیے سفر کرنا سنتِ انبیاء ہے۔
یعقوب علیہ السلام نے بچوں کو تلاش یوسف علیہ السلام کے لیے سفر کا حکم فرمایا لہٰذا بزرگانِ دین سے ملاقات کے لیے سفر خواہ ان کی زندگی میں ہو یا بعد وفات عرس میں شرکت کی غرض سے بھی۔ تلاش محبوب کے لیے ضروری ہے ۔
قل سیروا فی الارض ثم انظروا کیف کان عاقبة المکذبین۔ (یوسف:۸۷)
ترجمہ: ” آپ ﷺ فرمادیں ۔ زمین میں سیر کرو پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔“
تفسیر:
یہاں زمین سے مراد وہ زمین ہے جہاں پچھلی قوموں پر عذاب آیا اور اب تک وہاں اُجڑی بستیوں کے آثار موجود ہیں اور یہ امر ترغیب کے لیے ہے اس سے معلوم ہوا کہ خوفِ الٰہی پیدا کرنے کے لیے عذاب والی جگہ جا کر سفر کر کے دیکھنا بہتر ہے۔
لہٰذا رب کی رحمت دیکھنے کے لیے بزرگوں کے آستانے پر جہاں رب کی رحمتیں برستی ہیں‘ جا کر دیکھنا بھی بہتر ہے تاکہ رب تعالیٰ کی اطاعت کا شوق دل میں پیدا ہو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمانی قوت حاصل کرنے کے لیے سفر کرنا باعثِ ثواب ہے۔
شفاعتی اھل الکبائر من امتی۔ (ترمذی)
ترجمہ: ”میری شفاعت تو مرتکب کبائر کے لیے ہے۔“
یشفع یوم القیامة ثلثة الانبیاء ثم العماء ثم الشھداء۔ (ابن ماجہ)
ترجمہ: ”یعنی تین گروہ شفاعت کریں گے۔ انبیاء علیہ السلام‘ علمائے کرام اور شہداء“
(نوٹ) اس حدیث پاک میں علماء ربانین کا درجہ نبیوں کے بعد اور شہیدوں سے پہلے بیان کیا گیا۔

####

غوث زماں قطب دوراں گنج کرم حضرت کرماں والے رحمتہ اللہ علیہ

گنج کرم حضرت پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ فیروزپور کے نواحی قصبے کرمو والا کے ایک سادات گھرانے میں پیدا ہوئے‘ بچپن میں ہی والد کا سایہٴ شفقت سر سے اُٹھ گیا‘ تین بھائیوں میں آپ منجھلے تھے۔
ابتدائی تعلیم پرائمری سکول‘ سلطان خان والا سے حاصل کی جبکہ دینی تعلیم ایک روحانی شخصیت میاں رحمت علی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ دارالعلوم نعمانیہ اندرونی ٹیکسالی گیٹ لاہور اور جلال پور شریف میں بھی حصولِ علم کے لیے مقیم رہے۔ دہلی اور سہارن پور کے جید علماء سے فیض اور علوم حاصل کیے۔ حضرت مولانا شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مرشد کے وصال کے بعد فیروز پور چھاؤنی میں چلے گئے وہاں ایک مجذوب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ایک ٹھیکری دے کر آپ کو شرقپور شریف حضرت غوث زماں میاں شیرمحمد ربانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے کہا چنانچہ آپ بے پناہ مشکلات سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے شرقپور پہنچے جہاں حضرت میاں شیرمحمد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ سے ایسا لذیذ شربت پلایا کہ آپ کا سینہ مزید روشن ہو گیا۔ بعدازاں خلافت بھی عطا فرمائی اور نمازِ جمعہ کی امامت کرنے کی ہدایت فرمائی۔ غائب سے آپ کی بے پناہ مدد فرمائی۔ رفتہ رفتہ کرموں والا گاؤں اور گردونواح کے علاقوں میں آپ کے عقیدت مندوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ فریدکوٹ کا مہاراجہ آپ کا اس لیے معتقد تھا کہ اس کی والدہ کو آشوبِ چشم کا لاحق مرض آپ کی دعا سے ٹھیک ہو گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد آپ اہلِ خانہ سمیت ہجرت کر کے قصور شہر میں تشریف لے آئے۔ عارف والا کے نزدیک چک نمبر۱۵۷ ای بی میں کچھ عرصہ مقیم رہے۔ پاکپتن کی عیدگاہ میں بھی آپ کا ایک سال تک قیام رہا یہاں سے آپ ۱۹۵۰ء میں اوکاڑہ کے نزدیک سادہ چک میں مستقل رہائش پذیر ہو گئے جس کا نام آپ کی مناسبت سے ہی حضرت کرماں والا مشہور ہو گیا۔ آپ کی برکتوں سے یہاں ریلوے سٹیشن‘ ڈاک خانہ اور دیگر تمام سہولتیں خودبخود دوڑی چلی آئیں۔ عقیدت مندوں کا حلقہ اس قدر وسیع ہو گیا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرید اور عقیدت مند نظر آنے لگے۔ آپ نے اپنے مریدوں کے بارے میں یہ کہا کہ اگر میرے مریدوں کو اپنی شان کا پتہ چل جائے تو وہ خوشی سے مر جائیں۔
۱۹۶۰ء کے لگ بھگ آپ کو پیشاب کا مرض لاحق ہو گیا‘ علاج معالجے کے سلسلے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کئی مرتبہ لاہور کے میو ہسپتال میں قیام پذیر رہے لیکن مرض بڑھتا چلا گیا۔ بالآخر ۲۰ جنوری ۱۹۶۶ء بروز جمعرات تین بج کر پینتالیس منٹ پر آپ رحمتہ اللہ علیہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ بلاشبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ولیٴ کامل اور روحانی طبیب تھے۔ آپ بتانے سے پہلے ہی عقیدت مندوں کے دُکھ جان لیتے تھے اور آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حد مقبول ہوتے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اوکاڑہ شہر سے چار میل کے فاصلے پر شمال کی سمت واقع ”حضرت کرماں والا“ میں ہی مدفن ہوئے۔
من عاد لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: ”یعنی جو میرے کسی ولی کو ایذا دے وہ اللہ سے جنگ کرتا ہے۔“
اولیائے کرام کے مراتب عالیہ اور مدارج رضیہ کی کوئی حد نہیں پس جو ایمان دار ان کو دوست رکھے گا اور ان کے ساتھ محبت سے پیش آتا رہے گا وہ حسبِ ارشاد:
مناحب شیأیذکرہ کثیرا المرء مع من احب

####

ذاتی مشاہدات

میں اشرف المدارس اوکاڑہ میں بحرالعلوم مفسر القرآن استاد العلماء مولانا غلام علی اوکاڑوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس پڑھتا تھا۔ حضرت کرمانوالی سرکار غوث زماں قطب الاقطاب (پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ) کی خدمت میں کئی بار حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک دن مغرب تک وہیں رہا اور حضرت قبلہ کی ملاقات کے لیے حویلی کے اندر جانے کا قصد کیا مگر آپ کے خادم نے روک دیا کہ یہ ملاقات کا وقت نہیں لیکن میں موقع پا کر حویلی کے اندر چلا گیا اس وقت حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ چہل قدمی فرما رہے تھے۔ میں ایک صف پر دوزانو بیٹھ گیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یونہی بیٹھے بیٹھے واپسی میں دیر ہو جائے گی۔ یہ بھی خیال آیا کہ آج اچھا موقع ہے اگر حضرت کرمانوالی سرکار بندہ ناچیز کو اپنا مرید بنا لیں تو اچھا رہے گا۔ چنانچہ میں کھڑا ہو گیا تو حضرت قبلہ نے فرمایا بیلیا! تو میرا روزِ ازل ہی سے مرید ہے۔ آپ روشن ضمیر تھے۔ مجھے نمازِ تہجد اور درودشریف کے متعلق ارشاد فرمایا۔ بندہٴ ناچیز نے حصولِ علم کے لیے درخواست کی کہ کرم فرمائیں آپ نے میرے سینہ اور پشت پر دست شفقت پھیرا اور تھپکی دی کہ تمہیں جملہ علوم حاصل ہوں گے اور تم ایک عالم باعمل اور صالح مرد بنو گے اور تمہارا سینہ روشن ہوگا۔ یہ آپ کا فیض ہے اور نظر کرم۔
روحِ محفوظ است پیش اولیاء
آنچہ محفوظ است محفوظ از خطاء
(مولانا رومی)
کشف:
ایک مرتبہ میں قاری سخی محمد کے ہمراہ اوکاڑہ سے حضرت کرمانوالہ شریف آپ کی قدم بوسی کے لیے آیا۔ اندازاً بارہ بجے دن کا وقت تھا‘ ہم آپ کی نورانی مجلس میں بعداز سلام موٴدب بیٹھ گئے۔ تھوڑے عرصہ بعد آپ نے بیلیوں سے فرمایا کہ تم سب کو اجازت ہے۔ ہمیں فرمایا کہ آپ دونوں بیٹھے رہیں۔ آپ نے قاری صاحب کو نعتِ رسول مقبول پڑھنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ بندہٴ ناچیز دستی پنکھا لے کر آپ کو جھلنے لگا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ آج اگر حضرت قبلہ نظرکرم فرمائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ آپ استراحت فرما رہے تھے‘ کچھ دیر بعد یوں محسوس ہوا کہ آپ سو گئے ہیں۔ قاری صاحب نے جو ہدیہ نعت پیش کر رہے تھے‘ خاموشی اختیار کی۔ میں بدستور پنکھا جھلتا رہا۔ اسی اثناء میں آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ”سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی شان ہے“ پھر قاری صاحب سے فرمایا ”تمہیں سات دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی“ قاری صاحب نے عرض کیا حضور! چھ مرتبہ“ سرکار قبلہ نے فرمایا ”ایک دفعہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نقاب اوڑھے ہوئے زیارت کرائی تھی“ قاری صاحب نے کہا ”حضور! آپ نے درست فرمایا“ حضور کرمانوالی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”یہ تمہار ے پیر صاحب کا فیض ہے“ اور فرمایا ”تم سرکار گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید ہو“ اس کے بعد مجھے فرمایا ”تم ابھی تک پنکھا جھل رہے ہو‘ جو کچھ میرے دل میں تھا‘ آپ نے ازخود ہی ارشاد فرما دیا ”کہ یہ ایک عالم ہوگا‘ سینہ روشن ہوگا اور عمر دراز ہوگی۔“
بندگانِ خاص علام الغیوب
درجہان جاں جواسیس القلوب
واپسی پر دورانِ سفر قاری سخی محمد صاحب نے فرمایا کہ جیسے پہلے زمانے میں اولیاء اللہ ہوتے تھے‘ وہی شان حضرت کرمانوالے سرکار کی ہے۔ حضرت تکوینی اولیاء اللہ میں سے ہیں۔ حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”فتوح الغیب“ میں فرماتے ہیں کہ بندہ کو جب قربِ الٰہی حاصل ہو جاتا ہے تو رب العزت اسے اذا ارادا شیئا ان یقول لہ کن فیکون کی کرسی پر بٹھا دیتا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ میں ہری پور ہزارہ تاج الاولیاء حضرت چھور شریف والوں کے عرس مبارک پر حاضر ہوا وہاں حضرت مولانا فتح دین صاحب چشتی رحمتہ اللہ علیہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ میں چشتیاں شریف عرس کے موقع پر ہر سال حاضر ہوتا ہوں۔ ایک مرتبہ عرس مبارک سے فارغ ہو کر چشتیاں شریف سے سیدھا گولڑہ شریف سلطان اولیاء حضرت غلام محی الدین صاحب المعروف بابو جی رحمتہ اللہ علیہ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ حضرت بابوجی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”مولوی جی! چشتیاں شریف میں حضرت کرمانوالہ سے ملاقات کی تھی (کیونکہ حضرت کرمانوالے سرکار ہمیشہ عرس کے موقع پر چشتیاں شریف جاتے ہیں) مولانا صاحب نے عرض کیا ”نہیں“ اس پر حضرت بابوجی سرکار نے فرمایا ”حضرت کرمانوالے شاہ صاحب اس زمانہ کے قطب ہیں کیونکہ میں ان کو ہر صبح اور ہر شام کی نمازیں کئی برسوں سے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں ادا کرتے دیکھتا ہوں۔ مولانا فتح دین صاحب نے بتایا کہ بعدازاں میں حضرت کرمانوالہ شریف حضرت قبلہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا تو آپ سرکار مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ”اب حضرت بابوجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے فرمانے پر آپ آئے ہیں پہلے چشتیاں جانے کے لیے ہمارے پاس سے ہی گزر جاتے تھے اور ملاقات نہ کرتے تھے۔ ”اللہ اکبر!“
تصرف:
مولانا نور محمد نقشبندی جو حزب الاحناف لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور آپ کا شمار حضرت کرمانوالے سرکار کے خادمین میں ہوتا ہے۔ بیان فرماتے ہیں میرے دل میں حج بیت اللہ شریف اور زیارتِ مدینہ منورہ کی تمنا ہرہ وقت موٴجزن رہتی اور گڑگڑا کر دعائیں کرتا رہتا۔ ایک دن حضرت کرمانوالے سرکار کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض کی ”حضور! میرے لیے حج بیت اللہ کے لیے دعا فرمائیں“ ہر چند کہ آپ ہاتھ اُٹھا کر دعا نہ فرماتے تھے اور صرف یہی فرمایا کرتے تھے جا بیلیا! خیر ہو جائے گی۔ ”رب کریم رحم فرمائے گا“ مگر اس عاجز کے لیے ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی۔
۱۹۵۶ء کی بات ہے بندہ بالکل بے سروسامان تھا‘ زادِ راہ بالکل نہ تھا۔ کراچی شہر میں نو ماہ امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ انٹرنیشنل پاسپورٹ بنوا لیا۔ پھر بغداد شریف کربلا شریف بیت المقدس سے ہو کر مدینہ منورہ پہنچا۔ دو ماہ مکہ معظمہ میں گزارے پھر ریاض کویت سے ہوتا ہوا چار ماہ کے بعد واپس کراچی پہنچا۔ گویا ایک سال کے بعد گھر واپس آیا۔ یہ حضرت کرمانوالی سرکار کا کرم تھا جنہوں نے اتنا طویل سفر بغیر روپیہ پیسہ کے کروا دیا    #
گفتہء او گفتہء اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
ترجمہ : اس ( اللہ کے ولی ) کا کہا اللہ کیا ہوتاہے ۔ اگرچہ اللہ کے بندے کے گلے سے نکلے الفاظ ہوتے ہیں ۔
امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہ حدیث شریف کی شرح فرماتے ہیں۔
وکذلک العبدا ذواظب علی الطاعات بلغ الی المقام الذی یقول الله کنت لہ سمعا وبصرا فاذا صار نور جلال الله سمعالہ سمع القریب والبعید واذا صار ذلک النور بصر الہ رای القریب والبعید واذ صار ذلک النوریدالہ قدر علی التصرف فی الصعب واسھل والبعید والقریب۔
ترجمہ: ”یعنی بندہ جب عبادت کی ہمیشگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی سمع اور اس کی بصر ہو جاتا ہوں تو جب اللہ تعالیٰ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جائے تو وہ قریب اور دُور کی بات سن لیتا ہے اور جب یہ نور اس کی بصر میں ہو جائے تو وہ قریب اور دُور کی چیز کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہ نور اس کا ہاتھ ہو جائے تو وہ مشکل اور آسان‘ دُور اور نزدیک پر قادر ہو جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر امام فخرالدین رازی جلد۵ صفحہ۶۸۹۶۸۸ طبع مصر)
خلوص اور محبت:
ایک دفعہ میں حضرت قبلہ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ آپ کیکر کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا ”حضور! بیعت کا کیا مطلب ہے؟“ آپ قبلہ نے اس عاجز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرا مولوی بتائے گا مگر میں جب کچھ دیر خاموش رہا تو اس بیلی نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم اس پر آپ جلال میں آ گئے اور فرمایا ”میرا مولوی ہو اور اس کو (بیعت کے متعلق) معلوم نہ ہو“ اس کے بعد آپ نے بیعت کے متعلق بڑی وضاحت سے بیان فرمایا:-
ہاتھ ہے اللہ کا  بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین کارکشا کارساز
اسی دوران ایک اور شخص حاضر ہوا اور اس نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ میں نے شکرقندی کا ٹھیکہ لیا ہے‘ دعا فرمائیں کہ اس ٹھیکہ میں خاطر خواہ منافع بھی ہو۔ آپ نے پوچھا پھر ہمارے لیے کیا لاؤ گے؟ اس شخص نے عرض کیا کہ آپ کے لیے شکرقندی لاؤں گا اس پر آپ نے فرمایا ”پھر تو ضرور دعا کرنا پڑے گی۔“ اس کے بعد آپ نے یہ شعر ارشاد فرمایا:
الفت نبی کریم کی میرے دل میں آ رہی ہے
میں تن من وار دیواں میرے جی میں آ رہی ہے
معلوم ہوا کہ اولیا ء اللہ کا ہر کام اخلاص اور محبت پر مبنی ہوتا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قل ان صلاتی ونسکی ومحیالی ومماتی للہ رب العالمین (پارہ۸ سورة الانعام آیت۱۶۲)
ترجمہ :آپ ﷺ فرما دیجیئے بے شک میری نماز میری قربانی میری زندگی اور موت موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔
یہ شان ہے ہمارے قبلہ عالم کی آپ زمانہ کے قطب پیشوا امام طریقت تھے۔ اسرار علوم ظاہری و باطنی میں یکتائے روزگار اور عارف کامل تھے۔ بڑے بڑے علماء فضلاء آپ کے سامنے مجال سخن نہ رکھتے تھے۔
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
آپ کا مقام:
ایک مرتبہ مولانا محمد حسن نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ پاک پتن نے جو کہ حضرت خواجہ پیر محمد اکبر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مرید ہیں‘ مجھ سے ذکر کیا کہ ایک مرتبہ صاحب زادہ غلام نقشبند (جو محلہ پیرگریاں پاکپتن کے سجادہ نشین ہیں) اور حضرت صاحب ٹاہلیاں شریف والے (نزد جہلم جو زیادہ تر آزادکشمیر میں رہتے ہیں اور بڑی باکمال ہستی ہیں) دونوں حضرات اکٹھے لاہور آ رہے تھے۔ راستے میں جب حضرت کرمانوالہ شریف پہنچے تو حضرت صاحب ٹاہلیاں شریف والے نے خواجہ غلام نقشبند کو کار میں ہی چھوڑا اور خود حضرت کرمانوالے سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر گئے‘ کچھ ہی دیر بعد واپس آ گئے‘ کچھ دیر بعد پھر واپس چلے گئے اس طرح تین مرتبہ کیا گیا اور پھر کار میں بیٹھ کر لاہور کی طرف چل پڑے۔ حضرت غلام نقشبند نے حضرت ٹاہلیانوالے صاحب سے دریافت فرمایا کہ مزار شریف سے واپس آنے کے بعد دودفعہ جانے اور آنے میں کیا راز سربستہ تھا؟ اس پر ٹاہلیانوالی سرکار نے فرمایا کہ مزار پر پہلی حاضری کے وقت حضرت قبلہ تلاوتِ قرآن مجید فرما رہے تھے‘ میں واپس چلا آیا۔ دوسری دفعہ گیا تو پھر بھی تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے اس لیے میں نے تلاوتِ قرآن مجید کے دوران مخل ہونا پسند نہ کیا۔ تیسری دفعہ گیا تو آپ دعا فرما رہے تھے لہٰذا دعا میں شمولیت کر کے واپس آ گیا۔
اس واقعہ سے حضرت قبلہ کی شان کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ اولیائے کرام دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:
الا ان اولیاء الله لایموتون بل ینتقلون داراالبقاء ۔ (مشکوٰة شریف)
ترجمہ: ”سن لو اولیائے اللہ مرتے نہیں بلکہ فانی دنیا سے ہمیشہ رہنے والی دنیا کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔“
جب شیخ کی صحبت سے دُور ہو تو اس کی صورت کو اپنے خیال میں محبت اور تعظیم کے ساتھ تصور کر کے استفادہ کیا کرو اس کو رابطہ شیخ یا تصور شیخ کہتے ہیں اس سے دل کے وساوس‘ خیالات دُور ہوتے ہیں۔
اشریعة کا لسنتہ والطریقة کاالبحر والعقیة
کاالتصرف والمعرفة کالدرمن اراد لدر فرکب علی سفینة
۱۔ توکل:
توکل کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے سارے کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیئے جائیں۔
۲۔ معرفتِ الٰہی:
معرفتِ الٰہی یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو اللہ کے حضور میں حاضر و قائم رکھے۔
۳۔ مراقبہ:
مراقبہ یہ ہے کہ بندہ کو علم ہو کہ میرا پروردگار میرے حال سے واقف ہے۔
۴۔ مجاہدہ:
مجاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی خواہشات کی مخالفت کی جائے۔

####

تصورِ شیخ

تصورِ شیخ ذکر سے افضل ہے یعنی مرشد کو نگاہ میں رکھنا اور خیال میں یاد کرنا تصور کہلاتا ہے اور یہ امر مرید کے لیے سب سے زیادہ بمقابلہ ذکر مفید اور مناسب تر ہے کیونکہ مرید کے لیے جنابِ الٰہی کی طرف واصل ہونے کا یہی ایک ذریعہ ہے اور صحیح وسیلہ ہے جوں جوں مرید کا تعلق اور نسبت مرشد کے ساتھ زیادہ ہوتی جائے گی اسی قدر باطن میں اس کو فیض بڑھتا جائے گا اور تھوڑی مدت میں وہ اپنے مطلوب تک انشاء اللہ تعالیٰ پہنچ جائے گا۔ پس مرید پر لازم ہے کہ وہ مرشد میں فنا ہو جانے کی کوشش کرے اگر ذاتِ مرشد میں فنا ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا۔
شریعت اور حقیقت اہلِ طریقت کے لیے دو اصطلاحات ہیں۔ شریعت تو ظاہری ا عمال اور مال کو ظاہر کرتی ہے اور حقیقت باطن کے احوال کی صحت اور ہونے یا نہ ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ آج کل شریعت اور طریقت کے قائل اور متبع دو الگ الگ گروہ ہیں۔ ایک تو ظاہری علماء ہیں جو شریعت کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔
دوسرا گروہ ملحدوں کا ہے جو حقیقت کو جائز او رصحیح سمجھتا ہے اور اسی کو روا رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقت سمجھ میں آ گئی تو شریعت اُٹھ گئی اور یہ عقیدہ کلام متشبہ قرامط موساساں‘ حلولیوں‘ اتحادیوں وغیرہ کا ہے حالانکہ حقیقت کتنی ہی قوت سے منکشف کیوں نہ ہو بجز شریعت حقیقت کا منکشف ہونا قطعی ناممکن ہے کیونکہ حقیقت تو شریعت پر مکمل طور پر انحصار کرتی ہے بلکہ سنت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر عملدرآمد کر کے نورِ باطنی پا لینے کا نام ہے۔
شریعت کسی بھی حالت میں کسی شخص سے خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو‘ ساقط نہیں ہو سکتی اور اس کی تعمیل ہر حالت میں فرض ہے۔
پس حقیقت سے مراد باطنی اور حقیقی صفات کی تکمیل اور تزکیہ قلب اور مخالفت نفس مراد ہے جو تصوف یا حقیقت کا بنیادی منشاء ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے فنا ہونے تک اس حکم میں تغیرو تبدل نہیں ہو سکتا بلکہ حصولِ اخلاص کے لیے ہمیشہ لازم رہے گا کیونکہ اخلاص بھی حسنِ نیت کے بغیر ناممکن ہے پس یہی حقیقت ہے۔
اور دوسری شریعت یہ بندہ کے افعال اور اعمالِ ظاہر ہیں چونکہ حقیقت خداوند تعالیٰ کی نگہداشت توفیق رہنمائی اور عفت و حفاظت کا نام ہے لہٰذا وجودِ حقیقت کا قیام شریعت کے بغیر محال ہے اور اسی طرح شریعت کا قیام حقیقت کی روحانی اور اخلاقی آداب بجا لانے کے بغیر محال ہوگا اور اسی طرح شریعت کا قیام حقیقت کے روحانی اور اخلاقی آداب بجا لانے کے بغیر محال ہو گا اس کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے کوئی شخص جب تک کہ روح اس کے جسم میں باقی دوام رہتی ہے۔ وہ زندہ ہے واجب القدیم ہے مگر وہ علیحدہ ہو جاتی ہے تو بے جان بلکہ مردار ہو جاتا ہے لہٰذا شریعت اور حقیقت جسم ایمان و انسان کے لیے بمنزلہ روح و جسم کے ہیں۔

####

منزل کا حصول

اگر یہ چار چیزیں (۱)مرشد کامل (۲)مرید پر پیشوا کی شفقت (۳)رحمتِ الٰہی (۴)مرید کو پیشوا کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طلب انسان میں شاملِ حال ہوں تو بہت جلدی مراتب طے کر سکتا ہے۔
مجاہدہ:
حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مجاہدے کا یہ حال تھا کہ کوئی لمحہ ساعت ایسی نہ تھی جو یاد اللہ سے خالی ہو‘ ہر وقت کوئی نہ کوئی ذکر یا درود شریف زبان فیض ترجمان سے جاری رہتا تھا یا مراقبہ اور تسبیحین فرماتے رہتے۔
ذکر:
ایک روز حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے برابر کوئی شے نہیں ہے۔ یہ ادنیٰ اعلیٰ ذات کو نہیں دیکھتا جو اس کو مضبوطی سے پکڑے اسی کو پاک بنا دیتا ہے۔ ایک روز ارشاد فرمایا کہ سانس کا لینا ہی خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور ہر نعمت کے بدلہ میں شکر کرنا ضروری ہے اور فقیروں کے نزدیک سب سے بڑا اور سب سے مقدم شکر ذکر کرنا ہے او ریہی معنی ہیں۔ فاذکرونی اذکرکم ”بندو! تم مجھے یاد کرو‘ میں تمہیں یاد کروں گا۔“
دن رات میں انسان چوبیس ہزار سانس لیتا ہے اس میں یہ فائدہ ہے کہ دنیا کے کاموں اور بات چیت وغیرہ دوسرے مشغلوں میں جو سانس ضائع ہوتے ہیں اور ان میں ذکر خدا نہیں ہوتا اور ہمارے ذمہ ہر سانس پر ذکر کرنا فرض تھا جو خالی گزر گئے تھے جس طرح کہ نماز قضا ہو جاتی ہے اور اس کا دوسرے وقت میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح فقیروں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی یاد فرض ہے تو جو سانس اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت میں گزرے ہم اس کی اس طرح قضا کرتے ہیں جس طرح تم نماز قضا کرتے ہو۔
ایک مرتبہ بندہٴ ناچیز قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ حضرت مولانا درویش علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو اور بندہٴ ناچیز کو حضرت صاحب (گنج کرم) نے فرمایا کہ یہ چارپائی دیوار کے پاس رکھو اور فرمایا کہ تم دونوں قبلہ رو ہو کر بیٹھ جاؤ پھر ہم قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے تو حضرت صاحب نے فرمایا” میں قطب الاقطاب میاں شیرمحمد شرقپوری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ مجھے آپ نے اندر کمرہ میں بلا کر اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور میں نے آپ کی سادگی اور جلال دیکھا تو مجھے رونا آ گیا۔ آپ نے فرمایا خیراے اور فرمایا کہ رب العالمین نے چار بزرگوں کو بڑا مقام عطا فرمایا ہے۔
۱) حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
۲) بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ
۳) اور ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کو اور چوتھے کا نام نہیں لیا تو میں نے عرض کی چوتھے آپ ہیں۔
تین مرتبہ فرمایا اب اس وقت کون ہوگا اب پتہ نہیں کون ہے۔ میں نے عرض کی حضور آپ ہیں آپ نے خاموشی جاری رکھی‘ وہ ایسا مبارک وقت تھا کہ مجھے اور حضرت مولانا درویش علی شاہ صاحب کو بڑی سرکار کی قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک مرتبہ بندہٴ ناچیز اور حضرت محبوب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ علی پور شریف والے حاضر خدمت ہوئے۔ وہ درس میں میرے ساتھ پڑھتے تھے۔ میرے دوست تھے اور میرے ساتھ بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں گنج کرم کا مرید بن کے آپ کا پیربھائی بننا چاہتا ہوں جب حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے دیکھا اور فرمایا کہ میرا پیر آ گیا ہے۔ انہوں نے بھی حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے قدم چومے اور بندہٴ ناچیز نے بھی۔ دو مرتبہ یہ سعادت نصیب پائی۔ ایک مرتبہ آپ کے دستِ مبارک چومنے کا شرف بھی حاصل ہوا پھر ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تجھے ولی نہ بنا دیں۔ میں نے عرض کی حضور آپ مجھے مولوی بنا دیں۔ فرمایا بیلیو۔ نکو مولوی کملا اے ۔کہتا ہے مجھے مولوی بنا دو‘ ولی نہ بناؤ۔ یہ رب العزت کا احسان اور آپ کا کرم ہے کہ مجھے کئی مرتبہ آپ کے قدم دبانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یہ تحدیث نعمت کے لیے ہے ورنہ میں تو ایک ذرہ ناچیز ہوں یہ آپ کی شفقت کا ہی نتیجہ ہے۔
واقعات:
بندہٴ ناچیز محمد عنایت احمد اور سید گلزار الحسن شاہ صاحب زیارت نبی الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو حضورِ پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مسجد نبوی شریف میں حضرت علامہ سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔ انہوں نے حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ قطب زماں کرماں والوں کو یہ کرامت سنائی۔ فرماتے ہیں ” میں بچہ ہی تھا کہ مجھے میرے والد گرامی مناظر اسلام حضرت مولانا محمد عمر صاحب رحمتہ اللہ علیہ اچھروی گنج کرم علیہ الرحمتہ کی بارگاہ میں مجھے لے کر گئے اور حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کی کہ دعا فرمائیں کہ میرا بیٹا قرآن کا حافظ بن جائے اسی دوران ایک شخص حضرت گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بوندی کی ایک ٹہنی توڑ کر لایا تو اس میں سے حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے چند دانے تناول فرمائے اور بقیہ دانے میرے والد صاحب کو عطا فرما دیئے اور فرمایا کہ اس میں کتنے دانے ہیں تو میرے والد صاحب نے کہا کہ سات دانے ہیں فرمایا کہ وہ مجھے (اپنے بیٹے) کو کھلا دیں۔ انشاء اللہ عزیز نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ سے یہ بھی قرآن کا حافظ ہوگا اور چھ اس کے بیٹے بھی قرآن کے حافظ ہوں گے“۔ سبحان اللہ یہ شان ہے خدمت گاروں کی۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عالم کیا ہوگا۔افسوس صد افسوس ان لوگوں پر جو سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا غیب نہیں مانتے رب العالمین اپنے مقبول بندوں کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ سے یہ تصرف عطا فرماتا ہے اگر ان لوگوں کو ذاتی اور عطائی کا فرق معلوم ہو جائے تو انکار نہ کریں یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا۔
کہ حضرت علامہ قاری زوار بہادر صاحب کے والد ماجد نے فرمایا کہ گنج کرم قطب دوراں علیہ رحمہ میوہسپتال میں زیرعلاج تھے اور فردوس مارکیٹ کے قریب ہی محمد امین شرقپوری صاحب کے جو حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مرید ہیں‘ ان کے پاس چند دنوں کے لیے قیام پذیر تھے تو قاری صاحب کے والد جو میرے پیر بھائی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بیٹوں کو حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں قدم بوسی کے لیے لے گیا جب ہم حاضر ہوئے تو حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ میرے پیر آ گئے ہیں اور قاری صاحب کے والد نے عرض کی حضور دعا فرمائیں۔ یہ بچہ قرآن کا حافظ بن جائے۔ قاری زوار صاحب اس وقت بہت کم عمر تھے۔ سکول میں تیسری کلاس میں پڑھتے تھے۔ حضرت صاحب نے قاری زوار بہادر صاحب کو فرمایا کہ مجھے قرآن پاک سنائیں جو سورت یاد تھیں انہوں نے تلاوت کیں تو حضرت صاحب گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا یہ قرآن پاک کے حافظ قاری اور عالمِ دین ہوں گے۔ یہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی نگاہ کا اثر ہے کہ قاری صاحب نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مبلغ اسلام کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور ہر دل عزیز ہیں خاص کر بزرگانِ دین کی نگاہ میں منظورِ نظر ہیں۔ آفتاب آمد کہ دلیل آفتاب ایک دفعہ قاری صاحب نے مسجد طٰہٰ شریف میں یہ نقطہ بیان کیا کہ گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ نے لوحِ محفوظ پر یا تو مجھے حافظ دیکھا ہوگا یا آپ کی دعا سے اللہ نے مجھے حافظ قرآن بنا دیا۔
بندہٴ ناچیز خادم کرمانوالہ شریف عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ تقوینی ولی اللہ تھے۔ اولیائے اللہ کی نظر لوحِ محفوظ پر ہوتی ہے۔ مولانا روم علیہ رحمت نے کیا ہی خوب فرمایا    #
لوحِ محفوظ است ہمچوں پیش یار
راز پنہاں می شود زآں آشکار
قال راہگزار مردِ حال شو
پیش مرد کاملے پامال شو
ترجمہ: لوح محفوظ دوست ( ولی کامل ) کے سامنے ہوتی ہے ۔ چھپے راز آشکارہوجاتے ہیں۔ مرد حال ( حالات شناس ولی کامل)
یمحوا الله مایشآء ویثبت کے تحت حضرت سیدالمفسرین قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی فرماتے ہیں۔
ترجمہ: ”اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے‘ ثابت اور برقرار رکھتا ہے۔“
مفسرینِ کرام فرماتے ہیں کہ اس میں سترہ قول ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوحِ محفوظ میں سے جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے اسی میں ثبت کر دیتا ہے جو لوحِ محفوظ کی تحریر مٹانے کے قابل ہوتی ہے جس کو تقدیر معلق کہا جاتا ہے اس کو مٹا دیتا ہے اور اس کی جگہ دوسری چیز پیدا کر دیتا ہے خواہ اس قضا کا معلق ہونا لوحِ محفوظ میں درج ہو یا نہ ہو صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں پوشیدہ ہو اور تحریر لوحِ محفوظ میں درج ہو یا نہ ہو صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں پوشیدہ ہو اور تحریر لوح مٹانے کے قابل نہیں ہوتی جس کو تقدیر مبرم کہتے ہیں اس کو نہیں مٹاتا قضاء جرم رد نہیں ہوتی۔
ابن سیدالمفسرین قاضی محمد ثناء اللہ مجددی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق (مقاماتِ مجددیہ) میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔
قطب الاقطاب حضرت ملا طاہر لاہوری تھے جن کا مزار شریف لاہور کے میانی صاحب والے قبرستان میں ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دونوں صاحب زادگان حضرت محمد سعید اور حضرت محمد معصوم علیہ رحمتہ کے معلم تھے۔حضرت مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بنظرکشف ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ملا طاہر رحمتہ اللہ علیہ کی پیشانی پر لکھا ہے ملا طاہر لاہوری شقی حضرت صاحب نے اس کا ذکر اپنے شہزادوں سے کر دیا۔ صاحب زادگان تو ملا طاہر رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد تھے ہی اس لیے انہوں نے حضرت سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ اللہ اس شقاوت کو مٹا کر سعادت سے بدل دے مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے لوحِ محفوظ میں لکھا دیکھا ہے کہ یہ قضاء مبرم ہے جس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ شہزادوں نے دعا کرنے کے لیے اصرار کیا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مجھے یاد آیا کہ غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا میری دعا سے قضاء مبرم بھی بدل جاتی ہے۔ اس لیے میں دعا کرتا ہوں بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہوں اور اے اللہ تیری رحمت وسیع ہے‘ تیرا فضل کبھی ایک پر ختم نہیں ہوتا‘ میں تجھ سے امید کرتا ہوں اور تیرے ہمہ گیر فضل سے درخواست کرتا ہوں کہ میری دعا قبول فرما لے اور ملا طاہر رحمتہ اللہ علیہ کی پیشانی سے شقاوت کی تحریر مٹا کر اس کی جگہ سعادت کی نقوش ثبت کر دے۔جیسے تو نے میرے آقا غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی دعا قبول فرمائی تھی۔ حضرت مجدد قدس سرہ کا بیان ہے اس دعا کے بعد وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا کہ گویا میری نظر کے سامنے لفظ (شقی) ملا طاہر صاحب کی پیشانی سے مٹا کر اس کی جگہ لفظ (سعید) لکھ دیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بات دشوار نہیں۔ (تفسیر مظہری ص۲۷۴)
یہ چند واقعات تحریر کیے گئے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کی محبت عطا فرمائے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اور حدیث شریف میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ صاحبِ بصیرت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
حضرت قبلہ (گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ دونوں شہزادے میری دونوں آنکھیں ہیں اور باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کو پیروں کا پیر فرماتے تھے اور چھوٹے باباجی پیرعثمان رحمتہ اللہ علیہ کو ولی اللہ فرماتے تھے۔
میرے پیر بھائی غلام غوث جو کاہنہ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے حضرت صاحب کا ایک واقعہ سنایا یہ ان کے داداجان نے جمعہ کے دن گنج کرم سے سنا تھا۔ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چند احباب آپ کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ فرمایا آج بیان بڑا مبارک تھا مگر بعض لوگوں تک آواز نہیں پہنچی تو آپ جلال میں آ گئے فرمایا میں نے تمہاری آنے والی نسلوں تک آواز پہنچا دی ہے۔ یہ سچ ہے کہ آپ کے نور نظر باباجی سرکار عثمان علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے لختِ جگر پیر طریقت سید پیر طیب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا پیغام ملک اور بیرون ملک تک پہنچا رہے ہیں۔ ایک علم دراستہ ہے‘ ایک علم وراثتہ ہے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے پیر طیب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو یہ علم وراثتہ عطا فرمایا ہے۔ گنج کرم حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ان دونوں شہزادوں کے نام بھی ارشاد فرمائے تھے۔ صاحب زادے پیر سید صمام علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور پیر سید طیب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ یہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی بہت بڑی کرامت ہے یہ ہے:
علمنا ملہ دنیا علما۔
بندہٴ ناچیز اور صوفی عبدالمجید صاحب شیخ المشائخ قبلہ عیلے سجادہ نشین مکان شریف سید محفوظ حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا‘ آپ کے پیر خانہ کا کیا حال ہے؟ تو میں نے عرض کی الحمدلله ۔اللہ تعالیٰ کا کرم ہے آپ نے فرمایا پیر طیب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے بڑی دنیا مستفیض ہو گی۔
####

قبلہ حضرت باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ

قطب دوراں‘ پیر پیراں‘ زبدة العارفین قبلہ عالم پیر سید محمد علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ‘ پیردستگیر حضرت کرمانوالی سرکار کے نورنظر الوالد وسیربابیہ کے مظہر تھے اس ناچیز نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اولیائے اللہ کی جو تعریف پڑھی ہے‘ وہ آپ میں موجود تھی۔
ولی کی تعریف:
ولی کے معنی ہیں اللہ کا دوست اللہ کے قرب والا‘ اللہ کے دین کا مددگار۔ سچا ولی اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں راضی رہتا ہے‘ اسے نہ کوئی غم اور نہ ہی کسی سے خوف ہوتا ہے۔ اولیائے کرام ہر دَم کتاب اور سنت پر عمل پیرا رہتے ہیں‘ ان کا قول‘ فعل اور ہر کام اسوہٴ حسنہ رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں ہوتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ سبحانہ جن کو دوست رکھتا ہے ان کو تین خصلتیں عطا فرماتا ہے:
(۱)سخاوت دریا کی مانند (۲) شفقت آفتاب کی مانند (۳)تواضع زمین کی مانند
یہ قدسی نفوس نورِ نبوت سے فیض یاب ہوتے ہیں‘ لوگ ان کے مزارات پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں‘ طالبین کی دعائیں ان کے توسل سے قبول ہوتی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ اولیائے اللہ کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”واذ ارای ذکرالله“ اور جنہیں دیکھنے سے خدا یاد آ جائے۔ امام العارفین خواجہ محمد علی رحمتہ اللہ علیہ حکیم ترمذی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کتاب ”نور اور الرسول فی احادیث الرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم“ میں فرماتے ہیں کہ ولی کا دل انوار جلالِ الٰہی کی کان ہے اور ہیئت کبریا اس کی قربت ہے اور ولی کے چہرے کی تازگی اور نور اس کے سبب سے ہوتا ہے۔ پس جب مومن بندے کا دل اس نور کی پاکیزگی سے زندہ ہوتا ہے تو اس کا عکس اس کی پیشانی پر ظاہر ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر چمکتا ہے پھر جو اس ولی کی طرف دیکھتا ہے اسے خدا یاد آ جاتا ہے۔ حضور باباجی رحمتہ اللہ علیہ میں یہ چیزیں اللہ کے کرم سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اور قطب زماں حضرت صاحب کی نظرعنایت سے پائی جاتی تھیں جیسا کہ قطب ربانی‘ شہباز لامکانی‘ حضرت شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”فتوح الغیب“ میں فرماتے ہیں کہ بندے کو جب قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے تو ”اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون“ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ یہ چیز رب العزت نے باباجی رحمتہ اللہ علیہ کو عطا فرمائی تھی۔
کرامات:
۱) بندہٴ ناچیز اور حاجی ارشاد صاحب (جو ہماری مسجد کے منتظم ہیں) بابا جی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کی قدم بوسی کے لیے کرمانوالہ شریف حاضر ہوئے تو حاجی صاحب نے عرض کیا کہ مولوی صاحب کا مکان نہیں ہے تو آپ نے فرمایا ”اچھا مکان نہیں… تو بنا بنایا لے لیتے ہیں۔“ حاجی صاحب نے عرض کی کہ اتنی قیمت کہاں سے لائیں گے تو آپ نے فرمایا ”اللہ کریم کرم فرمائے گا“ اس کے بعد آپ کی نگاہِ کرم سے مکہ کالونی میں چند دنوں میں مکان بن گیا۔
۲) ایک مرتبہ مولانا نور محمد صاحب (جو میرے پیر بھائی ہیں) ہم دونوں قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے تو باباجی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”مولوی جی بعض لوگ دوسرے لوگوں کے وظائف پڑھتے ہیں اور حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا بتایا ہوا (درود شریف) نہیں پڑھتے۔“ (کیونکہ مولوی نور محمد صاحب کو دوسرے وظائف کا بہت شوق تھا) پھر ہم دونوں دربار شریف پر چلے گئے جب واپس آئے تو مولوی نور محمد صاحب نے عرض کی کہ حضور مجھے حج کروائیں جیسا کہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے کروایا تھا کہ میرے پاس پائی بھی نہ تھی اور آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ کرم فرمائے گا تو میں اسی سال بیت المقدس‘ عراق اور ہر جگہ کی حاضری کے بعد کعبہ اور بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کے بعد واپس آیا تو آپ جلال میں آ گئے۔ فرمایا ”حج ایک مرتبہ آپ نے کر لیا ہے وہی کافی ہے۔“ مولوی صاحب نے عرض کی کہ آپ مجھے یہاں سے ہی بیٹھے بٹھائے زیارت کروا دیں۔ آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ”آپ کیسی باتیں کرتے ہیں“ اس کے بعد اذان ہوئی اور آپ نے خود امامت فرمائی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مولوی صاحب نے جلد بازی کی ہے۔ آپ خود ہی کرم فرما دیتے۔ پھر مجھے ارشاد فرمایا کہ ”گھبراؤ نہیں انشاء اللہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کرم فرمائیں گے۔ آپ کو اس سال ہی حج کی سعادت نصیب ہوگی۔“ آپ کے کرم سے مجھے حج نصیب ہوا کہ میرے پاس دس روپے بھی نہیں تھے‘ اللہ کے ایک بندے نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا کہ آپ میرا نام نہ لیں اور حج کا سارا خرچ میں اکیلا ہی ادا کروں گا۔ اللہ اکبر!
۳) مسجد کی حالت بہت خستہ تھی حالانکہ یہاں (گلبرگ) میں اچھے کھاتے پیتے لوگ رہتے ہیں۔ میں قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا تو تین مرتبہ آپ نے فرمایا ” مسجد کا کیا حال ہے؟“ ناچیز نے عرض کی الحمدلله ٹھیک ہے جب میں واپس آیا تو دوسرے دن جمعہ تھا۔ مسجد کمیٹی کے صدر ”سید نوید شاہ صاحب گیلانی“ نے ارشاد فرمایا کہ معمار بلوا کر کام شروع کروائیں پھر پتہ نہیں کہ کیسے کام بنا۔ یہ ہے آپ کا کرم! آپ قطب زماں کی طرح یعنی اعلیٰ حضرت صاحب کی طرح جو فرما دیتے ہو جاتا۔
ملفوظات:
ایک مرتبہ بندہٴ ناچیز اور محمد جنید اشرف بٹ صاحب ہم دونوں کرمانوالہ شریف بابا جی رحمتہ اللہ علیہ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے‘ راستے میں وضو کے متعلق بات ہوئی کہ وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟ جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا ”مولوی صاحب کیا حال ہے؟“ اور بٹ صاحب سے ملے اور تھوڑی دیر کے بعد وضو پر گفتگو فرمائی۔ ہم لوگ حیران ہو گئے۔ بابا جی نے ایسا عارفانہ بیان فرمایا ”کہ وضو میں چار فرائض اس لیے ہیں کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے جو پہلی لغزش صادر ہوئی یعنی گندم کھانا اس میں ان ہی چار اعضاء نے کام کیا تھا کہ دماغ میں کھانے کا خیال آیا‘ پاؤں ادھر چلے‘ ہاتھ میں گندم کا دانہ پکڑا‘ منہ شریف نے کھایا لہٰذا حکم ہوا کہ نماز کے لیے ان ہی چار اعضاء پر پانی پہنچاؤ۔ سبحان اللہ!“
ایک مرتبہ قدم بوسی کے لیے ناچیز حاضر ہوا‘ آپ قطب عالم حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے عرس مبارک پر تشریف لائے ہوئے تھے اور ملک سردار محمد صاحب کے گھر قیام پذیر تھے (جو لال مسجد کے قریب ہے) تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”لا الہ الا الله محمد رسول الله“ کے چوبیس حروف ہیں اور چوبیس گھنٹے اللہ کی یاد میں گزارنے چاہیں۔“ اور فرمایا کہ ”نفی سات قسم کی ہے پہلی لامعبود الااللہ دوسری لا مقصود الااللہ‘ تیسری لامحبوب الا الله‘ چوتھی لاموجود الا الله پانچویں ”میں نہیں“ چھٹی ”جہان نہیں‘ ساتویں ”جو سمجھ میں آئے خدا نہیں۔“
باباجی رحمتہ اللہ علیہ کو رب العزت نے علمنا منہ دینا علما عطا فرمایا تھا۔ آپ حضرت صاحب قطب زماں کی طرح علم و عرفان کی بارش فرماتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تین سال کا تھا کہ حضرت صاحب نے مجھے سارے علوم پڑھا دیئے تھے۔ ایک مرتبہ بندہ کرمانوالہ شریف قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا ”کہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے تین قسم کا علم عطا فرمایا ہے۔ ایک عام لوگوں کے لیے‘ ایک خاص کے لیے اور ایک فرمایا کہ کسی کو نہ بتانا۔“ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جو کچھ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے اور میاں صاحب شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کی نگاہِ رحمت سے مجھے دیا ہے وہ سب کچھ میں نے آپ کو (باباجی) عطا کیا۔“ (یہ جملہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا)
آپ کے وصال سے قبل چند احباب میرے ساتھ تھے۔ بابا ہدایت اللہ (جو حضرت شیخ المشائخ میاں جمیل احمد صاحب کا مرید ہے) اور حاجی محمد شریف اور چند حضرات حاضر ہوئے جب کرمانوالہ شریف پہنچتے تو اذان ہو رہی تھی‘ وضو کیا اور نماز کے بعد ہم دربار شریف پر چلے گئے کیونکہ باباجی کے حجرہ مبارک میں بہت ہجوم تھا تو میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر کے بعد حاضر ہوں گے۔ ایک آدمی آیا اس نے کہا جو لاہور سے مولوی صاحب آئے ہیں اور ان کے ساتھ جو آدمی آئے ہیں وہ جلدی اندر آئیں جب خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت عجیب کیفیت تھی۔ باباجی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مسجد تیار ہو گئی ہے‘ کتنا بڑا صحن ہے۔“ میں نے عرض کی حضور بہت بڑا صحن ہے۔ ہدایت اللہ نے کہا کہ میاں میر صاحب رحمتہ اللہ کی مسجد کا صحن بہت بڑا ہے۔ حضرت باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”آپ نے میاں میر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا دربار دیکھا ہے؟… وہ کیسا ہے؟ فرمایا وہ صحن مسجد کا نہیں مزار کا احاطہ ہے۔“ ہدایت اللہ صاحب نے عرض کی کہ مجھے بڑا شوق تھا۔ آپ کی زیارت کا‘ میاں جمیل احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا مرید ہوں۔ آپ نے فرمایا ”میاں جمیل احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ مجھ سے عمر میں کم ہیں اور قبلہ میاں غلام احمد صاحب مجھ سے بڑے ہیں پھر میاں صاحب کی چند کرامتیں بیان فرمائیں اور فرمایا ”میاں صاحب علیہ رحمتہ اللہ نے پانچ روپے حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو عطا فرمائے تھے اور وہ پانچ روپے ابھی تک چل رہے ہیں اور فرمایا کہ میاں صاحب علیہ الرحمہ قطب الاقطاب نے یہ بھی فرمایا کہ آپ نے صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت ادا کر دی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کچھ نذر کر دیتے تھے پھر ارشاد فرمایا کہ ”میاں عبدالحکیم“ علیہ الرحمہ نے دِلی کی جامع مسجد کا رُخ ٹیڑھا ہو گیا تھا‘ اسے سیدھا کیا توکیا پڑھا تھا۔؟ ”چھو کیا تھا“؟ پھر آپ نے فرمایا ”نہیں! انہوں نے اللہ ھو پڑھا تھا۔“ اور بندہٴ ناچیز بالکل قریب تھا تو باباجی رحمتہ اللہ علیہ نے ہاتھ کی مٹھی بنا کر میری طرف اشارہ فرمایا کہ ”سب کچھ اللہ ھو میں ہے۔“ اور ارشاد فرمایا کہ ”آبِ حیات پی کر بھی آخر مرنا ہے۔“ گویا آپ الوداع فرما رہے تھے۔
اس کے بعد چند یوم گزرے تھے کہ ہدایت کا سورج بظاہر دنیا فانی سے غروب ہو گیا۔ رب العزت کروڑوں رحمتیں آپ کی قبر اقدس پر برسائے۔ (آمین)
عمریں ختم ہو جائیں پھر بھی آپ کے کمالات بیان نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ”کرامت کو ظاہر نہ کرنا‘ بڑی کرامت ہے۔“ فرمایا ”جب حج کا موقعہ آتا ہے تو دل اُڑنے لگتا ہے۔“ آپ خلوت اور جلوت میں ادب کی تلقین فرماتے اور فرماتے کہ دین ادب ہی تو ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں آپ ”رطب اللسان رہتے۔“
حضرت داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر ملک صاحب کے گھر تشریف فرما تھے۔ ناچیز حاضر ہوا میرے ساتھ چند اور بھی احباب تھے۔ فرمایا ”میں تو یہاں ہی بیٹھا رہتا ہوں۔ ہجوم کی وجہ سے دربار شریف میں نہیں حاضر ہوتا۔“ میرے دل میں خیال آیا کہ آپ یہاں سے ہی چلے جاتے ہوں گے۔ فرمایا ”بارکنا حولہ“… اتنے روشن ضمیر تھے‘ فرمایا ”داتا صاحب قادریہ‘ چشتیہ‘ نقشبندیہ بزرگوں سے پہلے بزرگ ہیں پھر ایک شخص حاضر ہوا اس نے دعا کے لیے عرض کی باباجی علیہ الرحمہ نے حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کا شعر پڑھا۔

اُٹھ فریدا ستیا چڑھ کوٹھے اتے تک ‘ گھر گھر لگ گئی اے اگ
اک تو ہی نہیں دُکھی  دُکھی اے سارا جگ

فرمایا ”اللہ اللہ بس باقی سب ہوس“ فرمایا ”غفلت سب سے بڑی بیماری ہے۔“ فرمایا ”مچھلی کھانے کے بعد جب پیٹ میں جاتی ہے تو بھی پانی مانگتی ہے کیونکہ اس کے ذروں میں پیاس کی تاثیر ہوتی ہے۔“ اور اللہ والے جو ذکرالٰہی میں مستغرق رہتے ہیں‘ ان کی کیا شان ہے۔ فرمایا:
واذکر ربک اذا نسیت۔
ترجمہ: ”اور اللہ کو ایسے یاد کرو کہ اپنے کو بھی بھول جاؤ۔“
ملفوظات:
 ایک مرتبہ پیر سید محمد علی شاہ بخاری المعروف بابا جی سرکار تاج سلطان الاولیاء حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے عرس مبارک کے سلسلے میں ملک سردار محمد کے مکان میں رونق افروز تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بحرالعلوم مفسر القرآن استاد العلماء مولانا غلام علی اوکاڑوی رحمتہ اللہ علیہ جو ان دنوں علیل تھے‘ کی صحت یابی کے لیے باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ سے دعا کے لیے درخواست کی تو آپ نے فرمایا ”جب میں پچھلے دنوں عمرہ کے لیے گیا ہوا تھا تو پیر جی (سید غضنفر علی شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ) ان کو علاج کے لیے حضرت کرمانوالہ لائے تھے مگر وہ (غلام علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ) چلے گئے تھے۔“ فرمایا ”بیماری کوئی نہیں ذکر فکر کی حرارت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرم فرمائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ سے خیر ہو جائے گی۔ فرمایا مولانا اہلسنت کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ کثیر لوگ ان سے مستفید ہوں گے۔ قبلہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ (غوث پیرسید محمد اسمٰعیل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ اشرف المدارس ہمارا درس ہے۔ حضرت قبلہ علمائے کرام کا بڑا احترام فرماتے تھے۔ حضرت قبلہ (گنج کرم) فرمایا کرتے کہ علم کے بعد تزکیہ نفس ضروری ہے بغیر تزکیہ نفس کے معرفت محال ہے۔ بندے پر لازم ہے کہ صدق اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرے اور یہ کیفیت اس وقت حاصل ہو گی جب عبادت اور شکر میں غیر کی نفی اور دوسروں کو مٹا دیا ہو۔ اور محاسبہ نفس پر موقوف ہے لہٰذا بغیر ضرورت کے نہ کوئی بات ہو نہ کام اور ہر قول و فعل سے پہلے اللہ کی طرف التجا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ فرمایا لوگ مرید ہونا بڑا آسان سمجھتے ہیں جبکہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ سردھڑ کی بازی لگانی پڑتی ہے اب تو رسم ہی رسم رہ گئی ہے۔ نہ وہ ذوق ہے اور نہ وہ ہمت۔ رب العزت آپ (حضرت قبلہ) کے ارشادات عالیہ پر عمل کی توفیق فرمائے۔ ہم نام کے مرید ہیں مرید تو وہ ہے جو ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہے کیونکہ ذکر سے طالب اپنے مطلوب کو پہنچتا ہے اور محبت ایسی آگ ہے جو ہر قسم کی میل کچیل کو جلا ڈالتی ہے اور جب محبت مستحکم ہو جاتی ہے تو ذکر مشاہدہ مذکور کے ساتھ ہوتا ہے اور یہی وہ ذکر کثیر ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے فلاح و کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
واذکرو الله کثیر لعکم تفلحون۔ (سورة الجمعتہ پارہ ۲۸ آیت ۱۰)
”یعنی بکثرت اللہ کا ذکر کرو۔تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔“
وہ دل سدا آباد ہے جس دل میں تیری یاد ہے
جو یاد سے غافل ہوا ویران ہے برباد ہے
۲) فرمایا کم کھانے سے جسم تندرست رہتا ہے‘ گناہوں کے ترک کر دینے سے روح کو سلامتی ملتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے سے دین سلامت رہتا ہے۔
باوضو رہ  بول تھوڑا  کر ذکر
ربط دل رکھ پیر سے  کھودے خطر
رہ جدا لوگوں سے  تھوڑا کھا طعام
اعتراض چھوڑ  آٹھوں میں تمام
بندہٴ ناچیز محمد عنایت احمد حضرت کرمانوالہ شریف باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ شیخ المشائخ قبلہ پیر سید عثمان علی شاہ بخاری کے وصال کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کا پاؤں پھسلا ایک بازو ٹوٹ گیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میرے تو دونوں بازو ٹوٹ گئے ہیں کہ میرا حقیقی بھائی فوت ہو گیا ہے۔ بھائی بھی تو بازو ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا لوگ تو ایسے ہی باتیں کرتے ہیں۔ میں نے اپنے بھائی کو اپنی قبر بھی دے دی اور کفن بھی۔ یہ قبر کی جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی اور کفن بھی مدینہ منورہ سے اپنے لیے لایا تھا‘ وہ بھی میں نے دے دیا ہے۔
پھر فرمایا مزار مبارک اسی لیے کشادہ رکھا تھا کہ ہمیں بھی اس میں جگہ مل جائے تاکہ جب کوئی حضرت قبلہ کے مزار پر آئے تو ہمارے لیے بھی دعا کرے۔
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی
وہ مرد جس کا فقر حرف کو کرے نگین
بندہٴ ناچیز ایک مرتبہ قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ صحن مسجد میں تشریف فرما تھے۔ چہرہٴ مبارک مزار شریف کی طرف تھا‘ ہمارا رُخ جانب شمال تھا جونہی ریل گاڑی سٹیشن سے گزری تو ہم میں سے چند بیلیوں نے ریل گاڑی کی طرف دیکھا تو باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: ”یہ جگہ تھی کہ حضرت قبلہ (گنج کرم رحمتہ اللہ) اسی طرح تشریف فرما تھے۔ ریلوے سٹیشن حضرت کرمانوالہ ابھی نیانیا بنا تھا تو اسی طرح بیلیوں نے ریل گاڑی کو جو گزر رہی تھی دیکھا تو حضرت صاحب (گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا ”کیا دیکھتے ہو گاڑیاں تو آتی جاتی رہیں گی‘ وقت ہاتھ نہیں آئے گا۔“ تو باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”بے شک پھر وقت ہاتھ نہیں آیا۔“
۵) باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شریعت کی نگہداشت طریقت کے حصول کا سبب ہے نفس کی اصلاح شریعت سے  دل کی طریقت سے اور روح کی حقیقت سے ہوتی ہے۔ فرمایا اولیاء اللہ کا تصرف زندگی میں اور موت کے بعد یکساں ہوتا ہے۔
موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
ایک مرتبہ بندہٴ ناچیز قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔
 محمد جنید اشرف بٹ صاحب جن کی رہائش فردوس مارکیٹ کے پاس ہے۔ باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے خاص مریدوں میں سے ہیں کیونکہ بٹ صاحب کے والدین پاکستان بننے سے پہلے کے مرید ہیں اور حضرت قبلہ (گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ) کی خدمت میں کرمانوالہ شریف (ضلع فیروز پور بھارت) حاضر ہوا کرتے تھے۔ باباجی سرکار اکثر بٹ صاحب کے ہاں تشریف لاتے اور بندہٴ ناچیز کو بھی یہاں حاضری کے موقع مل جاتا۔ ایک مرتبہ بٹ صاحب مجھے لے گئے اللہ تعالیٰ محمد جنید اشرف بٹ صاحب کو سعادت دارین عطا فرمائے۔ حضرت باباجی نے فرمایا ”مولوی جی آپ کے پاس پیر بڑے آتے ہیں“ میں نے عرض کیا حضور! دعا فرمائیں کہ نہ آئیں پھر چند احباب آ گئے تو آپ نے فرمایا ”بٹ صاحب میں نے تو منع کیا تھا کسی کو نہ بتانا۔ بٹ صاحب نے عرض کی حضور محبت انہیں لے آتی ہے۔ پیر جی سرکار رحمتہ اللہ علیہ بھی اکثر بٹ صاحب کے ہاں تشریف لاتے تھے یہ ان کا بٹ صاحب پر خاص کرم تھا۔ پیر جی سرکار رحمتہ اللہ علیہ تین مرتبہ اس بندہٴ ناچیز کے ہاں بھی تشریف لائے تھے لیکن یہ ان کی خاص نظرِ کرم تھی آنجاکہ چشمہ شیریں بود مورو ملخ گرد آئند۔
تمنا دردِ دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی
ملتا نہیں یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
۸) ملکہ بلقیس کا تخت:
ایک مرتبہ باباجی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بعض کا خیال ہے کہ یہ تخت حضرت جبرائیل علیہ السلام لائے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام لائے تھے جب کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام خود لائے تھے۔ بابا جی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا نہیں بلکہ یہ تخت تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا غلام حضرت آصف بن برخیا خود لایا تھا اور انہوں نے تو صرف یاحی یاقیوم پڑا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یاارحم الراحمین پڑھا تھا۔ حضرت بابا جی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا نہیں ادھر اس نے (تخت کی) نفی کی اور ادھر اس کا (تخت کا) اثبات کیا۔
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
 بوسہ زن بر آستان کاملے

####

اولیاء کی اقسام

شرح دیوان علی میں لکھا ہے کہ اصطلاح صوفیاء میں قطب کو عبداللہ بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات قطب بادشاہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ خلفائے راشدین اور امامین اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
جب کوئی وقت کا قطب مر جاتا ہے تو اوتاد میں سے ایک شخص منصب قطبیت پر ممتاز کیا جاتا ہے۔ حضرت قدس سرہ جس طرح قطب الاقطاب ہیں اس طرح قطب الاوتاد بھی ہیں۔
ابدال:
جمع بدل کی ہے۔ یہ اولیاء اللہ کے اس طبقہ میں سے ہیں جن کو خدا تعالیٰ یوماً فیوماً درجہٴ کمال تک ترقی دیتا ہے اور اگر ان میں سے ایک مر جائے تو دوسرا اس کی جگہ مقرر ہوتا ہے اس لیے اس کا نام ابدال ہے۔
اسی طبقہ کے توسط سے بارش کی دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ جماعت چالیس اولیاء پر مشتمل ہوتی ہے اس کے مدارج بالترتیب ہیں ان کا ابتدائی درجہ نجباء کا اخیر درجہ ہے اور ان کا آخیر درجہ قطب الاوتاد کا ابتدائی درجہ ہے جب ان میں سے کسی کا کوئی مر جاتا ہے تو دوسرا ترقی پاتا ہے حتیٰ کہ آخیر پر صالحین میں سے ایک کو اس جماعت میں ترقی دی جاتی ہے۔ قیامت تک ان کی تعداد اور سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
ابدال سے جو اعلیٰ مراتب پر فائز ہوتے ہیں‘ اوتاد کہلاتے ہیں۔
نجباء:(جمع نجیب)
ایک جماعت اولیاء کی ہے اس کی تعداد بھی چالیس ہوتی ہے۔
نقباء:
تین سو اولیاء اللہ کی جماعت ہوتی ہے‘ ان کا ابتدائی درجہ صالحین کا اخیر درجہ ہوتا ہے۔
(۱)افراد (۲)اقطاب (۳)اوتاد (۴)ابدال (۵)نجباء (۶)انقباء۔
افراد:
اس جماعت واصلین کا نام ہے جو قطب کے دائرہٴ تصرف سے خارج رہتی ہے کیونکہ افراد ملائکہ کے ظل ہیں اور ملائکہ تصرف ارضی سے بالاتر ہوتے ہیں۔
اقطاب:
وہ ہیں جو مدار وجود خلائق اور شہود حقائق ہیں جیسا کہ فلکیات کے لیے مرکز قطب صرف انتظام امور عالم کے لیے منتخب کیا جاتا ہے جس طرح اصطلاح حکمت میں عقل اوّل کا وجود تسلیم کیا جاتا ہے اس طرح اصطلاح تصوف میں قطب صاحب مقام مخدہا ہے‘ قطب متعدد ہوتے ہیں اور قطب الاقطاب کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان طبقات کی تشریح کی جاتی ہے۔
قطب الارشاد :
یہ ولی اللہ آسیائے ہدایت کا مدار ہوتا ہے جس سے کفروضلالت کی تاریکی اس طرح دُور ہو جاتی ہے جس طرح آفتاب اور مہتاب سے اندھیرا جاتا رہتا ہے۔
ب۔ اوتاد:
وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ اوتاد جمع و تدکی ہے جس کے معنی میخ کے ہیں جس طرح میخ کسی چیز کے قیام اور ثبات کی ضمانت ہوتی ہے اور اس کو متزلزل نہیں ہونے دیتی اس طرح قطب الاوتاد جہان کے قیام کا ضامن ہوتا ہے۔ گویا ہر ایک فرد اس طبقہ کا میخ ہے جس کے ساتھ زمین‘ آسمان بحرو بروابستہ ہیں قطب اور غوث ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ گویا ایک ہی شخص کے دو مرتبے ہوتے ہیں۔
جیسے کہ جسم اور روح کی تمام قدروقیمت ایک دوسرے کی وصل و اتحاد سے ہوتی ہے اسی طرح شریعت بلاحقیقت ریا اور حقیقت بلاشریعت منافقت اور گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔
ترجمہ: ”یعنی جو لوگ ہماری راہ پانے میں جدوجہد کرتے ہیں۔ہم ان کو اپنا صحیح راستہ دِکھا دیتے ہیں“۔ پس شریعت مجاہدہ ہے اور ہدایتِ مشاہدہ اس کی حقیقت یہ ہے جو بالفاظ دیگر ظاہر کی باطنی رہنمائی ہے جب مجاہدہ نہ ہو گا تو مشاہدہ کہاں سے ملے گا جب شریعت ترک کر دی جائے گی تو حقیقت کے وارد ہونے کے کیا معنی؟ لہٰذا شریعت ایک دینی چیز ہے اور حقیقت سراسر بے دینی ہے اس لیے ہر دو لازم و ملزوم ہیں جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام و بزرگانِ دین عظام حضور غوث پاک قدس سرہ العزیز جیسے خدا رسیدہ اور واقفان حقیقت نے آخری دَم تک شریعت کے احکام سے کسی کو نظرانداز نہ کیا تو صرف باطنی نماز اور روزہ کا سبق دینے والے اور شریعت پر عمل نہ کرنے والے پیر نہیں بلکہ ملحد کافر بے دین عیش پرست اور شہوت پرست ہیں جو سادہ لوح مسلمانوں کو گنہگار بنا رہے ہیں۔
اللہ ان کے مکرو شر سے بچائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور بزرگانِ دین بالخصوص غوث زماں قطب الاقطاب حضرت کرمانوالہ شریف المعروف گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ایک مرتبہ حضرت شیخ المشائخ المعروف بابا جی محمد علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ حج کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو ایئرپورٹ کی مسجد میں حضرت بابا جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے علامہ مفتی حبیب اللہ صاحب اور بندہٴ ناچیز محمد عنایت احمد کے ساتھ دورانِ گفتگو ارشاد فرمایا کہ حضرت صاحب رحمتہ اللہ علیہ گنج کرم قطب الارشاد تھے۔

####

علم اور علماء کی فضیلت

 اس سلسلہ میں متعدد احادیث ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس پر اللہ تعالیٰ رحمت کا دروازہ کھولتا ہے‘ اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور بھلائی اس کے ذہن میں القاء کرتا ہے۔
مزید فرمایا: علماء انبیائے کرام علیہم السلام کے علم کے وارث ہیں۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں اور اسی طرح ان کی وراثت سے بڑھ کر کوئی رُتبہ اور فضیلت نہیں۔
نبی محترم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے افضل وہ مسلمان عالم ہے جب اس کی طرف رجوع کیا جائے تو علم سے نفع پہنچائے اور جب اس سے بے نیازی اختیار کی جائے تو وہ خودبخود بے نیاز ہو کر آپ کے کام آئے۔
حضورِ پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نبوت کے مرتبہ کے بعد اہلِ علم اور اہلِ جہاد کا مرتبہ ہے۔ اہلِ علم کا اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اہلِ سیف مجاہدین کا اس لیے کہ وہ آپ کے دین کی حفاظت بزورِ تلوار کرتے ہیں۔
حضور ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”ایک قبیلے کی موت عالم کی موت سے آسان ہے۔“
”قیامت کے دن علماء کی سیاہی شہداء کے خون کے برابر تولی جائے گی۔“
بندے کے دل میں ایک حدیث تھی۔ وہ میں نے حضرت مخدوم کی خدمت میں پڑھی‘ وہ یہ تھی۔
من احب العلم والعلماء لم یکتب خطیئتہ۔
”جس نے علم اور علماء سے محبت کی اس کی خطائیں نہیں لکھی جائیں گی“
اس وقت بندے نے عرض کیا کیا اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ علم و علماء کی محبت کی وجہ سے اس شخص کے گناہ نہیں لکھے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا کسی کی محبت میں سچا ہونا اس کی متابعت کرنا ہے جب کوئی شخص علم و علماء سے محبت کرے گا تو ان کی متابعت کرے گا اور ناشائستہ باتوں سے دُور رہے گا۔ چنانچہ جب کوئی ایسا شخص ہوگا تو یقینا اس کے گناہ نہیں لکھے جائیں گے اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ جب حق تعالیٰ کی محبت دل کے اوپر کے پردے میں ہوگی اس صورت میں معصیت کا امکان ہے لیکن اگر حق تعالیٰ کی محبت دل کے اندر اس کے سیاہ نقطے میں ہوگی تو پھر معصیت کا امکان نہیں ہوتا۔
اس وقت آپ نے فرمایا کہ جوانی کی حالت میں توبہ و استغفار کرنا اچھا رہتا ہے۔ بڑھاپے میں اگر کوئی تائب نہ ہو گا تو کیا کرے گا اس موقعہ پر آپ نے زبان مبارک سے یہ دو شعر ارشاد کیے    #
چوں پیر شوی و برسر انجام آئی
سر حرف خویش ناکام آئی
سازی حق را ز تیرہ رائی
معشوقہ خود در بے نوائی
”عالم علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا حتیٰ کہ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔“
”میری اُمت کی ہلاکت کا باعث دو چیزیں ہیں علم کا چھوڑنا اور مال دنیا جمع کرنا۔“
”عالمِ نبو علم سیکھنے والا متعلم بنو‘ علمی گفتگو کرنے والا بنو یا علم سے محبت کرنے والا بنو۔ پانچواں یعنی علم سے بغض رکھنے والا نہ بن جانا ورنہ ہلاک ہو جاگے۔“
”تکبر علم کے لیے بڑی مصیبت ہے۔“
حکماء کا قول ہے جو سرداری حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے وہ رفیق عبادت اور ریاست پر حکمرانی دونوں کے اوصاف سے تہی دست ہو آتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
ساصرف عن ایتی الذین یتکبرون فی الارض بغیرالحق۔
ترجمہ: ”البتہ ہم اپنی نشانیوں سے ایسے لوگوں کو پھیر دیں گے جو دنیا میں تکبر کرتے تھے۔“
حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے جس نے علم قرآن سیکھا اس کی عظمت بڑھ گئی جس نے فقہ کو سیکھا اس کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا جس نے علم حدیث حاصل کیا اس کی دلیل قوی ہوئی جس نے حساب سیکھا اس کی رائے درست ہوئی جس نے دیگر علوم اورنادر باتیں سیکھیں اس کی طبیعت میں گداز پیدا ہوا جس نے اپنی عزت نہیں کی اسے علم نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے جو شخص علماء کی مجلس میں کثرت سے شریک ہوتا ہے اس کی زبان کی رکاوٹ دُور ہو جاتی ہے۔ ذہن کی اُلجھنیں ختم ہو جاتی ہیں جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے وہ اس کے لیے باعثِ مسرت ہوتا ہے اس کا علم ایک ولایت ہے اور وہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو رد کر دیتا ہے اس سے علم کو دُور کر دیتا ہے۔

####

علماء سوء کی سزا

علمائے سوء سے مراد وہ علماء دین ہیں جو علم کی بدولت دنیا بناتے ہیں اور ان کا مطمع دنیاوی نعمتوں کا حصول ہے‘ وہ اہلِ جاہ کے ہاں قدرومنزلت کے خواہاں ہیں۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تب ہی عالم ہوگا جب وہ علم پر عمل کرے گا۔ مخبر صادق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم دو ہیں ایک زبانی علم جو لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے دوسرا قلبی علم جو مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔ آپ نے فرمایا آخری زمانہ میں بعض جاہل عبادت گزار ہوں گے اور بعض فاسق علماء ہوں گے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کوئی دینی مسئلہ یا دینی علم چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دے گا نیز فرمایا میں دجال سے زیادہ اور لوگوں پر تمہارے لیے ڈرتا ہوں۔ عرض کیا وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا گمراہ کن امام (یا سردار) مزید فرمان ہے جس نے علم پڑھا مگر ہدایت نہ پائی وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ دُور ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا حیران و پریشان لوگوں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے اندھیری رات کے مسافروں کے لیے علم و حکمت کے راستے کیسے صاف کریں گے۔
ان روایات سے عیاں ہے علم حاصل کرنے کی ذمہ داری پوری نہ کرنا کس قدر خطرناک ہے عالم یا تودائمی ہلاکت یا دائمی سعادت حاصل کرتا ہے اگر علم حاصل کرنے کے باوجود سعادت حاصل کرنے سے محروم رہا تو یہ اس کی بدبختی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اُمت کے منافق عالم سے خائف ہوں۔ آپ سے سوال کیا گیا منافق عالم کیسا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا جس کی زبان عالم ہو مگر دل اور عمل جاہل ہوں۔
جناب حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان جیسا نہ ہو جانا جو علم اکٹھا کرے حکماء کی دانائی کی باتیں جمع کرے مگر دل اور عمل دونوں کا جاہل ہو۔
ایک آدمی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا میرا ارادہ علم حاصل کرنے کا ہے ڈر ہے کہ اسے برباد نہ کردوں فرمایا علم کا چھوڑ دینا بھی اسے برباد ہی کرنا ہے۔
حضرت ابراہیم بن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا لوگوں میں سے شرمندگی کون پائے گا‘ فرمایا دنیا میں ایسے شخص سے بھلائی کرنے والا جو کفرانِ نعمت کا عادی ہو اور موت کے وقت گنہگار عالم ہے جو علم ہے وہ یعنی اللہ جانتا ہے یہ عالم ہے لہٰذا اس کی اتباع کرو۔ وہ علم رکھتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ علم رکھتا ہے وہ سویا ہوا ہے اسے جگا دو۔ وہ مرد جو نہیں جانتا اسے علم ہے کہ وہ نہیں جانتا لہٰذا یہ ہدایت کا طالب ہے اسے ہدایت اور علم دو۔ وہ مرد جو نہیں جانتا اور یہ بھی جانتا کہ وہ نہیں جانتا۔ یہ جاہل ہے لہٰذا اسے دُور بھگا دو۔
حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے‘ علم آواز دیتا ہے عمل کرو اگر ایسا کرو تو ٹھیک ورنہ وہاں سے رخصت ہو جاتا ہے۔
ابنِ مبارک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تک انسان طالب علم رہتا ہے‘ وہ عالم ہوتا ہے جب اسے عالم ہونے کا گمان ہو جاتا ہے تو جاہل بن جاتا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے مجھے تین شخصوں پر رحم آتا ہے۔
قوم کا سردار جو ذلیل ہو جائے۔
قوم کا غنی جو محتاج ہو جائے۔
وہ عالم جسے دنیاداری سے فرصت نہ ہو۔
حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے علماء کا عذاب دل کی موت‘ دل کی موت آخرت کی بجائے دنیا کی طلب
کسی شاعر نے کہا:
عحبت لمتباع الضلالة بالھدی
ومن یشتری دنیا باالدین اعجب
مجھے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والے پر تعجب ہے اور جو دین کے بدلے دنیا خریدتا ہے اس پر اور زیادہ تعجب ہے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‘ بُرے عالم کو اس قدر شدت سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا جس کی بدولت وہ جہنمیوں میں گھومتا پھرے گا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا قیامت کو ایک عالم کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی پھر وہ ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ دوزخی اس کے گرد چکر لگا کر پوچھیں گے تجھے کیا ہوا؟ وہ کہے گا نیکی کا حکم کرتا تھا لیکن خود اس پر عمل نہ کرتا تھا‘ بُرائی سے روکتا تھا مگر خود نہ رُکتا تھا‘ جان بوجھ کر نافرمانی کی بدولت آج جہنم میں ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار۔
ترجمہ: ”منافقین بے شک جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے۔“
کیونکہ یہود نے علم کے باوجود حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی نبوت کا انکار کیا اور نصاریٰ نے تین میں سے تیسرا یعنی تین خداؤں کا کافرانہ نظریہ پیش کیا اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا دیا۔ انہوں نے پہچاننے کے باوجود ایسا کیا۔ کلامِ الٰہی ہے:
یعرفونہ کما یعرفون ابنآء ھم۔
ترجمہ: ”وہ (یہود) آپ کو پہچانتے ہیں جیسے کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔“
مزید فرمایا:
فلما جآء ھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنة الله علی الکفرین۔
ترجمہ: ”پس جب ان کے پاس وہ کچھ آیا جسے وہ پہچانتے تھے تو انہوں نے اس سے کفر کیا پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔“
 ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
واتل علیھم نباء الذی اتینہ ایاتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطن فکان من الخوین۔
ترجمہ: ”اور ان لوگوں پر اس شخص کا قصہ بیان کر جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پس وہ ان میں سے نکل گیا اور شیطان نے اسے پیچھے لگایا بس وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔“
علاوہ ازیں ارشادِ ربانی ہے:
مثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ الخ۔
پس اس کی مثال کتے جیسی ہے اگر تو اس پر بوجھ ڈال دے تو وہ زبان نکالے گا‘ لٹکائے گا اگر تو اسے چھوڑ دے تب بھی زبان نکالے گا یعنی زبان لٹکائے گا۔
یہی کیفیت فاسق و فاجر عالم کی ہے کیونکہ عالم کو کتاب اللہ کا علم عطا فرمایا مگر شہوات میں ڈوب گیا اس لیے اس کو کتے سے تشبیہ دی گئی چاہے اسے علم و حکمت دیا جائے یا ہر حالت میں شہوت کی زبان لٹکائے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا بُرے عالم کی مثال اس چٹان کی ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے نہ خود سیراب ہو اور نہ پانی کو راستہ دے کر کھیتوں کو سیراب ہونے دے۔

####

فضیلت حسنِ اخلاق

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ختم الرسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
وانک لعلی خلق عظیم۔
ترجمہ: ”بے شک آپ صاحبِ خلق عظیم ہیں۔“
صدیقہ کائنات اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن تھا۔ ایک شخص نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے حسنِ اخلاق کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:
خذالعفو وامر بالمعروف واعرض عن الجھلین۔
ترجمہ: ”درگزر اختیار کرو‘ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔“
پھر حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسنِ خلق یہ ہے کہ قطع تعلق کرنے والوں سے صلہ رحمی کرو جو تمہیں محروم کرے‘ اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے اس لیے مبعوث فرمایا گیا ہے کہ میں خلق کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاؤں۔ مزید فرمایا قیامت کے دن میزان اعمال میں سب سے وزنی چیز خوفِ الٰہی اور حسنِ خلق ہوگا۔
حضور فخر کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دین کیا ہے؟ حسن خلق پھر دائیں سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسنِ خلق پھر وہ بائیں طرف آیا اور عرض کیا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا حسنِ خلق پھر اس نے سامنے آ کر سوال دوہرایا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا گیا تو نہیں سمجھتا کہ دین کیا ہے؟ دین یہ ہے کہ تو غصہ نہ کرے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں سوال کیا گیا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بدبختی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بدخلقی۔
ایک شخص آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے وصیت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو اس نے عرض کیا مزید بتایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں سے حسنِ سلوک سے پیش آؤ اور خلق سے کلام کرو۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کون سا عمل افضل ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسنِ خلق
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا:
اللہ تعالیٰ جس بندے کی صورت اور اخلاق کو اچھا بنائے گا اسے آگ نہیں چھوئے گی وہ جہنم میں محفوظ ہوگا۔
حضرت فضیل رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے‘ آپ کی خدمت میں شکایت کی گئی کہ فلاں عورت رات کو عبادت کرتی ہے‘ دن کو روزہ رکھتی ہے لیکن وہ بدخلق ہے‘ اپنی باتوں سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں بھلائی نہیں ہے‘ وہ جہنمیوں میں سے ہے۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا میزان میں سب سے پہلے حسنِ اخلاق اور سخاوت رکھی جائے گی جب اللہ تعالیٰ نے ایمان کو پیدا کیا تو اس نے عرض کی یااللہ عزوجل! مجھے قوی فرما تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے حسنِ اخلاق اور سخاوت سے تقویت عطا کی جب اللہ نے کفر کو بنایا تو اس نے بھی طاقت کا مطالبہ کیا تو اسے بخل اور بدخلقی سے قوت عطا کی گئی۔
ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ نے اس دین (اسلام) کو اپنے لیے پسند فرما لیا ہے‘ تمہارا یہ دین سخاوت اور حسنِ خلق کے بغیر صحیح نہیں رہتا۔ خبردار! اپنے اعمال کو ان دونوں سے آراستہ کرو۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے حسنِ خلق اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین مخلوق ہے۔ ان خلقِ عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کس مسلمان کا ایمان افضل ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا خلق سب سے بہتر ہے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے بلاشبہ تم لوگوں کی مال و دولت سے امداد نہیں کر سکتے لہٰذا ان کی امداد خندہ پیشانی اور حسنِ خلق سے کیا کرو۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا‘ بدخلقی اعمال کو اس طرح ضائع کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ایسے آدمی ہو جس کی صورت اللہ تعالیٰ نے بہترین بنائی لہٰذا تم اپنا اخلاق بھی بہتر بناؤ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ خوب صورت اور بہترین خلق والے تھے۔
حضرت ابوسعید البدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعا یوں کیا کرتے یا اللہ جیسے تو نے مجھے بہترین تخلیق فرمایا ویسے ہی میرے خلق کو بہترین بنا۔
حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے‘ کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔
اللھم انی اسئلک الصحة والعافیة وحسن الخلق۔
ترجمہ: ”یااللہ! میں تجھ سے صحت عافیت اور حسنِ اخلاق مانگتا ہوں۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے محبوبِ کبریا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انسان کی شرافت اس کا دین ہے اس کی نیکی ہی حسنِ خلق ہے اور اس کی مروت اس کی عقل ہے۔
حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عربوں کو حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتے دیکھا۔ پوچھا کو نسی نیکی انسان کو عطا شدہ نیکیوں میں اعلیٰ ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‘ حسنِ اخلاق۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روزِ حشر مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے بہت قریب وہ لوگ ہوں گے جن کا اخلاق اچھا ہوگا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ آ پ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان تین چیزوں میں سے جس میں ایک بھی نہ ہو تو اس کے عمل کو کوئی وقعت نہ دوں گا۔
تقویٰ جو اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکے۔
حلم و بردباری جو اسے جہالت سے روکے ۔
حسنِ اخلاق جس کی بدولت لوگوں کو گزر اوقات کرے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم شروع شروع میں اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔
یااللہ عزوجل! مجھے بہترین خلق کی ہدایت فرما۔ ماسوا تیرے وہ کون ہے جو حسنِ خلق کی مجھے توفیق دے‘ مجھے بدخلقی سے نجات دِلا‘ بدخلقی سے بچانے والا ماسوائے تیرے کون ہو سکتا ہے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا انسان کا جمال کس بات میں ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کلام میں نرمی  کشادہ روی اور خندہ پیشانی کا اظہار کرنے میں  جو شخص لوگوں کو بھلے انداز میں ملے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ پیش آئے یہ وہ آدمی ہے جس کے سامنے اجنبی نرم روی اختیار کرتے ہیں اور لوگ اس کی تعریف فرماتے ہیں۔
ایک شاعر نے کہا    #
اذا حویت خصال الخیر اجمعھا
فضل وعاملت کل الناس بالحسن
جب تو نے فضیلت کی تمام عادات کو جمع کر لیا اور سب لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا۔
لم تحرم الخیر من ذی العرش تحرزہ
والشکر من خلقہ فی السر والعلن
تم نے جو بھلائی جمع کی ہے اس سے محروم نہیں رہے گا اور ظاہر اور باطن میں مخلوق کی شکر سے بھی محروم نہ ہوگا۔

####

فضیلتِ رحم

حضور ختم رسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
”رحم کرنے والا جنت میں جائے گا۔”
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ہم سب رحم کرنے والے ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رحیم وہ نہیں جو اپنے آپ پر رحم کرے بلکہ رحیم وہ ہے جو اپنے آپ پر اور دوسروں پر رحم کرے۔
اپنے آپ پر رحم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کی توبہ کرے اور خلوصِ دل سے عبادت کرے تاکہ خود کو عذابِ الٰہی سے بچانے کے لیے رحم کرے اور دوسروں پر رحم کرنا یہ ہے کہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دے۔
نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں گے۔“
اور جانوروں پر رحم اس طرح سے ہے کہ ان کی طاقت کے مطابق ان سے کام لیا جائے۔
رحمت للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ایک آدمی سفر میں تھا‘ اسے سخت پیاس لگی اس نے کنواں دیکھا تو وہاں جا کر اپنی پیاس بجھائی جب وہ اپنی تشنگی دُور کر چکا تو قریب ہی کتے کو پیاسا دیکھا تو کنویں سے اپنے جوتے میں پانی بھر بھر کر اسے پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اس کارِ خیر کی بدولت بخش دیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جانوروں پر رحم کرنے سے ثواب ملتا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر ذی روح پر رحم کرنے سے ثواب ملتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت بیان کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو حالات معلوم کرنے کے لیے پھر رہے تھے۔ آپ کا گزر ایک قافلہ کے قریب سے ہوا‘ ان کے غافل ہونے کی بناء پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اندیشہ لاحق ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا نقصان ہو جائے اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو ملے پوچھا امیرالمومنین! اس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ فرمایا ایک قافلہ قریب اُترا ہے‘ مجھے فکر ہے کہ کہیں ان کا نقصان نہ ہو جائے چلو ان کی نگہبانی کریں۔ یہ دونوں حضرات نگہداشت کرتے رہے حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔ آپ نے قافلہ والوں سے فرمایا اُٹھو صبح ہو گئی جب اہلِ قافلہ بیدار ہوئے تو یہ دونوں حضرات واپس لوٹے۔
ہم پر لازم آتا ہے کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلیں‘ اللہ نے ان کی تعریف رحمآء بینھم یعنی وہ آپس میں رحیم و کریم ہیں‘ کہہ کر فرمائی ہے کیونکہ وہ مسلمانوں پر بلکہ تمام مخلوق پر رحم کرنے والے ہیں حتیٰ کہ کافر بھی ان کی شفقت سے محروم نہ رہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بوڑھے ذمی کو دربدر بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا ہم نے تیرے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ جوانی میں تجھ سے جزیہ لیتے رہے‘ بڑھاپے میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ آپ نے اسی وقت بیت المال سے اس کا روزینہ مقرر فرما دیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا (عمر) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں آنے والے اپنے خلفاء کو مشکل میں ڈال دیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے ابوالحسن! مجھے ملامت نہ کرو اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اگر دریائے فرات کے کنارے ایک سالہ بھیڑ کا بچہ بھی مر جائے تو قیامت کے دن اس کے لیے جواب دینا پڑے گا اس امیر کی کوئی عزت نہیں جس نے مسلمانوں کو ہلاک کر دیا اور نہ ہی اس بدبخت حاکم کا کوئی مقام ہے جس نے مسلمانوں کو خوف زدہ کیا۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ارشاد بیان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”میری اُمت کے لوگ جنت میں نماز روزوں کی کثرت کی بدولت نہیں بلکہ اس لیے جنت میں جائیں گے کہ ان کے دل مسلمانوں کے بغض سے پاک ہوں گے‘ سخاوت اور رحم ان کی شخصیت کا حصہ ہوگا۔“
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے:
”رحم کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے‘ تم اہلِ زمین پر رحم کرو‘ آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔“
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ارشاد ہے:
”جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا جو کسی کو نہیں بخشتا اس کو نہیں بخشا جاتا۔“
حضرت مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”تم پر مسلمانوں کے چار حقوق ہیں۔ اپنے محسن کی امداد کرو‘ گناہگار کے لیے مغفرت طلب کرو‘ مریض کی عیادت کرو اور توبہ کرنے والے کو دوست بناؤ۔“
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا اے میرے خالق! تو نے کس وجہ سے مجھے خلیل بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ مخلوق پر تیرے رحم کرنے کی بدولت۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں سے چڑیاں خرید کر انہیں آزاد کرتے ہوئے فرماتے‘ آزادی کی زندگی بسر کرو۔
فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے:
”رحمت‘ شفقت اور محبت میں دنیا بھر کے مسلمان یک قالب دو جان ہیں۔ جسم کا کوئی عضو تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے تو سارا جسم اس درد اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“
حکایت:
بنی اسرائیل پر ایک زمانہ میں سخت قحط پڑا۔ ایک عابد کا ریت کے ٹیلے سے گزر ہوا تو اس کے دل میں خیال گزرا کاش یہ ٹیلہ آٹے کا ہوتا اور میں بنی اسرائیل کا پیٹ اس سے بھر دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میرے اس بندے سے کہہ دو کہ تجھے اس ٹیلے کے برابر بنی اسرائیل کو آٹا کھلانے سے جس قدر ثواب ملتا‘ ہم نے اس نیت کی بدولت اتنا ثواب تمہیں عطا کر دیا ہے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
”مومن کی نیت عمل سے بہتر ہے۔“
حکایت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جاتے ہوئے شیطان کو دیکھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے ہاتھ میں راکھ تھی‘ فرمایا اس شہد اور راکھ سے کیا کرتے ہو؟ شیطان نے کہا غیبت کرنے والوں کو شہد کھلاتا ہوں اور راکھ یتیموں کے منہ پر ملتا ہوں۔ بالآخر لوگ ان سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔
ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب یتیم کو دُکھ دیا جاتا ہے تو اس کے رونے سے عرش کانپ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے فرشتو! اس یتیم کو کس نے رُلایا جس کا باپ فوت ہو چکا ہے؟
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے یتیم کے کھانے پینے کا انتظام کر کے اسے پناہ دی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کو واجب کر دیا۔
مروحتہ العلماء میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھانا کھانے سے پہلے میل دو میل چکر لگا کر مہمانوں کو تلاش کرتے جو ان کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن رو پڑے‘ آپ سے رونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ایک ہفتہ ہو گیا میرے ہاں کوئی مہمان نہیں آیا۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش نہیں ہے۔
فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے: جو کسی بھوکے کو فی سبیل اللہ کھانا کھلاتا ہے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے اور جو شخص بھوکے سے کھانا روک لے قیامت کے دن اللہ اس سے اپنا فضل روک لے گا اور اسے عذاب دے گا۔
ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے: سخی‘ اللہ تعالی جنت اور لوگوں کے قریب ہوتا ہے اور جہنم سے دُور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ تعالیٰ جنت اور لوگوں سے دُور ہوتا ہے لیکن جہنم کے قریب ہوتا ہے۔
فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے: اللہ تعالیٰ کو جاہل سخی‘ عابد بخیل سے زیادہ پسند ہے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز ایسے مسلمان بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔وہ عالم جو باعمل ہو… وہ حاجی جو حج کے بعد موت تک گناہوں سے بچا رہا…وہ شہید جو اسلام کا کلمہ بلند کرتا ہوا میدانِ جنگ میں شہید ہو‘ وہ سخی جو مال حلال کمائے اور بغیرریاکاری کے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے۔

####

امانت اور توبہ

امانت امن سے ماخوذ ہے اس وصف کے ساتھ وہ حق سے دُور رہنے سے مامون رہتا ہے اس کی ضد خیانت ہے جو خون سے مشتق ہے جس کے معنی کم کرنا کیونکہ کسی چیز میں خیانت کرنے سے کمی واقع ہوگی۔
رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے مکر‘ دھوکہ‘ خیانت کرنے والے دوزخ میں جائیں گے۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں سے معاملہ کرے اور ان پر ظلم نہ کرے‘ لوگوں سے بات کرے لیکن جھوٹ نہ بولے تو صاحبِ مروت لوگوں میں سے ہے تو ان سے بھائی چارہ رکھنا ضروری ہے۔
ایک اعرابی قوم کی تعریف میں کہتا ہے:
”وہ امین ہیں کسی کے ساتھ دھوکہ نہیں کرتے‘ کسی عہد سے غداری نہیں کرتے اور نہ ہی کسی مسلمان کی بے حرمتی کرتے ہیں نہ ہی ان کے ذمہ کسی کا حق ہے بس وہ بہترین قوم ہے۔“
اعرابی نے جس قوم کی تعریف کی اس قوم کے افراد باقی نہ ہیں اب انسانی لباس میں بھیڑیئے پھرتے نظر آتے ہیں…اشعار
ترجمہ :انسان مصائب میں کس پر بھروسہ کرے شریف اور بااخلاق آدمی کو دوست کہاں سے دستیاب ہوں گے۔
چند افراد کو چھوڑ کر اکثر انسانی لباس میں بھیڑیئے نظر آتے ہیں۔
 ایک شاعر کا قول ہے:
وہ اُٹھ گئے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد کہا جاتا تھا
 کاش شہر ویران ہو جاتے اور قیامت آ جاتی۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان بیان کیا کہ امانت جلد ہی اُٹھا لی جائے گی‘ لوگ باہم تجارت کریں گے مگر امین کوئی نہیں ہوگا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ میں فلاں آدمی امین ہے۔
توبہ:
آیات و احادیث سے توبہ کرنا واجب ہے:
 وتوبوا الی الله جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون۔ (النور:۳۱)
ترجمہ: ”اور اے ایمان والو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم فلاح حاصل کرسکو۔“
دوسرے مقام پر حکمِ ربانی ہے:
یایھا الذین امنوا توبوا الی الله توبة نصوحا۔
ترجمہ: ”اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے حضور خالص توبہ کرو۔“
”نصوح“ لفظ ”نصح“ سے ماخوذ ہے جس کے معنی خالص اللہ کے لیے توبہ کرنا ہے جو تمام عیوب سے پاک ہو‘ توبہ کی فضیلت اس آیت سے واضح ہے:
ان الله یحب التوابین ویحب المتطھرین۔ (البقرہ:۲۲۲)
ترجمہ: ”بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
ارشادِ رحمتہ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے:
”توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے اور توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔“
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا فرمان ہے:
”ایک ایمان دار کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کو اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ جو ہلاکت خیز زمین میں اپنی سواری معہ کھانے پینے کے سامان کے لاد ے لیے پھر رہا ہو نیند آ جائے اور سو جائے جب بیدار ہو تو پتہ چلے کہ اس کی زندگی کا ظاہراً سہارا غائب ہے اب موت کو دعوت دیتے ہوئے سو جائے پھر آنکھ کھلے تو سواری معہ سامان کے موجود ہو اسے حاصل کرکے جتنی خوشی ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ کو مسلمان کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔“
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی تو فرشتوں نے انہیں مبارک باد دی۔ جبرائیل و میکائیل علیہ السلام بھی آئے اور انہوں نے کہا اے آدم علیہ السلام! آپ نے توبہ کر کے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر لی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا اگر اس توبہ کے بعد رب سے سوال کرنا پڑا تو کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی فرمایا:
”اے آدم! تو نے اپنی اولاد کو محنت‘ دُکھ اور تکلیف کا وارث بنایا اور توبہ کا ورثہ عطا فرمایا ان میں سے جو بھی مجھ سے دعا کرے گا میں دعا قبول کروں گا جیسا کہ تیری دعا قبول ہوئی اور جس نے مجھ سے بخشش طلب کی میں بخش دوں گا کیونکہ میں قریب ہوں اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔ میں توبہ کرنے والوں کو ان کی قبروں سے اس طرح اُٹھاؤں گا کہ میدانِ حشر میں مسکراتے ہوئے آئیں گے ان کی دعا قبول ہوگی۔“
فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے:
”اللہ تعالیٰ کا دستِ رحمت رات کے گناہ گاروں کے لیے صبح تک اور دن کے گنہگاروں کے لیے رات تک دراز رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت تک اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمائے گا۔“
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تم نے آسمان کے ستاروں کے برابر بھی گناہ کر لیے اور بعدازاں شرمندہ ہو کر توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔“
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ارشاد ہے:
”بعض اوقات آدمی گناہ کرتا ہے پھر اسی گناہ کے سبب وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔ پوچھا گیا حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وہ کیسے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ گناہ کے فوراً بعد اس کی آنکھیں بارگاہِ رب العزت میں اشکبار ہونے سے۔“
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا:
”ندامت گناہوں کا کفارہ ہے۔“
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔“
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حبشی حاضر ہو کر کہنے لگا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب میں گناہ کرتا ہوں کیا اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”ہاں“ حبشی نے چیخ ماری اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح پرواز کر گئی۔
روایت ہے اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس کو ملعون ٹھہرایا تو اس نے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے مہلت عطا کر دی۔ وہ کہنے لگا تیری عزت کی قسم جب تک انسان میں جان ہے میں اسے گناہ پر اُکساتا رہوں گا۔ اللہ نے فرمایا مجھے اپنے جاہ و جلال کی قسم! میں ان کی زندگی کے آخری سانس تک ان کی توبہ قبول کرتا رہوں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”نیکی گناہوں کو اس طرح مٹا دیتی ہے جس طرح پانی میل کو صاف کر دیتا ہے۔“
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے یہ آیت:
انہ کان للاوابین غفوراً۔ (بنی اسرائیل:۲۵)
”بے شک وہ رجوع کرنے والوں کو بخش دیتا ہے۔“
اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو گناہ کے بعد پھر توبہ کرتا ہے پھر گناہ کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے۔
حضرت فضیل رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے:
”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے‘ گناہگاروں کو خوشخبری سنا دو اگر وہ توبہ کریں گے تو ان کی توبہ قبول ہوگی‘ صدیقین کو متنبہ کر دو کہ اگر میں نے ان کے بارے میں عدل کیا تو انہیں عذاب دوں گا۔“
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
”جس نے گناہ کیا پھر اسے یاد کر کے غم اور دُکھ محسوس کیا اور اس کا دل ڈر گیا تو اس کے نامہٴ اعمال سے اسے مٹا دیا جائے گا۔“
ایک روایت اس طرح ہے کہ ایک بزرگ سے خطا ہوئی‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تو نے دوبارہ خطا کی تو میرے عذاب سے نہ بچ سکو گے اس نے عرض کیا اے میرے پروردگار عزوجل! تو تو ہی ہے اور میں میں ہی ہوں۔ تیری عزت کی قسم! اگر تو نے مجھے نہ بچایا تو میں دوبارہ گناہ کروں گا اس طرح اللہ نے اسے بچا لیا۔
روایت ہے ایک شخص نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا‘ ایک آدمی نے گناہ کیا اس کی توبہ کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے منہ پھیر لیا پھر دوبارہ متوجہ ہوئے تو دیکھا اس کی آنکھیں اشک بار تھیں‘ آپ  نے فرمایا جنت کے دروازے ایسے ہیں جو کھلتے ہیں اور بند ہو جاتے ہیں مگر توبہ کا دروازہ ایسا ہے جو بند نہیں ہوتا اس پر مستقل ایک فرشتہ مقرر ہے اس لیے نیک عمل کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
بنی اسرائیل میں ایک نوجوان نے بیس سال تک عبادت کی پھر بیس سال گناہ کیے۔ ایک دفعہ آئینہ دیکھا تو اسے داڑھی میں بڑھاپے کے آثار دِکھائی دیئے اس نے کہا اے میرے مالک! میں نے بیس سال تیری عبادت اور بعد میں بیس سال تیری نافرمانی میں گزارے اگر میں تیری طرف لوٹ آؤں تو کیا میری توبہ قبول ہوگی؟غیب سے ندا آئی تو نے ہم سے محبت کی ہم نے تجھے محبوب بنایا تو نے ہمیں چھوڑ دیا تو ہم نے تجھے چھوڑ دیا تو نے گناہ کیے تو ہم نے مہلت دی اگر تو توبہ کر کے آئے گا تو ہم تیری توبہ قبول کریں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ محافظ فرشتے اس کی ماضی کے گناہوں کو بھول جاتے ہیں اس کے اعضائے جسمانی اس کے گناہوں کو بھول جاتے ہیں۔ زمین کا وہ حصہ جہاں اس نے گناہ کیا‘ آسمان کا وہ حصہ جس کے نیچے اس سے گناہ سرزد ہوا اس کے گناہوں کو بھول جاتے ہیں تاکہ وہ قیامت کو اس طرح آئے کہ اس کے گناہوں پر گواہی دینے والا کوئی نہ ہو۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث اس طرح سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”مخلوق کی پیدائش سے چار ہزار سال قبل عرش کے گرد لکھا ہوا ہے اس کو بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور پھر ہدایت پر چلے۔“
ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرنا فرضِ عین ہے اس لیے کہ چھوٹے گناہ مسلسل کرنے سے انسان بڑے گناہ کا بھی مرتکب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
والذین اذا فعلوا فاحشة اوظلموا انفسھم۔ (آل عمران:۱۳۵)
ترجمہ: ”اور وہ لوگ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی بُرائی کر بیٹھتے ہیں۔“
توبتہ النصوح سے مراد ہے کہ انسان اپنے ظاہر اور باطن سے توبہ کرے اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ جیسے کوڑے کے ڈھیر پر ریشمی کپڑا ڈال دو لوگ دیکھ کر تعجب کریں کہ کس قدر خوب ہے مگر جب پردہ اُٹھایا جائے تو وہ منہ پھیر لیں اسی طرح مخلوق کی نظر ظاہرہ عبادت پر پڑتی ہے۔ روزِ محشر جب لوگوں کا باطن سامنے لایا جائے گا تو فرشتے منہ پھیر لیں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ روزِ محشر کئی توبہ کرنے والے ایسے ہوں گے جنہیں گمان ہوگا کہ وہ توبہ کرنے والے ہیں مگر وہ توبہ کرنے والے نہ ہیں یعنی توبہ کا طریقہ انہوں نے اختیار نہیں کیا نہ ندامت ہوئی نہ گناہوں سے رُک جانے کا پکا ارادہ کیا جن پر ظلم کیا ان سے معافی مانگی اور نہ ان کو حق دیا۔ شرط یہ ہے کہ یہ ممکن تھا لیکن جس نے کوشش کی اور ناکامی میں بھی اہلِ حقوق سے استغفار کیا اس طرح سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ حقوق کو راضی کر کے معافی دِلوا دے گا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ گناہ کر کے اسے فراموش کر دینا ہے اور توبہ نہ کرنا ہے‘ عقل مند کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے گناہ کو نہ بھولے بلکہ اپنا محاسبہ خود کرے۔
یایھا المذنب المحصی جرائمہ
لاتنس ذنبک واذکر منہ ماسلفا
اے گناہوں کو شمار کرنے والے گناہ گار اپنے جرائم کو مت بھول اور اپنے ماضی کے گناہوں کو یاد کرتا رہ۔
وتب الی الله قبل الموت وانرجوا
یاعصیا واعترف ان کنت معترفا
موت سے پہلے اپنے رب کی طرف رجوع کر لے اور گناہوں سے رُک جا اگر اعتراف کرتا ہے تو اعترافِ گناہ کر۔
فقیہ ابواللیث رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ نبی ٴ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں روتے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا:
”اے عمر! (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کیوں روتے ہو؟“
عرض کی:
”یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر ایک نوجوان ہے جس کے گریہ نے میرا دل جلا دیا ہے‘ وہ رو رہا ہے۔“
آپ نے فرمایا:”اسے اندر لے آؤ۔“
جب نوجوان حاضر خدمت ہوا تو آپ نے رونے کا سبب پوچھا۔
نوجوان نے جواب دیا: ”میں اپنے گناہوں کی کثرت اور رب ذوالجلال کی ناراضگی کے خوف سے رو رہا ہوں۔“
آپ نے پوچھا کیا تو نے شرک کیا ہے؟
اس نے جواب میں کہا ”نہیں!“
آپ نے پھر فرمایا ”کیا کسی کو ناحق قتل کیا ہے؟“
کہا ”نہیں!“
فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تیرا گناہ معاف کر دے گا چاہے ساتوں آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے برابر ہوں اس نے عرض کی یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ فرمایا کیا تیرا گناہ عرش کی کرسی سے بھی بڑا ہے؟ اس نے کہا میرا گناہ عظیم ترین ہے۔ کہا تیرا گناہ عرش سے بھی بڑا ہے؟ اس نے کہا میرا گناہ عظیم ہے۔ فرمایا تیرا گناہ بڑا ہے یا اللہ؟ بے شک جرم عظیم کو اللہ ہی معاف کرتا ہے پھر آپ نے کہا مجھے اپنے گناہ بتاؤ اس نے عرض کیا مجھے آپ کے سامنے بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بتاؤ اس نے کہا عرصہ سات برس سے میں کفن چوری کرتا ہوں۔ ایک دن انصار کی لڑکی فوت ہو گئی میں نے اس کی قبر کو اُکھاڑ کر کفن چوری کر لیا تھوڑی دور گیا پھر واپس آ کر اس لڑکی سے بدکاری کی۔ یہ گناہ کر کے روانہ ہی ہوا تھا کہ لڑکی کھڑی ہو کر کہنے لگی اے نوجوان! اللہ تجھے غارت کرے تجھے اس کا خوف نہ آیا جو ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیتا ہے تو نے مردوں میں مجھے ننگا کر دیا۔ دربارِ الٰہی میں بھی ناپاک کر دیا۔ آپ نے سنا تو کہا دُور ہو جا تو جہنم کے لائق ہے۔
جوان روتا ہوا اللہ سے استغفار کرتا ہوا نکل گیا۔ چالیس راتیں توبہ کرتا رہا۔ چالیس راتوں کے بعد اس نے سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا:
”حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آدم اور ابراہیم علیہ السلام کے رب! اگر تو نے مجھے معاف کر دیا ہے تو اپنے حبیب اور ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتا دے ورنہ مجھ پر آسمان سے آگ برسا کر جلا دے مگر آخرت کے عذاب سے بچا لے۔“
روایت بیان کی گئی۔ جبرائیل علیہ السلام حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:
”حضور! آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کیا آپ نے مخلوقِ پیدا کی؟“
آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا ”نہیں! بلکہ اللہ نے ان کو پیدا کیا اور روزی دی“ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس نوجوان کی توبہ قبول کر لی۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کو بلایا اور توبہ کی قبولیت کی خوش خبری اس کو سنائی۔
حکایت:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ایسا شخص تھا جو توبہ پر قائم نہیں رہتا تھا جب بھی توبہ کرتا توڑ دیتا۔ بیس سال تک اس کی یہی حالت رہی۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہٴ وحی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا” میرے اس بندے کو کہہ دو کہ میں اس سے سخت ناراض ہوں “ جب آپ نے اللہ کا پیغام اس کو دیا تو وہ بہت غم زدہ ہوا اور جنگلوں میں نکل گیا‘ وہ کہہ رہا تھا یاالٰہی! تیری رحمت ختم ہو گئی ہے یا میرے گناہوں نے تجھے رنج پہنچایا؟ کیا تیری بخشش کے خزانے ختم ہو گئے ہیں یا بندوں پر تیری نظر کرم نہیں رہی؟ تیرے عفو اور درگزر سے کونسا گناہ بڑا ہے؟ تو کریم ہے اور میں بخیل ہوں‘ کیا میرا بخل تیرے کرم پر غالب آ گیا ہے  اگر تو نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم کر دیا تو وہ کس کے در پر جائیں گے اور وہ کس سے امید رکھیں گے  اگر تو نے رد کر دیا تو وہ کس کے پاس جائیں گے  اگر تیری رحمت ختم ہو گئی ہے اور عذاب میرے لیے لازم ٹھہرا ہے تو اپنے تمام بندوں کا عذاب مجھ پر کر دے۔ میں اپنی جان پیش کرتا ہوں۔“
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا جاؤ اس سے کہو اگر تیرے گناہ زمین کے برابر بھی ہوں تب بھی میں تجھے بخشش دوں گا کہ تو میرے کمال قدرت اور کمال عفو اور رحمت کو جان لیا۔
حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کو گناہ گار توبہ کرنے والے کی آواز سے زیادہ محبوب اور کوئی آواز نہیں جب وہ اللہ کو بلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”اے میرے بندے! میں موجود ہوں جو چاہے مانگ! میری درگاہ میں تیرا رُتبہ بعض فرشتوں کے برابر ہے۔ میں تیرے دائیں بائیں تیرے اوپر ہوں‘ تیرے دل کی دھڑکن سے زیادہ قریب ہوں۔ اے فرشتو! گواہ رہو میں نے اس کو بخش دیا۔“
حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے‘ اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے ایسے ہیں جنہوں نے گناہوں کے درخت لگائے انہیں توبہ کا پانی دیا‘ حسرت و ندامت کا پھل کھایا‘ دیوانگی کے بغیر وہ دیوانہ کہلائے اور بغیر کسی مشقت کے لذتیں حاصل کیں۔ حقیقت میں وہ بڑے فصیح اور بلیغ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت رکھتے ہیں‘ انہوں نے محبت کے جام نوش کیے اور مصائب پر صبر کرنے کی دولت سے مالامال ہوئے  پھر عالمِ ملکوت میں ان کے دل غم زدہ ہو گئے اور عالمِ جبروت کے حجابات کی سیر نے ان کے افکار کو جلا بخشی۔ وہ ندامت کے پتوں کے سایہ میں ہیں انہوں نے گناہوں کے اعمال نامے پڑھ لیے اور فریاد میں گر گئے اور تقویٰ کے زینہ کے ذریعے زہد کی بلندی پر چڑھ گئے۔ انہوں نے ترک دنیا کی تلخی کو شیریں خیال کیا۔ سخت بسر بھی ان کے نزدیک نرمی اختیار کر گئے۔ انہوں نے نجات اور سلامتی کی راہ کو پا لیا ان کی ارواح بلندی میں سیر کرنے لگیں اور نعمت کے باغات میں باغ باغ ہو کر ڈیرے ڈالے اور ابدی زندگی کے مستحق قرار پائے۔ انہوں نے آہ و بکا کی خندقوں سے نکل کر خواہشات کے پلوں کو عبور کیا۔ آخر میدانِ عمل میں اُتر پڑے اور حکمت کے حوض سے سیراب ہوئے۔ فہم و فراست کی کشتیوں میں سوار ہوئے‘ انہوں نے سلامتی کے دریا میں نجات کے قلعے تعمیر کیے اور راحت کے باغات اور عزت و کرامت کے خزانوں کے مالک بن گئے۔

####

کلمہ طیبہ کی برکات

کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول الله کی برکات کے بارے میں حضرت قیوم زماں مجدد الف ثانی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ کاش ساری دنیا اس کلمہ کے مقابلے میں ایسی ہی ہوتی جیسے قطرہ سمندر کے مقابلے میں اگر اس کلمہ کے کمالات کو تقسیم کیا جائے تو تمام جہان معمور اور سیراب ہو جائیں اس کلمہ کی عظمت و برکت لامحدود ہے جتنا کہنے والا بڑا ہوگا اس کی برکتوں کا ظہور اتنا ہی زیادہ ہوگا اس سے زیادہ اور کوئی آرزو نہیں کہ کوئی شخص کسی کونے میں بیٹھ کر یہ کلمہ کہے۔ (روضتہ القیومیہ حصہ اوّل)
حدیث شریف میں ہے:
لا الہ الا الله حصنی ومن دخل حصنی امن من عذابی۔
یعنی یہ کلمہ میرا مضبوط قلعہ ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے امن پا گیا۔
یہ کلمہ توحید اللہ کی طرف سے امانت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لا الہ الا انا پھر بندوں کو حکم دیا کہو لا الہ الا الله یہ کلمہ امن امان کا باعث ہے اور نجات دِلاتا ہے آخرت کے عذاب سے حدیث قدسی میں ہے:
وعزتی وجلاالی ورحمتی لا ادع فی النار احد یقول لا الہ الا الله۔ (طبرانی)
ترجمہ: ”یعنی قسم ہے مجھے اپنی ذات اور جلال و رحمت کی کہ یہ کلمہ گو کو ہرگز دوزخ میں نہ رہنے دوں گا۔“
سالک کے لیے ضروری ہے جب کلمہ طیبہ لا الہ الا الله کی تکرار کرے اور نفی میں تمام مخلوقات کو عدم اور فنا کی نظر سے مطالعہ کرے اور اثبات میں وجود معبودِ حقیقی کو مقدم اور بقاء کی نظر سے مشاہدہ کرے۔ کلمہ شریف کی تکرار کے وقت زبان کو تالو سے چپکائے اور دل کے ساتھ جو قلب حقیقی سے متعلق ہے متوجہ ہو اور سانس کو روک کر پوری قوت کے ساتھ ذکر کرے اس طرح کہ اس کا اثر دل میں پہنچے اور قلب متاثر ہو لیکن اس کا اثر اس کے ظاہر پر نمودار نہ ہو بالفرض اگر کوئی شخص سالک کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کے شغل سے وہ بھی آگاہ نہ ہو۔ ہر وقت اس ذکر میں مستغرق رہے‘ چلنے‘ پھرنے‘ بات کرنے‘ سننے‘ سونے حتیٰ کہ ہر وقت ذکر میں مصروف رہے۔
کون و مکاں میں کچھ نہیں اک نور کے سوا
جلوہ نما ہے سارے زمانے میں جابجا
حق نور ہے زمانہ میں اس کا ظہور ہے
توحید حق یہی ہے نہیں فرق اک ذرا
اگر مرید میں قابلیت ہو تو پیر اس میں تصرف کر کے پہلی ہی صحبت میں مرتبہ مشاہدہ تک پہنچا دیتا ہے ۔ جیسا کہ گنج کرم رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ فرماتے تھے کہ قطب دوراں حضرت میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے پہلی ہی نظر مبارک میں تمام سلوک کی منزلیں طے کرا دیں۔
میں شب نہیں ہوں جو میں سناؤں حدیث خواب
میں ہوں غلام شیخ جو ہے مثلِ آفتاب
سالک کے لیے لازم ہے کہ بُری صحبتوں سے پرہیز کرے خاص کر ان لوگوں سے جن کے عقائد اہلِ سنت والجماعت کے مطابق نہ ہوں۔ قرآن حکیم
ولاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھوہ وکان امرہ فرطا۔
ترجمہ: ”اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنے یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا “ ایسے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہیے مگر جو اللہ کے بندے ہیں ان کی محبت عین ایمان ہے۔
الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین۔
ترجمہ: ”گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار۔“
 یعنی دنیا کی دوستیاں  قرابتیں قیامت میں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گے۔ مومن باپ کافر بیٹے کا دشمن ہو جائے گا بلکہ کافر کے اعضاء بھی کافر کے دشمن ہو جائیں گے اور اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ دنیا فانی ہے تو دنیا کی دوستی بھی فانی لیکن اولیاء اللہ کی دوستی آخرت میں بھی کام آئے گی۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہوگی‘ قیامت کے روز اسی کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اور بمقتضائے ولقد کرمنا بنی ادم جملہ کائنات سے افضل اور برتر ہے۔ پس اس کا دیکھنا اور اس کی محبت‘ خدا کا دیکھنا اور خدا کی محبت ہے بلکہ ذکرِ خدا کے ساتھ خاص بندہٴ خدا کا دیکھنا شرط ہے پھر بندگانِ خدا جو ہر وقت ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے ہیں‘ ان کے چہرہٴ مبارک کی طرف خیال رکھنا بھی شرط ہے جیسا کہ قرآن شریف کے پارہ پندرہ سورہٴ کہف:
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدوة والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عینک عنھم۔
ترجمہ: ”اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور مت پھیر اپنی آنکھوں کو ان سے۔“
اس آیتِ شریفہ سے ثابت ہوا کہ بندگانِ خدا کو دیکھنا اور ان کی محبت کا خیال رکھنا ہر وقت فرض ہے اسی خیال رکھنے کو فکر کہتے ہیں اور اسی کو تصور کہتے ہیں۔ رسولِ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے دیکھنے کی تعریف فرماتے ہیں۔
حدیث شریف ھم الذین اذا رء وذکرالله۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آئے۔
حدیث شریف میں فرماتے ہیں:
ان النظر علی وجھھم عبادة۔
”تحقیقی نظر یعنی دیکھنا ان کے چہرے پر بڑی عبادت ہے۔“
حضرت شاہ عبدالحق صاحب دہلوی رحمتہ اللہ علیہ مشکوٰة کی شرح باب حفظ اللسان والغیبتہ میں اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں۔
خیار من عباد الله الذین اذا روٴوا ذکر الله۔
”اللہ کے برگزیدہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ جل وعلا یاد آئے۔“
اور فکر کے بارے میں بہت سی آیاتِ مقدسہ اور احادیث شریف وارد ہیں۔
تفکر ساعة خیر من عمل الثقلین۔
ترجمہ: ”ایک ساعت کی فکر دوجہان کے عمل سے اچھا ہے۔“
والله جلیس من ذکرہ۔
ترجمہ: ”اور جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کا ہم مجلس ہو جاتا ہے۔“
سب موجودات اللہ کا نشان ہے مگر اشرف المخلوقات انسان ہے۔ پس افضل مخلوق کا دیکھنا سب سے بہتر ہے جس کی شان میں حدیثِ قدسی وارد ہے۔
الانسان سری وانا سرہ۔
”آدمی میرا بھید ہے اور میں اس کا بھید ہوں۔“
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قولی حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں۔
من رانی فقد رایٴ الحق۔
ترجمہ: ”جس نے مجھے دیکھا پس اس نے حق کو دیکھا۔“
اے عزیزو! جو اپنے مرشد کی صورت کا خیال (تصور) اپنے دل میں رکھتے ہیں وہ دِلوں میں بُرے خیال اور بُرے فعل سے بچ جاتے ہیں۔“
حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے:
ولقد ھمت بہ وھم بھالو لآ ان رابرھان ربہ۔
ترجمہ: ”اور اس عورت نے ارادہ بد کیا یوسف علیہ السلام سے اور یوسف علیہ السلام بھی ارادہ کر ہی چکا تھا اگر نہ ہوتا کہ اس نے دیکھ لی دلیل اپنے پروردگار کی۔“
یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت مبارک حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے دِکھائی تو رب کریم نے بچا لیا۔
اے لوگو! خدا کے خوف سے ڈرو اور بندگانِ خدا کو حقارت سے نہ دیکھو اور ان کی تعظیم و تکریم سے انکار مت کرو اور ان سے محبت رکھنے والوں کو مشرک پیرپرست بناتے ہو۔ خداوند تعالیٰ سب کو راہِ مستقیم پر لائے اور ہدایت کا راستہ اپنے فضل و کرم سے دِکھائے آمین ۔ بحرمت سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔
ہر انسان کو واجب ہے کہ بندگانِ خدا سے دل سے محبت کرے ان کی صحبت اختیار کرے۔ بندگانِ خدا کی محبت عین خدا کی محبت ہے۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہر کہ خواہد ہم نشینی باخدا
کونشیند در حضور اولیاء
 ترجمہ : جو اللہ کے ہم نشینی چاہتا ہے تو اولیاء اللہ کی ہم نشینی اختیار کرے ۔
پس ہر انسان پر لازم ہے اور خاص کر طالبانِ مولیٰ کے واسطے ضروری ہے کہ ہر وقت اپنے مرشد کی صورت و محبت کی دل میں جمائے رکھے۔
۱) خورشید نہ مجرم از کسے بتیانانیست
سورج کا کیا قصور اگر خود ہی نابینا ہو۔
۲) فالعاقل تکفیة الاشارة
ترجمہ : عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔
۳)
نقشبندیہ عجیب قافلہ سالار انند
کہ برنداز رہ پنہاں مجرم قافلہ را
ترجمہ : نقشبندیہ وہ سالار قافلہ ہیں جو اہل قافلہ کو خفیہ راستوں سے آگاہ کرتے ہیں ۔
۴) جزاکم الله سبحانہ عنا خیرا الجزاء۔
ترجمہ : ہماری طرف سے سبحانہ تعالی تمہیں اچھی جزا عطا فرمائے۔
۵) حب الدنیان راس کل خطیئة۔
ترجمہ : دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے ۔
۶) دنیا میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک نائب کی حیثیت سے بھیجا ہے اور اس کی سلطنت میں ہر شے اس کی ہے اور کوئی شے انسان کی ملکیت میں نہیں۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ جو کچھ اسے عطا کیا گیا ہے۔ مالکِ حقیقی کی منشاء کے مطابق خرچ کر کے حق نیابت ادا کرے حق نیابت کی ادائیگی ہی حقیقی عبادت ہے۔
۱) سالک پر لازم ہے کہ ایسی نیت سے غسل کرے گویا یہ اس کا آخری غسل ہے۔
۲) سالک پر لازم ہے کہ اپنے دل میں نیت کرے کہ اس نے خدا کی مخلوق کو بہت تکلیف دی ہے۔
۳) سالک کے لیے لازم ہے کہ ہمیشہ کلمہ طیبہ کا ذکر جاری رکھے۔
۴) سالک کے لیے لازم ہے کہ قدرتِ الٰہی کا مشاہدہ کرے۔
۵) سالک کے لیے لازم ہے کہ ہمیشہ رزقِ حلال کی طرف مائل رہے۔
۶) سالک کے لیے لازم ہے کہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرے۔
۷) سالک کے لیے لازم ہے کہ اپنا پہلو زمین پر نہ لگائے۔
#… صرف علم مدد نہیں کرتا‘ محض علم مفید نہیں۔
#… محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تم سے محاسبہ کیا جائے۔
#… چند چیزیں غنیمت سمجھو‘ بڑھاپے سے پہلے جوانی‘ بیماری سے پہلے تندرستی‘ غربت سے قبل خیرات‘ موت سے پہلے زندگی۔
# … جس کا کوئی شیخ نہیں اس کا شیخ شیطان ہے۔
#… سالک کو رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع کرنا چاہیے اس سے قرب حاصل ہوگا۔
#… سالک کو رغبت دنیا‘ ریا‘ جفا‘ شرک خفی‘ حسد‘ بغض‘ کینہ‘ خصومت‘ تکبر‘ عجب‘ حرص‘ طمع‘ منزلت‘ ریاست‘ شوکت‘ جاہ اور ثناء سے علیحدہ رہنا چاہیے۔
#… صالحین کے لیے دس شرائط ہیں: قبرستان جانے کو لازم کرنا‘ یتیموں کی سرپرستی‘ بیماروں کی عیادت‘ صدقہ دینا‘ ہر اچھی چیز سے محبت‘ اللہ کا ذکر کرنا۔
#… سالک کو کلمہ لا الہ الا الله کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے اس سے ترقی ہوتی ہے۔
#… عمل کے بغیر نسب بے کار ہے۔
#… صبح کو سونا مکروہ ہے اس سے تین چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ تنگی عشق‘ کوتاہی‘ عمر ‘ قلت معاش
#…تین آدمیوں سے ڈرنا چاہیے۔ جاہل پیر‘ جابر حاکم اور دنیادار عالم
#… خط کا جواب دینا‘ سلام کے جواب کی طرح ضروری ہے۔
#… دعائیں قضا کو بدل دیتی ہیں۔
#… سالک کے واسطے ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے‘ اللہ پر توکل ضروری ہے۔
#… وضو فضل ہے‘ نماز وصل ہے۔
#… عالم کامل طبیب حاذق ہے۔
#… ہر حال میں قناعت کرنی چاہیے۔

####

ذکر کی فضیلت

ان الصلوة تنھی عن الفحشآء والمنکر ولذکر الله اکبر۔
ترجمہ: ”بے شک نماز باز رکھتی ہے بدی اور بُرائی سے اوراللہ کا ذکر سب سے بڑا ( باعث اجر ) ہے۔“
اور تلاوتِ قرآن سب عبادتوں سے اس واسطے افضل ہے کہ وہ کلام خدائے عزوجل ہے۔ حق تعالیٰ کی یاد دِلاتا ہے اور جو کچھ اس میں ہے خدا کے ذکر کی تازگی کا سبب اور واسطہ ہے اور روزہ سے شہوت اور خواہش کا توڑنا مقصود ہے۔ دل جب ہجوم شہوت سے نجات پاتا ہے‘ صاف ہو کر حق تعالیٰ کے ٹھہرنے کا مقام بن جاتا ہے اس واسطے کہ جب تک شہوتوں اور خواہشوں سے بھرا ہوا ہے اس سے ذکرِ الٰہی ناممکن ہے اور ذکر اس میں شوق کا برپا کرنا تو ذکرِ الٰہی سب عبادتوں کا خلاصہ ہے بلکہ اسلام کی اصل اور جڑ کلمہ لا الہ الا الله ہے اور عین ذکر ہے اور عبادتیں اس ذکر کی تاکید اور مضبوط کرنے والی ہیں اور تیرے ذکر کا ثمرہ یہ ہے کہ خدا تجھے یاد کرتا ہے اس سے زیادہ ثمرہ اور نتیجہ کیا ہے اسی واسطے ارشاد فرمایا:
فاذکرونی اذکرکم۔
”تم مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں “۔خدا کو ہمیشہ یاد کرنا چاہیے اگر ہمیشہ نہ ہو تو اکثر اوقات ہو کہ آدمی کی فلاح اسی کے ساتھ وابستہ ہے اسی واسطے حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
واذکر الله کثیرا لعلکم تفلحون۔
”اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ “
الذین یذکرون الله قیاما قعودا وعلی جنوبھم۔
”جو اللہ کو کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے یاد کرتے ہیں “
واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفة ودون الجھر من القول بالغدو والاصال ولاتکن من الغافلین۔
” اور اپنے رب کو عاجزی سے اور راز داری سے اپنے نفس (دل) میں یاد کرو بلند آواز کے بغیر صبح و شام اور غافلوں میں نہ ہوجانا ۔“
 جناب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سب کاموں میں کون سا کام افضل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مرتے وقت ذکرِ الٰہی سے تر زبان ہونا۔ جناب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خداوند کریم کے نزدیک جو کام بہترین اعمال اور مقبول ہے اور تمہارا بزرگ ترین درجات ہے اور سونا چاندی صدقہ دینے سے بہتر ہے اور خدا کے دشمنوں کے ساتھ اس طرح سے جہاد کرنے سے بھی بہت بڑھ کر ہے کہ تم ان کی گردنیں مارو۔ وہ تمہاری گردنیں کاٹیں اس کام سے میں تمہیں آگاہ کروں۔؟ جاں نثاروں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایئے وہ کیا کام ہے۔ آپ نے فرمایا ذکرِ اللہ یعنی حق تعالیٰ کو یاد کرنا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو میرا ذکر دعا مانگنے سے باز رکھے گا۔ میرے نزدیک اس کا انعام اور اس کو عطا کرنا مانگنے والوں کو انعام اور عطا سے بہتر ہے اور فرمایا کہ خدا کو یاد کرنے والا غافلوں میں ایسا ہے جیسا مردوں میں زندہ ہے اور جیسے سوکھی گھاس میں ہرا درخت اور جہاد سے بھاگے ہوؤں میں غازی ثابت قدم۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اہلِ جنت کو کسی امر پر حسرت نہ ہوگی سوائے بغیر ذکر کے وقت گزر جانے کے۔
ذکر کے چار درجے ہیں:
زبانی ذکرہو‘ دل سے غافل اور بے فکر ہو اس کا اثر کم ہوتا ہے مگر بالکل بے اثر نہیں ہے اس واسطے کہ جو زبان ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو اس کو اس زبان پر فضیلت ہے جو بے ہودہ باتوں میں مصروف ہو یا بالکل معطل اور بے کار ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ ذکر دل میں تو ہو لیکن قرار نہ پکڑے اور گھر نہ کرے ایسا ہو کہ دل کو تکلف سے ذکر کے ساتھ مشغول رکھیں کہ اگر یہ جہد اور تکلف نہ ہو تو دل غفلت یا نفس کے خطروں سے پھر اپنی طبیعت کے موافق ہو جائے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ ذکر دل میں گڑ گیا ہو اور ایسا غالب اور متمکن ہو گیا ہو کہ اور کام کی طرف اسے تکلف سے مشغول کریں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ جس کا ذکر ہے وہ دل میں بس گیا ہو اور وہ حق سبحانہ تعالیٰ ہے اور ذکر دل میں نہ اس واسطے کہ جس شخص کا دل بالکل مذکورہ یعنی خدا کو دوست رکھتا ہے اس میں اور اس شخص میں جس کا دل ذکر کو دوست رکھتا ہے۔ بڑا فرق ہے بلکہ کمال یہ ہے کہ ذکر اور ذکر کا خیال بالکل دل سے جاتا رہے۔ مذکورہ ہی مذکورہ رہ جائے اس واسطے کہ ذکر عربی ہو یا فارسی سخن نفس سے خالی نہ ہوگا بلکہ عین سخن ہوگا اور اصل یہ ہے کہ عربی اور فارسی سخن وغیرہ جو کچھ ہے‘ سب چیزوں سے دل خالی ہو اور سب وہی ہو جائے دل میں کسی دوسری چیز کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ فرطِ محبت جس کو عشق کہتے ہیں یہ امر اس کا نتیجہ ہے یعنی اس سے حاصل ہوتا ہے اور عاشق ہمیشہ معشوق کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے تصور اور کمال خیال میں اس کا نام بھی بھول جاتا ہے جب ایسا مستغرق اور محو ہو جائے گا کہ اپنے تئیں اور غیرحق جو کچھ ہے سب کو بھول جائے گا تو تصوف کے پہلے راستے پر آئے گا۔ صوفیہ صافیہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس حالت کو فنا اور نیستی کہتے ہیں یعنی جو کچھ ہے وہ سب اس کے ذکر سے نیست ہو گیا اور خود بھی نیست ہو گیا کہ اپنے تئیں بالکل بھول گیا اور جس طرح حق تعالیٰ کے بہت سے عالم ایسے ہیں کہ ہمیں ان کی خبر نہیں وہ ہمارے حق میں نیست ہیں اور ہم جن سے آگاہ ہیں اور ہمیں جن کی خبر ہے وہ ہمارے نزدیک ہست ہیں اگر یہ عالم جو خلق کے نزدیک موجود ہیں۔ کسی کو بھول گئے تو اس کے نزدیک نیست ہو گئے اور جب اپنی خودی بھولے گا تو خود بھی اپنے نزدیک نیست ہو گیا اور خدا کے سوا جب کوئی چیز اس کے ساتھ نہ رہی تو حق تعالیٰ ہی اس کے نزدیک ہست اور اس کے سامنے موجود ہے۔ اے عزیز! جس طرح تو جب نگاہ کرے اور زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے وہی دیکھے اس کے سوا اور کچھ نظر نہ آئے تو تو یہی کہے گا کہ اس کے سوا عالم ہستی نہیں اور تمام عالم یہی ہے اسی طرح یہ ذاکر بھی خدا کے سوا کچھ نہیں دیکھتا اور کہتا ہے کہ ہمہ اوست یعنی اللہ ہی اللہ ہے۔ سوا اللہ کے کچھ نہیں اس مقام پر اس کے اور خدا کے درمیان جدائی نہیں باقی رہتی اور یگانگی حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ توحید اور وحدانیت کا پہلا حاکم ہے یعنی جدائی اُٹھ جاتی ہے۔ جدائی اور دوئی سے کچھ خبر ہی نہیں رہتی اس واسطے کہ جدائی وہ جانتا ہے جو دو چیزیں جانے اپنے تئیں اور خدا کو پہچانے اور یہ اس وقت آپ سے بے خبر ہے۔ ایک کے سوا دوسرے کو پہچانتا ہی نہیں تو جدائی کیونکر جانے  آدمی جب اس درجہ پر پہنچتا ہے تو فرشتوں کی صورتیں اس پر ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ملائک اور انبیاء کی روحیں اچھی اچھی صورتیں اسے نظر آنے لگتی ہیں۔ جناب احدیت کے واسطے جو چیزیں خاص ہیں۔ وہ منکشف ہونے لگتی ہیں اور بڑے بڑے احوال نمودار ہوتے ہیں کہ ان کا بیان ممکن نہیں جب پھر آپ میں آتا ہے اور کاموں سے آگاہی پاتا ہے تو اس کا اثر اس میں رہتا ہے اور اس حالت کا شوق غالب ہو جاتا ہے اور دنیا و مافیہا اور جن کاموں میں خلق مشغول ہے۔ وہ سب اسے ناگوار اور ناپسند ہوتے ہیں۔ اپنے بدن سے تو آدمیوں میں ہوتا ہے اور دل سے غائب رہتا ہے اور تعجب کی نظر سے لوگوں کو دیکھتا ہے کہ دنیا کے کام میں مشغول ہیں اور رحمت اور حسرت کی نگاہ سے دیکھنا اس واسطے ہے کہ جانتا ہے کہ یہ لوگ کتنے بڑے اور عمدہ کام سے محروم ہیں اور لوگ ہنستے ہیں کہ وہ خود بھی دنیا کے کاموں میں کیوں نہیں مشغول ہوتا اور گمان فاسد کرتے ہیں کہ اسے سودا ہو جائے گا اگر کوئی شخص فنا اور نیستی کے درجے کو نہ پہنچے اور یہ حالات اور مکاشفات اس پر ظاہر نہ ہوں لیکن ذکرِ الٰہی اس پر غالب اور مستولی ہو جائے اور دل پر چھا جائے یہاں تک کہ حق تعالیٰ کو دنیا و مافیہا سے زیادہ دوست رکھے تو اصل سعادت یہی ہے اس واسطے کہ جب خدا کی طرف رجوع ہو گیا تو موت سے اس کے دیدار کے سبب کمال لذت بقدر محبت حاصل ہوگی اور جس کی محبوبہ معشوقہ دنیاوی ہے اور جو اس پیرزال پر عاشق و مفتون ہے وہ بقدر عشق و محبت اس کی فرقت میں رنج و اذیت کھینچے گا جیسا عنوان مسلمانی میں بیان ہو چکا ہے تو اگر کوئی شخص بہت ذکر کرتا ہے اور وہ احوال جو صوفیہ کو ہوتے ہیں اس پر ظاہر اور نمودار نہ ہوں تو چاہیے کہ بے زار نہ ہو کہ سعادت اس حال پر موقوف نہیں اس واسطے کہ جب دل ذکر نور سے آراستہ ہوا تو کمال سعادت پر مہیا ہوا اور جو کچھ اس جہان میں اسے نہ ظاہر ہوگا وہ مرنے کے بعد ظاہر ہوگا تو آدمی کو چاہیے کہ مراقبہ دل کا التزام رکھے تاکہ خدا سے لگا رہے اور کبھی غافل نہ ہو اس واسطے کہ ذکر دائمی حضرت الہیت اور عجائب ملکوت کی کنجی ہے یہ جو جناب سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و علیہ افضل التحیات نے فرمایا ہے کہ جو شخص جنت کے باغوں کی سیر کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ خدا کا ذکر کثرت سے کیا کرے اس کے یہی معنی ہیں اور یہ جو ہم نے بیان کیا اس سے معلوم ہوا کہ ذکر سب عبادتوں کا خلاصہ ہے اور ذکرِ حقیقی یہ ہیں اور یہ جو ہم نے بیان کیا اس سے معلوم ہوا کہ ذکر سب عبادتوں کا خلاصہ ہے اور ذکر حقیقی یہ ہے کہ اوامر و نواہی پیش آنے کے وقت خدا کو یاد کرے اور گناہ سے ہاتھ کھینچے‘ حکمِ الٰہی بجا لائے اگر ذکر اسے اس بات پر نہ لائے تو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ذکر سخن نفس اور بے حقیقت تھا۔
رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بندہ جو نیکی کرتا ہے‘ اسے قیامت کے دن ترازو میں رکھیں گے مگر کلمہ لا الہ الا ا لله کہ اگر اسے میزان میں رکھیں تو سات زمین اور سات آسمان اور جو کچھ ان میں ہے‘ ان سب سے زیادہ نکلے اور فرمایا ہے کہ لا الہ الا الله کہنے والا اگر اس میں سچا ہے یعنی صدق دل سے کہتا ہے اور زمین کی خاک کے برابر کثرت سے گناہ رکھتا ہے تو بھی اسے بخش دیں گے اور فرمایا کہ جس نے خلوصِ دل سے لا الہ الا الله کہا وہ جنت میں جائے گا اور فرمایا کہ جو:
لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ لہ الملک لہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔
”نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ اکیلا ہے وہ نہیں ہے کوئی شریک واسطے اس کے اسی کے واسطے ہے بادشاہی اسی کے لیے ہے سب تعریف اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
ہر روز سو بار کہے تو دس بندے آزاد کرنے کے برابر ہے کہ اس نے آزاد کیے اور سو نیکیاں اس کے نامہٴ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو گناہ مٹائے جائیں گے اور رات تک یہ کلمہ شیطان سے اس کے لیے حصار ہوگا۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جو شخص یہ کلمہ کہے گا اس نے گویا فرزندانِ اسمٰعیل علیہ السلام میں سے چار بندوں کو آزاد کیا۔
رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی ایک دن میں سبحان الله وبحمدہ سو بار کہے اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ کثرت میں دریا کے جھاگ کے برابر ہوں اور فرمایا ہے کہ جو کوئی ہر نماز کے بعد 33بار سبحان الله اور33 بار الحمدلله اور 34بار الله اکبر کہے‘ اس کے بعد اس کلمہ کو سو بار کہے ۔
لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔
تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ اگرچہ کف دریا کے برابر ہوں اور روایت ہے کہ ایک مرد رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دنیا نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ تنگ دست اور محتاج اور عاجز ہو گیا ہوں‘ میری کیا تدبیر ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تو کدھر ہے۔ ملائکہ کے اس صلوٰة اور خلق کی اس تسبیح سے تو کیا بے خبر ہے جس کی بدولت وہ روزی پاتے ہیں اس نے عرض کی کہ وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سبحان الله وبحدہ سبحان الله العظیم وبحمدہ استغفرالله۔
”پاک ہے اللہ اور اس کی حمد کے ساتھ اسے یاد کرتا ہوں پاک ہے اللہ بڑا اور اس کی تعریف کے ساتھ یاد کرتا ہوں اس سے بخشش چاہتا ہوں میں اللہ سے۔“
فجر کی نماز سے پہلے سو بار پڑھا کرو تاکہ دنیا تیری طرف متوجہ ہو جائے اور حق تعالیٰ ہر کلمہ سے ایک ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے کہ وہ قیامت تک تسبیح کیا کرتا ہے اور اس کا ثواب تجھے ملے گا اور فرمایا کہ یہ کلمات باقیات الصالحات ہیں۔
سبحان الله والحمدلله ولآ الہ الا الله والله اکبر۔
ترجمہ : اللہ پاک ہے سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے ۔
اور فرمایا کہ میں ان کلمات کو کہتا ہوں اور جو چیز گردشِ آفتاب کے نیچے ہیں ان سے بہت دوست رکھتا ہوں اور فرمایا کہ خدا کے نزدیک یہی چار کلمے سب کلموں سے بہتر ہیں اور فرمایا ہے کہ دو کلمے ہیں کہ زبان پر سبک اور میزان میں گراں ہیں اور خدا کے نزدیک دوست اور محبوب ہیں۔
سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم۔
محتاجوں نے رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آخرت کا ثواب تو سب امیروں نے لے لیا اس واسطے کہ جو عبادت ہم کرتے ہیں‘ وہ بھی کرتے اور اس کے علاوہ صدقہ بھی دیتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں دے سکتے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صدقہ ہے اور اگر کوئی تم میں سے ایک لقمہ اپنے عیال کے منہ میں دیتا ہے‘ وہ بھی صدقہ ہے۔ اے عزیز جان لو کہ درویش کے حق میں تسبیح و تحلیل کی فضیلت اس سبب سے زیادہ ہے کہ اس کا دل دنیا کی ظلمت کے سبب سے تاریک نہیں ہوتا اور بہت اثر کرتا ہے اور بہت ثمرہ دیتا ہے اور جو ذکر کہ اس دل میں ہوتا ہے جو دنیا کی خواہشوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ ایسا ہے جیسے وہ بیج جو کھار زمین میں بویا جائے کہ اس کا اثر کمتر ہوتا ہے۔
استغفار کا بیان:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں دو آیتیں ہیں کہ جو کوئی گناہ کر کے ان دونوں آیتوں کو پڑھ کر استغفار کرے اس کا گناہ بخش دیا جاتا ہے۔ وہ دو آیتیں یہ ہیں۔ ایک:
والذین اذا فعلوا فاحشة اوظلموا انفسھم ذکر الله فاستغفروا لذنوبھم۔
تمامی آیت یہ ہے:
ومن یغفرالذنوب الا الله ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون۔
یعنی وہ لوگ جب کرتے ہیں بُرا کام یا ظلم کرتے ہیں اپنی جانوں پر یاد کرتے ہیں اللہ کو پھر بخشش چاہتے ہیں اپنے گناہوں کی اور کون بخشتا ہے گناہوں کو مگر اللہ اور نہیں کرتے ان پر جو انہوں نے کیا اور وہ جانتے ہیں۔
اور دوسری آیت یہ ہے:
ومن یعمل سوء اویظلم نفسہ ثم یستغفر الله یجد الله غفورا رحیما۔
”جس نے بُرا کام یا ظلم کیا اپنی ذات پر پھر اللہ سے بخشش مانگے گا اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا۔“
اور حق تعالیٰ رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے:
فسبح بحمد ربک واستغفرہ۔
”پس تسبیح کر تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور مغفرت چاہ تو اس سے“
اسی سبب سے رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اکثر فرماتے تھے:
سبحانک اللھم وبحمدک اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم۔
”پاک ہے تو اے اللہ پھر اور تعریف کرتا ہوں میں تیری اے اللہ! بخش دے تو مجھے۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔“
اور رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی استغفار کرے گا‘ کسی رنج میں ہو‘ خوش ہو جائے گا اور جہاں سے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو‘ روزی پائے گا اور فرمایا ہے کہ میں دن بھر میں ستر بار توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔ رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حال تھا تو معلوم ہوا کہ اوروں کو کسی وقت توبہ اور استغفار سے خالی رہنا نہ چاہیے اور فرمایا ہے کہ جو کوئی سوتے وقت تین بار:
استغفرالله الذی لا الہ الا ھوالحی القیوم۔
”مغفرت چاہتا ہوں اللہ سے ایسا اللہ کہ نہیں ہے کوئی معبود مگروہ زندہ قائم ہونے والا۔“
 تو اس کے سب گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ کثرت میں دریا کے جھاگ اور میدان کی ریت اور درخت کے پتوں اور دنیا کے دنوں کے برابر ہوں اور فرمایا ہے کہ جو بندہ گناہ کرتا ہے اور خوب طہارت کر کے دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور استغفار کرتا ہے اس کا گناہ بخش دیا جاتا ہے۔

####

دعا

رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا عبادتوں کا مغز اور خلاصہ ہے اس کا سبب یہ ہے کہ عبادتوں سے عبودیت مقصود ہے اور عبودیت اسی سے ہوتی ہے کہ بندہ اپنی شکستگی اور عاجزی اور خدا کی قدرت اور عظمت دیکھے اور جانے اور دعا میں یہ دونوں باتیں ہیں اور تضرع اور زاری جس قدر زیادہ ہو بہتر ہے۔ آٹھ ادب دعا نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ پہلا ادب یہ ہے کہ بزرگ وقتوں میں دعا کرنے کی کوشش کرے۔ مثلاً عرفہ  رمضان المبارک‘ مع صبح کا وقت  رات کا درمیان دوسرا ادب یہ ہے کہ بزرگ حالات کو نگاہ رکھے جیسے غازیوں کے جنگ کرنے کا وقت اور وقت باراں اور نماز فریضہ کا وقت اس واسطے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ان وقتوں میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اسی طرح اذان اور تکبیر کے درمیان اور روزہ دار ہونے کی حالت میں اس وقت جب دل بہت رقیق ہو اس واسطے کہ دل کی رقت رحمت کھلنے کی دلیل ہے۔ تیسرا ادب یہ ہے کہ دونوں ہاتھ اُٹھائے اور آخر کو منہ پر پھیرے اس واسطے کے حدیث شریف میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ اس بات سے بہت بزرگ ہے کہ جس ہاتھ کو اس کی طرف اُٹھائیں‘ وہ اسے خالی پھیرے اور رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی دعا کرے گا تین چیزوں سے خالی نہ رہے گا یا اس کا گناہ معاف فرمایا جائے گا یا فوراً کوئی چیز اسے پہنچے گی یا آئندہ قیامت کے دن اجرو بدلہ اور ثواب دیاجائے گا ۔
 چوتھا ادب یہ ہے کہ دعا میں وسوسہ نہ کرے بلکہ اسی بات پر جمائے کہ قبول ہوگی۔

####





















ہر مشکل وقت میں ماں
 میری رہنمائی کرتی ہے
پیر طریقت‘ حضرت مولانا محمد عنایت احمد

( یہ مضمون میں نے اپنی کتاب ” ماں “ کے لیے پیر عنایت سرکار  سے ایک انٹرویو کے ذریعے حاصل کیا تھا جس کی توثیق آپ  نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ فرما کر مہر ثبت کردی ۔ جو نہ صرف ماؤں کی محبت کا بین اظہار ہیں بلکہ پیرعنایت سرکار  کی اپنی والدہ مرحومہ سے والہانہ محبت کا ثبوت بھی ہیں ۔یہ مضمون نذر قارئین کیا جارہا ہے -:
        ..................................
    میری ماں قاسم بی بی بہت ہی نیک سیرت خاتون تھیں۔ وہ کشمیر کے ایک گاؤں کلیساں میں اپنے والدین کے ہمراہ رہتی تھیں۔ نانی نے میری والدہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ یہی وجہ تھی کہ ماں نماز پنجگانہ کی ہمیشہ پابند رہیں۔ دین کی تعلیم کے علاوہ انہوں نے کچھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کی۔ لیکن اس زمانے میں لڑکیوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے پھر میرے والد گرامی میاں صحبت علی (جو میری والدہ کے قریبی عزیزوں میں ہی شامل تھے) سے شادی ہو گئی۔ یوں تو ماں کی محبت ہم سب بہن بھائیوں کیلئے یکساں تھی لیکن ماں میری دینی تربیت پر خصوصی توجہ فرماتیں ان کے نزدیک انسان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے دین کے بارے میں مکمل طور پر جان نہیں لیتا۔
    جب میں گاؤں میں موجود پرائمری سکول پڑھنے کیلئے جایا کرتا تو انہیں اس وقت تک قرار نہ آتا جب تک میں گھر واپس نہ آجاتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ مجھے سکول سے گھر پہنچنے میں تھوڑی سی تاخیر ہو جاتی تو ماں اس وقت تک روٹی نہ کھاتیں جب تک میں گھر واپس نہ پہنچ جاتا۔ ماں مجھے ہر صبح قرآن پاک کی تلاوت کر کے دم کرتیں اور میرے لیے ڈھیروں دعائیں کرتیں ماں اکثر فرماتیں کہ بھوک لگے تو کھانا کھاؤ اور جب بھوک نہ لگے تو کھانا نہ کھاؤ کیونکہ اس طرح انسان کی صحت خراب ہو جاتی ہے۔ ماں کو جب بھی مجھ پر پیار آتا تو سینے سے لگا کر میرا ماتھا چومتیں اور رب العزت کے حضور دعاگو ہو جاتیں۔
    پھر جب ہمارا خاندان قیام پاکستان کے بعد کشمیر سے ہجرت کر کے ضلع گجرات کے چک نمبر 34 میں آبسا تو ایک رات کے پچھلے پہر ماں کی طبیعت خراب ہو گئی۔ چونکہ اس وقت میری عمرچھ سال تھی اس لئے ماں کی بیماری نے مجھے بھی پریشان کر رکھا تھا۔ پھر جب رات کی سیاہی تہجد کے وقت سے نکل کر نماز فجر کی طرف بڑھنے لگی تو قریبی مسجد سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور بڑے پن (بزرگی) کی آواز اذان کی صورت میں سنائی دی تو ماں نے مجھے پڑوسن کو بلانے کیلئے بھیجا جب وہ آگئی فرمایا کہ میرے نزدیک بیٹھ کر قرآن پڑھ کر سناؤ اور شہد منہ میں ڈالنے کیلئے کہا۔ اور فرمایا دنیا سے میری رخصتی کا وقت آ پہنچا ہے پھر محبت سے مجھے اٹھا کر اپنے سینے پر لٹا لیا اور کافی دیر تک مجھے پیار کرتی رہیں۔ پھر جب موٴذن نے حئی الفلاح کے الفاظ کہے۔توماں نے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ ماں کی جدائی کا صدمہ میرے لئے بہت بڑا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جتنے بڑے زخم دیتا ہے انسان کو ان زخموں کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی عطا فرماتا ہے باپ کی محبت اور دیگر عزیز و اقارب نے میرے غم کو کسی حد تک کم کیا۔
    جب میں شیخ القرآن حضرت علامہ غلام علی صاحب اوکاڑوی کے مدرسے اوکاڑہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا سردی بہت زوروں پر تھی۔ میرے پاس چونکہ سردی سے بچنے کیلئے کوئی مناسب کپڑا نہیں تھا اس لئے میں نے چار روپے کی گرم چادر بازار سے خریدی۔ اسی رات مجھے خواب میں اپنی ماں نظر آئی جو سردی سے کانپ رہی تھی۔ ماں نے کہا بیٹا گرم چادر مجھے دے دو مجھے سردی لگ رہی ہے۔ اگلی صبح میں ایک ایسی سیدزادی تک پہنچا جو بے اولاد تھی لیکن تہجد گزار تھیں۔ وہ مصلے پر بیٹھی ذکرالٰہی میں مشغول تھیں میں نے چار روپے کے عوض خریدی جانے والی گرم چادر اس پر دے دی۔ اسی دن جب میں رات کو سویا تو میں نے وہی چادر ماں کے جسم پر لپٹی ہوئی دیکھی ماں نے محبت بھرے لہجے میں فرمایا مجھے تمہارا تحفہ مل گیا ہے پھر ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میری ماں ایک وسیع عریض باغ میں نہایت خوش خرم بیٹھی ہوئی ہیں۔ میری ماں چونکہ خود بھی ارکان اسلام کی پابند تھیں۔ اس لئے انہوں نے میری تربیت بھی اسی انداز سے کی کہ دنیا کی بجائے دین کا عالم بنوں۔ اب اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے نیک بندوں کے طفیل کچھ عطا فرمایا ہے تو اس کا تمام تر سہرا میری ماں‘ میرے پیر و مرشد قطب زماں گنج کرم حضرت سید اسمٰعیل شاہ بخاری اور استاد محترم حضرت غلام علی برالعلوم شیخ القرآن کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے میری شخصیت اور کردار سازی میں اہم کردار ادا کیا۔
    اب بھی جب میں کسی مشکل کا شکار ہوتا ہوں تو ماں‘ والد دونوں اور پیرومرشد خواب میں آکر مجھے حوصلہ دیتے ہیں۔ میرا اکلوتا لخت جگرمحمد عمر جب مجھ سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوا تو رات کو خواب میں مذکورہ بالا تینوں ہستیاں تشریف لائیں اور ماں نے حوصلہ دیا باپ نے تعزیت کی اور گنج کرم نے میرے بیٹے کیلئے دعائے مغفرت کی اور میرے لئے صبر کی دعا فرمائی۔
    بے شک ماں اور باپ قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں اور جو لوگ اپنی زندگی میں والدین کی قدر نہیں کرتے ان جیسا بدقسمت کوئی اور نہیں ہے۔ بلکہ اطاعت والدین کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جو شخص وافر رزق کا طالب ہو وہ اپنے والدین پر دل کھول کر خرچ کرے ان کی دیکھ بھال کے علاوہ انہیں حج عمرہ کروائے۔ اور ان کی اسی طرح دیکھ بھال کرے جیسے انہوں نے پیدا ہونے کی وجہ سے شعور کی حالت میں پہنچنے تک اس کی رہنمائی تھی۔
    حدیث مبارکہ ہے کہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور والدین کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔
    مسلم شریف میں یہ واقعہ درج ہے کہ آنحضور انے تین مرتبہ فرمایا کہ اس کی ناک خاک آلود ہو۔ جس پر حضرت ابوہریرہ نے عرض کی یارسول کس کی ناک خاک آلود ہو۔؟ آپ ا نے فرمایا۔ جس نے بوڑھے ماں باپ یا ان میں کسی ایک کو پایا اور اس سے اچھا سلوک نہ کیا۔
    ماں بطور خاص انسان کو زندگی میں قدرت کی طرف سے ملنے والا ایک انمول تحفہ ہے جو زندگی میں صرف ایک بار ملتا ہے پرروش کے دوران اس کی تربیت  بتائی گئی باتیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں ساری عمر اولاد کا احاطہ کئے رکھتی ہیں۔

شجرہ طیبہ خواجگان قادریہ رزاقیہ رحمانیہ
ادام اللہ تعالی برکاتھم
    یاالہی اپنی ذات کبریاکے واسطے         اپنی شان بخش بے انتہاء کے واسطے
    واسطہ شان کرم کااپنی ہم پر رحم کر        محمد عنایت احمد فیض سخا کے واسطے
    واسطہ شان کرم کااپنی ہم پر رحم کر        عاشق رحمانی ظہیر باصفا کے واسطے
    حضرت فاروق غوث الوقت شیخ پرضیا    یعنی محبوب رحمانی قطب حق نما کے واسطے
    مشعل راہ ھدائے انعام رحمان بے گماں    قطبدین شبیراحمد پارسا کے واسطے
    عاشق روئے نبی  مشاق احمد بے ریا        بوالحسین احمدمیاں نوری لقا کے واسطے
    سیدآل رسول احمدی روشن ضمیر         شمس دیں اچھے میاں شاہ ولا کے واسطے
    سید حمزہ  شہ آل محمد  شیخ دیں             سید شہ برکت اللہ پارسا کے واسطے
    شاہ فضل  اللہ و شیخ سیداحمد باکمال        خواجگان کالپی  کان سمخا کے واسطے
    خواجہ سید محمد شاہ  شیخ کالپی             حضرت شیخ جمال الاولیاء کے واسطے
    حضرت قاضی ضیاء الدین  شہ قاضی جیا    اور نظام الدین بھکاری باصفا کے واسطے
    سید ابراہیم ایرج  سرگروہ ں اتقیاء         اور بہاؤ الدین شیخ پارسا کے واسطے
    خواجہ سیداحمد جیلانی  فخر سالکاں        حضرت سید حسن پیر ھدی کے واسطے
    سید موسی وشیخ باورع سید علی            اور محی الدین ابی نصر رسا کے واسطے
    سید بو صالح  سید عبدالرزاق علا        سالکان راہ پیر ان ھدی کے واسطے
    سید عبدالقادرجیلانی  محی الدین لقب    غوث اعظم  آفتاب اولیاء کے واسطے
    بو سعید شیخ مخزومیو سید بو الحسن            ابن سید یوسف القرشی علا کے واسطے
    خواجہ بو الفرح طرطوسی ولی باکمال        اور عبدالواحد شیخ ھدی کے واسطے
    خواجہ ابوبکر شبلی دربحر معرفت             اور جنید شیخ  شاہ طائفہ کے واسطے
    خواجہ سری شقطیدو معروف کرخی باصفا    اور امام دین علی موسی رضاکے واسطے
    واقف سر ولایت اور امام اتقیا             یعنی موسی کاظم شاہ ولا کے واسطے
    راہبران با ورع چشم و چراغ مصطفے         جعفر و باقر امامان ھدی کے واسطے
    سید سجاد  زین العابدین دل نگار        نونہال گلشن آل عبا کے واسطے
    مورد کرب و بلا  لخت نبی  جان بتول        سیدالشہدا ء شہید کربلا کے واسطے
    حامل بار ولایت  معد





حصہ دوم








گدی نشین

گنج عطاحضرت پیر محمد عثمان نقشبندی مجددی دام برکاتہ عالیہ
گنج سخا حضرت حضرت محمد عمر دام برکاتہ عالیہ





خلفاء عظام
حضرت سید گلزار الحسن شاہ 
گنج خیر صوفی عبدالمجید عاجز نقشبندی
صوفی سرالدین چشتی
حکیم عبدالواحد قادری
علامہ سید فیض الحسن شاہ
علامہ نعیم الدین نقشبندی
علامہ محمد رضا المصطفی
بابا محمد طاہر قادری
مولانا عبداللہ نورانی 
علامہ عبدالشکور سیالوی
مفتی محمد اقبال رضوی
حاجی محمد سلیمان نقشبندی
سید محبوب علی شاہ گیلانی
قاری محمد حنیف قادری
صوفی عبدالخالق ( مانانوالہ )
مفتی محمد اسلم نقشبندی 




تعارف و حالات زندگی
اور مشاہدات خلفائے عظام






خلیفہ اول

سید گلزار الحسن شاہ
خلیفہ اول  قطب زمان حضرت مولانا محمد عنایت احمد نقشبندی قادری 

حضرت سید گلزار الحسن شاہ  پیر محمد عنایت احمد نقشبندی قادری  کے نہ صرف خلیفہ اول کے مرتبے پر فائز تھے بلکہ آپ  نے نائب امام کی حیثیت سے اپنی زندگی کے 33 سال قطب زمان حضرت پیر محمد عنایت  کی سرپرستی میں گزارے تھے ۔مسجد طہ جہاں حضرت پیر محمد عنایت احمد نقشبندی قادری امامت مسلمین کے فرائض انجام د ے رہے تھے اسی مسجد میں نائب خطیب کے علاوہ آپ  قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔ راقم کا شمار بھی آپ  کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔اس حیثیت میں  میں نے سیدگلزار الحسن شاہ  جیسا سخی  باکردار اور ہنستا مسکراتا انسان کبھی نہیں دیکھا وہ حقیقت میں ایک درویش صفت انسان تھے شاید ہی کوئی صبح ایسی ہوگی جب وہ ہمارے لیے اپنے گھر میں ناشتے کااہتمام نہ کرتے ہوں وگرنہ یہ ان کے معمولات میں شامل تھا کہ جب ہم چار پانچ افراد ( میں  خالد نظام  توصیف اور سجاد ) مکہ کالونی سے پیدل ہی چلتے ہوئے مسجد طہ میں نماز فجر ادا کرنے پہنچتے تو پیر و مرشد کی امامت میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد کچھ دیر درود پاک پڑھنے کاسلسلہ جاری رہتا پھر پیرو مرشد سے اجازت لے کر ہم مسجد طہ کے اس برآمد ے میں آ بیٹھتے جہاں حضرت سید گلزار الحسن شاہ  چھوٹے بڑوں کو قرآن پاک پڑھا رہے ہوتے ۔اس کے باوجود کہ ہمارا شمار قبلہ شاہ کے شاگردوں میں ہوتا تھا لیکن انہوں نے ہمیں کبھی اپنا شاگرد نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ دوستوں کی طرح ہی ہم سے مخاطب ہوتے اور قرآن پاک پڑھاتے ۔اگر کبھی سبق یاد نہ ہوتا تو ان کے چہرے پر خفگی یا غصے کی بجائے ہمیشہ مسکراہٹ ہی دکھائی دیتی اگلے ہی لمحے وہ ہمیں بھولا ہوا سبق ایک بار پھر یاد کروانے میں مصروف عمل ہوجاتے ۔پرتکلف ناشتوں کا سلسلہ نہ صرف مسجد طہ میں جاری رہتا بلکہ جہاں بھی کوئی شخص قرآن پاک پڑھانے کے لیے بلاتا تو قبلہ شاہ صاحب ہمیں بھی اپنے ساتھ لے اس بنگلے میں پہنچ جاتے اور وہاں پہنچ کر ایک ایک سپارہ پڑھنے کے بعد ہماری ضیافت کے لیے کھانوں کی لمبی قطاردکھائی دیتی ۔ قبلہ شاہ صاحب خود بہت کم تناول فرماتے لیکن ان کی ہرممکن یہ کوشش ہوتی کہ ہم گنجائش سے زیادہ کھائیں ۔ اس حوالے سے قبلہ شاہ صاحب صرف ہم پر ہی مہربان نہیں تھے بلکہ مسجد طہ کے جتنے بھی نمازی ان کے ہمراہ ہوتے وہ مرغن غذاؤں کے بھرے ہوئے پیالے اٹھااٹھا کر انہیں کھانے پر مجبور کرتے بطور خاص ایک بزرگ جن کو سب پیار سے وڈیرہ کہہ کرپکارتے تھے دیکھنے کو تو وہ بہت کمزور سے ضعیف العمر انسان تھے لیکن وہ کم از کم تین چار افراد کے برابر کھانا اکیلے ہی کھا جاتے تھے ۔اکثر اوقات مسجد طہ کے کچھ فاصلے پر ایک کاروباری شخصیت قدیر صاحب کی دعوت شیراز اس حوالے سے بہت مشہور تھی وہ قبلہ شاہ صاحب کو قرآن پڑھنے کے لیے بلانے سے پہلے کھانے کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے ۔ وڈیرے کے علاوہ بھی کتنے ہی لوگ اور بھی اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کب بلاوا آئے اور وہ قبلہ شاہ صاحب کے ساتھ جاکر اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں ۔
حضرت سید گلزار الحسن شاہ صاحب کی سخاوت صرف یہاں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ایک مرتبہ ہمیں ان کے گاؤں موضع کھیپڑاں والا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں انہوں نے ہماری خاطر مدارت کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ان کا گاؤں ایک بہت بڑے برساتی نالے ” بھمبر نالے“ کے بائیں کنارے پر واقع ہے جس کی کشادگی اور گہرائی دریا سے بھی زیادہ ہوگی اسی مناسبت سے قبلہ شاہ صاحب کا دل بھی کتنے ہی دریاؤں سے بڑا اور کشادہ تھا ۔ ان دنوں ان کی بیٹی فردا جو ابھی کمسن تھی وہ ہمارے قریب آکر بیٹھ جاتی اور قبلہ شاہ صاحب پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہتے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہمیں بھی اپنی بیٹی فردا جتنا ہی پیار کرتے تھے ۔آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کی باتیں اور یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں ۔آئیے ان کی زندگی کی ایک اور جھلک دیکھیں -:
حضرت سید گلزار الحسن شاہ  1954ء میں مو ضع کیپھڑاں والا ضلعی گجرات کے سید گھرانے میں پیدا ہوئے آپ  شیخ عبد القادرجیلا نی کی اولا دمیں سے تھے آپ کے بزرگ عراق سے ہجرت کر کے اوچ شریف قیام پذیر ہوئے۔ کچھ عر صہ یہا ں اللہ کی یا د میں مشغول رہنے کے بعد اوکاڑہ کے نز دیک قصبہ ہجرہ شاہ مقیم میں آبسے ۔ بعد ازاں دریائے چناب کے کنارے ضلع گجرات کے گاؤں” سادہ چک“ میں قیام پذیر ہوئے ۔ جہا ں آپ کی کئی نسلیں آباد رہیں ۔یہا ں بھی سیدوں کا ایک الگ قبرستان موجو د ہے جہا ں حضرات خواجہ پیر معصو م شا ہ۔ حضرت پیر جلا ل الدین شاہ گیلانی قادری  اور حضرت پیر سید عبدالوسع شاہ حضرت سید باغ علی شاہسید محمد صالح کے علاوہ بے شما ربزرگ اور عالم دفن ہیں۔کچھ عرصہ بعد سیدوں کے خاندان کے کچھ لوگ سادہ چک سے دس پندرہ کلو میٹر دور موضع کھیپڑاں والا آبسے ۔ جہاں سید گلزار الحسن شاہ  1954ء میں سید فاضل شاہ  کے گھر پیدا ہوئے ۔ یہ گاؤں جی ٹی روڈ سے مغرب کی جانب ایک کلومیٹر کے فاصلے پر نالہ بھمبر کے کنارے پر آباد ہے ۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت بھی سید خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے ۔ جن کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی  مال مویشی پالنا اور درس و تدریس ہے اس خاندان کے کچھ لوگ فوج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں خوبصورت کردار کے حامل سید خاندان کے لوگوں کا شمار زندگی کے ہر شعبے میں صالحین میں ہی رہا ہے ۔
قبلہ شاہ صاحب  نے ابتدائی تعلیم موسی گاؤں کے حافظ حضرت محمد حسین  سے حاصل کی پھر حصول تعلیم کے لیے آپ  مین مارکیٹ گلبرگ لاہور قاری منظور الہی کے پاس آگئے ۔آپ  نے دین کی تبلیغ اور درس و تدریس کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ۔ 1972ء میں مسجد طہ میں معاون خطیب کی حیثیت سے سے وابستہ ہوگئے جہاں آپ کو پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا محمد عنایت احمدنقشبندی قادری  کی صحبت اور سرپرستی حاصل ہوئی ۔آپ  دونوں شخصیات کے مابین والہانہ محبت کی مضبوط بنیاد استوار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پیر طریقت حضرت مولانا محمد عنایت  نے سب سے پہلے خلعت خلافت آپ  کو عطا فرمائی ۔ یوں آپ سب سے پہلے خلیفہ قرار پائے۔ آپ  گلبرگ اور کینٹ کے علما اتحاد کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں اور ہر سال عیدمیلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلسوں اور جلوسوں کااہتمام بھی کرتے گلبرگ اور کینٹ کے علاقے میں شاید ہی کوئی ایسی روحانی اور مذہبی تقریب ہوگی جس کی سرپرستی کے لیے سیدگلزار الحسن شاہ  کا نام اشتہارات میں لکھاہوا نہ ہو۔آپ نمازیوں  دوستوں اور علمائے کرام میں ہر دلعزیز تھے میں نے اپنی زندگی میں کتنے ہی سال ان کے سرپرستی میں گزارے لیکن کبھی انہیں غصے کے حالت میں نہیں دیکھا ہر لمحے ان کے چہرے پر والہانہ مسکراہٹ سجی نظرآتی ۔
زندگی کا یہ سفر جاری و ساری تھا کہ آپ  کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا جتنا علاج کیاگیا یہ مرض اتناہی بڑھتا گیا ۔ دن میں ایک بار انسولین کا انجکشن بھی آپ کو لگوانا پڑتا اس کے باوجود کہ بیماری کا غلبہ دن بدن بڑھتا جارہا تھا لیکن آپ  کے چہرے پر کبھی مایوسی کے آثار نہیں دیکھے بلکہ ہمیشہ والہانہ مسکراہٹ ہی آویزاں ہوتی ۔ آپ  اپنے دکھ اور بیماری کا اظہار کرنے کی بجائے دوسروں کو راحت اور سکون ہی پہنچاتے رہے ۔حتی کہ جب پیرو مرشد حضرت مولانا محمد عنایت  عمر ے کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے ارض مقدس گئے ہوئے تھے۔4 اکتوبر 2005ء کو قبلہ شاہ صاحب کو شدید بیماری کی حالت میں جناح ہسپتال لاہور لیجایا گیا لیکن بیماری اس قدر غالب آچکی تھی کہ ڈاکٹروں کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور آپ  ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ان للہ و انا الیہ راجعون
رحلت کے بعد آپ  کے جسد خاکی کو آبائی گاؤں کھیپڑاں والا لے جایا گیا جہاں سیدوں کے لیے مخصوص قبرستان میں آپ  آسودہ خاک ہوئے ۔
 قبلہ شاہ صاحب  کے جسمانی وصال کے بعد تین چار مرتبہ خواب کی حالت میں میری ان سے ملاقات ہوئی وہ جب بھی ملے اور جہاں بھی ملے مسجد میں امام کے مصلے پر ہی نظر آئے بلکہ رحلت کے بعد مجھے ایک دو مرتبہ ان کے پیچھے نماز جمعہ پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔ دنیاوی زندگی کی طرح والہانہ مسکراتے ہوئے انہوں نے مجھے گلے لگایااور گرمجوشی سے مصافحہ کیا ۔مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی فرماتے ہیں کہ مرنے والا عام انسان خواب کی حالت میں بھی کسی زندہ انسان سے ہاتھ نہیں ملاتا صرف وہی لوگ ہاتھ ملاتے ہیں جو جنتی ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ قبلہ شاہ  جنتی ہیں تب ہی انہوں نے مجھے نہ صرف گلے لگایا بلکہ گرمجوشی سے کتنی مرتبہ ہاتھ بھی ملایا۔
اسی حوالے سے پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا محمد عنایت احمد  نقشبندی قادری اپنے زندگی میں فرمایا کرتے تھے کہ مچھلی کی غذا پانی ہے اگر مچھلی انسانی پیٹ میں جاکر بھی پانی مانگتی ہے تو وہ انسان جو زندگی بھر اللہ کی یاد میں مشغول رہا قرآن پاک کی تعلیم دیتا رہا اللہ تعالی اسے مرنے کے بعد بھی یہی توفیق عطا کرے گا ۔ گویا قبلہ شاہ  جسمانی طور پر ہماری نظروں سے اوجھل ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ اپنی قبر بھی اسی طرح زندہ ہیں اور تعلیم قرآن دے رہے ہیں جیسے عام زندگی میں ان کا معمول تھا ۔
یہ سچائی میں نے خود حالت خواب میں دیکھی ہے جس طرح وہ اپنی زندگی میں دین کی خدمت اور قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے یہ سلسلہ ان کے جسمانی وصال کے بعد بھی اسی طرح جاری و ساری ہے ان کا ہنستا مسکراتا ہوا چہرہ مسجد کے محراب میں ہی دکھائی دیتا ہے جو کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔
بے شک ایسے ہی لوگ دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ اللہ کے نیک بندے تھے انہوں نے اپنی زندگی خدمت خلق  تعلیم قرآن  خلق خدا کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے بسر کی ان کا شمار پیر و مرشد حضرت مولانا محمد عنایت  کے اہم ترین افراد میں ہوتا تھا صاحبزادہ محمد عمر کی رحلت کا جانکا ہ سانحہ ہو یا کوئی اور مشکل کی گھڑی وہ ہر لمحے پیر و مرشد کے لیے آسانیاں اور خوشیاں سمیٹتے ہوئے دیکھے گئے ۔
 بے شک ہم سب اللہ کے لئے ہیں اوراسی کی طرف کر جانے والے ہیں ۔




















خلیفہ دوم
صوفی عبدالمجید عاجز دام برکاتہ عالیہ

صوفی عبدالمجید عاجز دام برکاتہ عالیہ کا شمار ایسی نیک ہستیوں میں ہوتا ہے جو کسب کمال کمانے کے ساتھ ساتھ اللہ کی بندگی اور نبی کریم ﷺ سے محبت کا قرض بھی اتارتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ 1948ء کو ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد محمد رمضان صاحب نہایت متقی اور پرہیز گار شخص تھے پنجگانہ نماز کے علاوہ نفلی عبادتیں بھی شوق اور ذوق سے کرتے ۔ جبکہ آپ کی والدہ بھی ایک نیک سیر ت خاتون تھیں ۔اس وقت آپ کا خاندان موضع لکھو کے بیدیاں روڈ لاہور میں رہائش پذیر تھا ۔آپ نے ناظرہ قرآن اپنی والدہ سے ہی پڑھا جبکہ گاؤں کے سکول سے پرائمری جماعت تک تعلیم حاصل کرکے اپنے خاندانی پیشے "راج گیری" کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس سے پہلے آپ کے دادا صوفی کرم دین صاحب اور آپ کے والد بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے۔ آپ کے دادا کرم دین  کھنگ شریف والے بزرگ حضرت میاں رحمت علی کے مرید تھے۔بچپن میں کئی مرتبہ آپ کو ولی کامل حضرت میاں رحمت علی  کے پاس بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔بزرگوں کی صحبت اور والدین کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ اوائل عمر ی سے ہی نماز روزے کے پابند تھے ۔ حسن اتفاق سے ان دنوں شاہراہ قائداعظم ریگل چوک لاہور کے نزدیک سٹیٹ بنک آف پاکستان کی بارہ منزلہ عمارت زیر تعمیر تھی اس طرح جب آپ نے مستری کی حیثیت سے اپنے کام میں مہارت حاصل کرلی تو آپ نے سٹیٹ بنک کی بلڈنگ کے تعمیراتی کام میں بھرپور حصہ لیا ۔
آپ نے کسی دینی مدرسے سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ یہ فیض الہی ہے کہ آپ نے کسی دینی مدرسے میں باقاعدہ پڑھے بغیر ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا ۔پھر آہستہ آہستہ اپنے دادا صوفی کرم دین کی مسجد " فیضان مدینہ" میں بھی آپ نے درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ نماز جمعہ کی وعظ اور دیگر مذہبی تقاریب  بطور خاص میلاد مصطفے ﷺ کی محافلوں میں آپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے آپ کو گفتگو کا خوب سلیقہ عطا فرمایا اور آپ جس موضوع پر بھی گفتگو شروع کرتے تو بغیر کسی رکاوٹ کے آپ گفتگو کرتے چلے جاتے اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دیتے چلے جارہے ہیں۔
جب آپ کی عمر 14 سال ہوئی تو دادا جان آپ کو اپنے ساتھ لے کر حضرت میاں رحمت علی  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو میاں رحمت علی  کامرید کروا دیا ۔اس طرح لڑکپن سے ہی روحانی فیض کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔1968ء میں جب آپ کے تایا جان اے تھری گلبرگ (کبوترپورہ ) میں ایک گھر کی تعمیر میں مصروف تھے تو آپ بھی اپنے تایا کے ہمراہ کبوتر پورہ تشریف لے جا نے لگے اور تعمیراتی کام میں ہاتھ بٹانے لگے ۔
اسی دوران جب نماز کا وقت ہوتا تو کام چھوڑ کر آپ نماز پڑھنے کے لیے قریبی مسجد طہ میں چلے جاتے۔ حسن اتفاق سے انہی دنوں اس مسجد میں نئے امام کی حیثیت سے پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا محمد عنایت  بھی قصور سے امامت کے لیے تشریف لے آئے ۔ جہاں ہر نماز کے بعد آپ کی پیر عنایت سرکار  سے ملاقات ہونے لگی اس طرح ملاقاتوں کا سلسلہ دراز سے دراز سے ہوتا چلا گیا قربتیں بڑھنے لگیں ۔حتی کہ آپ پیر عنایت سرکار  کے حلقہ احباب میں شامل ہوگئے ۔اسی دوران آپ کو علم ہوا کہ پیر عنایت سرکار  بھی آپ کے پیر خانے کھنگ شریف جاتے ہیں تو باہمی محبت کا ایک اور سلسلہ چل نکلا۔
یہ اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ آپ اپنی مسجد "فیضان مدینہ " کیر خورد لاہور کینٹ میں مختلف تقریبات میں پیر عنایت سرکار  کو دعوت دے کر بلانے لگے کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ سائیکل پر ہی آپ اور پیر عنایت سرکار  گلبرگ سے کینٹ تک کا اکٹھے سفر کرتے ۔ ایک مرتبہ آپ کے ہمراہ پیر عنایت سرکار  جیابگا کی مسجد میں ایک روحانی محفل میں شرکت کے لیے پہنچے واپسی پر رات کافی ہوچکی تھی اس لیے آپ  کھنگ شریف میاں رحمت علی  کے آستانہ پر تشریف لے گئے جہاں رات گزارنے کے بعد اگلی صبح لاہور واپسی ہوئی ۔
ایک طرف پاکیزہ طریقے سے روزی کمانے کا سلسلہ جاری و ساری تھا تو دوسری طرف عشق و محبت کے سلسلے بڑھتے جارہے تھے یہ دوستی روحانیت کی کئی منزلیں طے کرچکی تھی ۔اس دوران آپ کو گھر بار کی کوئی فکر نہیں تھی بلکہ زیادہ وقت مسجد طہ میں پیر عنایت سرکار  کے قدموں میں ہی گزر نے لگا ۔ آپ نے کئی چلے بھی مسجد طہ میں کاٹے اور طریقت کی کئی منزلیں بہت کم مدت میں طے کیں ۔پھر جب پیر عنایت سرکار  کا مکان زیر تعمیر تھا تو آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جس پر آپ کو پیر عنایت سرکار  نے خصوصی دعا سے نوازا ۔اسی دوران آپ کو غیب سے اشارہ ملا کہ پیر عنایت سرکار  کو اللہ تعالی اور اس کے پیارے نبی کریم ﷺ کی جانب سے خصوصی فیض ملنے والا ہے۔ آپ نے اس بات کا تذکرہ پیر عنایت سرکار  سے کیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ جب بھی ایسا ممکن ہوا تو آپ کا حصہ آپ کو مل جائے گا ۔لیکن جب وہ وقت آیا تو اس وقت بسلسلہ روزگار آپ ملک سے باہر تھے ۔ اس لیے پہلی خلافت کے حقدار سید گھرانے کے عظیم فرزند حضرت سید گلزار الحسن شاہ  ٹھہرے ۔جب آپ پاکستان واپس پہنچے تو آپ پیر عنایت سرکار  کے ہمراہ راز و نیاز کی غرض سے ایک عظیم صوفی بزرگ حضرت فرید الدین گنج شکر  کے روضہ مبارک پاک پتن تشریف لے گئے ۔وہاں بیٹھ کر پیر عنایت سرکار  نے آپ کو خلافت عطا فرمائی ۔اس بات کے گواہ پیر عنایت سرکار  کے بڑے صاحبزادے محمد عمر بھی تھے واپس لاہور آکر تحریر ی طور پر خلافت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔
اس سے پہلے بھی مسجد طہ میں رات رات بھر عبادت میں مشغول رہنا  پیر عنایت سرکار  کے بتائے ہوئے وظائف کرنا  روحانی محفلوں میں موجود رہنا ایک معمول تھا لیکن تحریری خلافت ملنے کے بعد ساری دنیاوی معاملات کو فراموش کرکے آپ نے مسجد طہ میں ہی ڈیرے لگا لیے اور آپ کو پیر عنایت سرکار  کی صحبت میں رہنے ان کے ارشادات کو سننے  عادات و اطوار کو قریب سے دیکھنے کا خوب موقع ملا ۔اس کے باوجود کہ مسجد طہ میں آنے والے زائرین کے لیے صبح کا ناشتہ اور شام کا کھانا تیار کرنے کے لیے ہمہ وقت محمد منشا اور ہدایت الرحمن خدمت گار کی حیثیت سے موجود رہتے تھے لیکن ان کی عدم موجودگی میں آپ اپنے ہاتھوں سے پیر عنایت سرکار  کے لیے ناشتہ تیار کرتے اور ان کی ہر ممکن دیکھ بھال کا فریضہ بھی انجام دیتے ۔
اس دوران عادل ہسپتال ڈیفنس روڈ لاہور کے بالمقابل پیر عنایت سرکار  کاایک اورمکان زیر تعمیر تھا جس کی تزئین و آرائش میں آپ نے بھرپور حصہ لیا ۔
ایک مرتبہ پیر عنایت سرکار  نے آپ کو بھلیر شریف  سانگلہ ہل سید محفوظ حسین شاہ  کے پاس جانے کا حکم دیا ۔ بہت کٹھن راستہ طے کرکے آپ رات کے وقت وہاں پہنچے تو سید محفوظ حسین شاہ  نے فرمایا کہ صبح اشراق کے بعد ملاقات ہوگی ۔ سو وہاں رکھی ہوئی پرالی پر ہی جاگ کر رات گزاری اورصبح ملاقات کے بعد پیر عنایت سرکار  کے پاس واپس آگئے ۔ آپ پیر عنایت سرکار  کے ہمراہ ہر ہفتے کی صبح سید محفوظ حسین شاہ  کے پاس باقاعدگی سے جاتے رہے ۔ روحانیت کے لین دین کا سلسلہ تقریبا سال بھر جاری رہا۔ آپ رات کو مسجد طہ تشریف لے آتے رات مسجد طہ میں گزارتے پھر صبح سویرے بس پر بیٹھ کر بھلیرشریف روانہ ہوجاتے اور شام کو واپس آجاتے ۔
سید محفوظ حسین شاہ  جلالی طبیعت کے حامل بزرگ تھے وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے تھے لیکن جب بھی آپ نے ان کے پاؤں کو دبانے اور ہاتھوں کو چومنے کی کوشش کی انہوں نے نہایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار نہیں کیا ۔یہ آپ پر ان کی خاص عنایت تھی۔
بھلیر شریف کے بعد پیر عنایت سرکار  روحانیت کی مزید منزلیں طے کرنے کے لیے آپ کو کہیں اور بھیجنا چاہتے تھے لیکن خلیفہ اول حضرت سید گلزار الحسن شاہ  نے فرمایا کہ صوفی صاحب عشق الہی میں پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اس لیے آپ انہیں کسی اور بزرگ کے پاس نہ بھیجیں چنانچہ پیر عنایت سرکار  نے آپ کو کہیں اور بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا ۔
اس کے بعد صرف نماز جمعہ پڑھانے کے لیے آپ اپنی مسجد " فیضان مدینہ " کیر خورد ڈیفنس لاہور کینٹ جاتے اور نماز جمعہ پڑھانے کے بعد مسجد طہ واپس چلے آتے اور اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت پیر عنایت سرکار  کی صحبت میں ہی گزارتے ۔آپ کی خدمت اور عبادت گزاری کا کئی مرتبہ ذکر پیر عنایت سرکار  اپنی محفلوں میں بھی کیاکرتے تھے ۔
ایک مرتبہ پیر عنایت صاحب  نے آپ کی خدمات عقیدت و عشق کااعتراف کرتے ہوئے فرمایا ۔صوفی صاحب سب کچھ آپ کا ہی تو ہے ۔ روزمحشر جب رب کریم مجھ سے پوچھے گا کہ عنایت بتاؤ تم میرے لیے دنیا سے کیا لے کر آئے ہوتو آپ ( صوفی عبدالمجید عاجز) کی طرف اشارہ کرکے کہوں گا کہ باری تعالی میں دنیا سے یہ تیرا نیک بندہ لایا ہوں جو رزق ہلال کمانے کے ساتھ ساتھ تیرا ذکر بھی بلند کیا کرتا تھا ۔پیر عنایت سرکار  کی زندگی میں آپ جس والہانہ محبت کااظہار کیاکرتے تھے آپ کے جسمانی وصال کے بعد محبت و چاہت کا یہ سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا ۔ اس کے باوجود کہ گھٹنوں میں شدید درد رہتا ہے پھر بھی ہر اتوار کی صبح خلق خدا کی داد رسی اور اپنے رہبر اور پیر عنایت سرکار  کی قربت حاصل کرنے کے لیے باقاعدگی سے مزار مبارک واقع کبوتر پورہ قبرستان تشریف لاتے ہیں ۔بلکہ میلا د مصطفے ﷺ کی محفل ہو یا ذکر عنایت سرکار  کی کوئی محفل آپ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔پیر عنایت  کا جب جسمانی وصال ہوا تو آپ  کو غسل دینے اور دستار مبارک پہنانے کا اعزاز بھی صوفی عبدالمجید عاجز صاحب کو ہی حاصل ہوا ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پیر عنایت  کا جسم موت کے بعد اتنا نرم و نازک تھا کہ موت کی سختی کہیں بھی محسوس نہیں ہوئی اورآنکھوں میں نور کی ایک لہر سی دکھائی دی۔
صوفی عبدالمجید عاجز دام برکاتہ عالیہ ایک ایسی روحانی شخصیت ہیں جن کی رہنمائی اور سرپرستی پیر عنایت سرکار  کے مریدوں  عقیدت مندوں اوراپنے نیازمندوں کے لیے رشدو ہدایت کا باعث ہے ان کی حیثیت ایک ایسے سرچشمے کی ہے جہاں سے سدا بہار رحمتوں اور ہدایتوں کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ اور عمر خضر سے نوازے ۔ آمین





خلیفہ سوم
صوفی باصفاء الحاج سراج دین
چشتی قادری نقشبندی سہروردی
صوفی الحاج سراج دین چشتی قادری نقشبندی سہروردی کا شمار پیر طریقت  رہبر شریعت حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی  کے خلفا میں ہوتا ہے ۔
آپ 1938ء میں ہندوستان کے شہر ”سنار پور “ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد فتح محمد  ولی کامل کے مرتبے پر فائز تھے جبکہ آپ کی والدہ بھی پابند صوم صلوة تھیں ماں کی آغوش میں آپ نے اپنی زندگی کی ابتدا ء کی۔ آپ بچپن سے ہی اولیا اللہ کی صحبت میں بیٹھنے لگے جو آپ کی روحانی تربیت کا باعث بنی ۔جب آِپ سن بلوغت کو پہنچے تو والد گرامی کی رہنمائی میں آپ حضرت سید عنایت حسین کاظمی زنجانی  کے دست مبارک پر بیت ہوگئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ اور آپ کے مرشد کے مابین روحانیت کا ایک مضبوط رشتہ استوار ہوتا چلاگیا۔ آپ کا زیادہ تر وقت اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں ہی گزرتا ۔چنانچہ انہوں نے آپ کو اپنی جانب سے یہ کہتے ہوئے خلافت سے نوازا کہ یہ میری طرف سے نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کی جانب سے مجھے حکم دیا گیا کہ سراج دین کو میں اپنے سلسلے میں خلافت عطا کروں ۔قیام پاکستان کے وقت آپ اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان کو خیرباد کہہ کر لاہور میں چلے آئے اور حضرت میاں میر قادری  کے دربار عالیہ کے نزدیک آباد ی سیدن شاہ کالونی میں آکر رہائش پذیر ہوئے ۔یہ آبادی بھی ایک اور روحانی شخصیت حضرت سیدن شاہ  کے نام سے منسوب ہے ۔آپ نے رزق ہلا ل کمانے کے لیے کچھ عرصہ حکومت پنجاب کے ماتحت ادارے پی آئی ڈی بی میں ملازمت بھی کی لیکن اپنا دامن محکمانہ آلائشوں سے پاک اور صاف رکھا ۔ آپ کردار اور گفتار کے اعتبار سے اپنے رفقا میں نہایت عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔
    حضرت سید عنایت حسین کاظمی زنجانی  سے خلافت ملنے کے بعد ایک اور بزرگ عبدالغنی بادشاہ  کی کشش نے آپ کو متاثر کیا یہ وہ بزرگ ہیں جو باغ جناح میں ایک درخت کے نیچے 90سال تک عبادت کرتے رہے پھر جب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ارض مقدس جانے لگے تو انہوں نے صوفی سراج دین چشتی صاحب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اس کے باوجود کہ وہ بڑھاپے کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے کی صلاحیت سے عاری تھے لیکن جب صوفی سراج دین ان سے ملنے کے آئے تو انہوں نے جوش محبت میں اٹھ کر آپ کو گلے لگا یا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔ اے اللہ میں نے تم سے اپنے دوست سراج دین سے ملنے کی دعا کی تھی تو نے میری اس خواہش کو پورا کردیا ہے جس پر میں تیرا کا شکرگزار ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے صوفی سراج دین چشتی صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا میں حج پر جارہا ہوں میرا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں اپنی عمر بھر کی کمائی آپ کے حوالے کرتا ہوں ۔ دوران حج ہی ارض مقدس پر ان کا وصال ہوگیا اور وہ جنت المعلی میں دفن ہیں ۔ صوفی سراج دین چشتی کو یہ روحانیت کی یہ عطا دوسری مرتبہ حاصل ہوئی۔
     بعد ازاں آپ شرقپور میاں خلیل احمد صاحب کے پاس تشنہ دل کی پیاس بجھانے کے لیے جانے لگے پھر روحانیت بھری دوستی اس قدر پروان چڑھی کہ کبھی صوفی سراج دین صاحب شرقپور حاضری کے لیے جاتے تو کبھی میاں خلیل احمد صاحب  صوفی سراج دین کو ملنے کے لیے ان کے گھر واقع سیدن شاہ کالونی اپرمال لاہور تشریف لاتے ۔اس طرح روحانی فیض کا سلسلہ جاری و ساری رہا ۔ پھر آپ کو اجمیر شریف سے خواجہ معین الدین چشتی  کے سجادہ نشین حضرت سید سعید بلال صاحب اور حضرت سید سرور چشتی صاحب کی جانب سے بھی آپ کو روحانی فیض حاصل ہوا ۔ حضرت سید سرور چشتی جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو صوفی سراج دین چشتی کے آستانے پر ضرور پہنچتے ۔اس طرح روحانی منزلوں کے حصول کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ آپ کو روحانی طور پر پتہ چلا کہ ایک ولی کامل مسجد طہ لاہور میں بھی جلوہ افروز ہیں وہ حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  کے مرید اور خلیفہ ہیں آستانہ کرماں والوں میں ان کو بہت اعلی مقام حاصل ہے وہاں روز شب درود پاک اور روحانی محفلوں کا انعقاد ہوتا ہے دور و نزدیک سے عاشق رسول ﷺ اور عاشق اولیا ء وہاں کھینچے چلے آتے ہیں چنانچہ آپ بھی ایک مرتبہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجدطہ گلبرگ تھرڈ لاہور میں تشریف لائے تو وہاں پیر طریقت رہبر شریعت حضرت محمد عنایت احمد  سے ملاقات ہوئی ۔آپ  نے صوفی سراج دین کو پہلی ہی ملاقات میں اپنا بنا لیا پھر یہ سلسلہ مزید قربتوں کا باعث بنا ہر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے صوفی سراج دین چشتی  مسجد طہ میں آنے لگے ۔ ایک مرتبہ صوفی سراج دین چشتی کی دعوت پر حضرت محمد عنایت احمد  ایک روحانی محفل میں شرکت کے لیے آستانہ چشتیہ (صوفی سراج دین کی رہائش گاہ پر ) پہنچے تو دوران محفل آپ  پر رقت طاری ہوگئی آ پ  نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا مجھے صوفی سراج دین چشتی کے پیرو مرشد حضرت سید عنایت حسین شاہ کاظمی زنجانی  کی طرف سے تاکید کی گئی ہے کہ میں صوفی سراج دین صاحب کو خلافت عطا کروں۔چنانچہ دستار منگوا کر آپ  نے صوفی سراج دین چشتی کو خلافت عطا فرمائی اور اپنے دستخطوں سے سند اور شجرہ بھی عنایت فرمایا اور کہا آج کے بعد آپ یہ فیض لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کریں آپ مرید بھی کریں اور جسے اس قابل سمجھیں خلافت بھی عطا فرمائیں آپ کو میری طرف سے مکمل اجازت ہے ۔ اسی طرح ایک اور محفل میں آپ  نے صوفی سراج دین چشتی صاحب کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے دربار مبارک سے آئی ہوئی دستار پہنا کرخلافت عطا کر نے کی تصدیق کر دی ۔
وقت گزرتا رہا روحانی فیض کاسلسلہ جار ی و ساری رہا بے شمار لوگ آپ کے آستانے آکر اپنی روحانی پیاس بجھانے لگے اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ سے والہانہ محبت کے اظہار کا سلسلہ چلتا رہا اسی دوران پیر طریقت  رہبر شریعت پیر محمد عنایت احمد  بیمار ہو گئے یہ بیماری اس قدر بڑھی کہ آپ اپنے گھر تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ اس دوران صوفی سراج دین چشتی آپ کی عیادت کے لیے پہنچے تو مریدین نے بتایا کہ پیر عنایت احمد سخت بیمار ہیں وہ کسی سے ملاقات نہیں کرتے ۔ اس لمحے صوفی سراج دین چشتی نے کہا آپ پیر عنایت احمد صاحب کو میرا نام بتا دیں اور کہیں میں ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوا ہوں اگر وہ ملنے سے انکار کردیں گے تو میں واپس چلا جاؤں گا ۔ پھر جب پیر عنایت احمد  کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو آپ  خود گھر سے باہر نکل آئے اور صوفی سراج دین چشتی صاحب کو لے کر اپنی آرام گاہ میں لے گئے ۔ صوفی سراج دین چشتی صاحب کی حضرت پیر عنایت احمد  سے یہ آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد 31 جولائی کو پیر عنایت احمد  کاجسمانی وصال ہوگیا اور روحانی فیض حاصل کرنے اور دوسروں میں تقسیم کرنے کا سلسلہ اس دنیا سے نکل کر اگلی دنیا میں منتقل ہوگیا ۔
صوفی سراج دین چشتی  پیر عنایت احمد  کے مرتبے کے اعتبار سے تیسرے خلیفہ ہیں ۔





مشاہدات
معززین و مریدین








 صوفی اختر حسین محمدی  سیفی
                ایک معتقد کی حیثیت سے چند اہم تاثرات و مشاہدات

صوفی اختر حسین محمد ی  سیفی کا شمار ان صاحب طریقت میں ہوتا ہے جونہ صرف شریعت پرسختی سے کاربند ہیں بلکہ طریقت میں بھی اعلی مقام رکھتے ہیں ۔ ان کا دل نبی کریم ﷺ کی محبت میں اس قدر گداز ہے کہ جب بھی ان کے روبرو نبی کریم ﷺ کا نام مبارک لیا جاتا تو ان کی آنکھوں میں نبی کریم ﷺ کی محبت کے آنسو تیرنے لگتے ہیں یہ کیفیت کسی عام انسان کی نہیں ہوسکتی بلکہ یہ دولت بہت خاص لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔اللہ تعالی نے ان کی زبان میں اتنی تاثیر رکھی ہے جب وہ کسی مضطرب دل کو کلام الہی پڑھ کے دم کرتے ہیں تو مضطرب دل شیطانی وسوسوں سے محفوظ ہوجاتاہے بلکہ انسان خود کو دنیاوی خرافات سے دور محسوس کرتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ براہ راست نبی کریم ﷺ سے رابطہ قائم ہوگیا ہے برائی سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ حضرت میاں محمد حنفی سیفی دام برکاتھم عالیہ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں لیکن ان کے دل میں گنج عنایت پیر حضرت محمد عنایت احمد  کے بارے میں بے پناہ محبت کے جذبات موجزن ہیں وہ آپ  سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور بارہا مرتبہ زندگی میں ان سے نہ صرف مل چکے ہیں بلکہ کئی روحانی محفلوں میں شریک ہوکر گنج عنایت  کی زبان سے کئی واقعات کامشاہدہ بھی کرچکے ہیں ۔
لنج عنایت  کے بارے میں وہ اپنے مشاہدات میں لکھتے ہیں کہ میں پیر حضرت محمد عنایت احمد  کو گزشتہ چھ سات سال سے جانتا ہوں میرا شمار آپ  کے عقیدت مندوں میں ہوتا ہے ۔آپ  پیر طریقت اور رہبر شریعت کے ساتھ ساتھ ایک جید عالم اور ممتاز خطیب بھی تھے میری موجودگی میں جب کوئی شخص آپ  کی بارگاہ میں حاضر ہوتا تو آپ  بڑی محبت اور شفقت سے اس کی بات سنتے اپنے قریب بٹھاتے اور اس قدر سرگوشی کے عالم میں گفتگو فرماتے کہ وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگوں تک آواز نہ جاتی ۔ آپ  یہ اس لیے کرتے کہ کسی کا راز دوسرے کے پاس نہ پہنچ جائے ۔ اولیا ء اللہ کے پاس تو نیک اور گناہگار ہر قسم کے لوگ اپنے اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آتے ہیں اپنے کانوں سے سن کر ان کی تشہیر نہ کرنا آپ کے معمول میں شامل تھا ۔اللہ کے نیک بندے گناہگاروں کو اپنے سینے سے لگاتے اور ان کے گناہوں سے پردہ پوشی فرماتے ہیں یہ بھی اولیاء اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
جب آپ  کاجسمانی وصال ہوا تو مجھے آپ  کی نماز جنازہ پڑھنے کا موقعہ بھی میسر آیا آپ  کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی شرکت اس بات کا ثبوت تھا کہ آپ  لاکھوں دلوں میں بستے ہیں ہر گلی اور ہر سڑک کی جانب سے انسانوں کا جم غفیر امڈتا چلا آرہا تھا جس طرح اذان کے وقت مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں لوگ گلی کوچوں میں ایک سیلاب کی مانند نمازکی ادائیگی کے لیے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں بالکل اسی طرح آپ  کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے دور و نزدیک سے عقیدت مند دوڑے چلے آرہے تھے ۔یہ منظر دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا جیسے زمین انسانوں کو اگل رہی ہے ۔میرا یہ ایمان ہے کہ آپ  کی نماز جنازہ میں جو لوگ شریک ہوئے تھے اللہ تعالی نے ان تمام لوگوں کی بخشش دیا ہوگا ۔
ایک رات میں خواب دیکھتا ہوں کہ مستری عبدالرحمن کسی دنیاوی کام سے میرے پاس آیا تو میں نے مکہ کالونی مین بازار میں کھڑے ہوکر اسے انگلی کے اشارہ کرکے کہا کہ وہ سامنے پیرمحمد عنایت  کا مزار مبارک نظر آرہا ہے وہاں حاضری دے کر میرے پاس آئے ۔قابل ذکر بات تو یہ تھی کہ اللہ تعالی تمام ظاہری حجابات ہٹا دیئے تھے اور پیر حضرت محمد عنایت  کا مزار مبارک مکہ کالونی کے مین بازار سے صاف نظر آرہا تھا ۔میرے کہنے پر مستری عبدالرحمن دربار شریف پر حاضر ہوا تھوڑی دیر بعد جب واپس لوٹا تو پیر محمد عنایت  کا پیغام لے کر میرے پاس آیا اور کہا میں پیرعنایت  کا پیغام لایا ہوں ۔میں ہمہ تن گوش ہواتو مستری عبدالرحمن نے بتایا کہ پیر محمد عنایت  فرماتے ہیں کہ آئندہ میرے دربار پر جو بھی شخص حاضری کے لیے آئے سبزٹوپی پہن کر آئے اور میرا نام لے کر فرمایا اخترحسین محمدی سیفی کو پیغام دینا کہ وہ جب میرے دربار شریف پر حاضری کی غرض سے آئے تو سبز لباس پہن کر حاضر ہوا کرے ۔اس خواب کا تذکرہ میں نے خطیب مسجد طہ سید منور حسین کے گوش گزار بھی کیا ۔اس لمحے میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم زندگی میں پیر محمد عنایت  کے مقام و مرتبہ کا اندازہ نہ کرسکے لیکن پردہ فرمانے کے بعد آپ  کی عظمت اور روحانی پرواز کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی قبرمیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وہ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ واضح انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
مجھے ایک واقعہ اب بھی یاد ہے جو آپ  کے کسی مرید نے مجھے سنایا تھا اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے پیر حضرت محمد عنایت  سے چاہی کہ میں حضرت فرید الدین گنج شکر  کے مزار مبارک پر حاضری کے لیے پاکپتن جانا چاہتا ہوں کیونکہ عرس کے دنوں میں بہشتی دروازہ کھلتا ہے جس سے لاکھوں عقیدت یہ تصور کرکے گزرتے ہیں کہ ان کے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں ۔کیونکہ حضرت فرید الدین گنج شکر  بھی اپنی اس کرامات کا اظہار کرچکے ہیں کہ جو شخص میرے دربار کے قریب نصب بہشتی دروازے سے گزر ے گا اللہ تعالی اس کے تمام گناہ معاف فرمادے گا ۔ پیرحضرت عنایت احمد  نے مرید کی بات غور سے سنی اور فرمایا جو شخص مسجد طہ شریف گلبرگ تھر ڈ لاہور کے انتہائی بائیں درواز ے سے داخل ہوکر انتہائی دائیں دروازے میں سے باہر نکل جائے گا وہ یہ سمجھ لے کہ میں جنتی دروازہ سے گزر چکا ہوں اور اللہ اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔ یہ بات آپ  نے اپنی زندگی میں کہی تھی ۔ اللہ رب العزت کی ذات پا ک ہمیں حق اور سچ لکھنے اور بولنے کی توفیق عطا فرما عطافرمائے ۔ آمین ثم آمین
                                        16-9-2013













حشر تک ان سے ملاقات نہ ہوگی اب تو
(صاحبزادہ محمد عمر۔ لخت جگر حضرت پیر عنایت سرکار  کی رحلت پر ایک تاثراتی مضمون)
                                             مشاہدات: محمد اسلم لودھی

    اولاد چاہے انسان کی ہو یا جانور کی، ہر ذی شعور کے لئے نعمت غیر مترقبہ قرار پاتی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک اسکی پرورش اور تربیت میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جاتی تاکہ بڑی ہو کر وہی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے کا سہارا بھی بنے۔ جبکہ اولاد کی ذرا سی تکلیف بھی والدین کے لئے عذاب عظیم بن جاتی ہے۔ والدین خود تکالیف برداشت کر کے اپنے بچوں کے لئے راحت کا سامان کرتے ہیں۔ اسی طرح کائنات کا نظام چل رہا ہے۔
    صاحبزاہ محمد عمر، میرے پیرو مرشد کے اکلوتے بیٹے تھے حالانکہ حضرت صاحب کی اولاد میں چار بیٹیاں بھی شامل ہیں لیکن عمر کی حیثیت ستاروں میں چاند کی مانند تھی۔ محمد عمر 12ربیع الاول 23مارچ 1976 ء کو اذان فجر سے پہلے بدھ کے روز پیدا ہوئے اور بدھ کے روز ہی اذان فجر سے کچھ پہلے 22مارچ 1995 کو 19 سال کی عمر پا کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 بے شک ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کرجانا ہے۔
    21مارچ کی شام محمد عمر اپنی انیسویں سالگرہ منانے کے انتظامات کر رہے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے بہت سے دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ محمد عمر اپنے والد گرامی کو سالگرہ منانے کی خبر نہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ حضرت صاحب ایسی تقریبات کو خلاف مذہب قرار دے کر انہیں فضولیات کا نام دیتے تھے۔ سالگرہ مناتے ہوئے اسے یہ خبر نہ تھی کہ کل کی صبح اسے دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوگی اور وہ سورج کی روشنی پھیلنے سے پہلے پہلے اس جہان فانی سے بھی رخصت ہو چکے ہونگے۔ لمحے کی جدائی برداشت نہ کرنے والوں کو عمر بھر کی جدائی سہنی پڑے گی۔ رات کے پچھلے پہر اسے دل میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اس نے اس کی اطلاع ٹیلی فون پر اپنے والدین کو دی۔ گھر والے تو سو رہے تھے لیکن ان کے والد اور میرے پیر ومرشد اس وقت نوافل ادا کر رہے تھے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجنے سے ان کا دل دھڑکا اور ایک انجانا سا خوف ان پر طاری ہو گیا۔ کیونکہ ٹیلی فون کے دوسری جانب ان کا اکلوتا لخت جگر بول رہا تھا اور خبر بھی کوئی خوش کن نہ تھی۔ قدرت نے ویسے بھی والدین کے دل میں اولاد کے لئے بے پناہ محبت پیدا کر رکھی ہے۔ اولاد چاہے اچھی ہو یا بری والدین کے لئے راحت کاباعث ہوتی ہے پھر عمر تو اکلوتا ہونے کے ناطے حضرت صاحب کے دل میں بستا تھا۔
    ٹیلی فون بند ہوتے ہی محمد عمر خود گاڑی چلاتا ہوا مسجد طہ پہنچ گیا۔ ان کی بڑی بہن ان کے ساتھ تھی۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہوا تو گھر میں پہلے سے موجود عمر کی بہنیں اور والدہ بھی بیدار ہو چکی تھیں ۔ حضرت صاحب کے بقول اس وقت ان کا دل چاہا کہ وہ اپنے لخت جگر کو گلے لگا کر مل لیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عمر ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہی نہ ہو جائے۔ پھر انہوں نے اس خیال کو جھڑک دیا۔ لیکن محمد عمر کی یہ حالت ان سے دیکھی نہ جاتی تھی وہ بہنیں جو اپنے بھائی پر جان نچھاور کرتی تھیں بلند آواز میں رو رہی تھیں اور اسی حالت میں انہوں نے سید گلزار الحسن شاہ صاحب کو گھر سے بلایا۔ جن کی عمر کے ساتھ محبت اور شفقت کا انداہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا کیونکہ بچپن سے لے کر جوانی تک محمد عمر‘ قبلہ شاہ صاحب کے دل میں بستا تھا اور خلوص دل سے ان کا احترام کرتا تھا۔ وہ بد حواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے حضرت صاحب کے گھر پہنچے۔ اسی اثنا میں محمد عمر خود بھاگتے ہوئے آئس کریم کا کپ لے کر آیا۔ ابھی تک وہ خود ہی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ قبلہ شاہ صاحب عمر کو لے کر ڈاکٹر بیگ کے پاس گئے جس نے فوری طور پر ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ جیسے ہی محمد عمر گھر پہنچا تو وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا۔ جس پر ممتا کی چیخیں نکل گئیں۔ حضرت صاحب کچھ نہ بولنے کے باوجود دل ہی دل میں اپنے اکلوتے بچے کے لئے ڈھیروں دعائیں مانگ رہے تھے۔ شاہ صاحب عمر کا سر اپنی گود میں رکھ کر چمچے سے پانی پلانے لگے۔ پانی پیتے ہی محمد عمرنے ہچکی لی اور بے سدھ ہو گیا جیسے وہ اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر چکا ہے لیکن پھر بھی دل کی تسلی کے لئے محمد عمر کو امریکن ہسپتال لے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ گاڑی میں شاہ صاحب عمر کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے دلاسہ دیتے رہے اس وقت قبلہ شاہ صاحب کی آنکھیں اور دل دونوں زار و قطار رو رہے تھے۔ وہ جلد ہی امریکن ہسپتال پہنچ گئے۔ جہاں ڈاکٹروں نے چیک کرکے بتایا کہ محمد عمر پندرہ منٹ پہلے اس دنیا کو چھوڑ کر دار فانی میں کوچ کر چکے ہیں۔ یہ المناک خبر سنتے ہی ضبط کے بند ٹوٹ گئے اور چیخ و پکار شروع ہوگئی۔ اس وقت فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھی اور وہ سفر جو محمد عمر نے اذان فجر سے شروع کیا تھا۔ 19سال بعد اذان فجر پرہی ختم ہوگیا۔ محمد عمر کی رحلت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور چھوٹے بڑے بے ساختہ اپنے گھروں سے نکل کر مسجد طہ کا رخ کرنے لگے۔ حضرت صاحب چونکہ گھر میں ہی موجود تھے اور انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ ان کے لخت جگر نے اپنی زندگی کی آخری ہچکی گھر میں ہی لے لی تھی لیکن پھر بھی امید کی کرن باقی تھی کہ شاید ہسپتال جانے سے عمر کی جان بچ جائے۔ عمر کی موت کی المناک خبر سن کر جہاں لوگوں کی حالت زار دیدنی تھی وہاں حضرت صاحب کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے۔ کیونکہ اتنے بڑے صدمے کا سامنا کرنے کے باوجود بھی آپ بالکل خاموش تھے اور آپ کے چہرے پر صبر و استقامت کی چادر تنی ہوئی تھی۔
    جیسے نماز فجر کے بعد مسجد طہ پہنچا تو عجیب سے افراتفری دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے ایک شخص سے پوچھا تو اس کا جواب سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا اور مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے سیسہ پگھلا کر میرے کانوں میں ڈال دیا ہو اور میں بے ساختہ رونے لگا۔ یہاں پر موجود ہر شخص کا چہرہ اداس تھا۔ فوراً دل میں خیال آیا کہ عمر تو حضرت صاحب کا اکلوتا بیٹا تھا اس کے وصال سے حضرت صاحب پر کیا گزر رہی ہوگی انہیں ملنے اور حوصلہ دینے کی غرض سے جب میں مسجد کی چھت پر گیا تو وہاں پر قبلہ شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی جو زارو قطار رو رہے تھے ان کے دل کی کیفیت ان کے چہرے سے عیاں تھی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی جاری تھی جبکہ حضرت صاحب ہاتھ میں تسبیح لئے مجسمہ صبر بنے نظر آئے۔ بے شک میری دلی کیفیت بھی شاہ صاحب سے مختلف نہ تھی کیونکہ حضرت صاحب کے حوالے سے مجھے بھی محمد عمر سے بہت پیار تھا حالانکہ عمر کے ساتھ کبھی بیٹھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا سوائے ایک بار جب قبلہ شاہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ارض مقدس جا رہے تھے۔ وہ مختصر سی ملاقات ہی ہماری زندگی کی پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ جیسے ہی میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا تو بجائے اس کے کہ میں انہیں ہمدردی کے الفاظ کہتا الٹا انہوں نے مجھے دلاسہ دینا شروع کر دیا لیکن محمد عمر کی موت سے غم کا جو طوفان میرے دل میں اٹھ چکا تھا اسے روکا نہیں جا سکتا تھا بلکہ میں دل ہی دل میں حضرت صاحب کے حوصلے کی داد دے رہا تھا کہ جن کا جوان بیٹا ان سے بے وقت جدا ہو گیا ہو ان کی برداشت اور صبر کے تمام بندٹوٹ جاتے ہیں لیکن پھر وہ کونسی طاقت تھی جس نے حضرت صاحب کو اس حالت میں بھی حوصلہ دیئے رکھا۔ بلکہ اسی وقت چند خواتین کے پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں تو حضرت صاحب فوراً گھر کی جانب گئے اور خواتین کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ خدا کے لئے میرے بچے کو نہ پیٹو۔ میرے بچے کو تکلیف ہو رہی ہوگی۔ ہمارے حال پر رحم کرو۔ ان کے الفاظ میں آج خاصی سختی موجود تھی حالانکہ میں نے انہیں کبھی بھی غصے کے عالم میں نہیں دیکھا ان کے پاس ہر آنے والا محبت اور شفقت ہی سمیٹتا تھا۔ محلے کے وہ جوان جو یہاں جمع ہو چکے تھے شامیانہ لگانے میں مصروف تھے تاکہ میت کو کھلی جگہ پر رکھ دیا جائے۔
    ایک عجیب اور انوکھا واقع بھی یہیں پر دیکھنے میں آیا کہ جب حضرت صاحب جنازے کے وقت کا تعین کرنے کے لئے اپنے اہل خانہ کے پاس گئے تو عمر کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرا تو موقع پر موجود تمام خواتین نے دیکھا بلکہ شاہ صاحب بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ دست شفقت سے محمد عمر کی ایک آنکھ کھل گئی جیسے اس آنکھ میں زندگی آگئی ہو اور وہ اس دنیا کو دیکھ رہی ہو۔ لیکن جیسے ہی حضرت صاحب پیار کر کے تھوڑی دور گئے تو وہ آنکھ خودبخود بند ہوگئی۔
    ایک اور عورت کے مطابق کہ اس نے عمر کے ماتھے سے ایک چمکدار چیز دیکھی جس میں سے روشنی نکل رہی تھی۔ یہ واقعات ابھی تک معمہ طلب ہیں کہ ان میں خدائے بزرگ و برتر کی کیا حکمت پنہاں تھی۔
    اتنے میں خالد نظام بھی وہاں آگیا اور اس المناک خبر نے اس کی مسکراہٹیں بھی چھین لیں اور وہ بھی غم سے نڈھال ہو کر عمر کی رحلت کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ مکہ کالونی میں جا کر تمام پیر بھائیوں کواس سانحہ کی اطلاع کر دے تاکہ کسی کو بروقت اطلاع ملنے کی شکایت نہ رہے۔ خالد صاحب تو مکہ کالونی چلے گئے لیکن میں وہاں ہی موجود رہا۔ حضرت صاحب صبر اور استقامت کا پہاڑ بنے ہم کو ہدایات دے رہے تھے مجھے انہوں نے حکم دیا کہ مسجد کے اندر اور باہر جتنے بھی احباب کھڑے ہیں انہیں مسجد میں بٹھا کر درود پاک پڑھنے کا انتظام کروں۔ چنانچہ میں نے اس کا اہتمام کر دیا۔ جبکہ حضرت صاحب معمول کے مطابق نوافل ادا کر رہے تھے۔ اس المناک صورت حال میں بھی انہوں نے خدا کی بندگی کے رشتے کو فراموش نہیں کیا بلکہ بعد میں انہوں نے کہا کہ جس کی امانت تھی وہ لے گیا بلکہ ہماری سب کی جان بھی تو اسی کے قبضے میں ہے ہمیں ہر وقت تیاری کے مرحلے میں رہنا چاہئے تاکہ جب بھی خالق اپنی مخلوق کو بلائے تو وہ لبیک کہتا اپنے رب کے حضور پیش ہو جائے۔
جوں جوں سورج کی روشنی پھیل رہی تھی لوگ تعزیت کے لئے آ رہے تھے بلکہ کئی لوگ تو حضرت صاحب کو مل کر اس قدر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے کہ مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ شاید اب حضرت صاحب کے لئے ضبط اور صبر تحمل برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ شاید حضرت صاحب کا یہ امتحان تھا جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب نظر آ رہے تھے۔
    ابھی پچھلی رات کا ہی تو واقعہ تھا کہ حضرت صاحب ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کا ذکر فرما رہے تھے جو انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے کی قربانی دے کر انجام دی تھی۔ بقول حضرت صاحب انسان قربانی دے تو ایسی دے۔ بے شک ایسی قربانی دینا انسان کے بس میں تو نہیں۔ صرف وہی ایسا کر سکتا ہے جسے اللہ نے اپنے صالح بندوں میں سے چن لیا ہو۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضرت صاحب کو اپنے بیٹے کی قربانی کے بارے میں ایک رات پہلے ہی علم ہو چکا تھا۔ شاید یہ بھی رب کی جانب سے ان کا امتحان ہو جس میں وہ سرخرو گزرے۔
     حضرت صاحب کے استاد گرامی اور شیخ الحدیث مفتی حضرت مولانا محمد عبد اللہ قادری صاحب قصور سے تشریف لا چکے تھے وہ عزیز و اقارب جنہوں نے دوسرے شہروں سے آنا تھا وہ بھی آ چکے تھے لوگوں کا جم غفیر مسجد طہ میں جمع ہو چکا تھا۔ میت کو غسل دیا جا چکا تھا۔ قبلہ شاہ صاحب دوران غسل کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ جب عمر کو آخری غسل دیا جا رہا تھا ان کا جسم بالکل اسی طرح نرم تھا جیسے زندہ انسانوں کا ہوتا ہے اس کو بٹھا کر قمیض وغیرہ اتاری گئی۔
    غسل کے بعد میت کو مسجد کی چھت پر رکھ دیا گیا جس کے گرد بے شمار خواتین کا ہجوم جمع تھا اور یہیں پر عمر چشتی اور ہمنوا بلند آواز میں درود سلام پڑھ رہے تھے جبکہ مسجد میں درود پاک پڑھنے کا سلسلہ الگ سے جاری تھا۔
    جیسے ہی نماز عصر کی اذان ہوئی لوگوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ مسجد میں جگہ کم پڑ گئی اور نمازیوں کی بڑی تعداد مسجد سے باہر سڑک پر دور دور تک صفیں بچھا کر بیٹھ گئی۔ نماز عصر ختم ہوتے ہی جنازہ اٹھا لیا گیا۔ مسجد طہ سے قبرستان تک لوگ ہی لوگ جمع تھے اس لئے راستہ تبدیل کر کے مین بازار کی جانب سے میت کو لایا گیا۔ یہ اقدام اس لئے اٹھایا گیا کہ قبرستان تک کا سفر آسانی سے کٹ جائے کیونکہ عوام کا بہت بڑا ہجوم جمع ہو چکا تھا اور دھکم پیل کا سخت اندیشہ تھا۔ راستہ تبدیل ہونے کے باوجود بھی عوام کا جوش و خروش قابل دید تھا جنازے میں شریک ہر شخص میت کو کندھا دینے کے لئے بے تاب تھا۔ تمام راستے بلند آواز میں کلمہ طیبہ اور شہادت کا ورد جاری رہا ایک اور بات قابل ذکر یہ تھی کہ جنازے میں شریک ہر شخص باوضو تھا کیونکہ لوگ ذہنی طور پر جنازے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جنازے کے آگے آگے نوجوان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زنجیر بنا کر چل رہے تھے۔
    پونے چھ بجے میت اس کھلے میدان میں لا کررکھ دی گئی جہاں نماز جنازہ پڑھی جاتی تھی حالانکہ قبرستان میں بھی جنازہ گاہ موجود تھی جس میں خاصی بڑی تعداد میں لوگ نماز جناہ ادا کر سکتے ہیں لیکن آج عوام کی اتنی بڑی تعداد کو مد نظر رکھ کر ہی فیصلہ کیا گیا کہ لوگ اصل جنازہ گاہ میں پورے نہیں آئیں گے اس لئے کھلی جگہ پر نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیا گیا۔ ارد گرد کی کوٹھیوں کی چھتیں بھی بچوں اور خواتین سے بھری ہوئی تھیں جو یقینا اپنے دل میں حسرت کررہی ہوں گی کہ ایسا جنازہ تو کسی خوش قسمت کو ہی نصیب ہو سکتا ہے۔ ایک اور خوش قسمتی یہ تھی کہ عمر کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے جو عظیم ہستی یہاں موجود تھی وہ حضرت صاحب کے استاد گرامی کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کے مقام پر بھی فائز تھی ان کا اسمائے گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب تھا۔ صرف لاہور شہر میں ان کے شاگرد علماء کی تعداد تین سو کے قریب ہے جبکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے شاگردوں کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے ایسے موقع کی مناسبت سے دو ایسے مسئلوں پر روشنی ڈالی جن پرعام آدمی کو ہی نہیں بلکہ علماء کو بھی ابہام محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً خانہ کعبہ کی جانب پاؤں کرنے کا مسئلہ۔ بغیر وضونماز جنازہ کا مسئلہ انہوں نے بتایا کہ شریعت تین مقامات پر خانہ کعبہ کی جانب پاؤں کر لینے کی اجازت دیتی ہے۔ ایک وقت وہ جب میت کو مغرب سے مشرق کی جانب قبرستان کی جانب لے جایا جا رہا ہو۔ دوسرا اس وقت جب کوئی مریض بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر نماز ادا نہ کر سکتا ہو اور صرف اور صرف لیٹ کر ہی نماز پڑھی جا سکتی ہو تو کعبہ کی جانب پاؤں کر کے نماز ادا ہو سکتی ہے۔ تیسری رعایت جب میت کو غسل دیا جا رہا ہو۔ بے شک ہمارے ہاں شمالاً جنوباً غسل دیا جاتا ہے لیکن شریعت مغرب سے مشرق کی جانب غسل دینے کا حکم دیتی ہے۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ نماز جنازہ تیار ہو اور لوگ مسلسل وضو کر رہے ہوں اور وقت تنگ ہونے کا خدشہ موجود ہو تو تیمم بھی کیا جا سکتا ہے اور اگر وضو کر لیا جائے تو اسی وضو سے نماز بھی ادا ہو سکتی ہے۔ لیکن زیادہ بہتر ہے کہ جنازہ کے ساتھ چلنے سے پہلے وضو کر لیا جائے تاکہ خود اپنے ساتھ ساتھ میت کو بھی فائدہ ہو سکے۔ ہمارے ہاں عموماً انہی دونوں مسئلوں پر خاصی لے دے ہوتی ہے ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب نے یہ مسئلے بھی اپنی زبان مبارک سے بتا کر وہ شک و شبہ ختم کر دیا ہے جس کے بارے میں لوگ ابہام کا شکار ہیں۔
    وقت چونکہ بہت تھوڑا رہ چکا تھا اور اس لئے جلدی جلدی طویل ترین گیارہ صفیں بنا کر نماز جنازہ پڑھ لی گئی اس کے بعد میت کادیدار کیا گیا۔ قبلہ شاہ صاحب اور حاجی شریف صاحب نے خود قبر میں اتر کر دیکھا بلکہ جس وقت شاہ صاحب قبر میں کھڑے ہوئے تھے تو وہ بلند آواز میں رو بھی رہے تھے یقینا یہ عمر کے ساتھ ان کی محبت کا والہانہ اظہار تھا۔ جبکہ حضرت صاحب چند لمحے قبر میں دیکھ کر اور اپنے لخت جگر کی آخری آرام گاہ پر کچھ پڑھ کر ایک طرف ہوگئے۔ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کا اکلوتا لخت جگر اتنی جلدی انہیں داغ مفارقت دے جائے گا۔ آخری لمحات میں بھی حضرت صاحب نے صبر و اسقامت کا دامن نہ چھوڑا حالانکہ اس وقت یہاں پرموجود ہر شخص کی آنکھیں آنسوؤں سے پر نم تھیں اور تمام کی زبانوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا زیادہ سے زیادہ لوگ معاونت کر رہے تھے۔ یہیں پر قبلہ شاہ صاحب نے ایک اور واقعہ بتایا کہ حاجی شریف صاحب کے کہنے پر جب شاہ صاحب نے عمر کے جسد خاکی کو دائیں سے بائیں جانب کرنا چاہاتو بقول شاہ صاحب انہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے عمر کا جسم خود بخود اپنی جگہ سے کھسک کر اس جانب ہو گیا ہو۔
    اتنے میں اذان مغرب ہونے لگیں اور اس کے ساتھ ہی محمد عمر زمین کی سطح سے انیس سال کی عمر پا کر زمین کی تہہ میں اتر گیا۔ عمر کی قبر پر قاری سرور صاحب نے موقع کی مناسبت سے نعت بھی پڑھی جس نے سب کو مزید رلا دیا۔ اور قبلہ شاہ صاحب کی فرمائش پر درود سلام بھی پڑھا گیا جس سے قبرستان کی فضا معطر ہو گئی۔ حضرت صاحب نے یہاں بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ اور چپ چاپ اپنے اکلوتے بیٹے کو دفن ہوتا دیکھتے رہے۔ تجہیز و تکفین کی تکمیل تک نمازمغرب ہو چکی تھی لیکن جنازے میں شریک تمام افراد ابھی تک نماز مغرب نہ پڑھ سکے تھے چنانچہ تمام لوگ قبرستان سے سیدھے مسجد طہ پہنچے۔ سورج آسمان کی پستیوں میں ڈوب چکا تھا اور فضا کورات کی تاریکی نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا دور جانے والے لوگ اپنے گھروں کو جا چکے تھے جبکہ بڑی تعداد میں لوگ مسجد طہ میں پہنچ گئے اور حضرت صاحب کی بجائے صوفی عبدالمجید صاحب نے نماز مغرب کی امامت کروائی۔
    بھاری تعداد میں لوگ حضرت صاحب سے تعزیت کر رہے تھے جس کی بناء پر حضرت صاحب کے چہرے پر تھکاوٹ اور پریشانی کے واضح آثار نظرآ رہے تھے۔ یہاں سے فراغت پا کر غمزدہ دل کے ساتھ ہم اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اگلی صبح جب میں دوبارہ مسجد طہ پہنچا تو حضرت صاحب کے چہرے پر حسب معمول خاموشی تھی لیکن ان کے اندر غم کا جو سمندر موجزن تھا اس کی لہریں بخوبی دیکھی جا سکتی تھیں۔ وہ کرب اور وہ درد جس کا احساس انہیں بخوبی ہو رہا تھا ان کے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا ۔ حضرت صاحب پر جو غم کا پہاڑ ٹوٹ چکا تھا جس کا توڑ ہم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اس کامداوا توصرف اور صرف خدائے بزرگ و برتر کے پاس تھا۔ نماز اشراق کے بعد ہم حضرت صاحب اور قبلہ شاہ کے ساتھ قبرستان گئے۔ قبرستان تو حضرت صاحب کے ساتھ اکثر و بیشتر جاتے رہتے تھے لیکن آج ان کے قدم اٹھائے بھی نہیں اٹھتے تھے وہ قدم قدم پرنقاہت محسوس کر رہے تھے۔ جب وہ محمد عمر کی قبر پر پہنچے تو ان کی حالت ناقابل دید ہوگئی۔ ان کے ضبط کا بند ٹوٹتا ہوا نظر آیا بیٹے کی قبر پر چند منٹ خاموش کھڑے رہے پھر یکدم ان کی آنکھوں کی پلکوں پر آنسو نما چند موتی چمکنے لگے جنہیں جلد ہی انہوں نے چھپا لیا، قبلہ شاہ صاحب نے دعا کروائی جو بذات خود بھی رو رہے تھے۔ ادھر ہماری کیفیت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ قبر پر کھڑے ہو کر ہم نے بھی خلوص دل کے ساتھ رب ذوالجلال سے دعا کی کہ اے پروردگار تو صاحبزادہ محمد عمر کو بخش دے۔ اس کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دے اور حضرت صاحب کو سکون قلبی عطا فرما۔
    دوسرے دن جمعرات کے روز نماز ظہر کے فوراً بعد سوئم کا ختم تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بلکہ علاقے کے سبھی علما کرام اور بالخصوص استاد گرامی مولانا محمد علی اوکاڑی شدید علالت کے باوجود تشریف لائے حالانکہ بدھ کے روز ڈاکٹروں نے ان کو بے ہوشی کے انجکشن لگا کر سلایا ہوا تھا اور انہیں محمد عمر کی وفات کی خبر بھی نہیں دی کیونکہ ان کے گھر والوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ المناک خبر مولانا صاحب کومل گئی تو پھر وہ کسی بھی حالت میں جانے سے رک نہیں سکتے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ خبر ملتے ہی علامہ صاحب قل شریف میں شرکت کے لئے خود تشریف لے آئے۔ ان کے علاوہ ایک اور بڑی شخصیت جو قاری غلام رسول صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کوئی بھی المناک خبر ملتے ہی بغیر دعوت کے خود ہی چلے آتے ہیں یہ ان کی حضرت صاحب سے محبت کا بین ثبوت ہے۔ جب انہوں نے حضرت صاحب کے اکلوتے بیٹے کی ناگہانی موت کی خبر سنی تو ان سے رہا نہ گیا اور وہ بے ساختہ مسجد طہ کی جانب چلے آئے۔ ہمارے ہی علاقے کی ایک اور روحانی شخصیت قاری غلام سرور موجود تھی ان کے بغیر کوئی بھی محفل مکمل دکھائی نہیں دیتی تھی۔ وہ ہر محفل میں اپنا مقام خود بنا لینے میں ماہر تھے اور اپنی اسی خوبی کی بنا پر وہ عام لوگوں میں ہی نہیں علماء کرام میں بھی اپنا خاص مقام رکھتے تھے۔ نماز ظہر سے نماز عصر تک دورد پاک اور قرآن پاک پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا اور نعت خوانی کے بعد ختم پاک پڑھا گیا۔
    اس کے بعد حضرت صاحب کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی جس میں حضرت صاحب نے بہت سی ایسی باتوں پر روشنی ڈالی جو ابھی تک مجھ سے مخفی تھیں۔ حضرت صاحب نے بتایا کہ محمد عمر با با جی سرکار کرماں والوں کا مرید تھا وہ اکثر کہتا تھاکہ وہ کسی اور کا مرید نہیں ہوگا صرف اور صرف حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی اسے تمنا تھی۔ بلکہ پیر جی بھی اکثر اوقات محمد عمر سے بہت پیار کرتے تھے کئی بار ایسا ہوا کہ وہ حضرت صاحب کے ساتھ کرمانوالے جایا کرتا تھا اور وہیں اس کی ملاقات بزرگوں سے ہو جاتی تھی۔ ایک مرتبہ ایسی ہی ملاقات میں پیر جی نے فرمایا کہ عمر کو میرے پاس چھوڑ جاؤ۔ یہ سنتے ہی عمر گھبرایا اور بھاگ کر حضرت صاحب کو چمٹ گیا کہ میں کہیں نہیں رہ سکتا۔ اگر رہنا ہے تو صرف اور صرف باپ کے سایہ پدری میں۔
    پھر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب عمر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوا تو وہ گھر سے باہر کسی محفل میں گئے ہوئے تھے انہیں عمر کی پیدائش کی خبر وہیں پر موصول ہوئی۔ پھر جب اس بچے کے نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو چاروں خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اپنے لخت جگر کا نام محمد عمر رکھ دیا جائے۔
    بہر کیف جو بھی دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے لیکن محمد عمر کی ناگہانی رحلت سے میرے پیر و مرشد کے سینے پر وہ زخم لگا جو کبھی بھر نہ پایا۔ بے شک حضرت صاحب ہزاروں چھوٹے بڑوں کو بے حد پیار کرتے اور انہیں بہت احترام دیتے لیکن ان کے دل میں لخت جگر کی جدائی سے پیدا ہونے والی آگ کہاں بجھ سکتی تھی پھر بھی خدائے بزرگ و برتر نے انہیں بہت حوصلہ اور صبر کی طاقت عطا فرمائی جو کسی اور کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔
آخر میں میری دعا ہے کہ محمد عمر کو اللہ تعالیٰ جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ بے شک ہم سب اسی کے بندے ہیں اور اپنے خالق حقیقی کی جانب ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی ایک نظم صاحبزادہ محمد عمر مرحوم کی نذر ہے۔

حشر تک ان سے ملاقات نہ ہوگی اب تو
رہ گئی دل میں جو بات نہ ہوگی اب تو
لو تیری یاد کی سینے میں رہے گی لیکن
ختم تنہائی کی یہ رات نہ ہوگی اب تو
زندگی اپنی خوش اوقات تھی تیرے دم سے
زندگی ایسی خوش اوقات نہ ہوگی اب تو
یوں تری یاد میں اشکوں کی لگی ہیں جھڑیاں
ایسی ساون میں بھی برسات نہ ہوگی اب تو
موت کی مات نے کھولا ہے در خلد نعیم
پھر کبھی ایسی تجھے مات نہ ہوگی اب تو
سب کے دل ہاتھ میں لینے کا سلیقہ تھا تجھے
اہل دل کی یہ مدارات نہ ہوگی اب تو
اپنے بیگانے سبھی تیری توجہ میں رہے
یہ میسر انہیں سوغات نہ ہوگی اب تو
کتنے پاکیزہ عزائم ترے ہمدوش رہے
تجھ سے جو بات تھی وہ بات نہ ہوگی اب تو
سر کئے معرکہ اخلاص و یقین سے تو نے
تجھ سے ایسی کرامات نہ ہوگی اب تو
دل کے اس خوف کا چارہ کوئی اے رب کریم
ختم یہ گردش حالات نہ ہوگی اب تو

FuvuF











سفر آخرت
 قطب دوراں  منبع رشدو ہدایت  خلیفہ مجاز حضرت کرماں والا شریف
حضور گنج عنایت سرکار
پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی
   
                    مشاہدات : محمداسلم لودھی       
جو انسان بھی دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے اپنے رب کے پاس ہی لوٹنا ہے ۔لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہوں نے صرف اللہ تبارک و تعالی اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے ارشادات کو مخلوق تک پہنچانے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیاہوتا ہے ایسی عظیم روحانی ہستیوں کو لوگ "ولی کامل " کے لقب سے پکارتے ہیں ۔ ایسی ہی پر تاثیر  پروقار  منبع رشد و ہدایت ہستی کا نام حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی( حضور گنج عنایت سرکار) ہے ۔جن کی زندگی دین الہی کو سیکھنے  شریعت نبوی پر عمل پیرا رہنے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لانے میں صرف ہوئی ۔ آپ  73 سال کی عمر پاکر 31 جولائی 2011کی صبح گیارہ بجے لاہور میں انتقال فرماگئے ۔ ان اللہ و انا الیہ راجعون۔ بے شک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
    اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے ۔ بے شک وہ زبردست اور بخشنے والا ہے ۔( سورة ملک آیت نمبر 2)
پیر کامل  قطب دوراں  منبع رشد وہدایت حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی 1938 کو وادی کشمیر کے معروف گاؤں " کلسیاں " کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ  کے والد حضرت صحبت علی  شرافت  دیانت اور روحانیت کے اعتبار سے پوری وادی میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے ۔حضرت صحبت علی  بٹالہ شریف والوں کے مرید تھے جن کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی۔تبلیغ دین اور روحانی فیض کے ساتھ ساتھ آپ  کے والد گرامی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا بلکہ پھلوں کے چند باغ بھی آپ  کے خاندان کی ملکیت تھے ۔آپ  کی والد ہ ( قاسم بی بی ) بہت نیک سیرت اور پابند صلوة تھیں۔ گھریلو خانہ داری کے ساتھ ساتھ گاؤں کی بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتی تھیں ۔ جب آپ  پیدا ہوئے تو قطب الاقطاب حضرت سید ولایت شاہ  مبارک باد دینے کے لیے تشریف لائے اور آپ  کو گود میں لے کر پیار کرتے ہوئے فرمایا اللہ نے اگر چاہا تو یہ بچہ اپنے وقت کا قطب  عالم دین اور منبع رشد و ہدایت ہوگا اور لاکھوں بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرے گا ۔
چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا گاؤں " کلسیاں " خوبصورتی اور صحت افزا ماحول کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا ۔ اس گاؤں میں تو اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن ہندو اور سکھ بھی آباد تھے تمام مساجد کا انتظام و انصرام آپ  کے خاندان کے سپرد تھا ۔گاؤں کے سرکاری سکول میں آپ  نے دنیاوی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا جبکہ قرآن پاک اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھا۔پھر جب حضرت قائداعظم محمد علی جناح  کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا تو آپ  کا خاندان وادی کشمیر سے ہجرت کرکے گجرات کے نواحی قصبے چک 34 میں آکر آباد ہوا ۔یہاں آئے ہوئے ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ آپ  کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔ گویا چھ سال کی عمر میں ہی آپ  شفقت مادر سے محروم ہوگئے اور والدہ کی کمی کو آپ  زندگی کے آخری سانس تک شدت سے محسوس کرتے رہے ۔
جب آپ  نے کچھ ہوش سنبھالا تو والد گرامی نے آپ  کو علاقے کی معروف دینی شخصیت اور شیخ القرآن  حضرت علامہ مولانا غلام علی قادری اشرفی کے مدرسے میں داخل کروادیا۔کچھ عرصہ تو دینی تعلیم کا سلسلہ چک 34 میں ہی جاری رہا پھر جب استاد العلما حضرت مولانا غلام علی قادری اشرفی نے اوکاڑہ شہر میں ایک بڑے دینی مدرسے " اشرف المدارس "کی بنیاد رکھی تو آپ  بھی والد گرامی کے حکم پر حصول تعلیم کے لیے اوکاڑہ آگئے اور سالہا سال تک یہاں تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔یہیں پر ایک رات آپ  نے خواب میں اپنی والدہ کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھا۔آپ  فرماتے تھے کہ ان دنوں میرے پاس بھی سردی سے بچنے کے لیے کوئی مناسب کمبل یا گرم چادر نہیں تھی۔ چند دن پہلے ہی چار روپے کے عوض ایک گرم چادر خریدی جس سے سردی سے کچھ بچاؤ ہوجاتا تھا۔ لیکن والدہ کو کپکپاتے دیکھ کر میں سخت پریشان ہوا اگلی صبح میں کسی مستحق غریب عورت کی تلاش میں مدرسے سے نکل پڑا ۔ کچھ ہی دور فٹ پاتھ پر انتہائی سردی سے کانپتی ہوئی مجھے ایک بڑھیا نظر آئی ۔میں نے اپنے اوپر اوڑھی ہوئی گرم چادر اتار کر اس پر ڈال دی جس سے وہ بے حد دعائیں دینے لگی اور میں سردی سے کانپتا ہوا واپس مدرسے آگیا۔اگلی رات جب میں سویا تو خواب میں وہی چادر ( جو بڑھیا کو سردی سے بچانے کے لیے میں دے آیا تھا) اپنی والدہ کو اوڑھے دیکھاتو میرا ایمان پختہ ہوگیا کہ مرنے والوں سے رشتے کبھی کمزور نہیں ہوتے۔
جب تک آپ  اشرف المدارس اوکاڑہ میں زیر تعلیم رہے۔ پیر ان پیر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  المعروف حضرت کرماں والوں سے والہانہ محبت کا رشتہ بھی استوار ہوتا رہا۔کئی ایک بار آپ  شیخ القرآن حضر ت مولانا غلام علی اوکاڑی  کے ہمراہ آستانہ کرماں والا گئے ۔پھر آپ کے دل میں روحانیت کی منزلیں طے کرنے کا ایسا جنون طاری ہوا کہ ہردوسری تیسری شام مدرسے سے فارغ ہوکر اکیلے ہی پیدل اوکاڑہ سے پانچ کلومیٹر دور حضرت کرماں والا تشریف لے جانے لگے ۔ اس کے باوجود کہ ابھی آپ  زیادہ بڑے نہیں تھے پھر بھی آپ کی روحانیت کی جانب بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  المعروف کرماں والوں نے آپ  کو خصوصی محبت سے نوازا۔ایک شام بیعت ہونے کا شوق دل میں موجزن ہوا تو آپ  وقت اور موسم کی نزاکت کااحساس کئے بغیر پیدل ہی حضرت کرماں والا پہنچ گئے ۔حسن اتفاق سے جب آپ  کرماں والا پہنچے تو نماز مغرب ہوچکی تھی اور نماز کے بعد حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  گوشہ خاص میں وضائف پڑھنے میں مشغول تھے ۔وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن آپ  کسی نہ کسی طرح گوشہ خاص میں داخل ہوگئے ۔جب حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  کی نظر کرم آپ  پر پڑی تو انہوں نے آنے کی وجہ پوچھی ۔ آپ  نے کہا میں آپ  کا مرید بننے آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  نے فرمایا کہ تم تو ازل سے ہی میرے مرید ہو یہ کہتے ہوئے اپنا دست شفقت آپ  کے سینے پر پھیرا اور فرمایا جاؤ ہم تمہیں دنیا کے تمام علوم عطا کرتے ہیں۔حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  کے یہ الفاظ سن کر آپ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوا ۔
پیر کامل حضرت مولانا محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی فرماتے ہیں کہ سردیوں کے موسم میں رات کے اندھیرے میں دوڑتا ہوا مدرسے پہنچا تو خوف کے مارے میری سانس پھول چکی تھی لیکن بیعت ہونے سے خوف جاتا رہا اور قلبی اطمینان حاصل ہوا۔پھرزندگی بھر پیرخانے سے رشتہ کبھی کمزورنہ ہوا اور وقتا فوقتا آپ  حضرت کرماں والے تشریف لے جاتے رہے۔بعد ازاں آپ  پاکپتن شریف میں شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب کے ہاں بھی چند ماہ قیام پذیر رہے لیکن انہوں نے آپ  کو قصور شہر جانے کامشورہ دیا۔قصور شہر میں آپ  استاد العلما حضرت محمد عبداللہ کے مدرسے میں آٹھ سال تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔ یہیں پر آپ  کی پہلی شادی 1968 میں ہوئی ۔
حسن اتفاق سے آپ  لاہور میں حضرت داتا گنج بخش  کے مزار اقدس پر حاضری کے لیے تشریف لائے تو یہاں آپ  کی ملاقات مولانا سید بشیر احمد کاظمی صاحب سے ہوئی جو ان دنوں گورومانگٹ جامع مسجد کے امام تھے ۔انہوں نے آپ  کو لاہور آنے کی دعوت دی لیکن آپ  معذرت کرکے قصور شہر واپس لوٹ گئے ۔کچھ ہی دنوں بعد لاہور کے علما کا ایک وفد قصور شہر میں آپ  کے استاد گرامی فخر المحدثین استاد العلما حضرت محمد عبداللہ قادری اشرفی  کے پاس پہنچا اور درخواست کی کہ بطور خاص گلبرگ لاہور میں اہل حدیث مسلک کے علما کا غلبہ ہوتا جارہا ہے اور بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے آپ  کی لاہور میں اشد ضرورت ہے ۔یہ سن کر آپ  کے استاد گرامی حضرت محمد عبداللہ قادری اشرفی  نے آپ  کو لاہور جانے کی اجازت دے دی۔
یہ 1969 کا زمانہ تھا آپ نے جس وقت اے تھری گلبرگ تھرڈ لاہور میں مسجد کی امامت سنبھالی تو یہ مسجد انتہائی خستہ حال تھی جسے از سر نو تعمیر کرنے کا آپ  نے عزم کیا اور 1970ء میں اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام آپ  نے مسجد طہ رکھا ۔ابتدا میں جب آپ  نے نماز جمعہ کااہتمام کیا تو نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن چند ہی سالوں میں عاشقان رسول ﷺ کا رخ مسجد طہ کی جانب ہونے لگا اور ہر نماز کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ  کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔اللہ تعالی نے آپ  کو چار بیٹیوں اور ایک بیٹے ( محمد عمر ) سے نوازا ۔جبکہ دوسری بیو ی سے دو بیٹوں اور ایک بیٹی ( محمد عمر  محمد عثمان اور بیٹی عائشہ)عطا فرمائی ۔
لاہور اومنی بس ورکشاپ میں آپ  مسلسل14 سال تک درس قرآن پاک دیتے رہے ۔اسی دوران حضرت سید ظہیر الحسن شاہ  کراچی سے لاہور تشریف لائے جب آپ  سید گلزار الحسن شاہ  کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں آپ  کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس آپ  کی ایک امانت ہے جو میں خلافت کی صورت میں آپ  کو دینا چاہتا ہوں ہچکچاہٹ کے باوجود آپ  کو ایک بڑے دینی گھرانے سے باقاعدہ خلافت مل چکی تھی اور چاروں سلسلوں میں مرید کرنے کی اجازت بھی ۔جب یہ خبر آپ کے عقیدت مندوں تک پہنچی تو لوگ جوق در جوق اور قطار در قطار آپ  کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لیے مسجد طہ کا رخ کرنے لگے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس سے پہلے دیول شریف والوں نے بھی آپ  کو تحریری خلافت عطا کررکھی تھی۔جب یہ بازگشت استاد گرامی شیخ الحدیث حضرت محمد عبداللہ قادری اشرفی  تک پہنچی تو انہوں نے پہلی تمام خلافتوں کی توثیق کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی خلافت عطا کر دی۔ اسی طرح ایک مرتبہ شیخ القرآن حضرت غلام علی اوکاڑوی  جن کے شاگردوں میں ہزاروں مفتی  عالم اور ولی شامل ہیں  مسجد طہ تشریف لائے تو اپنے خطاب کے دوران سب کے روبرو فرمایا کہ جب روز محشر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ اے غلام علی تو دنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں انتہائی ادب و احترام سے کہوں گا کہ پروردگار میں تیرا ایک نیک متقی اور پرہیز گار بندہ " محمد عنایت احمد "لایا ہوں۔یہ کہتے ہوئے آپ  نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میں" محمد عنایت احمد" کو عطا کرتا ہوں۔شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت سیدمحفوظ حسین شاہ  ( گدی نشین مکان شریف )نے بھی آپ  کو سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت عطا فرمائی ۔حضرت کرماں والوں کا فرمان عالی شان تھا کہ جو حضرت کرماں والا نہ آسکے وہ لاہور میں مسجد طہ میں "محمد عنایت احمد " کے پاس چلاجائے وہاں بھی وہی فیض ملے گا جو کرماں والا آنے والوں کو ملتا ہے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ گنج کرم حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری  کا فرمان عالی شان ہے کہ میرے مرید دوسرے پیروں سے زیادہ فضیلت اور عظمت رکھتے ہیں اگر ان کو روحانیت میں اپنے مقام کا پتہ چل جائے تو وہ خوشی سے مرجائیں ۔آپ  کا شمار حضرت کرماں والوں کے خاص مریدوں میں ہوتا تھا۔
روحانیت کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ ساتھ آپ  صاحب کشف بھی تھے ایک مرتبہ آپ صوفی محمد زبیر  کے آستانے پر تشریف فرما تھے آپ  کو بذریعہ کشف علم ہوا کہ صوفی محمد زبیر  کا جسم تو یہاں موجود ہے لیکن وہ خود مسجد نبوی میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں موجود ہیں ۔بعدازاں صوفی محمد زبیر  نے اس بات کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ  تو صاحب کشف ولی ہیں ۔(حضرت میر علی ہمدانی  کے بارے میں بھی مشہور تھاکہ وہ ایک ہی وقت میں کتنے مقامات پر دیکھے اور سنے جاتے تھے ۔)جن دنوں پیرو مرشد عمرے کی غرض سے ارض مقدس میں تھے آپ  نے خانہ کعبہ کے طواف کے دوران اپنے پیر بھائی حضرت صوفی بندے حسن خاں  کو دیکھا جو کئی سال پہلے انتقال فرماچکے تھے۔ایک مرتبہ ایک اہل حدیث نوجوان جو روحانیت کو نہیں مانتا تھا کسی کے کہنے پرشیر ربانی اعلی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری  سے ملاقات کے لیے شرقپور آیا اور عرض کی کہ میں نے سنا ہے آپ  کبھی کبھی حرم شریف میں نماز ادا فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا مطلب کی بات کرو اس شخص نے کہا میری خواہش ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کروں کیا آپ میرا یہ کام کرسکتے ہیں ۔آپ  نے فرمایا نماز عشا کے بعدباوضو حالت میں سو مرتبہ درود شریف خضری( صلی اللہ علی حبیبہ سیدنا محمد والہ وسلم) پڑھ کر کسی سے کلام کئے بغیر سوجایا کرو ۔ انشا اللہ تم کو گوہر مقصود مل جائے گا۔اس نوجوان نے ایسے ہی کیا ۔ایک رات تہجد کے نوافل ادا کرتے ہوئے جائے نماز پر بیٹھا تھا کہ اسے اونگھ آگئی اسی دوران وہ اپنے سامنے بیت اللہ شریف کو دیکھتا ہے۔ اس کے سامنے حضرت میاں شیر محمد شرقپوری  طواف فرما رہے ہیں چنانچہ اس نوجوان نے آپ  سے کچھ پوچھنا چاہا تو میاں صاحب نے انگلی کے اشارے سے منع فرمادیا۔ اسی اثنامیں سرور کائنات فخر موجودات حضور ﷺ دس صحابہ کرام سمیت تشریف لے آئے ۔حضور ﷺ سراپا نور تھے آپ ﷺ کی زیارت سے اہل حدیث پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوگئی ۔بعد ازاں روضہ اطہر کی زیارت کی پھر میاں صاحب  کے پاؤں پر پاؤں رکھ کر لاہور آپہنچے ۔ آنکھ کھلی تو وہ نوجوان اپنے گھر پر موجود تھا۔
آپ  نے فرمایا کہ جس طرح مچھلی انسانی پیٹ میں جاکر بھی پانی مانگتی ہے اسی طرح انسان جو نفلی فرضی نمازیں اوردیگر عبادات کرتا ہے ۔مرنے کے بعد بھی اللہ تعالی وہی عبادات کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔انسانی جسم تو زندگی کا محتاج ہوسکتا ہے لیکن روح (بالخصوص صالحین اور اولیا اللہ کی) کسی کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ انسانی جسم سے آزاد ہوکر پوری کائنات اس کی دسترس میں شامل ہوجاتی ہے اور قبر میں لیٹا ہوا ولی کامل پوری کائنات کو نہ صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ اپنی عبادات کو بھی قبر میں جاری رکھ سکتا ہے ۔قبر وہ نہیں ہوتی جو بظاہر نظر آتی ہے بلکہ اللہ تعالی اسے تاحد نظر وسیع فرمادیتا ہے اور جنت کی کھڑکی اس میں کھل جاتی ہے اورقبر بھی جنت کا گہوارہ بن جاتی ہے ۔
 پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی کے ہاتھ پر بیعت کئے مجھے بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس دوران بے شمار واقعات میرے مشاہدے میں آئے جنہیں دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی نہ صرف جید عالم تھے اور ان کو فقہی اور دینی علوم پر ملکہ حاصل تھا بلکہ آپ  صاحب کشف اور تہجد گزار ولی تھے۔ مرید ہونے کے بعد آپ  نے مجھے تاکید فرمائی کہ پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نماز تہجد بھی اداکرنے کی کوشش کروں۔ صبح اور شام درود خضری( صلی اللہ علی حبیبہ سیدنا محمد و الہ وسلم ) اور کلمہ طیبہ کا ورد بھی روزانہ معمولات میں شامل کروں ۔اللہ کے فضل و کرم سے آپ  کے حکم پر میں نے پنجگانہ نماز کی ادائیگی اور نماز تہجد کو اپنا معمول بنائے رکھاکبھی نیند کی وجہ سے غفلت ہو بھی جاتی تو آپ  روحانی طور پر مجھے بیدار کردیتے تھے ۔نماز فجر اور نماز عشا کی ادائیگی کے لیے مسجد طہ جانا میرا معمول تھا۔ ایک دن میں نے آپ  سے کہا مجھے قبر سے بہت ڈر لگتا ہے مرنے کے بعد انسان کو جب قبر میں اتار جاتا ہے تو اس وقت انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی ۔آپ  نے فرمایا مومن کے لیے دنیا قیدخانہ ہے جبکہ قبر اور آخرت کی زندگی راحت کا باعث ہے ۔ پھر اللہ تعالی اپنے بندوں کے لیے قبر کو جنت کاگہوارہ بنا دیتا ہے ۔ آپ کو کسی دن مشاہدہ کروا دیاجائے گا ۔ابھی اس بات کو چند ہی دن گزرے تھے کہ رات کو خواب دیکھتا ہوں کہ گھر کے سبھی افراد رو رہے ہیں تو سوچتا ہوں کہ شاید کوئی شخص مر گیا لیکن جب میں اٹھنے کی جستجو کرتا ہوں کہ اٹھ نہیں سکتا بولنا چاہتا ہوں تو بول نہیں سکتا تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ مرنے والا میں ہی ہوں ۔مجھے غسل دیاگیا کفن پہنا کر جنازہ اٹھا کر عزیز و اقارب جن کی شکلیں اور آوازیں بھی میں پہچانتاتھا میرا جنازہ اٹھاکر قبرستان کی جانب لے جارہے ہیں۔ میں پکار پکار کر انہیں کہہ رہا تھا کہ خدارا میں زندہ ہوں مجھے قبرستان نہ لے جاؤ لیکن میری آواز مجھ تک ہی محدودہوکر رہ جاتی ہے اور سب لوگ کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے میری میت کو کندھوں پر اٹھائے قبرستان پہنچ جاتے ہیں اور قبر میں دفن کرنے کے بعد گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔قبرمیں لیٹا ہوا میں سوچتا ہوں کہ اب کیا کروں یہاں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔کوئی ساتھی نہیں کوئی غمگسار نہیں ۔پھر اچانک میں اپنے دائیں جانب روشنی کی ایک کرن دیکھتا ہوں جب میں اس جانب کروٹ لینے لگتا ہوں تو ایک وسیع و عریض کھلے اور کشادہ ہال میں گر جاتا ہوں ۔وہاں چار چار پانچ پانچ لوگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں ۔جنہیں دیکھ کر میں خوش ہوتاہوں کہ یہاں اکیلا نہیں ہوں اور بھی بہت سے لوگ یہاں موجود ہیں۔اسی اثنا میں مجھے کوئی خواب سے بیدار کرتے ہوئے کہتا ہے اٹھو تہجد کا وقت ہوگیا ہے نماز تہجد پڑھو ۔ آدھ کھلی آنکھوں سے جب میں دیکھتا ہوں تو پیرو مرشد حضرت محمد عنایت احمد  سامنے کھڑے نظر آتے ہیں ۔لیکن جونہی میں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے بیدار ہوتا ہوں تو آپ  منظر سے غائب ہوجاتے ہیں ۔ نماز تہجد کی ادائیگی کے بعد میں حسب معمول مسجد طہ پہنچا تونماز فجر کے بعد آپ  فرماتے ہیں کیا اب بھی آپ کو قبر سے ڈر لگتا ہے ۔ میں حیران تھا کہ خواب میں جو کیفیت مجھ پر طاری تھی اور میں نے جو کچھ خواب کی حالت میں دیکھا اس کے بارے میں آپ  کو کیسے علم ہوگیا ۔میرے استفسار پر فرمایا کہ اللہ کے بندے خواب کی حالت میں ہی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لمحے میری جسمانی اور روحانی کیفیت یہ تھی جی چاہتاتھاکہ آپ  کے قدموں سے لپٹ کر میں دیر تک روتا رہوں ۔لیکن حجاب کی وجہ سے میں ایسا نہ کرسکا ۔
اسی طرح ایک روز بہت سے عقیدت مند اور مریدین مسجد طہ میں جمع تھے گفتگو کا سلسلہ جاری تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں آپ  نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک گڈریا اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے جاتا ہے ۔حسن اتفاق سے ایک بکری چرتے چرتے دریا کے قریب دلدلی زمین کی جانب پہنچ جاتی ہے اوراس کے پاؤں دلدلی زمین میں دھنس جاتے ہیں ۔ بکری کو اکیلا دیکھ کر ایک بھیڑیا بھی وہاں آ پہنچتا ہے ۔لیکن وہ بھی بکری سے کچھ ہی فاصلے پر دلدلی زمین میں دھنس جاتا ہے بھڑیئے کو دیکھ کر بکری مسکراتی ہے ۔ بکری کو مسکراتا دیکھ کر بھیڑیا کہتا ہے اے بیوقوف بکری ۔ موت کو قریب دیکھ کر بھی تو مسکرا رہی ہے ۔ بکری نے جواب دیا ۔میں تو تیری قسمت پر ہنس رہی ہوں ۔ گڈریا جب اپنی بکریوں کو گنے گا تو ایک کم دیکھ کر یقینا ادھر کا رخ کرے گااور مجھے یہاں سے نکال لے جائے گا لیکن تمہیں بچانے کون آئے گا ۔یہ واقعہ سناتے ہوئے آپ  نے فرمایا کہ پیرو مرشد اپنے مریدوں کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رائی کے دانے کی طرح دیکھتا ہے وہ پیر ہی کیا جو اپنے مریدوں کی حالت زار سے بے خبر رہے ۔لیکن مرید اسی وقت صالحین اور ولایت کی منزلیں طے کرسکتا ہے جب گناہوں سے تائب ہوکر پیرو مرشد کے بتائے ہوئے وضائف اور پنجگانہ نماز کو اپنی زندگی کا معمول بنالیتا ہے ۔آپ  نے فرمایا کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن کائنات کا نظام چلانے اور رشد و ہدایت کے سلسلے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے قطب  ولی  ابدال روز قیامت تک دنیا میں آتے اور پردہ فرماتے رہیں گے  یہی حکمت خداوندی ہے ۔
آپ  نے مزید فرمایا کہ اللہ کے نبی کی طاقت اور حکمت کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن جب کوئی انسان اللہ تعالی کا مظہر بن جاتا ہے تو اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کی حرمت خود اللہ تعالی رکھتا ہے ۔ آپ  نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کوئی ہے جو ملکہ بلقیس کے آنے سے پہلے اس کا تخت یہاں لے آئے ۔ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کے غلام حضرت آصف بن برخیا  نے سینکڑوں میل دور رکھے ہوئے تخت کو صرف "یاحی یا قیوم " کہہ کر ایک لمحے میں حاضر کردیا ۔برخیا  پیغمبر نہیں تھے صرف آپ علیہ السلام کے غلام تھے ۔ پیرو مرشد حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی  نے فرمایا کہ انسان جب ترک گناہ کے بعدعبادات کو اپنا معمول بنالیتاہے اور رات کے پرسکون ماحول میں اللہ کو پکارتا ہے تو کامل پیرو مرشد کی موجودگی میں اس میں یہ استعداد خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔عبادت میں وہ توانائی ہے جو حدود زمان و مکان کو توڑ کر ہمیں رب کائنات کے جوار میں پہنچا سکتی ہے اس سے کائنات کی وسعتیں سمٹ جاتی ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ علم سے دماغ کو اور عبادت سے روح کو نور عطا ہوتا ہے جس قدر نور عظیم ہوگا مومن کی قوت بھی اسی طرح عظیم ہوگی ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز  اپنی کتاب خزینہ معارف میں لکھتے ہیں کہ جسم اور روح کے درمیان اگر حجاب اٹھ جائے تو اولیا کرام ہر چیز کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔مستند روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اولیائے کرام فرشتوں کا مشاہدہ کرنے میں دقت محسوس نہیں کرتے بلکہ فرشتوں کی باہمی گفتگو بھی سن لیتے ہیں ۔
 حضرت ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال  کا حوالے دیتے ہوئے آپ  نے فرمایا کہ اقبال  نے فلسفہ زمان و مکان کے متعلق طویل بحث کی ہے انہوں نے فلسفہ زمان و مکان میں اس بات کو واضح کیاہے کہ مومن ہر چیز پر قادر اور خدائے مطلق کا نائب مقرر کیاگیا ہے اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرے تو وہ نہ صرف کائنات کومسخر کرسکتا ہے بلکہ زمان و مکان کے بندھن کو بھی توڑ کر آگے نکل سکتاہے پھر ایسے شخص کے لیے فرمایا کہ وہ حیات ابدی حاصل کرلیتا ہے۔ایک مرتبہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری  نے حضرت فرید الدین گنج شکر   کے ذوق و شوق اور روحانی استعداد کو دیکھ کر آپ  کے پیرو مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکی  کو مخاطب کرکے فرمایا ۔ بابا بختیار تم نے تو ایک ایسے عظیم شاہباز کو قید کرلیا ہے جس کی رسائی سدرة المنتہی تک ہے ۔
                        (سیر العارفین)
پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی  فرماتے تھے کہ ایمان کی حرارت  محبت کی گرمی اور عشق کی تپش کامل مرشد کی وجہ سے جلد حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن حکیم بھی تعمیر سیرت  پختگی کردار  تشکیل تقوی اور آنکھوں سے غفلت کی پٹیاں دور کرنے کا وسیلہ بنتا ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے ۔اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تم فلاح پاسکو۔
آپ  فرماتے تھے کہ تقوی اسلام کی روح او راسلام دین فطرت ہے اس کی حقانیت لامحالہ ہر اس ذہن کو تسلیم کرنی پڑتی ہے جو تعصب کی پٹی اتار کر صحیح خطوط پر غور و فکرکرے ۔ قرآن پا ک جو ایک الہامی کتاب ہے وہ صرف اپنے قاری کو تلاوت ہی کی دعوت نہیں دیتی بلکہ فکر و تدبر کی تعلیم بھی دیتی ہے اور غورو فکر سے انسانی ضمیر زندہ ہوتا ہے اور انسان کو حقائق تسلیم کرنا سکھاتا ہے جب قلب و جگر اور دل و دماغ کسی بات کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر اس کے تقاضے پورے کرنے مشکل نہیں رہتے۔
 پیرو مرشد کی سرپرستی میں مجھے صحابی رسول حضرت حاجی شیر دیوان چاولی  (بورے والا)  حضرت سید شاہ موسی گیلانی  (قبولہ شریف)  حضرت فرید الدین گنج شکر  (پاکپتن) کے مزارات پر جانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے اس دوران پیرو مرشد کے شب و روز دیکھنے کے ساتھ ساتھ میں نے کئی کرامتوں کا بذات خود نظارہ بھی کیا۔ جو ان کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی بین دلیل ہیں۔یہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت حاجی شیر دیوان چاولی  کا مزار اقدس دریائے ستلج کے مغربی کنارے اور بورے والا شہر سے دس کلومیٹر مشرق میں ایک گاؤں میں واقع ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے چند مقامی بسوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو صرف دن میں چند ایک بار چلتی ہیں ۔جب ہم پیر و مرشد کے سرپرستی میں مزار اقدس میں اجتماعی دعاکرکے فارغ ہوئے تو ہمیں بتایا گیا کہ آخری بس چلنے کے لیے تیار ہے اگر تھوڑی سی بھی تاخیر ہوئی تو بس چلی جائے گی اور رات اسی گاؤں میں ہی قیام کرنا پڑے گا۔ ایک جانب بس نکلنے کا خدشہ تو دوسری جانب نماز مغرب کے چھوٹ جانے کا ڈر ۔پیرو مرشد نے فرمایا پہلے نماز مغرب پڑھتے ہیں اگر اللہ کو منظور ہوا تو بس کہیں نہیں جاتی ۔
بہرکیف ہم مسجد میں داخل ہوکر پیرو مرشد کی امامت میں نماز مغرب پڑھنے لگے بیس پچیس منٹ بعد جب فارغ ہوئے تو ہر طرف ماحول پر اندھیرا چھا چکا تھا ہمارے دل میں یہ خوف اپنی جگہ موجود تھا کہ آج کی رات ہم کہاں ٹھہریں گے لیکن جب پیرو مرشد کی سرپرستی میں چلتے ہوئے مسجد سے باہر آئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بس مسجد کے باہر کھڑی ہے اور چند افراد اسے ٹھیک کررہے ہیں ۔پیرو مرشد نے ہمیں اشارہ کیا کہ سوار ہوجاؤ ۔ بس اب چلنے والی ہے ۔بالکل ایسے ہی ہوا جو نہی ہم سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تو بس سٹارٹ ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں رواں دواں ہوگئی ۔بورے والا پہنچے تو مین سڑک تک پہنچانے کے لیے ٹانگوں والا اڈہ بالکل خالی تھا رات کے وقت اجنبی قصباتی شہر میں دو کلومیٹر کا سفر بھی کم اذیت ناک نہیں ہوتا ۔ابھی ہم پریشانی کے عالم میں پیدل چلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک ٹانگہ دور سے آتا ہوا دکھائی دیا اور ہمارے قریب آکر رک گیا ہم پوچھے بغیر اس میں سوار ہوگئے اور وہ ہمیں لے کر لاہور جانے والی مین سڑک پر لے آیا ۔جب ہم لاہور والی بس پر بیٹھ گئے تو چنداحباب کا تقاضا تھاکہ قبولہ شریف اور پاکپتن شریف بھی ہوتے چلیں لیکن کس نے کہاں ٹھہرنا ہے اور کہاں رات بسر ہونی ہے کچھ علم نہیں تھا۔ بس عارف والا پہنچی تو میں نے نہایت ادب سے درخواست کی کہ عارف والا میں میرے ماموں( ہدایت خان ) رہتے ہیں لیکن ان کے گھر کا مجھے کوئی پتہ نہیں اگر آپ اجازت دیں تو گھر تلاش کرنے کی جستجو کریں ۔ اس وقت رات کے بارہ بج چکے تھے اورٹانگوں اڈہ بالکل خالی تھا شہر کو جانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ان مشکلات سے قطع نظر جب پیرو مرشد نے عارف والا قیام کا فیصلہ کرلیا تو ہم سب بس سے اتر کر شہر کی طرف پیدل ہی چل پڑے کہ اچانک ایک خالی ٹانگہ نمودار ہوا اور کوچوان ہمیں پوچھنے لگا کہ آپ نے کہاں جانا ہے میں نے ماموں کا نام بتایا تو اس نے کہا ہاں میں ان کا گھر جانتا ہوں۔ پیرو مرشد سمیت ہم سب تانگے میں سوار ہوکر ماموں کے گھر پہنچے تو سب حیران تھے ماموں نے فوری طور پر کچھ کھانے کاانتظام کیا ۔اسی اثنا میں رات کا ایک بج چکا تھا ہم لوگ سونے کے لیے چارپائی پر لیٹ گئے لیکن پیرو مرشد چند مریدوں کے ساتھ قریبی مسجد پہنچ کر حسب روایت نوافل اور نماز تہجد کی ادائیگی میں مشغول ہوگئے اور نماز فجر کے بعد آپ  کی مسجد سے واپسی ہوئی ۔گزشتہ تیس گھنٹوں سے مسلسل سفر اور جاگنے کے باوجود آپ بالکل ہشاش بشاش تھے اور کوئی نماز قضا نہیں ہوئی ۔ پہلے قبولہ شریف پھر دوپہر کو ہم پاکپتن شریف پہنچے تو حضرت صاحب فرمانے لگے آج دوپہر کا کھانا حضرت بابا فریدالدین گنج شکر  ہمیں کھلائیں گے ۔ مزار مبارک پر حاضر ی کے بعد ہم ایک الگ جگہ پر بیٹھ گئے جہاں چند لمحوں بعد ایک شخص آیا اس نے پوچھا کہ لاہور سے آپ لوگ تشریف لائے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہاں ۔ہم ہی گنج شکر  کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ اس ان دیکھے شخص نے کہا آپ یہاں تشریف رکھیں میں ابھی آپ کے لیے کھانا لے کر آرہاہوں ۔یہ سب کچھ میرے سامنے ہورہا تھا چند منٹوں بعد ایک شخص نے دسترخوان بچھا یا دوسرے نے بہترین کھانا آراستہ کیا تیسرے نے ٹھنڈے پانی کا اہتمام کیا اور ہم سب نے جی بھر کے کھایا اور اللہ کا شکر اداکیا۔دودنوں پر مشتمل یہ سفر تو اختتام پذیر ہوگیا لیکن پیرو مرشد کا روحانی دنیا میں مقام و مرتبہ ذاتی طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع ہمیں فراہم کرگیا ۔
 مسجد طہ میں آنے والوں کے لیے آپ  نے لنگر کا انتظام بھی کررکھا تھا ۔ صبح اور شام درود پاک پڑھتے ہوئے پاکیزہ خیالات کے حامل نوجوان ( ہدایت الرحمن اور محمدمنشا ) درود پاک کا ورد کرتے ہوئے لنگر پکاتے ۔ نماز فجر اور نماز عشا کے بعد محفل میں موجود درجنوں مرید اور عقیدت مند پیٹ بھر کر کھاتے ۔اللہ تعالی اپنے نبیوں اور ولیوں کو تمام خوبیوں کے علاوہ صبر واستقامت بھی خوب عطا کر تا ہے ۔ جب نبی کریم ﷺ کے پیارے بیٹے ابراہیم  کا انتقال ہوا تو آپ ﷺ بہت غمگین تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ  نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ اللہ نے ہر نبی کو یہ درجہ عطا کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کوئی ایک دعا مانگ سکتا ہے جو فورا قبول کی جائے گی۔تو آپ ﷺ اپنے بیٹے کی دوبارہ زندگی کی دعا کیوں نہیں مانگ لیتے ۔اللہ قبول کرنے والا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ دعا میں نے آخرت میں اپنی امت کے لیے سنبھال رکھی ہے ۔(سبحان اللہ )
 بالکل یہی کیفیت پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی کے چہر ے پر اس وقت دیکھنے کو ملی جب آپ  کے بڑے صاحبزادے محمد عمر کا اچانک انتقال ہوگیا ۔ اولاد کی محبت اور بڑھاپے کا سہارا ہونے کے باوجود غسل سے تدفین تک آپ  کا صبر قابل دید تھا ۔بلکہ آپ  عورتوں اور مردوں کو یہ ہدایت کرتے رہے کہ کوئی میرے بیٹے کی موت پر نہ روئے ۔ لیکن جب محمد عمر کو لحد میں اتار کر مٹی ڈالی جارہی تھی تو شبنم کے چند قطرے آپ  کی آنکھوں سے نمودار ہوئے اور ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں بیٹے کی بخشش کے لیے اٹھ گئے۔اس لمحے آپ  صبر و استقامت کا پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔ آپ  کا یہی اصرار رہا کہ رونے اور دنیاوی باتیں کرنے کی بجائے مسجد میں سفید چادریں بچھا کر سب لوگ درود پاک پڑھیں جو قبر میں بخشش کا اصل ذریعہ ہے ۔پھر آپ  کی اہلیہ اور بڑی بیٹی کاانتقال ہوا تو ان امتحانوں میں بھی آپ  ثابت قدم رہے ۔
 عمر بڑھنے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوگر اور بلڈپریشر کی بیماری نے غلبہ پانا شروع کردیا آپ  دوا سے زیادہ دعا پر یقین رکھتے تھے لیکن یہ موذی بیماریاں اپنا اثر دکھانے سے کہاں باز رہتی ہیں ۔پھر یہ بات بھی ہے کہ بیماریاں اور تکلیفیں اللہ کے بندوں کے درجات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔ابھی بلڈپریشراور شوگر کی شدت ہی کم نہیں ہو ئی تھی کہ لبلبہ کینسر کے مرض نے آپ  کونڈھال کر دیا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن مرتے وقت جو تکلیف اٹھاتا ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ۔ اس کے باوجود کہ کمزوری اور نقاہت کااحساس دن بدن بڑھتا جارہا تھا لیکن آپ  نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد طہ تشریف لاتے اور وعظ و بیان بھی فرماتے رہے۔ جبکہ گھر پر ہر نماز باقاعدگی سے ادا کرتے رہے ۔
 31 جولائی 2011 اتوار کی دوپہریہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی کا جسمانی انتقال ہوگیاہے ۔ یہ سنتے ہی یوں محسوس ہوا کہ آسمانی بجلی مجھ پر گر گئی ہے میں بے ساختہ آنسو بہاتا ہوا مسجد طہ پہنچا تو وہاں سینکڑوں عقیدت مند اور مرید ایک دوسرے کے گلے مل کر زار و قطار رو رہے تھے ۔ خلیفہ دوم جناب صوفی عبدالمجید عاجز بھی موجود تھے( خلیفہ اول سید گلزار الحسن شاہ  وفات پا چکے ہیں) وہ ہمیں بھی دلاسہ دے رہے تھے اور خود بھی رو رہے تھے ۔علاقے کے معززین اور مسجد انتظامیہ کے اشتراک عمل سے یہ طے پایا کہ نماز جنازہ رات دس بجے ادا کی جائے گی ۔تجہیز و تکفین کے انتظامات کے حوالے سے ملحقہ قبرستان میں قبر کے لیے جگہ کاانتخاب کرلیاگیااور مسجد میں لوگ سفید چادریں بچھا کر کلمہ طیبہ اور درود پاک پڑھنے لگے ۔ قرآنی سپارے بھی پڑھے جاتے رہے تاکہ پیرو مرشد کو قبر میں اترنے سے پہلے مریدوں اور عقیدت مندوں کی جانب سے کوئی بیش قیمت نذرانہ پیش کیاجاسکے ۔
اس دوران میری پیر بھائی( ہدایت الرحمن) سے ملاقات ہوئی جو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پیرو مرشد کی تیمارداری پر مامور تھا اس نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے ہی وقت نزع شروع ہوچکا تھا۔ پیر و مرشد کی نگاہ آسمان کی طرف مرکوز تھی اور یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ آسمان سے اترتے ہوئے فرشتوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ آپ  کی زبان پر اللہ اللہ کا ذکر جاری تھا ۔ تکلیف کے باوجود چہرے پر گہرا اطمینان اور سکون تھا ۔پھر جب پاک روح نے جسد اطہر کو الوداع کہا تو آ پ  نے اس طرح خود بخود آنکھیں بند کرلیں جیسے تھکن کے بعد انسان گہری نیند سو جاتا ہے۔
ولی کامل کی موت
حضرت تمیم داری  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے ملک الموت ۔ میرے ولی کے پاس جاؤ اور اسے لے آؤ کیونکہ میں نے اسے رنج اور راحت دونوں ہی میں آزمایا ہے اور اسے اپنی رضا کے مطابق پایا ۔میں چاہتا ہوں کہ اسے دنیا کی تکلیفوں اور غموں سے نجات دلاؤں ۔ اللہ تعالی کے حکم پر ملک الموت پانچ سو ملائکہ کی جماعت کے ہمراہ جنت کی خوشبو والا کفن اور پھولوں کی شاخیں (جن میں مختلف خوشبوئیں مہکتی ہیں ) لے کر زمین پر اترتے ہیں اور ولی کامل کے روبرو فرشتوں کے ہمراہ بیٹھ جاتے ہیں ہر فرشتہ ایک ایک عضو پر اپنا ہاتھ رکھ لیتا ہے اورمشک میں بسے ہوئے ریشم کو ٹھوڑی کے نیچے بچھا دیاجاتا ہے ایک دروازہ جنت کی طرف کھول دیا جاتاہے ایک فرشتہ دل کوجنت کی جانب راغب کرتا ہے کبھی لباس کی طرف اور کبھی پھولوں کی طرف ۔ولی کی جنتی بیویاں اس وقت خوش ہورہی ہوتی ہیں اور روح جسم سے نکلنے کے لیے بے قرار ہوتی ہے۔ فرشتہ کہتا ہے ۔اے پاک روح اچھے درختوں  دراز سایوں اور بہتے ہوئے پانیوں کی طرف چل ۔تو روح جسم اطہر سے خود بخود جدا ہوجاتی ہے۔ ملک الموت اس پر ماں سے بھی زیادہ شفقت کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ روح اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ہے وہ اس روح پر نرمی کرکے اللہ تعالی کی رضا چاہتا ہے ۔ ولی کامل کی روح اس طرح نکالی جاتی ہے جس طرح آٹے سے بال ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ادھر روح نکلتی ہے تو دوسری طرف تمام فرشتے بیک زبان کہتے ہیں السلام علیکم ادخلو الجنتہ بما کنتم تعملون ۔( اے نیک روح تم پر سلامتی ہو اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجا)۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک قبیلے کی موت عالم کی موت سے زیادہ آسان ہے ۔ قیامت کے دن علما کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون کے برابر تولی جائے گی۔
پھر جب جسد اطہر کو غسل دینے کا مرحلہ آیا تو خلیفہ دوم صوفی عبدالمجید عاجز( خلیفہ اول سید گلزار الحسن شاہ انتقال فرماچکے ہیں) اور چند دیگر افراد نے یہ فریضہ انجام دیا ۔صوفی عبدالمجید عاجز فرماتے ہیں کہ آپ  کا جسم اس قدر لطیف اور نرم و نازک تھا جیسے زندہ انسانوں کا ہوتا ہے چہرے پر گہرا سکون  آنکھوں میں نور کی چمک دکھائی دے رہی تھی کسی بھی لمحے ہمیں یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم ایک مردہ جسم کو غسل دے رہے ہیں ۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ آپ  کی شہادت کی انگلی پر زخم تھا موت کے بعد انسانی جسم ساقط اورخون منجمد ہوجاتا ہے لیکن زخم سے مسلسل خون بہہ رہا تھا کئی بار صاف کیا گیا لیکن خون قطروں کی صورت میں نکلتا رہا ۔ میدان جنگ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والوں کے حوالے سے ایسے واقعات مشہور ہیں کہ ان کے زخموں سے خون بند نہیں ہوتا اور روز قیامت وہ اس حالت میں قبروں سے اٹھیں گے کہ ان کے زخموں سے خون رس رہا ہو گا۔ آپ  کی انگلی کے زخم سے مسلسل بہنے والا خون شہادت کی موت کی جانب اشارہ کررہا تھا شہید کبھی مرتے نہیں بلکہ ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں۔آپ  کی علمیت  دانش اور ولایت کے تو سب شاہد ہیں لیکن زخم سے بہنے والا خون آپ  کو شہید ثابت کرتا ہے ۔
نماز عشا کے وقت اتنی بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آئے کہ وسیع وعریض مسجدکی تین منزلیں بھی ناکافی ہوگئیں اور لوگوں کی بڑی تعداد کو قرب و جوار کی مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کے لیے جانا پڑا۔ نماز عشا کے بعد پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی کا جسد اطہر مسجد طہ میں لایا گیا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ زیارت کے لیے آمڈ آئے ایک جانب عقیدت مندوں اور مریدوں کا ہجوم بیکراں تو دوسری طرف گرمی بھی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ پسینے میں نہائے ہوئے لوگ زار و قطار روتے ہوئے آپ  کا آخری دیدار کرنے کے لیے بے قابو ہورہے تھے ۔نماز جنازہ کاوقت دس بجے مقرر تھا لیکن رات کے گیارہ بج چکے تھے آپ  کے جسد خاکی کو مسجد طہ سے جنازگاہ تک لے جانا ناممکن دکھائی دے رہا تھا ۔نماز جنازہ کے لیے ایک وسیع پارک میں انتظام کیاگیا تھا لیکن تیس چالیس ہزار سوگواران کی موجودگی میں وسیع و عریض پارک بھی ناکافی دکھائی دے رہا تھا لوگ دور دور تک سڑکوں  فٹ پاتھوں پر نماز جناز ہ پڑھنے کے لیے صف آرا ء تھے ۔ نماز جنازہ " اشرف المدارس " اوکاڑہ سے بطور خاص تشریف لانے والے مفتی محمد یاسین صاحب نے پڑھائی ۔ اس موقع پر ممتاز عالم دین ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ولی کامل کی جسمانی موت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب یتیم ہوگئے ہیں۔( یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ایک دن پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد  نے سیدمنور شاہ اور علامہ مفتی محمد اسلم فیضی کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ میرا اور حضرت کرماں والوں کا سرچشمہ فیض ڈاکٹر فیض احمد چشتی کی صورت میں جاری ہوچکا ہے )۔
 رات کا آخری پہر شروع ہو نے والا تھا اور ماہ رمضان بھی صرف ایک دن کے فاصلے پر تھا کہ وقت کے قطب  منبع رشد وہدایت  خلیفہ مجاز حضرت کرماں والا شریف  پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی دنیائے فانی کو خیر باد کہہ کر ایک ایسے جہاں کی جانب گامزن ہوگئے جہاں پھر کبھی نہ تو موت آئے گی اور نہ ہی دکھ اور پریشانیاں انہیں تکلیف پہنچائیں گی ۔ سچ تو یہ ہے اللہ کے ولی اور اللہ کے نیک بندے کبھی نہیں مرتے بلکہ ان کا فیض پہلے سے کئی گنا زیادہ عام ہوجاتا ہے ان کی دعاؤں کا دائرہ کار پوری کائنات کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے جسمانی طور پر جدا ہونے کے باوجود اللہ کے نیک بندے اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کو حالت بیداری اور خواب میں رہنمائی فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ اپنے نیک اور صالحین بندوں کی قبر وں کو جنت کاگہوارہ بنا دیتاہے جہاں عبادت اوران کی خواہش کی ہر چیز وافر میسر ہوتی ہے ۔بقول شاعر
        کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
        میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد  نقشبندی مجددی نہ صرف پائے کے عالم تھے بلکہ میدان ولایت کے عظیم شاہکار تھے تمام سلسلوں میں آپ  کو بیعت کرنے کی اجازت تھی اور آپ  نے اپنی زندگی کے 73 سال اللہ کے دین کی سربلندی  تبلیغ اور خلق خدا کو راہ راست پر لانے میں ہی صرف کردیئے ۔ آپ  کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا شریعت محمدی کے عین مطابق تھا۔ بظاہر آپ  ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوچکے ہیں لیکن رحلت کے تیسرے روز ہی خواب کی حالت میں  میں نے دیکھا کہ آپ  نمازیوں کے بہت بڑے اجتماع کی امامت فرما رہے ۔ جبکہ میں آپ  کے بالکل پیچھے کھڑا ہوں۔آپ  نے فرمایا تکبیرپڑھو تاکہ نماز جمعہ ادا کی جائے۔ میں نے تکبیر پڑھی تو آپ  نے نماز جمعہ ادا فرمائی ۔ ادائیگی نماز کے بعد آپ  نے مجھے فرمایاکہ ہر فرض نماز کے بعد اپنے دیگر و ظا ئف کے ساتھ تین مرتبہ آیت کریمہ( لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین) بھی پڑھ لیا کریں۔ میں نے پھر پوچھا حضرت صاحب کتنی مرتبہ آپ نے فرمایا تین مرتبہ ہی کافی ہے۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ وہ دعا ہے جس کے پڑھنے سے اللہ کے پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلیوں کے پیٹ  سمندر کی گہرائی اور رات کے اندھیرے سے نجات ملی تھی اور اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی تھی ( سبحان اللہ )۔پیر و مرشد کی جانب سے خواب کی حالت میں آیت کریمہ پڑھنے کی نصیحت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ  جسمانی وصال کے باوجود ہم سے دور نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں کسی چیز کا ڈر اور خوف ہے بلکہ وہ ہمیں مسلسل دیکھ رہے ہیں۔
الا ان اولیا اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون O    
بے شک اللہ کے ولیوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم ۔







بزرگانِ دین کے مزارات کی زیارت

    28مئی 1992ء کی شام نماز عشاء حسب معمول مسجد ”طہٰ“ میں اپنے پیر و مرشد کی امامت میں ادا کرنے کے لیے گیا تو نماز سے فراغت پا کر چھوٹے بڑوں کا ایک ہجوم حضرت صاحب کے اردگرد عقیدت سے ہاتھ ملانے اور ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ نگینہ کو سننے کے لیے جمع ہو جاتا ہے۔ آج بھی اسی طرح ہی ہوا۔ حلقہ خاص کے افراد پر مشتمل دوستوں نے جب حضرت صاحب کے زبانی یہ سنا کہ وہ مورخہ 30 مئی کی صبح حضرت دیوان صاحب کے روضہ مبارک پر حاضری کے لیے جانے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں تو سب کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ہر کوئی خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا ۔ بالکل یہی کیفیت میری بھی تھی کیونکہ زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے پیرو مرشد کے ساتھ سفر کا موقع مل رہا تھا جن پر میں نے اپنا تن‘ من‘ دھن قربان کرنے کا فیصلہ 6دسمبر 1991ء کو بمقام دربار میاں میرمیں کر چکا تھا۔ ہر صبح اور شام ان کی خدمت میں گزارنا اپنے لیے خوش قسمتی تصور کرتا تھا۔ میرے ساتھ توصیف بھی تھا جو بظاہر ہمارے ساتھ جانے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن آخری وقت میں ہمارا رفیق سفر نہ بن سکا۔ حضرت صاحب کے حکم کے مطابق زیارتوں کے لیے جانے والے اس قافلے کو مختصر سے مختصر ہی رکھنے کا فیصلہ ہوا اس وفد میں خصوصاً ان لوگوں کی شرکت یقینی نظر آ رہی تھی جو اس بارے میں خصوصی ذوق رکھتے تھے۔
    30مئی کی صبح حسب پروگرام نماز فجر سے پہلے ٹھیک چار بجے اپنا چھوٹا سا بریف کیس سنبھالا اور مسجد ”طہٰ“ کی جانب قدم بڑھنے لگے۔ باوضو حالت میں زبان سے درود شریف جاری تھا اور دل پرعجیب کیفیت طاری تھی جبکہ آنکھوں سے عشق رسول کے آنسو جاری تھے۔ قدم قدم پر مجھے اتنا لطف آ رہا تھا کہ اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔
    جب میں مسجد ”طہٰ‘ پہنچا تو قافلے کے شرکاء ہدایت‘ نور الامین اور منشا کی سرگرمیاں عروج پر دکھائی دیں۔ میں نے ازسرنو وضو کر کے نوافل ادا کیے۔ حضرت صاحب کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کے چہرہ مبارک سے رنگ و نور کا چشمہ جاری تھا اور انہیں دیکھ کر اپنے ایمان کی دولت میں مزید اضافہ کیا۔ درود پاک پڑھ کر کل آٹھ افراد کا قافلہ حضرت حاجی شیر دیوان جانے کے لیے نکلا۔ اس وقت رات کا اندھیرا غائب ہو چکا تھا اور صبح کی سفیدی‘ اندھیرے کی جگہ لے چکی تھی۔ بادنسیم روانی سے رواں دواں تھی جو جسم کو گدگداتی ہوئی محظوظ کر رہی تھی۔ خوشگواری کے اس عالم میں ہم جی۔ ٹی۔ ایس کے اڈے پر پہنچے اور رخت سفر کے لیے بس کی تلاش شروع کر دی جو جلد ہی ہمیں مل گئی۔ یہاں سے چلنے کا وقت 6بجے طے تھا۔ اس لیے متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ جس نے وضو ازسرنو بنانا ہے بنالے تاکہ راستے میں درود شریف کا ورد جاری رہ سکے۔ ٹھیک 6 بجے بس نے چلنا شروع کر دیا۔ حضرت صاحب کی برکتوں کے طفیل ہمیں بس میں جگہ انتہائی مناسب اور درمیان میں مل گئی۔ بالکل دروازے کے ساتھ پہلی نشست پر حضرت صاحب اور صوفی صاحب کیراں والے بیٹھے‘ ان کی پچھلی نشست پر حاجی شریف صاحب اور شاہد موجود تھے جبکہ ان کے بالمقابل میں اور محمد منشا موجود تھے۔ مجھے یقین تھا کہ منشا میرا اچھا رفیق سفر ثابت ہوگا کیونکہ اس کے مزاج میں جو پختگی اور دھیما پن ہے وہ مجھے بہت ”سوٹ“ کرتا ہے۔ جلالی طبیعت کا مالک نور الامین اور منشا جیسی صفات کا مالک محمد ہدایت میری پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ہی بس میں اس طرح ہم مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے۔ حضرت صاحب کے قریب بیٹھنے کا شوق تو سبھی کو تھا لیکن ان کے برابر بیٹھنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔
    جوں جوں وقت گزرتا گیا بس لاہور سے نکل کر جی۔ ٹی ۔ روڈ پر آ گئی۔ دوسری جانب سورج بالکل بادلوں کی اوٹ چھپتا جا رہا تھا کیونکہ پچھلے دنوں لاہور میں جس قدر گرمی تھی اور سخت گرم لو چلتی تھی ۔ اس کے تصور میں کہیں جانے کا فیصلہ کرنا ہی محال تھا لیکن ہم اللہ کی پیاری جس ہستی ”حضرت دیوان صاحب“ کے پاس جا رہے تھے اور جن عظیم ہستی کے ساتھ شریک سفر تھے۔ ان کے طفیل آج ہمیں موسم کی صعوبتیں درپیش نہ تھیں بلکہ موسم میں اتنی خوشگواری پیدا ہوچکی تھی ۔ہاتھ میں تھامی ہوئی تسبیح درود شریف پر دانے پر دانہ گراتی جا رہی تھی اور قلب وذہن میں عشق رسول کا ایک عجیب طوفان برپا تھا۔ لاہور سے کچھ ہی دور جا کر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی اور بارش نے موسم کو مزید خوشگوار بنا دیا۔ سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے ہوئے کھیت اور جھومتے ہوئے درختوں کی قطاریں اپنی خوبصورتی کا بخوبی احساس دلا رہی تھیں۔ قدم قدم پر اللہ کی وحدانیت اور اس کے جاہ وجلال کی نشانیاں بکھری پڑی تھیں۔ کسی بوریت کے بغیر ہم دس بجے ساہیوال پہنچ گئے۔ بارش تو تھم چکی تھی لیکن موسم میں خوشگواری کا عنصر ابھی قائم تھا۔ نصف گھنٹہ یہاں ٹھہرے چونکہ عارف والا روڈ انتہائی خراب تھی۔ اس لیے حضرت صاحب کی اجازت سے یہ طے پایا کہ چیچہ وطنی سے براہ راست بورے والا کی ویگن پکڑی جائے۔ اس طرح ہم بس پر گیارہ بجے چیچہ وطنی پہنچے تو چند دوستوں کی جانب سے اس بات کا احساس دلایا گیا کہ صبح کا ناشتہ نہ ہونے کی وجہ سے پیٹ میں بھوک کا طوفان برپا ہے اور مزید سفر اختیار کرنے سے پہلے کچھ کھا ضرور لینا چاہیے۔ ان حالات میں حضرت صاحب نے حکم دیا کہ کوئی اچھا سا ہوٹل تلاش کیا جائے جس میں صفائی کا خاطر خواہ خیال رکھا جاتا ہو۔
    یوں ہم ٹھنڈی نہر کے کنارے چلتے چلتے چیچہ وطنی شہر کے مین بازار میں آ پہنچے۔ اب سورج اپنی مکمل آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اسی لیے یہاں چہل قدمی کرنے کے لیے ہمیں سایہ دار درختوں کی تلاش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہلکی پھلکی چہل قدمی کرتے کرتے ہم اس قدر شہر میں گھس آئے کہ واپس جانے کے لیے تانگے کا استعمال لازمی نظر آنے لگا لیکن جب حضرت صاحب ساتھ ہوں تو فکر کی کیا بات تھی۔ اس شہر کے وسط میں ساتھ ساتھ دو ہوٹل ایسے نظر آئے جو کسی حد تک معقول تھے۔ گرم گرم روٹیاں‘ اچھے پکے ہوئے ”چنوں“ کے ساتھ کھائیں اور بھوک کی وجہ سے بہت لطف آیا۔
    حسن اتفاق سے میں جو بریف کیس اپنے ساتھ لایا تھا۔ بس میں ہی ہینڈل کا پیچ کھلنے کی بنا پر وہ ٹوٹ گیا۔ اب اسے ایک ہاتھ سے پکڑنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے پکڑنا پڑتا تھا۔ منشا‘ ہدایت اور شاہد کی عقیدت مندی اور میرے ساتھ والہانہ محبت نے مجھے بریف کیس نہیں پکڑنے دیا اور انہوں نے خود ہی یہ ذمہ لے لیا اور مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ ان کی پیاری پیاری گفتگو سنتاچلوں۔ جونیئر دوستوں کی اس مہربانی نے مجھے بہت متاثر کیا جس کا میں جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔
    بارہ بجے کا ناشتہ‘ دوپہر کا کھانا ہی تصور کیا گیا اور یہ بالخصوص حضرت صاحب کی جانب سے تھا۔ جب پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا تو یکدم مجھے خیال آیا کہ میرا ایک دوست ”ڈاکٹر طارق“ یہاں گورنمنٹ ہسپتال میں ڈینٹل سرجن لگا ہوا ہے اور وہی رہائش پذیر ہے کیوں نہ اس سے بھی مل لیا جائے لیکن جب میں نے اپنی خواہش کا اظہار حضرت صاحب سے کیا تو انہوں نے مزید یہاں وقت ضائع کرنے سے منع فرمایا کہ پہلے ہی کافی وقت یہاں صرف ہو چکا ہے اور ابھی ہم منزل سے بہت دور ہیں۔ میں نے سعادت مندی اسی میں سمجھی کہ اب ہمیں واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہیے۔ تانگہ لینے کے بجائے حضرت صاحب کی رفاقت بلکہ قیادت میں ہم ایک بار پھر نہر کے ساتھ ساتھ بس اڈے کی جانب روانہ تھے۔ راستے میں ایک جگہ پر تربوز بھی کھایا جو بہت لذیذ تھا جس نے کھانا ہضم کرنے میں بڑی معاونت کی۔ تقریباً دو گھنٹے یہاں ٹھہرنے کے بعد 1 بجے بذریعہ ویگن ہم بورے والا کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم بورے والا پہنچ گئے۔ یہاں سے ایک تانگہ کرائے پر لیا۔ میں اپنے ساتھیوں سمیت پچھلی نشست پر بیٹھ گیا جبکہ حضرت صاحب‘ صوفی صاحب اور حاجی شریف صاحب اگلی نشست پر موجود تھے۔ اب حضرت صاحب تانگے والے سے مخاطب تھے کہ حضرت دیوان صاحب کی کرامات اور معجزوں کے بارے میں کچھ بتائے۔ تانگے والے نے بتایا کہ ان بزرگوں کو دیوان اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور پنکھے سے ہوا دی تھی۔ مزید یہ بھی بتایا کہ یہاں ذہنی توازن کھونے والے مریضوں کی اکثریت ٹھیک ہو جاتی ہے۔ دور دور سے لوگ اپنے عزیز و اقارب کو (جو ذہنی مریض ہوتے ہیں) سنگل باندھ کر لاتے ہیں اور وقت مقررہ پر ٹھیک ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ جب تانگہ‘ بسوں کے اڈے پر (جو بورے والا ٹیکسٹائل ملز کی دیوار کے ساتھ ہی تھا) پہنچا تو ہمیں اترنے کے لیے کہا۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو ہمیں کسی جانب بھی مزار شریف نظر نہ آیا تو ہم نے حیرانگی سے تانگے والے سے پوچھا کہ بھائی مزار شریف کہا ں ہے؟ تانگے والے نے بتایا کہ یہ تو وہ جگہ ہے جہاں سے حضرت دیوان صاحب کے لیے بسیں چلتی ہیں۔ آپ کو یہاں سے بس ملے گی جو منزل پر پہنچائے گی۔ اس وقت تقریباً دو سوا دو کا وقت تھا اور نماز ظہر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ حضرت صاحب نے نماز ظہر پڑھنے کا حکم دیا ۔ نماز ادا کر کے جب اڈے پر پہنچے تو ایک بس جو روانگی کے لیے بالکل تیار تھی‘ سواریوں سے بالکل بھر چکی تھی۔ ہم نے کنڈیکٹر سے درخواست کی کہ بھائی ہمیں بے شک سیٹ نہ دو لیکن ہمارے پیر ومرشد صاحب کے لیے ایک سیٹ ضرور خالی کروا دو۔ اس طرح حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی بیٹھنے کے لیے نشستیں مل گئیں اور 12 کلومیٹر کا سفر گھنٹہ بھر میں طے ہوا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک اور جگہ جگہ رکنے کی وجہ سے ہم قصبہ حضرت دیوان صاحب ساڑھے تین بجے پہنچے۔
    بس سے اتر کر جب پہلی نظر روضہ مبارک پر بنے ہوئے گنبد پر پڑی (جس کا رنگ سفید تھا جس پر خربوزے کی مانند نیلی لکیریں لگائی ہوئی تھیں) تو مزار والے بزرگ کی روحانی پرواز کا اندازہ بھی ہوگیا۔ آنکھوں کے راستے جسم میں پیوست ہونے والی جذباتی کیفیت نے طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ زبان سے وہ الفاظ جاری تھے جو میرے دلی جذبات کی بخوبی ترجمانی کررہے تھے۔ حالانکہ میرا دامن ایک فقیر بچے نے پکڑ رکھا تھا جو مجھ سے کچھ پیسوں کا تقاضا کر رہا تھا لیکن میں نے اپنی تمام تر توجہ اس سفید گنبد پر مرکوز کر رکھی تھی اور پہلی ہی نظر میں اپنی دلی دعائیں مانگنا چاہتا تھا۔ کیونکہ بزرگوں سے سنا ہے کہ جب کسی اللہ والے سے نگاہیں اور دل مل جائے تو مزید کسی انتظار کے بغیر حال دل سنا دینا چاہیے شاید یہی وہ لمحہ قبولیت کے لیے مخصوص ہو۔ یہاں سے گزرنے کے بعد محکمہ اوقاف کے بنے ہوئے بیت الخلا اور چند غسل خانے نظر آئے‘ صرف ایک کو چھوڑ کر باقی سب کے دروازے غائب تھے۔ شرم و حیا سے لبریز کوئی بھی انسان یہاں نہانے سے کتراتا تھا کیونکہ یہاں بے پردگی کے واضح امکانات تھے۔ میں چونکہ صبح گھر سے نہا کر آیا تھا اور دوران سفر بارش کی آمد نے بھی موسم کی تلخی کو بڑی حد تک کم کر دیا تھا جس کی وجہ سے نہانے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن جب حضرت صاحب نے بذات خود غسل کرنے کے بعد سب کو ایسا کرنے کا حکم دیا تو مجھے بھی غسل کرنا پڑا۔ لیکن میرے پیر بھائیوں نے اپنی چادر ڈال کر پردے داری کااہتمام کر دیا تھا۔ چنانچہ اسی طرح سب دوستوں نے غسل کیا اور روضہ مبارک پر حاضری کے لیے قطار باندھے چل دیئے۔ جب مزار مبارک کے بالکل سامنے پہنچے تو کتبے پر لکھے ہوئی یہ عبارت دیکھ کر میری عقیدت میں اور اضافہ ہو گیا کہ یہ بزرگ 30 ہجری کو پیدا ہوئے اور 131ہجری ان کی یوم شہادت ہے۔ اس طرح یہ بزرگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسلام بھی قبول کیا۔ جب قبر مبارک کے پاس پہنچے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم روحانیت کے سمندر میں اتر آئے ہیں اور ہر جانب کیف و سرور کی طغیانی ہے۔ اپنے وجود کو بھلا کر جب ہم ان بزرگوں کے قدموں میں کھڑے تھے اور حضرت صاحب بھی مراقبے میں تھے تو یہاں موجود تمام لوگوں کی آنکھیں بند تھیں اور ہم سب روحانیت کے سمندر میں غوطہ زن تھے اور جسم کے اندر عجیب سے کپکپی طاری تھی جیسے کرنٹ جسم میں دوڑ رہا ہو۔ جب حضرت صاحب نے بلند آواز میں دعا مانگنی شروع کی تو لوگوں نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ اندر سے ہم اس قدر ٹوٹ چکے تھے کہ اپنا وجود بھی محسوس نہیں کر پا رہے تھے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں جاری تھیں۔ اپنے گناہوں‘ لغزشوں اور کوتاہیوں پر بے تحاشا ندامت محسوس کر رہے تھے اور دل ہی دل میں اپنی بخشش کی دعائیں مانگ رہے تھے اور ان بزرگوں کا واسطہ دے کر رب ذوالجلال کی خوشنودی طلب کر رہے تھے اور اس حالت میں اس قدر لطف آ رہا تھا کہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔ جب دعا سے فارغ ہوئے تو روحانی پیاس بجھ چکی تھی اور طبیعت اس قدر سیر ہو چکی تھی کہ اب کہیں اور جانے کی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ یہ ان بزرگوں کی نظر عنایت ہی تو تھی کہ خالی کاسہ ایک ہی نظر میں بھر دیا۔ یہیں پر غیرشناسا لوگوں نے حضرت صاحب کے ہاتھ چومنے شروع کر دیئے اور گلے لگ کر زار و قطار رونے لگے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ حضرت صاحب کی کشش نے یہاں موجود اجنبی لوگوں کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔ یہاں سے نکل کر جب ہم بابا فرید کا وہ کنواں دیکھنے کے لیے گئے جس میں بابا فرید شکر گنج بارہ سال لٹکے رہے تھے تو راستے میں ایک درمیانی عمر کا آدمی حضرت صاحب کو دیکھ کر خودبخود ہمارے پاس آ گیا اور حضرت صاحب کے ہاتھ چوم کر کہنے لگا کہ آپ یہاں کیسے تشریف لائے پھر اپنی شناخت کروانے لگا۔ حضرت صاحب نے اس شخص کو ساتھ لیا جو یہاں کے تقریباً سبھی تبرکات اور مزارت کے بارے میں جان پہچان رکھتا تھا ۔ کچے راستے کے دائیں بائیں موٹی کچی دیواریں تھیں اور بڑے بڑے کھلے احاطے بھی دکھائی دیئے جو اس وقت بالکل خالی تھے۔ شاید یہ احاطے عرس کے دنوں کے لیے مخصوص تھے۔ جاتے ہوئے دائیں جانب ایک بڑا مندر نظر آیا تو حیرانگی سے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس کے تھوڑے ہی فاصلے پر ہی ایک چار دیواری کے اندر وہ کنواں بھی دیکھنے کو نصیب ہوا جو بابا جی سے منسوب تھا۔ اس کنویں پر عورتیں پانی نکال کرگاگروں اور برتنوں میں محفوظ کر رہی تھیں۔ ہم نے بھی حسب توفیق تبرکاً پانی پیا اور ایک بوتل (جو صرف اسی مقصد کے لیے لاہو رسے خالی لائی گئی تھی) میں یہ پانی نکال کر محفوظ کر لیا۔ پانی نکالنے کے فرائض منشا اور ہدایت نے انجام دیئے اور بعد میں یہ بوتل ہدایت کی ہی حفاظت میں لاہور تک پہنچی۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہمیں یک میناری چھوٹی سی مسجد میں لے جایا گیا جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر خود تشریف لائے تھے اور یہاں اونٹنی کے پاؤں اور پیٹ کے نشان بھی موجود تھے جسے عقیدت مند چوم کر راحت محسوس کرتے تھے۔ اس طرح یہ جگہ دوسری جگہ کی نسبت نمایاں اور مزید واضح ہو گئی تھی۔ اس مسجد میں پنجگانہ نماز تو ادا نہیں کی جاتی لیکن یہاں آنے والے عقیدت مند نوافل ادا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے حضرت صاحب کی رفاقت میں دو دو نوافل ادا کیے اور بعد میں نماز عصر کی جماعت بھی حضرت صاحب نے اسی مسجد میں اپنی اقتدا میں پڑھائی۔ یہاں نماز اور نوافل پڑھتے ہوئے آنکھیں عجز وانکساری کے آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اس مسجدکے بالکل پیچھے ایک چھوٹا سا مکان تھا جس میں بابا فرید کے بڑے بیٹے مدفن تھے۔ یہ جگہ بھی ہم سب کے لیے دلچسپی کا مرکز تھی۔ یہاں سے فراغت پا کر ایک پرانی اور تاریخی مسجد جو روضہ مبارک سے ملحقہ تھی میں پہنچے تو اس کی کھڑکی سے کود کر ہمیں روضہ مبارک میں جانا تھا۔ یہ مسجد بھی پرانی ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت کی حامل تھی مزار شریف کے بالکل جنوب میں ایک نئی اور خوبصورت مسجد بھی موجود تھی جس میں پنجگانہ نماز باقاعدگی سے ادا ہوتی تھی۔ ایک چھوٹی سی بستی میں اتنی مساجد دیکھ کر ہماری حیرانگی چھپی نہ رہی۔ ایک بار پھر ہم روضہ مبارک حضرت دیوان صاحب پر حاضر ہوئے اور الوداعی سلام کیا۔ وہ اجنبی شخص ہمیں لے کر بابا فرید رحمتہ اللہ کے والدین کے مزار پر گیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی شخص کو خواب میں یہ بشارت ملی تھی کہ یہ مزارات بابا فرید کے والدین کے ہیں۔ اس دن سے یہ مزارات بابا فرید کے والدین کے نام ہی سے منسوب ہوگئے۔ پھر حضرت سلطان فلک شیر رحمتہ اللہ کے سبز گنبد والے مزار پر پہنچے جن کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ یہ بزرگ حضرت دیوان رحمتہ اللہ علیہ کے استاد ہیں۔ اس طرح یہ بھی حضور نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی کے ہوئے لیکن یہاں صرف ایک مجاور کے سوا کوئی اور انسان نظر نہیں آیا۔ یہاں سے ہم لنگر کھانے کے لیے چلے تو راستے میں انسان سنگلوں سے باندھے ہوئے دکھائی دیئے جن کے عزیز و اقارب بھی قریب ہی بیٹھے ذہنی توازن کھونے والے انسانوں کی صحت یابی کے منتظر تھے۔ یہ منظر ہمارے لیے کوئی کم خوفناک نہیں تھا۔ اس کا ذہن پر بہت اثر ہوا لیکن لوگوں کا اعتقاد دیکھ حیرت بھی ہوئی۔ لنگر خانے میں آٹا پیسنے والی چکیاں بھی کافی تھیں جنہیں چلانے والوں کی دلی مرادیں پوری ہونے کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ہم نے بھی یہاں موجود چکی چلائی۔ سب سے زیادہ صوفی (کیراں والے) نے چکی کو گھمایا۔ ان کے بعد نور الامین نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں سے فراغت پا کر تھوڑا سا لنگر کھایا۔ یہاں روٹیوں کے انبار لگے نظر آئے جو زائرین کے لیے تھیں۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو نماز مغرب سر پر تھی لیکن بس کے بارے میں بھی یہی خبر تھی کہ وہ کسی وقت بھی آ سکتی ہے اور شاید یہ آخری بس ہو۔ عجیب مخمصے میں پھنس گئے نماز پڑھتے ہیں تو بس کے چھوٹ جانے کا ڈر ہے اور اگر بس کا انتظار کرتے ہیں تو نماز قضا ہونے کا خدشہ ہے۔ بالآخر تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد حضرت صاحب نے نماز مغرب اطمینان سے پڑھنے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ بس ہمیں لیے بغیر نہیں جائے گی‘ اطمینان سے نماز پڑھ لیں۔ یوں ہم نے مسجد بہار مدینہ میں انتہائی اطمینان سے نماز مغرب ادا کی۔ یہاں موجود نمازیوں نے بھی حضرت صاحب کی شخصیت میں خاصی دلچسپی لی۔ ٹھیک آٹھ بجے بس آئی اور ہم سب جلدی جلدی بس میں سوار ہوگئے۔ سب دوستوں کو اطمینان سے نشستیں مل گئیں۔ بورے والا تک کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ سڑک کی دونوں جانب بالکل اندھیرا پھیل چکا تھا ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا تھا۔ بورے والا ٹیکسٹائل ملز سے لاہور والے اڈے تک پہنچنے کے لیے ہمیں تانگہ درکار تھا لیکن یہاں تو کوئی تانگہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اتفاق سے اندھیرے میں سے ایک تانگہ (جو جانوروں کے لیے چارہ لے کر آ رہا تھا) نمودار ہوا ہم سب اس پر سوار ہو کر اڈے پر ساڑھے نو بجے پہنچے۔ یہاں جو بس موجود تھی وہ بھی لاہور جانے والی آخری بس تھی جبکہ پاک پتن کے لیے بسیں بند ہو چکی تھیں۔ یہاں کھڑے ہو کر حضرت صاحب کی اجازت سے خربوزے خرید کر کھائے گئے۔ یقین کیجیے کہ اتنے مزیدار خربوزے میں نے شاید زندگی میں کبھی نہ کھائے تھے۔ یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے بس عارف والا پہنچی جہاں سے بس نے اپنا رخ ساہیوال کی جانب کرنا تھا۔ حضرت صاحب کا خیال تھا کہ حضرت دیوان صاحب نے اتنا سیر کر دیا ہے کہ اب کہیں اور جانے کی تمنا باقی نہیں رہی لیکن باقی ساتھی اور حاجی شریف صاحب کی تمنا خواہش تھی کہ اب اتفاق سے اکٹھے آئے ہیں تو قبولہ شریف اور پاک پتن شریف بھی ضرور جانا چاہیے۔ معلوم نہیں زندگی میں پھر کبھی موقعہ ملے یا نہ ملے۔ باقی زیارتیں بھی کر لی جائیں۔ اب رات کا درمیانہ پہر چل رہا تھا اور ساڑھے دس بج چکے تھے۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے ماموں یہاں عارف والا میں مقیم ہیں ان کے ہاں رات بسرکی جا سکتی ہے۔ حضرت صاحب نے نیم رضامندی کا اظہار کر دیا۔ ایک تانگے کے ذریعے ماموں کے گھر پہنچے اس وقت ہر جانب اندھیرا تھا اور محلے میں سبھی لوگ محو خواب تھے۔ گھر پہچاننے میں تھوڑی دقت ہوئی لیکن جلد ہی ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ ماموں کے ہاں رات بسر کی اور صبح ہی قبولہ شریف کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ یہ ایک تاریخی قصبہ تھا جس میں حضرت سید شاہ موسیٰ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ کے مزارات ساتھ ساتھ نظر آئے۔ کافی بلندی پر موجود حضرت شاہ موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر حاضری دی۔ یہاں پر حضرت صاحب اور کچھ ساتھیوں نے غسل بھی کیا۔ ان بزرگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا سلسلہ گیارہویں پشت میں حضرت غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے اور یہ ان کی اولاد میں سے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد منت مانگنے کے لیے آتی ہے جو اولاد کی خواہش اور تمنا رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی سنا گیا کہ ان کے مزار شریف کا پورا نقشہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ مبارک جیسا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں روضہ مبارک جیسی عمارت کی خواہش کا اظہار کیا تھا جن مستریوں اور مزدوروں کے ذمے یہ کام لگایا گیا‘ مزار شریف بنانے کے بعد وہ سب یہیں دفن ہیں۔ یہ مشہور ہے کہ ایک دیوار میں وہ بغداد شریف کے روضہ مبارک کا نقشہ دیکھ کر مزار بنایا کرتے تھے۔ اس طرح یہ مزار ہوبہو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار جیسا ہی نقشہ پیش کرتا ہے۔
    یہاں سے واپس عارف والا کے اڈے پر پہنچے اور مزے دار قلفیاں کھائیں۔ پاک پتن شریف پہنچے تو گرمی عروج پر تھی‘ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ حضرت صاحب نے تانگہ لینے کی بجائے پیدل ہی چلنے کا حکم دیا۔ شاہد اور منشا کے پاس چونکہ بیگ اور بریف کیس تھا اس لیے ان کو سامان سمیت چلنے میں دشوار ی کا سامنا تھا۔ ہدایت بھی ان کی معاونت کر رہا تھا۔ جب حضرت عبدالعزیز مکی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار عالیہ پر پہنچے تو پیاس کی وجہ سے زبانیں حلق سے باہر آ چکی تھیں۔ صبح کا ہلکا سا ناشتہ بھی ہضم ہو چکا تھا اور خالی پیٹ پیدل چلنا محال سے محال تر ہوتا جا رہا تھا لیکن کسے ہمت تھی کہ وہ حضرت صاحب کے فیصلے سے اختلاف کرے چنانچہ سب خاموشی سے ان کی رفاقت میں چلے جا رہے تھے۔ اس دربار پر ”صحابی رسول“ کا لفظ بھی لکھا ہوا تھا اور یہاں ایک بڑی اور ایک چھوٹی قبر تھی جن کے بارے میں مشہور ہے کہ صحابی رسول کا جسم بڑی قبر میں اور سر مبارک چھوٹی قبر میں دفن ہے۔ ان کے مزار پر کوئی خاص رونق نہیں نظر آئی اور ہر جانب سکوت ہی طاری تھا۔ باہر احاطے میں ایک قوال صبح سے قوالی کر کے دیوانہ ہوا جا رہا تھا جسے حضرت صاحب نے کچھ پیسے دے کر مطمئن کیا اور یہاں سے ایک بار پھر نئے جذبے کے ساتھ پیدل ہی حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف کی جانب چل پڑے۔ راستے میں ایک دو مزار اور بھی آئے لیکن چلتے چلتے ان میں دفن بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کر کے اور اپنی حاضری لگوا لی۔ پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد بلندی پر ایک مزار نظر آیا جو شکل و شباہت میں حضرت بابا فرید شکر گنج کے مزار جیسا تھا۔ تھکاوٹ کو بھول کر اپنے روحانی جذبے کو تازہ کیا اور ہوش و حواس بحال کیے اور دربار شریف میں جانے کے لیے چڑھائی چڑھنے لگے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اونچائی کی جانب جانے میں دشواری کا سامنا تھا لیکن بابا جی کو ملنے کی چاہت نے تھکاوٹ کو آڑے نہ آنے دیا اور ہم لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے بلندی پر پہنچ گئے۔ اب ہماری نظروں کے سامنے دربار شکر گنج  تھا۔ ہمای آنکھیں گنبد پر جم گئیں۔ اللہ والوں کی قدر و منزلت دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ اب بھی اللہ اور اللہ کے نیک بندوں کو چاہنے والے اس زمین پر موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے ہم دربار شریف کے اندر داخل ہوگئے اور تمام دوست ایک قطار بنا کر اپنے اپنے کام میں مگن ہوگئے۔ آج وہ لطف اور مزا نہیں آ رہا تھا جو اس سے پہلے مجھے یہاں آیا کرتا تھا۔ شاید حضرت دیوان صاحب کی محبت اور شفقت کا اثر باقی تھا۔ ہمارے حضرت صاحب بہت خوب فرماتے ہیں کہ ”ہر پھول کا الگ الگ رنگ اور الگ الگ خوشبو ہوتی ہے۔ تیز خوشبو والا پھول سونگھنے کے بعد انسان کی سونگھنے کی حس ختم ہو جاتی ہے۔“ چونکہ حضرت دیوان صاحب کا مرتبہ بابا فرید سے بہت بلند ہے اور ان کا زمانہ بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہے پھر بابا فرید نے ان کے ہاں چلہ کشی کی تھی۔ اس لیے ان کے رنگ پر کوئی اور رنگ نہ چڑھ سکا۔ ہمیں اس بات کا مکمل احساس تھا کہ ہمیں حضرت دیوان نے ہر طرح سے بے نیاز کر دیا ہے اور روحانی طور پر ہمیں اتنا کچھ دے دیا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ حضرت صاحب نے یہاں پر بھی ہر جگہ کی طرح توصیف‘ خالد‘ گلزار شاہ صاحب‘ ہارون‘ ملک نوازش علی اور دیگر ساتھیوں کا نام لے لے کر دعا مانگی۔ یہاں سے فراغت کے بعد تھوڑا سا لنگر کھایا۔ پھر دوپہر کا کھانا کھا کر نماز ظہر اداکی اور پیدل ہی ویگن کے اڈے تک پہنچے۔ یہاں سے اوکاڑہ ہوتے ہوئے شام سات بجے لاہور کی مدینہ مسجد بالمقابل ریلوے اسٹیشن میں نماز مغرب ادا کر رہے تھے۔ یوں اس تاریخی اور روحانی سفر کا اختتام ہوا۔ اس دوران ہمیں جو نظارے نظر آئے اور اتنی قلبی تسکین ہوئی کہ اس کا اظہار بیان سے باہر ہے۔ حضرت صاحب کی سرپرستی میں انتہائی اطمینان اور پرسکون طریقے سے سفر کا مرحلہ گزرا۔ بے شک یہ سب کچھ حضرت مولانا محمد عنایت احمد (میرے پیر و مرشد) ہی کی طفیل ہوا ورنہ اتنی گرمی میں سفر کی صعوبتوں کا تصور کر کے انسان کانپ جاتا ہے اور اتنا لمبا سفر کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں دوران سفر نہ موسم نے تنگ کیا‘ نہ سواری نے‘ نہ ہمیں اس بات کا خوف تھا کہ رات کہاں بسر کریں گے اور نہ ہمیں اس بات کا خوف تھا کھانا کہاں کھائیں گے۔ ہر کام خودبخود احسن طریقے سے ہوتا چلا گیا اور ہم بخیر وعافیت جہاں سے چلے تھے وہاں آپہنچے۔ خدا تعالیٰ میرے پیر و مرشد کے درجات میں بلندی عطا فرمائے اور ان کو صحت کاملہ سے نوازے۔ بے شک یہ سب رونقیں انہی کے دم قدم سے ہیں۔

FuvuF



خوبصورت وادیوں کی سیر

    استاد مکرم حضرت سید گلزار الحسن شاہ صاحب کے والد گرامی کا سالانہ ختم پاک 18نومبر 1993ء کو ہونا قرار پایا جس کی اطلاع قبلہ شاہ صاحب نے ہمیں ایک ماہ پہلے ہی کر دی تھی تاکہ کوئی شخص عذر پیش نہ کر سکے۔ میں تو پچھلے سال بھی شاہ صاحب کے آبائی گاؤں جانا چاہتا تھا لیکن ان دونوں بے نظیر صاحبہ دارالحکومت اسلام آباد پر اپنے لانگ مارچ کی بدولت حملہ آور ہو رہی تھیں۔ کہنے کو تو وہ سب کچھ جمہوریت کی سربلندی کے لیے کر رہی تھیں لیکن اس میں ان کے ذاتی اقتدار کی ہوس بھی شامل تھی اور اپنی اس ہوس کو پورا کرنے کے لیے اس نے پورے ملک کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور اس غیریقینی صورت حال میں کوئی بھی باشعور انسان اپنے گھر سے نہیں نکلتا۔ بلکہ گھر میں بیٹھ کر اپنے ملک کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتا ہے چنانچہ لانگ مارچ کی وجہ سے میں خواہش رکھنے کے باوجود بھی شاہ صاحب کے والد گرامی کے سالانہ ختم میں شریک نہ ہو سکا۔
    اس مرتبہ تو حالات خاصے سازگار تھے اور کوئی بھی امر مانع نظر نہیں آ رہا تھا۔ اپنے گھر میں اطلاع کر دی گئی تھی جبکہ خالد نظام‘ غلام محی الدین‘ مقصود احمد اور توصیف نے ہمارے ساتھ جانے کا عزم کر لیا تھا۔ ویسے ہماری خواہش تو تھی کہ ہدایت اور منشا بھی ہمارے ساتھ چلیں لیکن ہدایت تو اپنے عزیز کی بیماری کی بنا پر ہمارے ہاتھ نہ آیا جبکہ منشا ارادہ رکھنے کے باوجود آخری دن ہاتھ دکھا گیا۔
    ویسے تو حضرت صاحب بھی جا رہے تھے لیکن یہ بات ہمارے لیے تھوڑی سی مایوسی کا باعث ضرور تھی کہ وہ ہمارے ساتھ محو سفر نہیں تھے بلکہ وہ قاری زوار بہادر صاحب کے ساتھ ان کی کار میں جا رہے تھے۔ لیکن ان کی سرپرستی اور دعائیں تو ہمیں ہر حال میں حاصل تھیں اور یہی بات ہمارے لیے خوشی انبساط کا سامان پیدا کر رہی تھی۔
    حاجی محمد شریف صاحب جو ہمارے قافلے کے سربراہ تھے۔ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ گجرات جا چکے تھے اور وہاں جانے والے تمام راستوں سے بخوبی آگاہ تھے لیکن عین موقعہ پر کھسکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاہ صاحب کو بھی حاجی شریف صاحب کے کھسکنے کی اطلاع کر دی گئی جنہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور حاجی صاحب اس شرط پر مان گئے کہ ہم گجرات کے علاوہ میرپور شہر کے قریب واقع دربار عالیہ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ بھی (جو سیف الملوک کے لکھاری تھے) جائیں گے اور اس نسبت سے ان کی برصغیر پاک وہند میں بہت شہرت تھی۔ ہر روز سینکڑوں پیاسے لوگ وہاں جا کر اپنے من کی پیاس بجھاتے ہیں۔ حاجی شریف صاحب کا اصرار تھا کہ اگر وہاں جانے کا پروگرام حتمی ہے تو وہ جانے کو تیار ہیں ورنہ وہ اس پروگرام میں شرکت سے معذرت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں تو میاں محمد بخش صاحب کے دربار عالیہ پر جانے کے لیے بالکل تیار تھا لیکن خالد نظام ہر جگہ پھڈے ڈالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ فوراً گفتگو میں کود پڑا اور اس نے کہا کہ اگر پروگرام میں میاں محمد بخش صاحب جانا بھی شامل ہو گیا ہے تو میری طرف سے معذرت سمجھیں یا وہ ختم شریف ہونے کے فوراً بعد لاہور آ جائیں گے۔ کیونکہ ان کے بقول انہوں نے اپنے کاروبار کے لیے دوکانداروں سے پیسے اکٹھے کرنے ہوتے ہیں۔ غلام محی الدین بھی دبے لفظوں میں خالد نظام کا ساتھ دے رہا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے گھر واپس آ جائیں لیکن میرا اور حاجی شریف صاحب کا یکساں موقف تھا کہ اگر انسان اپنے اردگرد بنے ہوئے دائرے کو توڑ کر کہیں جانے کا ارادہ کر ہی لیتا ہے تو پھر اسے جی بھر کے ”انجوائے“ بھی کرنا چاہیے۔ مار دھاڑ کرتے ہوئے واپس آنے سے سیر وسیاحت کا لطف خراب ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ دورہ ہمارا خالصتاً دینی امتزاج کا حامل تھا اور اس پروگرام میں کئی مزارات پر جانا بھی مقصود تھا لیکن خالد نظام اور حاجی شریف کے درمیان سرد جنگ نے سارے پروگرام کو بدمزا کر دیا تھا۔ معاملے کو سلجھانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن دونوں کو ایک ہی پروگرام پر متفق کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ کبھی رات کے دس بجے چلنے کا پروگرام بنتا تو کبھی جمعرات کی دوپہر۔ مسلسل دو میں تین بار میٹنگوں کا سلسلہ جاری رہا جو بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو جاتا۔ اب ہمارے پاس وقت بہت کم تھا لیکن ہمارا ذہنی اختلاف پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ بالآخر حاجی صاحب کو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا کہ ختم شریف میں شرکت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ کدھر کا رخ کیا جائے۔
    مقصود احمد ”پیر بھائی“ ہونے علاوہ بھی میرا بہت اچھا دوست ہے۔ اس سفر میں اس کی شرکت بھی میرے لیے خوشی کا باعث تھی۔ بالمشافہ ملاقات پر اس نے بھی ہمارے ساتھ جانے پر مکمل اتفاق کیا تھا۔ روانگی سے دو تین ہفتے پہلے لاہور آیا تھا اور پروگرام میں بھرپور شرکت کا وعدہ کر گیا۔ یا دہانی کروانے کے لیے میں نے ایک خط بھی انہیں لکھ دیا تھا لیکن اس کی مسلسل خاموشی دلوں میں شکوک پیدا کر رہی تھی۔    توصیف خاں نے اپنی گھریلو مجبوریوں کی بنا پر پروگرام میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
    بدھ کی رات مسجد طہٰ میں حتمی میٹنگ ہوئی جس میں میں‘ حاجی شریف اور حضرت صاحب موجود تھے۔ محی الدین اور خالد نظام نے گفتگو کا اختیار مجھے دے دیا تھا چنانچہ حتمی طور پر طے پایا کہ جمعرات کی صبح 9 بجے یہاں سے روانگی ہوگی۔ واپسی پر میں نے مقصود کے گھروالوں سمیت تمام متعلقین کو اس پروگرام کی اطلاع کر دی۔ مقصود کے گھر والے ابھی تک اس کے نہ آنے پر سخت پریشان تھے کیونکہ پروگرام کے مطابق اسے بدھ کے دن تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ اس کی آمد میں تاخیر ہم سب کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔
    دوسری صبح جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو آسمان پر نظر دوڑائی جو بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سورج کی کرنیں چوری چوری زمین کو دیکھ رہی تھیں‘ ٹھنڈی ہوا چلنے کا احساس بھی موجود تھا۔ موسم کی یہ نزاکت ہمیں احساس دلا رہی تھی کہ روانگی سے پہلے متوقع سردی سے بچنے کا اہتمام ضرور کر لینا چاہیے۔ ایک عدد جرسی اور گرم چادر رکھ لی گئی لیکن عین موقع پر گرم چادر کو نکال دیا گیا کیونکہ اس وقت سورج پوری آب وتاب کے ساتھ افق پر نمودار ہو چکا تھا۔ اس کی گرم گرم کرنیں سردی کے احساس کو مزید کم کر رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر یہ خیال مزید پختہ ہو گیا کہ راستے میں ہمیں کوئی خاص سردی نہیں لگے گی بلکہ اس سردی کا مقابلہ جرسی سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
    ساڑھے نو بجے صبح میں اپنے اہل خانہ سے الوداعی ملاقات کر کے چل پڑا اور غلام محی الدین کو لینے کے لیے ان کے گھر گیا۔ وہ بھی تیار تھا‘ اس لیے مجھے یہاں انتظار کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی۔ ہم دونوں جب خالد نظام کے گھر آئے تو وہ ہم سے پہلے جا چکا تھا چنانچہ ہم تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے کبوترپورہ کی مسجد میں پہنچے جہاں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ یہاں سے ہم دونوں حاجی شریف صاحب کے گھر پہنچے تو باہر ہی خالد نظام نظر آ گیا جو ہمیں دیکھتے ہی کھل اٹھا چونکہ ہماری دیر سے آمد اس کے لیے ناگوار تھی اس لیے تھوڑا سا غصہ بھی ہم پر اتارا۔ اتنے میں حاجی شریف صاحب بھی گھر سے باہر تشریف لے آئے اور ان کی سربراہی میں قافلہ گجرات کے لیے چل پڑا۔ ہم چاروں نے پیسے اکٹھے کر کے حاجی شریف صاحب کو دے دیئے جو سب سے دانا بینا نظر آتے تھے۔
    سیون اپ چوک پر ہمیں یلوکیپ ویگن مل گئی جس میں ہم ٹھیک ساڑھے دس بجے بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی ویگن نے چلنا شروع کر دیا۔ سب سے آخری سیٹ پر ہمارا قبضہ تھا۔ صرف ایک خوبرو نوجوان درمیان میں بیٹھ گیا جو تھوڑی دیر بعد ہماری ہی ٹیم کا حصہ بن گیا بلکہ ہماری ہر بات وہ بڑی توجہ سے سنتا اور جواب بھی مثبت طریقے سے دیتا۔ جس سے متاثر ہو کر میں نے کہا کہ یار تم تو ہمارے ہی قافلے کے فرد لگتے ہو‘ کیوں نہ آپ کو گجرات چلنے کے لیے کہا جائے۔ تھوڑی سی دیر میں تم نے ہمارے درمیان جگہ بنالی ہے۔ اس لیے تمہاری رفاقت ہمارے لیے بہتر اور خوشگوار ثابت ہوگی لیکن اس نے اتنا لمبا ساتھ دینے سے معذرت کر لی۔ شاید کبھی اس خوبرو نوجوان سے کبوترپورہ میں ملاقات ہو جائے کیونکہ وہ بھی یہیں کا رہنے والا تھا۔
    تقریباً گیارہ بجے ہم اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ سفر کے لیے بس کا استعمال کیا جائے یا ٹویوٹا ہائی ایس کا۔ کچھ دیر تذبذب کے بعد فلائنگ کوچ کے ذریعے جانے کا فیصلہ ہوگیا اور متعلقہ جگہ پر ہمیں گجرات والی فلائنگ کوچ بھی مل گئی لیکن یہاں بھی ہمیں سب سے آخر والی نشست ہی ملی جہاں جھٹکے انسان کی ہڈیاں پسلیاں ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ فیصلے کا احترام کرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے فلائنگ کوچ اڈے سے روانہ ہوئی اور بارہ بجے کے قریب وہ راوی پل عبور کر رہی تھی۔ لاہور شہر کی ہنگامہ خیزی سے ہم نکل چکے تھے اور سڑک کے دونوں جانب شاہدرہ ٹاؤن کی آبادی چل رہی تھی جسے دیکھنا ہمارے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث نہیں تھا۔ کیونکہ یہ علاقہ بھی شہر لاہور کا حصہ تھا جہاں ہر وقت ٹرانسپورٹ کے دھوئیں کے علاوہ گردوغبار کی چادر تنی رہتی ہے جس سے بچنے کے لیے لاہور کے شہری اپنے ناک اور منہ کو کسی نہ کسی طرح ڈھانپ کر رکھتے ہیں پھر بھی یہاں صحت کا معیار مسلسل گر رہا ہے۔
    جب فلائنگ کوچ گردوغبار کے شہر سے نکل کر کھلی سڑک پر چلنے لگی تو خوشگوار ہوا نے ہمارے شریر کو چھونا شروع کر دیا۔ حالانکہ اب موسم میں خاصی تبدیلی ہو چکی تھی لیکن پھر بھی موسم کی خوشگواری طبیعت پر اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ میرے بالکل سامنے والی نشست پر ایک نیلے سوٹ میں ملبوس نوجوان بیٹھا ہوا تھا جو کبھی کبھی ہماری گفتگو میں دخل دے لیتا تھا بلکہ کئی معاملے میں وہ ہماری اصلاح بھی کر دیتا۔ ہم سب کی منزل چونکہ گجرات ہی تھی۔ اس لیے ہم گجرات تک کسی گھٹن کے بغیر ہی گزارنا چاہتے تھے بلکہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا خالد نظام اپنی بغل میں بیٹھے ہوئے غلام محی الدین کی ساتھ انتہائی دھیمی آواز میں گفتگو میں مصروف تھا جبکہ حاجی صاحب کبھی کبھی بات کر لیتے لیکن زیادہ عرصہ وہ خاموش ہی رہے۔ پہلے مریدکے اور پھر کامونکی آ گیا یہاں آ کر ایک بار پھر مقصود کی یاد ستانے لگی۔ مقصود باوفا دوست تھا اور کوٹ رادھاکشن کے سفر میں وہ میرا ہم سفر بھی رہ چکا تھا۔ معلوم نہیں آج اسے ہمارے ساتھ سفر کرنے سے کس چیز نے روک لیا تھا۔ اس کی سابقہ کارکردگی تو اچھی تھی اور اسی کارکردگی کی بنا پر ہمیں بھروسہ تھا کہ وہ ضرور ہمارا ہمسفر ہوگا۔ سڑک کے دونوں جانب نظر دوڑائی کہ شاید وہ یہیں کہیں بس میں سوار ہونے کے لیے کھڑا ہو لیکن کہیں بھی اس کا شائبہ نہ پڑا تو مایوس ہو کر خاموش ہوگئے۔ فلائنگ کوچ تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کہیں رکنا تو اس کے پروگرام میں شامل نہیں تھا کیونکہ تمام کی تمام سواریاں گجرات جانے والی تھیں۔ گوجرانوالہ سے پہلے ایک بڑی سی نہر آئی جسے دیکھ کر ہمیشہ مجھے خوف آتا تھا لیکن آج وہ کسی حد تک خالی تھی ۔ فلائنگ کوچ شہر میں داخل ہونے کی بجائے اس نہر کے ساتھ ساتھ چلنے لگی اور ”چناب سنیک بار“ کے سامنے آ کر رک گئی جن لوگوں کو کھانے پینے کی حاجت تھی‘ وہ اتر کر اپنی منشا کے مطابق خرید و فروخت کرنے لگے۔ کھانے کو تو ہمارا بھی جی تو چاہ رہا تھا لیکن پھر وہی بدمزگی یہاں بھی نظر آئی جو ہمیشہ سے خالد نظام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم اس بات پر متفق ہونے کے باوجود کہ کچھ نہ کچھ یہاں سے کھا لیا جائے۔ کسی فیصلے پر نہ پہنچ پائے جس چیز کا نام کھانے کے لیے لیا جاتا خالد اسے رد کر دیتا جبکہ حاجی شریف نے تو کھانے سے مکمل اجتناب کیا۔ ان کی رائے تھی کہ وہ ناشتہ خاصا بھاری کر کے آئے ہیں۔ اس لیے انہیں ابھی کسی بھی چیز کی طلب نہیں ہے جبکہ میرا دل چاہتا تھا کہ چائے کے ساتھ کچھ کھا بھی لیا جائے۔ چونکہ اتنا وقت نہیں تھا کہ اس کام کو ہم بحث وتمحیص کی نذر کر لیتے۔ فیصلے کے لیے بہت تھوڑا وقت تھا چنانچہ میں نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چائے اور کیک پیس کا آرڈر دے دیا اور چند ہی لمحوں بعد یہ سب کچھ ہمارے سامنے تھا۔ کیک پیس تو اتنا ٹھنڈا تھا جیسے وہ فریج سے ابھی ابھی نکلا ہو جبکہ چائے اپنی خاصیت کے مطابق گرم تھی۔ کیک مزے دار تو ضرور تھا لیکن اس کی ٹھنڈک دانتوں پر اثر دکھا رہی تھی۔ اس طرح چائے پینے سے جہاں ہمارا جسم پہلے سے زیادہ توانا ہو گیا وہاں کیک کی ٹھنڈک نے سر میں درد کا احساس بڑھا دیا لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد فلائنگ کوچ دوبارہ چلنے کے لیے تیار ہوگئی اور ہم سب اپنی اپنی نشستوں پر آ بیٹھے۔ ابھی ہماری کوچ گوجرانوالہ شہر کے گرد چکر لگا رہی تھی اور جتنے بھی در و دیوار ہمیں دکھائی دے رہے تھے‘ ان پر الیکشن کی چاکنگ واضح دکھائی دے رہی تھی۔ چاکنگ کے لحاظ سے صرف تین پارٹیاں سب سے آگے تھیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف)‘ پیپلز پارٹی (بے نظیر) اور اسلامی فرنٹ (قاضی حسین احمد) جبکہ نام نہاد نجومیوں اور نمبر3حکیموں کے اشتہاروں سے بھی دیواریں بھری پڑی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے اشتہار پوری قوم کے لیے اذیت اور شرمندگی کا باعث بنتے ہیں لیکن کوئی بھی سرکاری ادارہ توجہ دلانے کے باوجود بھی ایسے اشتہار لکھوانے والوں کے خلاف کاروائی نہیں کرتا۔
    بائی پاس سے ہوتے ہوئے جب ہم دوبارہ جی ٹی روڈ پر آئے تو تھوڑی ہی دیر بعد گگھڑ منڈی کے بورڈ نظر آنے لگے تو ہمیں احساس ہوا کہ گگھڑ منڈی سے گزر رہے ہیں۔ اس کے بعد گوجرانوالہ کینٹ (راہوالی) کا خوبصورت علاقہ بھی نظر سے گزرا۔ اس کے بعد آبادی کا علاقہ ختم ہوگیا اور کوچ تیزی سے سرسبز وشاداب کھیتوں کے درمیان بنی ہوئی سڑک پر چلنے لگی۔ کہیں کہیں کچا بنا ہوا کوئی ایک آدھ مکان بھی نظر آ جاتا لیکن زیادہ تر درختوں کی لمبی قطار آگے سے پیچھے کو جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ لاہور سے وزیرآباد تک پہنچنے کے باوجود سورج ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ سورج کی گرمی تلخی پیدا کر رہی تھی لیکن کوچ سے ٹکراتی ہوئی ہوا اس تلخی کا اثر زائل کر رہی تھی۔ وزیرآباد کے فوراً بعد دریائے چناب کی آمد کا احساس ہونے لگا۔
    لاہور سے اسلام آباد تک جی ٹی روڈ کو ون وے کرنے کا عملی کام تکمیل کے مراحل بڑی تیزی سے طے کر رہا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں سفر کرنے والوں کو بہت سہولت رہے گی اور وقت بھی کم صرف ہوگا۔ لیکن یہ بات ضرور قابل ذکر ہے کہ نئی بننے والی سڑک پہلے سے موجود سڑک سے خاصی بلند تھی اس پر آٹھ سے دس فٹ تک مٹی ڈالی گئی تھی اور اس لحاظ سے خطیر رقم مٹی ڈالنے پر خرچ آئی ہوگی اور مستقبل میں اتنی ہی لاگت پرانی سڑک کو بلند کرنے کے لیے خرچ کرنی پڑے گی۔ بہرکیف اس سڑک کو دو رویہ کرنے کا تمام سہرا نواز شریف کو جاتا ہے جو اس وقت کا شیر شاہ سوری ہے اور عوام اسے اسی نام سے بخوشی پکارتے ہیں جبکہ یہی کارنامہ اسے زندگی بھر عوام میں مقبول رکھے گا۔
    دریائے چناب کے قریب پہنچتے ہی ”سوہنی مہینوال“ کا لاثانی قصہ میرے ذہن کی سکرین پر نمودار ہو گیا اور میں اس سوچ میں گم ہو گیا کہ آخر وہ کیا جذبہ تھا کہ سوہنی جو صنف نازک تھی اس نے مردوں سے بھی بڑھ کر کارنامہ انجام دیا۔ کیا وہ عشق واقعی لاثانی تھا اگر ہم عشق حقیقی کی نظر سے دیکھیں تو ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے رب سے اس سے بھی زیادہ عشق کرنا چاہیے جس نے ہمیں پیدا کیا۔ ہاتھ اور پاؤں کام کرنے اور چلنے پھرنے کو دیئے‘ آنکھیں قدرت کے حسین نظارے دیکھنے کے لیے دیں‘ کان اچھی باتیں سننے کے لیے دیئے اور منہ مزے مزے کی چیزیں کھانے کو دیا۔ اگر ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھی چاہیں تب بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ قدرت کا ہم سب پر احسان عظیم ہے۔ مجھے ابھی تک وہ واقعہ نہیں بھولا کہ ایک شخص مسجد کے باہر نماز جمعہ کے وقت ویل چیئر پر بیٹھا ہی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مشغول تھا۔ وہ معذور تھا‘ نہ اس کے پاؤں صحیح تھے اور نہ دونوں ہاتھ۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں معذور بنایا ہے‘ نہ تم چل سکتے ہو اور نہ کوئی کام کر سکتے ہو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کیوں کر رہے ہو۔ اس معذور نے جواب دیا کہ بے شک میں معذور ہوں‘ میں معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا لیکن اپنی زبان سے اس لیے اس کی حمد و ثنا کر رہا ہوں کہ اس نے مجھے زبان تو دے رکھی ہے جس سے میں اپنا مطلب و مقصد دوسروں کے سامنے بیان کر سکتا ہوں۔ اس معذور شخص کی بات سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ جب بھی میں صحیح راستے سے بھٹکنے لگتا ہوں تو مجھے اس شخص کی کہی ہوئی بات یاد آ جاتی ہے اور میرے بڑھے ہوئے قدم واپس ہو جاتے ہیں۔
    رات کا وقت ہو‘ دریائے چناب کے پانی کی مونہہ زور لہریں بپھر بپھر کر جب اپنے ساحل سے ٹکرا رہی ہوں گی تو اس وقت کوئی بھی ذی شعور شخص اس میں چھلانگ لگانے کا تصوربھی نہیں کر سکتا۔ صرف اور صرف عشق حقیقی ہی ایسا جذبہ ہے جو سامنے نظر آنے والی موت سے بھی سرد نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ زبان زد عام ہے کہ دریائے نیل جب بپھرا ہوا تھا لیکن پشت پر فرعون جیسا ظالم اور جابر حکمران تھا جس کے مظالم کی داستانیں آج بھی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم دریائے نیل میں اتر گئے اور دریائے نیل نے حکم خداوندی کی تابعداری کرتے ہوئے انہیں راستہ دے دیا۔
    ان حالات میں صنف نازک کی جانب سے اتنا بڑا اقدام قابل غور و فکر پیدا کرتا ہے۔ آج بھی اس عشقیہ داستان کی بازگشت گجرات کی گلی کوچوں میں سنی جا سکتی ہے بلکہ ایک پورا بازار سوہنی کے نام سے منسوب ہے۔
    بہرکیف دریائے چناب میں نہ تو آج پانی تھا اور نہ ہی اس سے آج خوف آ رہا تھا۔ آج وہ ہر لحاظ سے خاموش دریا تھا بلکہ اس کے احاطے کے کچھ ہی حصے میں پانی موجود تھا اور باقی حصہ خشک تھا جہاں ریت اور مٹی ٹرالیوں کے ذریعے نکالی جا رہی تھی۔ اس دریا پر تین پل بنے ہوئے نظر آئے ایک بالکل نیاتھا جو خاصا اونچا بنا ہوا تھا اور ایک پرانا پل جو اب نئے پل کی نسبت نیچا لگ رہا تھا جبکہ ریلوے کا پل تو پہلے کی طرح انفرادیت قائم کیے ہوئے تھا۔ پلوں کے دونوں جانب ٹول ٹیکس لینے والوں اور پولیس کا پہرہ تھا جو ہر آنے اور جانے والی گاڑیوں کو شک پڑنے پر چیک بھی کرتے تھے۔ پل سے گزر کر کوچ ریلوے لائن کے مشرق کی جانب چلنے لگی اور یہاں گزرتے ہوئے کٹھالہ ریلوے اسٹیشن نظر آیا جو گجرات کا نواحی اسٹیشن تھا۔ اس کے بعد سڑک کے دونوں جانب بنی ہوئی پنکھوں کی فیکٹریاں اور مکانات کی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو گیا جو اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ ہم گجرات میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے بھی گجرات سے میں کئی مرتبہ گزر چکا ہوں لیکن اس میں چل پھر کر سیر وسیاحت کرنے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ ہی یہاں کے مزارات پر حاضری دینے کا موقع ملا۔
    تقریباً سوا دو بجے ہم رامتلائی اڈے پر اترے جو کوچ کا آخری سٹاپ تھا۔ یہاں اتر کر غلام محی الدین اور خالد نظام نے باہمی مشورے سے ایک خاص مقصد کے لیے سنگھاڑے کھانے کا پروگرام بنایا اور خرید بھی لیے۔ مجھے بھی وہ مقصد بتا کر کھانے کے لیے کہا گیا چونکہ میں سنگھاڑوں کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا ذائقہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ اس لیے سنگھاڑوں کو کھانا میرے لیے خاصا مشکل کام تھا لیکن پھر محی الدین نے میرے کان میں کھسر پھسر کی اور میں سنگھاڑوں کو کھانے پر آمادہ ہو گیا اور ان کی ہمراہی میں سنگھاڑے کھانے شروع کر دیئے۔ یہاں سے ہمیں حضرت شیخ کبیر الدین بادشاہ المعروف شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار عالیہ پر حاضری کے لیے جانا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹانگے میں سوار ہوئے اور سرکلر روڈ پر چلتے ہوئے شاہ دولہ روڈ پر آ گئے۔ یہاں بھی لاہور کی طرح بے ہنگم ٹریفک چل رہی تھی۔ نہ سائیکل والے کا پتہ چلتا تھا کہ اس نے کدھر جانا ہے اور نہ موٹر سائیکل والے کا۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں تھا اور اس کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھا اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی جو سارے ٹریفک نظام کو درہم برہم کرنے کا باعث بن رہی تھی۔ بہرکیف ہم تھوڑی ہی دیر میں ایک مقام پر پہنچ گئے جہاں سے حضرت شیخ کبیر الدین بادشاہ المعروف شاہ دولہ دریائی کے مزار کی حدود شروع ہوتی ہے۔ دونوں جانب تبرکات اور سبز چادروں کی دوکانیں سجی ہوئی تھیں اور مزار شریف مین سڑک سے ہٹ کر دائیں جانب ایک بڑی سی گلی میں واقع تھا جس کے مرکزی دروازے میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب مسجد نظر آئی۔ درمیان میں زائرین بیٹھے ہوئے تھے لیکن یہاں جوتوں سمیت چلنے پھرنے کی ممانعت نہیں تھی جبکہ بائیں جانب بالکل سامنے سرکار شاہ دولہ دریائی کا مزار شریف تھا۔ باہر ہی وضو کا اہتمام تھا جہاں وضو کر کے ہم سب ادب و آداب کے ساتھ دربار عالیہ کے احاطے میں داخل ہوگئے۔ کیونکہ شنید یہی ہے کہ یہاں جو بھی آتا ہے مایوس ہو کر واپس نہیں جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت سے سرکار اس کی نیک تمناؤں کو ضرور شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ حالانکہ میں رہنے والا تو برصغیر پاک وہند کے روحانی بادشاہ‘ پیروں کے پیر حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے شہر لاہور کا تھا پتہ نہیں کیوں میں ان کی نگری میں رہنے کے باوجود ان کے فیض سے ابھی تک محروم تھا۔ معلوم نہیں وہ مجھے کیوں کشش نہیں فرماتے کہ میں ان کے قریب رہنے کے باوجود بھی ان کے مرقد خاص پر نہیں جاتا۔ بے شک اس میں میری ہی کوتاہ اندیشی کا دخل تھا لیکن داتا گنج بخش ہونے کے ناطے میں ان سے بھی فیوض و برکات کا طالب ضرور ہوں۔ دنیا بھر کے لوگ رات اور دن وہاں فیض لینے کے لیے جاتے ہیں اور اپنے دل کی مرادیں پوری کر کے واپس آتے ہیں۔ آج سرکار شاہ دولہ دریائی کے دربار عالیہ پر ان کی محبت اور ان کا فیض حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ مزار شریف میں داخل ہوتے ہی قبر مبارک پر نظر پڑی جو عربی کی عبارت لکھی ہوئی سبز چادروں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہاں منفرد انسان بہت کم بلکہ صرف ایک ہی نظر آیا کیونکہ ان بزرگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جو لوگ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ یہاں آ کر دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حضرت سید کبیر الدین المعروف شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ کی دعاؤں سے اسے اولاد سے مالامال کر دیتا ہے لیکن پہلا بچہ تو شکل اور جسامت کے لحاظ سے عام بچوں سے منفرد ہوتا ہے اسے دربار پر چھوڑنا پڑتا ہے یعنی سرکار زندہ انسانوں کا نذرانہ لیتے ہیں۔ حالانکہ میں خوفزدہ تھا کہ ان کے دربار عالیہ پر سینکڑوں ایسے افراد سے سابقہ پڑے گا لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک بچہہی پھر رہا تھا۔ باقی جتنے بھی مرد اور عورتیں نظر آئیں بالکل صحیح حالت میں تھیں۔ یہاں فقیروں کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔
    دربار کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی دل میں ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس خاص کیفیت کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو بھی بہنے لگے اور یہی وہ وقت تھا جب مزار والے بزرگ کی خاص توجہ مرکوز ہوتی ہے اور یہی وقت دعا کی قبولیت کا تھا۔ مرقد کے پاؤں کو چوم کر دائیں جانب بیٹھ گیا اور آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میرے جذبات تیزی سے بہنے لگے۔ زبان سے قرآن کی آیات مبارکہ کی تلاوت کر رہا تھا اور آنکھیں قبر مبارک پر جمی ہوئی تھیں۔ آج پتہ نہیں کیوں دیر تک یہاں بیٹھنے اور مسلسل قرآن پاک کی تلاوت کو جی چاہ رہا تھا۔ میں نے اپنے مرشد پاک حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کا سلام پیش کر کے اپنے لیے اور سب عزیز واقارب کے لیے دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔ ملکی بقا اور سلامتی کے لیے دعا مانگی۔ اپنے والدین اور بیوی بچوں کی صحت یابی کی لیے دعا مانگی۔ یہی بیٹھے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ میں جس شہر کا رہنے والا ہوں وہاں داتا گنج بخش کا ڈیرہ ہے میں پاک وہند کے بادشاہ کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں بھیک مانگتا پھر رہا ہوں۔ یہی پر میں نے تہیہ کیا کہ اب ہر جمعرات کی شام میں داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے دربار عالیہ پر حاضری دیا کروں گا۔ جہاں لاکھوں انسان ہر روز حاضری دیتے ہیں اور فیض حاصل کر کے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں تو میں ان کے قریب رہنے کے باوجود ان کے لطف و کرم سے محرم کیوں رہوں۔ میرے دل میں یہ خیال یقینا شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ کی جانب سے آیا تھا۔
    یہیں پر حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں سنا کہ آج سے چھ سات سو سال پہلے دریائے چناب شہر کے بالکل قریب ہی بہتا تھا اور دریا میں طغیانی آنے کی وجہ سے شہر مسلسل خطرے میں رہتا تھا بلکہ عرس کے دوران دریا کا پانی ان کی قیام گاہ کو سلامی دے کر جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ نے دریا کو یہاں سے دور جانے کے لیے کہہ دیا بلکہ باقاعدہ نشاندہی کی چنانچہ دریا ان کے حکم پر گجرات سے چھ سات میل دور چلا گیا اور خالی ہونے والی جگہ پر دیہات بن گئے۔
    یہاں سے فارغ ہو کر ہم نماز ظہر کے لیے قریب ہی بنی ہوئی مسجد میں چلے گئے اور حاجی شریف صاحب نے نماز ظہر کی جماعت سوا تین بجے کروائی۔ یہاں سے فراغت کے بعد ہماری منزل کانواں والی سرکار کا دربار عالیہ تھی جو شہر کے شمال میں واقع تھا۔ وہاں جانے کے لیے ہم ٹانگے پر سوار ہو گئے اور ٹانگے والا سرکلر روڈ  شیشوں والے بازار سے ہوتا ہوا کچہری روڈ پہنچا۔ یہ گجرات شہر کی مرکزی شاہراہ تھی‘ میجر عزیز بھٹی شہید کی یادگار‘ چوک کے درمیان میں نظر آئی جسے دیکھ کر فوراً ذہن 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی طرف لوٹ گیا۔ جب بھارتی فوج نے شہر لاہور پر بھرپور طاقت سے حملہ کیا تھا اور سرزمین گجرات کا بہادر سپوت میجر عزیز بھٹی اپنی بٹالین کے ساتھ بھارتی عزائم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا اور دشمن کو بی۔ آر۔ بی نہر عبور نہیں کرنے دی بلکہ لاہور کو فتح کرنے کے خواب کو بھی چکناچور کر کے ان کی لاشوں کے ڈھیر لگا کر اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش فرمایا۔ قوم میجر عزیز بھٹی کے کارنامے کو کبھی نہیں بھلا سکے گی اور اسی میجر عزیز بھٹی نے گجرات کی آبرو بن کر پورے پاکستان کے بہادر فرزند کا رتبہ حاصل کرلیا جس پر آج بھی پوری قوم فخر کرتی ہے۔ اس کے نام سے منسوخ ایک ہسپتال بھی گجرات شہر میں موجود ہے جہاں ہزاروں غریب شفا حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں سے ٹانگہ دائیں جانب ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اتر گیا اور اس سڑک کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چلتے ہوئے ٹانگے کے ہر پرزے سے چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں اور ہم بھی مضبوطی سے ٹانگے کو پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں تو چونکہ فرنٹ سیٹ پر تھا اس لیے کچھ محفوظ تھا لیکن پچھلی طرف بیٹھنے والے خالد صاحب اور حاجی شریف صاحب بہت مشکل میں دکھائی دے رہے تھے۔ پونے چار بجے ہم سرکار کانواں والی کے دربار پر پہنچے۔ ٹانگے والے سے کہا کہ ہم دس پندرہ منٹ میں فارغ ہو کر تمہارے ساتھ ہی واپس چلیں گے ہمارا انتظار کرنا۔ بظاہر تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا لیکن اس کے بارے میں دل میں کھٹکا سا لگا رہا کہ اگر وہ چلا گیا تو پھر دو تین میل کا سفر پیدل طے کرنا پڑے گا اور شام بھی قریب قریب ہونے والی تھی۔ شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ دیہاتی علاقے میں شام ہوتے ہی ڈاکو سرگرم ہو جاتے ہیں اور مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں کئی مسافروں کے کپڑے بھی اتار لیے اور وہ بیچارے ننگے ہی میزبان کے گھر پہنچے اور شرمندگی الگ اٹھانا پڑی۔ جان کا خطرہ بھی سر پر منڈلاتا رہا۔ میں ان تمام خطرات سے بچنا چاہتا تھا جبکہ میرا ساتھی خالد نظام یہاں بھی شان بے نیازی دکھا رہا تھا اور اس مسئلے کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ بہرکیف ہم نے پہلے نماز پڑھنے کا پروگرام بنایا تاکہ وضو ازسرنو بنا کر دربار پر حاضری دی جائے۔ وضو کرنے میں پانچ سات منٹ لگ گئے۔ مزار کے قریب جو مسجد تھی وہ تقریباً چار سو سال پرانی ہو گی کیونکہ اس کی طرز تعمیر کا نمونہ بادشاہی مسجد سے ملتا جلتا تھا۔ بڑے بڑے محراب جن پر نقش نگاری کی ہوئی تھی جس کا رنگ اڑ چکا تھا۔ مزید برآں مسجد بوسیدگی کے لحاظ سے خاصی پرانی دکھائی دے رہی تھی۔ یہاں نمازیوں کی تعداد کوئی قابل ذکر نہیں تھی۔ صرف ایک شخص مسجد میں بیٹھا ہوا پہلے قرآن پاک پڑھ رہا تھا اور بعد میں تسبیح لے کر مسجد کے صحن میں نکل گیا جبکہ تین چار بچے یہاں ضرور نظر آئے جن پر مجھے شک گزر رہا تھا کہ شاید یہ ہم میں سے کسی ایک کی جوتی ہی نہ اٹھا کر لے جائیں۔ ایک مرتبہ ایک بچہ وہیں چھپا جہاں میں نے اپنی چپل رکھی تھی۔ میں نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور اسے پکڑ کر دوسری طرف کر دیا کہ بھائی میں نے یہاں سے ننگے پاؤں واپس نہیں جانا۔ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ مسجد سے زیادہ تر بچے ہی جوتیاں اٹھاتے ہیں کیونکہ انہیں اس حرکت کی سزا کا علم نہیں ہوتا اور مذاق مذاق میں کسی کو جوتوں سے محروم کر دیتے ہیں۔
     بہرکیف سنتیں پڑھ کر جب فارغ ہوا تو چار بجنے میں دو تین منٹ باقی تھے اور مسجد میں ہمارے علاوہ کوئی شخص نہیں تھا اور جو شخص پہلے بیٹھا ہوا قرآن پاک پڑھ رہا تھا وہ بھی اٹھ کر مسجد کے صحن میں چلا گیا اور نماز میں شریک نہ ہوا۔ بچے بھی باہر چلے گئے۔ میں نے حاجی شریف صاحب کو جماعت کروانے کے لیے کہا تو خالد نظام نے پھر پھڈا ڈال دیا اور خاصی بلند آواز میں بولنے لگا جس طرح وہ ہمیشہ کرتا ہے۔ اس کا بے موقع بولنا مجھے بھی ناگوار گزر رہا تھا اور حاجی صاحب نے بھی محسوس کیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں کیوں بات کر رہا ہے چنانچہ پہلے میں نے اسے جھاڑ پلائی۔ پھر حاجی صاحب نے کہا بھائی تم لڑتے کیوں ہو۔ بات آہستہ بھی ہو سکتی ہے تو پھر اتنی زور سے کیوں کر رہے ہو۔ شاید اس کا بھی قصور نہیں تھا مسجد کی چھت خاصی اونچی تھی اور خالی ہونے کی بنا پر اس میں آواز گونجتی تھی۔ بہرکیف اس کے آنے پر جماعت کھڑی ہو گئی اور جماعت میں صرف ہم ہی تھے۔ صرف ایک نوجوان لڑکا بعد میں آ کر نماز میں شامل ہو گیا تھا۔ مزار کے قریب ہی مسجد ویران پڑی ہوئی تھی جبکہ مزار کے باہر کوئی قوال کھڑا ہو کر گا رہا تھا اور چند لوگ بھیک مانگنے کے لیے موجود تھے۔ مزار کے بالکل قریب ہی ایک بابا جی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ صف پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان میں سے کوئی باجماعت نماز کے لیے نہ آیا۔
    مسجد کے قریب ہی سرکار کانواں والے کی بیٹھک (جہاں وہ بیٹھ کر آگ جلایا کرتے تھے) تھی جس میں اب تک آگ سلگ رہی تھی اور چند ملنگ قسم کے لوگ یہاں موجود تھے۔ انہی بزرگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ چند سر پھرے مولوی کانواں سرکار کو اس لیے زد وکوب کرنے کے لیے ان کے ڈیرے کی طرف آ رہے تھے کہ وہ شریعت کے بالکل خلاف ننگے رہتے ہیں اور ان کی یہ حالت کسی بھی طرح سے مناسب نہیں۔ جب لوگوں کا ہجوم بالکل قریب آ گیا تو درمیانی فاصلے میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور اس وقت تک آگ بھڑکتی رہی جب تک حملہ آور واپس نہیں چلے گئے۔ یہ بزرگ اپنے وقت کے مجذوب تھے اور دنیاداری سے دور جنگل میں ڈیرہ لگائے ہوئے تھے۔ شہر گجرت کے باسی ان کے پاس چل کے آتے ہیں وہ ان کے پاس نہیں گئے۔ اب تو مزار کے اردگرد مکانات تعمیر ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور چند سالوں تک یہاں بھرپور آبادی ہو جائے گی۔
    مزار شریف جو بڑے سے احاطے میں تھا اس میں داخل ہوئے اور چند سیڑھیاں چڑھ کر مزار کے اندر داخل ہوئے۔ مزار کا اندرونی حصہ آرائش و زیبائش سے مکمل طور پر مزین تھا اور جھلمل کرتی ہوئی پھول پتیاں اچھی لگ رہی تھیں۔ قبر مبارک پر سبز رنگ کی کئی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ چند لوگ یہاں پہلے سے موجود تھے‘ ہم نے بھی قرآنی آیات پڑھ کر دعا مانگی اور مزار سے باہر آگئے۔ حضرت شاہ دولہ دریائی کے دربار سے واپس آنے پر ہمیں کہیں بھی سکون نہ ملا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے ہماری تمام ترتوجہ سرکار دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ نے حاصل کر لی ہے۔ چنانچہ یہاں سے واپس جانے میں ہمیں جلدی تھی کیونکہ اب شام کے سوا چار بج چکے تھے اور پانچ بجے سورج غروب ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہونے میں خاصے خطرات موجود تھے۔ خوش قسمتی سے ٹانگے والا موجود تھا۔ یہاں ایک غیرمعمولی مرغا بھی نظر آیا جو خاصا جذباتی رنگ میں تھا جسے دیکھ کر میں نے خالد کو نوید بھی دے دی تھی۔
    ٹانگے پر بیٹھ کر ہماری منزل پہلے وہ چوک تھا جہاں سے موضع ”کھیپڑاں والے“ کو جانے والے ٹانگے یا ویگن ملتی تھی۔ جب ہم یہاں پہنچے تو پونے پانچ بج چکے تھے۔ اب شام ہونے میں بہت کم وقت باقی تھا اور سورج کا ”سرخ گولا“ زمین کی پستیوں میں غائب ہوتا جا رہا تھا۔ ویگن ابھی خالی تھی جس کے چلنے میں ابھی خاصا وقت درکار تھا۔ اس لیے ٹانگے والے کو تیار کر لیا اور سب بیٹھ کر حضرت سید گلزار الحسن شاہ صاحب کی رہائش گاہ کی جانب چل پڑے۔ تانگہ مختلف بستیوں اور کھیتوں سے گزرتا ہوا کھلی فضا میں پہنچا۔ سڑک سے تھوڑے فاصلے پر گاؤں نظر آ رہے تھے جن میں خوبصورت کوٹھیاں بنی ہوئی بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ جب شام ہونے کو بالکل قریب تھی بلکہ گہرے سائے کھیتوں‘ مکانوں اور لہلہاتی ہوئی فصلوں کو اپنی گود میں سمیٹ رہے تھے۔ اس وجہ سے کافی دور تک دیکھنا ممکن نہیں رہا تھا جبکہ آسمان پر مغرب کی جانب ڈوبتے ہوئے سورج کی سرخی ابھی باقی تھی۔ ٹانگہ مغرب کی جانب مڑا اور ایک خوبصورت مکان کے سامنے سے گزر کر رک گیا جن کے گھر ہم نے جانا تھا۔ وہ سیدوں کا گھرانہ تھا اور وہ گھرانہ دیانت اور سخاوت کے لحاظ سے دور دور تک مشہور تھا حتیٰ کہ خود ٹانگے والا بھی انہیں بخوبی جانتا تھا۔ ہمیں فخر حاصل تھا کہ ہم ان کے مہمان بن رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ گاؤں ہمیں بڑا منفرد نظر آ رہا تھا کیونکہ اس میں ہمارے استاد مکرم شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے چھوٹے بڑے سبھی رہتے تھے۔ جب پرندوں کی آوازیں شام کے سکوت کو توڑ رہی تھیں‘ فصلوں پر اندھیرا چھا چکا تھا‘ اذانیں کئی جگہوں پر ہو چکی تھیں یا ہو رہی تھیں۔ ہم گاؤں میں داخل ہوئے اور سیدھے حضرت سید گلزار الحسن شاہ کے والد گرامی کے مزار مبارک پر کھڑے ہو کر دعائے مغفرت پڑھی اور یہیں پر چند نوجوان ہمیں اپنی جانب دوڑتے ہوئے نظر آئے جو ہمیں لینے آئے تھے جبکہ تھوڑی ہی دور حضرت مولانا محمد عنایت احمد‘ قاری زوار بہادر اور شاہ صاحب کھڑے ہوئے نظر آئے۔ انہیں دیکھ کر بے ساختہ ہمارے قدم ان کی جانب اٹھنے لگے۔ قریب آنے پر سلام و نیاز کا سلسلہ شروع ہوا۔ شاہ صاحب ہماری آمد پر بے حد خوش تھے جبکہ ہماری خوشی کی بھی کوئی انتہا نہ تھی۔ عرصہ دراز سے یہ شوق دل میں چلا آ رہا تھا کہ شاہ صاحب کا گاؤں ضرور دیکھنا چاہیے۔ آج ہم خدا کے فضل وکرم سے اسی سرزمین پاک پر کھڑے تھے جس کی مٹی نے بڑے بڑے ولی اللہ کے قدموں کو چوما تھا اور ہمارے شاہ صاحب کے قدموں کو چومنے کا اعزاز بھی اسی زمین کو حاصل ہے۔ اس لحاظ سے زمین کا یہ خطہ بہت خوش نصیب ہے کہ اس نے شاہ صاحب کا بچپن بھی دیکھا‘ پاکباز اٹھتی ہوئی جوانی بھی دیکھی اور اب ڈھلتی ہوئی جوانی بھی دیکھ رہی ہے۔ اس جگہ کی فضا سے شاہ صاحب کی محبت اور چاہت کی خوشبو آ رہی تھی۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے ہم نے جانا چاہا لیکن شاہ صاحب کی محبت نے ہمیں مجبور کیا کہ تھوڑا سا دوددھ اور بسکٹ کھا لیے جائیں۔ چنانچہ ان کے حکم کا احترام کرتے ہوئے ہم چند ساعتوں کے لیے بیٹھک نما کمرے میں بیٹھ گئے۔ یہاں کمرے میں تین تین چارپائیاں اوپر تلے سجی ہوئی تھیں اور خالد صاحب اس حالت کو دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئے تھے۔ بہرکیف یہاں سے فارغ ہو کر ہم نماز مغرب کے لیے چلے گئے۔ جماعت تو نکل چکی تھی۔ اس لیے اکیلے ہی نماز پڑھی اور پھر سیدھے شاہ صاحب کے گھر آ کر بیٹھ گئے جہاں ان کے والد گرامی کے ختم پاک کا آغاز ہونے والا تھا۔ خاصا بڑا کمرہ تھا جہاں ایک جانب حضرت صاحب‘ ساتھ قاری زوار بہادر‘ ان کے ساتھ میں اور میرے بعد خالد نظام اور محی الدین بیٹھا تھا جبکہ دوسری جانب پیر سید فضل حسین شاہ بخاری صاحب کے دو صاحبزادے مقامی لوگوں کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ گاؤں کے خاصے لوگ یہاں موجود تھے۔ پرانے زمانے کی ایک تھیلی درمیان میں موجود تھی جس میں سے گھٹلیاں نکالی اور ان گھٹلیوں کو وہاں پر موجود بزرگوں نے پڑھنا شروع کیا اور یہ عمل کافی دیر تک دہراتے رہے۔ پھر ختم پڑھا گیا اور کھانے کے لیے قطاریں بننے لگیں۔ شاہ صاحب نے خالد کو تھوڑا دور بیٹھا دیا تو وہاں بیٹھ کر وہ ہمیں گھور گھور کر دیکھنے لگا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ مجھے اپنے قریب بلاؤ‘ چنانچہ تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب نے خالد کو ہمارے قریب کر دیا اور کھانے کا عمل شروع کر دیا۔
    سب سے پہلے حلوا آیا جسے ہم کھانے کے بعد کھاتے ہیں بعد میں سالن اور دیسی گندم کی تنوری روٹیاں آگئیں۔ سالن بہت مزے کا تھا جسے ہم نے بہت کھایا اور بعد میں حلوا اور کسٹرڈ ملا کر کھایا۔ پیٹ خاصا بھر چکا تھا اس لیے پیٹ میں گڑبڑ ہونے لگی۔ اتنے میں نماز عشاء کا وقت ہو چکا تھا بلکہ آٹھ بج چکے تھے جبکہ عشاء کی نماز تو سات بجے ہوتی تھی۔ کچھ دیر کے بعد عشاء کی اذان دی گئی۔ میں بھی نماز عشاء کے لیے مسجد پہنچا لیکن پیٹ کی صورت حال نے مجھے وہاں ٹھہرنے نہ دیا۔ میری حالت غیر کو دیکھ کر شاہ صاحب مجھے اور خالد کو لے کر ایک عالی شان بنگلے میں آ گئے جہاں حقیقت میں ہمارے سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔ بڑے سے کمرے کے ساتھ الگ تھلگ خوبصورت اور صاف ستھرا باتھ روم بنا ہوا تھا جس کا نلکا کھلتے ہی موٹر خودبخود چل پڑتی تھی۔ جب پیٹ کا غبار ختم ہوا تو کچھ ہوش آیا۔ باقی دوستوں نے بھی باری باری اپنی حاجت پوری کی۔ پھر ہم مسجد کی جانب چل پڑے۔ ہمیں ایک ویران کھیت سے گزر کر جانا تھا جہاں سے فصل کاٹ لی گئی تھی۔ اردگرد چار سو اندھیرے کا بسیرا تھا‘ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ روشنیوں کے شہر میں رہنے والوں کو یہاں چلتے ہوئے خاصی دقت محسوس ہو رہی تھی لیکن شاہ صاحب بڑی مہارت کے ساتھ ہمارے آگے آگے چلے جا رہے تھے۔ دراصل یہ کھیت اور کھلیان سب ان کے دیکھے بھالے تھے۔ بہرکیف مسجد میں حضرت صاحب اور قاری زوار بہادر صاحب باقی ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے اور آپس میں خوب باتیں ہو رہی تھیں ۔ ہم نے نماز عشاء پڑھی اور حضرت صاحب کے پاس بیٹھ کر ان کی باتوں کا لطف لینے لگے۔ قاری زوار صاحب جو ہمارے ہی علاقے کی بڑی معروف شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا مذہبی پہلو۔ سیاسی پہلو پر اختلاف ہونے کے باوجود مذہبی حوالے سے میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں کیونکہ گردونواح کی مساجد میں جتنے خطیب حضرات موجود ہیں تلاوت اور نعت پڑھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کبھی کبھی حافظ غلام سرور صاحب ان کی نقل اچھی خاصی کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی اصل تو اصل ہی ہوتا ہے۔ بہرکیف یہاں بیٹھنے سے ان کے ساتھ قربت بڑھ رہی تھی۔ اب رات کے نو بج رہے تھے اور سفر کی تھکاوٹ کے اثراتسب کے چہروں پر نمایاں تھے لیکن حضرت صاحب فرمانے لگے کہ ابھی سونا نہیں بلکہ میلاد میں شرکت کرنی ہے۔ نعت خوانی کا سلسلہ چلنا ہے۔ بہرکیف شاہ صاحب ہمیں ہمراہ لے کر اپنے گھر چلے گئے جہاں سپیکر کا پہلے ہی اہتمام تھا بلکہ ان کے چچیرے بھائی بڑی خوبصورت آواز میں شان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان فرما رہے تھے۔ ہماری کمپنی بھی وہاں پہنچ گئی اور گاؤں کے سید گھرانے کے معززین بھی محفل میں پہنچ گئے۔ نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے سبز دستار باندھے ہوئے بچے نے نعت پڑھی۔ اس کے بعد سید علی رضا شاہ صاحب پندرہ سولہ سال کے لڑکے نے نعت پڑھنی شروع کی اور آغاز سے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس کی آواز اتنی پراثر تھی کہ دلوں میں سرایت کرتی جاتی تھی۔ نوٹوں کے انبار لگ گئے اور میں نوٹ اکٹھے کرنے میں لگ گیاتاکہ جب وہ نعت ختم کر لے تو دوسرے نعت خواں کو وہاں کھڑے ہونے میں دقت نہ ہو۔ اڑھائی تین سو کے قریب روپے اکٹھے ہوئے لیکن اس نے نعت جو پڑھ دی وہ ہمیں عرصہ دراز تک نہیں بھولے گی۔ اس لڑکے بعد دو نعت خواں اور بھی آئے۔ پھر قاری زوار بہادر صاحب کی باری تھی۔ انہوں نے بڑی پراثر وعظ کی اور ساتھ ساتھ نعت کا لطف بھی دیتے رہے۔ سوا گیارہ بجے انہوں نے اپنی وعظ مکمل کی او ر ان کے بعد حضرت صاحب کو مائیک پر بلایا گیا جن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اپنے اندر سمندر کی گہرائی کے معنی لیے ہوئے تھے۔ طریقت اور معرفت کا حسین امتزاج حضرت صاحب کی تقریر میں بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ انہیں حقیقت میں علم کا سمندر کہا جا سکتا ہے جس کے کنارے دور دور تکنظر نہیں آتے۔ وہ ایک ہی لفظ پر گھنٹوں بولنے کا ملکہ رکھتے ہیں اور ان کی ہر بات میں بلا کا وزن ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بات بات میں آپ ﷺ کا ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا۔ درود وسلام پڑھنے کے لیے جب تمام لوگ کھڑے ہو ئے تو قاری زوار بہادر نے محفل کا رنگ ہی بدل دیا۔ تمام لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر جانے کی خواہش اور بڑھ رہی تھی۔ انہوں نے تین مختلف انداز میں سلام پڑھا۔ ان کا ہر ایک انداز بہت خوب تھا اور ان کی پراثر آواز دل پر گہرا ثر کر رہی تھی جس کی وجہ سے محفل میں خاص رنگ پیدا ہو گیا تھا۔ سلام کے بعد حضرت صاحب نے دعا فرمائی اور پھر اسی جگہ بیٹھ گئے کیونکہ چائے تیار تھی۔ چائے سب نے مل کر پی اور نئے آنے والے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک نوجوان لڑکا جس کا نام قمر تھا وہ نوٹ نچھاور کرنے کے لیے بڑا جذباتی انداز اپناتا تھا۔ شاہ صاحب بار بار جیب سے نوٹ نکال کر اسے دیتے اور وہ نوٹ نچھاور کرنے میں بڑی مہارت رکھتا۔ یہیں پر مجھے شاہ صاحب کا وہ بھائی بھی ملا جو رینجر میں ملاز م ہے اور اس کی تعیناتی ابھی تک کراچی ہی میں ہے۔ میں تو انہیں نہ پہچان سکا لیکن انہوں نے مجھے پہچان لیا اور بڑی محبت سے ملے۔ رات کا 1 بجنے کو تھا اور سب کو سونے کی جلدی تھی‘ دن بھر کی تھکاوٹ نے کافی تھکا دیا تھا۔ جب ہم شاہ صاحب کی امامت میں گھر سے اس بنگلے کی جانب جانے کی لیے نکلے جہاں ہمارے سونے کا اہتمام تھا تو گاؤں کے ہر طرف اندھیرے کا راج تھا۔ سامنے ٹاھلیوں کے بلند بانگ درختوں کی لمبی قطار خوف وہراس کا مجسمہ بنی نظر آئی جہاں سے ہم نے گزرنا تھا۔ اس کے اردگرد فصلوں سے بھرے ہوئے کھیت تھے جو مکمل تاریکی میں ڈوبے ہوئے یہاں چلنے والے قدموں کی آوازیں بھی کافی دور تک سنائی دے رہی تھیں۔ شاہ صاحب ایمرجنسی لائٹ لیے آگے آگے چل رہے تھے اور ہم ان کی اقداء میں پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ آسمان پر کہیں بھی چاند چمکتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا بلکہ ستاروں کی روشنی بھی ماند پڑ چکی تھی جبھی تو سرزمین گجرات اندھیرے کا لبادہ اوڑھے کھڑی تھی۔ جب ہم خوبصورت بنگلے میں پہنچے جو ایک چوتھے سکیل کے سرکاری ملازم کی ملکیت تھا تو کچھ سکون ہوا۔ اس بنگلے کو دیکھ کر اس کے مالک کے آمدنی کے ذرائع کا بخوبی علم ہوا۔ یہ بنگلہ اپنی نوعیت کا بہترین دیہاتی مکان تھا۔ اس میں وہ تمام سہولتیں بھی میسر تھیں جو گلبرگ کے کسی بنگلے میں موجود ہو سکتی تھیں۔ خاصے بڑے کمرے میں نو چارپائیاں قطار در قطار بچھائی گئی تھیں۔ حضرت صاحب اور قاری زوار بہادر بھی یہاں ہی رات بسر کرنے والوں میں شامل تھے بلکہ میں تو یہ کہوں گا حضرت کے ہمراہ عارف والہ میں بھی ایک رات گزار چکے تھے لیکن قاری زوار بہادر کی ہمراہی ہمیں زندگی میں پہلی بار میسر آ رہی تھی۔ وہ شخص جسے ہم نے کبھی امام کے مصلے پر دیکھا تھا اور کبھی نعت پڑھتے ہوئے پسند کیا تھا اور کبھی سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پایا جس سے ہاتھ تبرک سمجھ کر ملایا کرتے تھے۔ آج اس کے ہم رکاب ہونے کا شرف ہمیں حاصل ہو رہا تھا۔ حضرت صاحب اور قاری صاحب تو کمرے کے آخری حصے میں لیٹ گئے۔ بہرکیف اس کے بعد میرے ساتھ والی چارپائی پر حاجی شریف صاحب آگئے۔ رات چونکہ اپنے انجام کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ حضرت صاحب تو بیٹھ کر تہجد اور وضائف پڑھنے لگے لیکن ہم سب آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگے کیونکہ ان آنکھوں کو صبح سے رات کے اس پہر تک سکون لینے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ خالد تو میلاد کے دوران بھی اونگھتا رہا لیکن میں یہ کام نہ کر سکا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک وجہ یہ تھی کہ میں قاری صاحب کے بالکل ساتھ اور شاہ صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔ میرے اونگھنے کی خبر فوراً شاہ صاحب کو ہوسکتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ محفل میں لطف و سرور ہی اتنا تھا کہ سونے سے جاگنا اچھا لگ رہا تھا۔
    بستر پر لیٹ کر کچھ دیر تک سونے کی کوشش کرتا رہا اور جلد ہی اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ چند گھنٹے سونے کے بعد میری آنکھ اس وقت کھلی جب میرے کانوں میں خالد کے سلام علیکم‘ سلام علیکم کی آواز آئی۔ خالد کا یہ انداز بہت منفرد اور اچھا لگ رہا تھا کیونکہ مجھے اس سے پہلے بھی ایک گھریلو خاتون سے اس قسم کا سابقہ پڑ چکا ہے۔ اتفاق سے جب وہ میرے ہی گھر آئیں اور اس نے علی الصبح اٹھنے والے ہر شخص کو بلند آواز میں سلام کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ لوگ جو ابھی سونا چاہتے تھے وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ چند دن رہنے کے بعد اس خاتون کی عادت بھی ہمارے ہی جیسی ہوگئی۔ آج خالد نے اس خاتون کی یاد کو تازہ کر دیا تھا چونکہ خالد کے ساتھ بھی رہنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ اس لیے اس کے سونے اور جاگنے کی روٹین سے میں بے خبر تھا۔ خالد کا سلام سن کر میں نے آنکھ کھولی تو میری چارپائی کے نزدیک سے کوئی گزر رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ حضرت صاحب ہیں۔ میں نے بھی سلام ٹکا دیا لیکن غور سے دیکھنے کے بعد علم ہوا کہ وہ حضرت صاحب نہیں تھے بلکہ قاری زوار بہادر صاحب باتھ روم سے ہو کر آئے تھے۔ بہرکیف یہ شخصیت بھی تو میرے لیے قابل احترام تھی۔ اس کے بعد باری باری تمام لوگ بستروں سے سر نکالنے لگے اور باہمی گفتگو کا آغاز ہوگیا۔ اس وقت صبح کے پانچ بجے ہوں گے۔ دروازے سے باہر نکل کر دیکھا تو گاؤں کی فضا میں خاموشی اور اندھیرا ہی دکھائی دیا جبکہ سردی بھی خاصی ہو رہی تھی۔ حضرت صاحب نے فیصلہ کیا کہ اندھرے میں گرتے پڑتے مسجد تک پہنچنے کی بجائے اسی کمرے میں نماز پڑھ لی جائے۔ چنانچہ سب نے وضو کر کے باری باری نماز یہیں پڑھ لی اور ایک بار پھر اپنے اپنے بستروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ مجھے تو نیند بھی آ گئی اور پون گھنٹہ خواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہا اور یہاں ہونے والی گفتگو کو بھی سنتا رہا۔ چھ بجے کے قریب میزبانوں کی آمد بھی شروع ہوگئی ۔ حضرت صاحب اور قاری صاحب نے چونکہ لاہور پہنچ کر جمعہ کی نماز پڑھانی تھی۔ اس لیے وہ روانگی کے لیے جلدی کر رہے تھے جبکہ شاہ صاحب انہیں ناشتہ کیے بغیر کسی بھی حالت میں جانے نہیں دے رہے تھے۔ قاری صاحب اپنی گاڑی کی خرابی کا بہانہ بنا رہے تھے لیکن شاہ صاحب کے عزم کے سامنے سب بے بس تھے کیونکہ شاہ کا سب سے بڑا ہتھیار وہ ہلکی سی مسکراہٹ ہے جو ہر کسی کا دل موم کر دیتی ہے۔ بہرکیف حضرت صاحب اور قاری صاحب کے جلد ناشتے کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے ناشتہ کر لیا تو حضرت صاحب‘ شاہ صاحب کے گھر گئے تاکہ اپنے بچوں اور میزبانوں سے الوداعی ملاقات کر لی جائے۔ اس دوران مجھے قاری زوار بہادر صاحب سے بالمشافہ تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع میسر آ گیا۔ میں نے ان سے اہلسنت والجماعت کی تبلغی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کیے۔ قاری صاحب کا موقف تھا‘ اس وقت 47 ملکوں میں ورلڈ اسلامک سنٹر کے تحت تبلیغی کام چل رہا ہے۔ اہلسنت مسلک کی مساجد بھی قائم ہو رہی ہیں اور بیرون ملک پاکستانیوں کے دلوں میں اپنے دین کے بارے میں بڑی تڑپ ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر تبلیغ کرنے اور اس کے مراکز قائم کرنے کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے۔ اتنی بھاری مقدار میں پاکستان کے لوگ تو چندہ دینے سے رہے اور آئے دن نورانی صاحب جو بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں۔ ان کے اخراجات کون پورے کرتا ہے جبکہ ان کے اپنے بقول ان کی کوئی خاص جائیداد یا کاروبار بھی نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ سعودی حکومت نے واقعی ہماری امداد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ہمارے مسلکی اختلاف ہیں۔ ورلڈ اسلامک سنٹر کے تمام تر اخراجات بیرون ملک پاکستانی ہی پورے کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور واقعہ بتایا کہ کہ ایک جگہ وہ بطور نعت خواں مدعو تھے۔ ان کی نعتیں سننے کے لیے لوگ اس قدر مشتاق تھے کہ پورے اڑھائی گھنٹے انہیں اکیلے ہی نعتیں پڑھنی پڑھیں لیکن لوگوں کا اشتیاق کم نہ ہوا۔
     اسی اثنا میں حضرت صاحب آگئے قاری صاحب‘ حضرت صاحب اور ان کے رفیق کار‘ کار میں بیٹھ کر واپس لاہور کی جانب روانہ ہوگئے۔ ہم ابھی ناشتے کے منتظر تھے کیونکہ اب ناشتہ کرنے کی ہماری باری تھی۔ ناشتہ آتے ہی ہم ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں شاہ صاحب کے دو چچا جان جن کا نام سید اشرف شاہ اور سید اسلم شاہ تھا‘ آگئے اور ہم سے شفقت بھرے انداز میں گفتگو کرنے لگے۔ چند سوال ہم نے بھی اس گاؤں کی تاریخ کیحوالے سے کیے جن کے جواب انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ گاؤں کم ازکم دو تین سو سال پرانا ہے۔ اس گاؤں میں تین چار برادریاں رہتی ہیں‘ کشمیری‘ کھوکھر اور سیدوں کے گھرانہ یہاں آباد ہیں چونکہ سیدوں کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے تمام افرادگاؤں کے ہر فرد کے لیے قابل احترام ہیں۔ اس لیے انہیں ہر معاملے میں فوقیت حاصل ہے۔ پانچ سو سے سات گھروں پر مشتمل یہ گاؤں بہت خوبصورت اور اپنی نوعیت کا جدید گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے ساتھ ہی بھمبرنالہ بہتا ہے کہنے کو تو یہ نالہ ہے لیکن اس کی چوڑائی دریا سے بھی زیادہ ہے اور اس میں بہتے ہوئے پانی کی رفتار بہت طوفانی ہوتی ہے۔ یہاں دو قبرستان ہیں‘ ایک قبرستان میں صرف سید گھرانے کے افراد دفن ہیں جبکہ دوسرے میں عام لوگ دفنائے جاتے ہیں۔ سید گھرانے کے لیے جو قبرستان موجود ہے۔ اس پر سرکار ٹوپی والے کا دربار بھی ہے اور شاہ صاحب کے تمام بزرگ یہیں دفن ہیں‘ ہر قبر پر سفید پتھر لگا ہوا ہے۔ یہ بات گاؤں کا ہر شخض جانتا ہے کہ ٹوپی والی سرکار کے دربار پر کانوں والی سرکار ہر روز حاضری کے لیے آیا کرتے تھے اور یہاں جھاڑو دے کر واپس جاتے۔ چنانچہ یہ ظاہر ہوا کہ ٹوپی والی سرکار حضرت کانواں والی سرکار سے بڑے بزرگ تھے۔
    شاہ صاحب کے بزرگوں کی شفقت اور محبت تھی کہ وہ ہم سے باتیں کر رہے تھے۔ ناشتہ کر کے فارغ ہوئے تو گاؤں کی سیر کے لیے چل پڑے۔ ہمارے ساتھ سید گلزار الحسن شاہ صاحب کے علاوہ ان کے چچا سید اسلم شاہ صاحب بھی تھے جن کی ایک ٹانگ بیماری کی وجہ سے کاٹ دی گئی تھی اور وہ ”سٹیل چھڑی“ کے سہارے چلتے تھے لیکن ان کی زندہ دلی دیکھ کر تو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اتنا بڑا حادثہ ان کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ہم چلتے چلتے سیدوں کے قبرستان پہنچے۔ ٹوپی والی سرکار کے مزار کے اندر جا کر دعا مانگی۔ قبر مبارک کو چاروں طرف سے جالیاں لگا کر کور کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی جانور اندر نہ آ سکے۔ ان کے بارے میں سید اسلم شاہ صاحب نے بتایا کہ ٹوپی والی سرکار قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ وہ علم کے سمندر تھے اور گاؤں کے بہت سے بچوں کو انہوں نے قرآن پاک حفظ کروایا تھا۔ اللہ نے ان کو بہت نگاہ دے رکھی تھی وہ جو کچھ کہتے پورا ہو جاتا۔ ان کے ساتھ ہی شاہ صاحب کے والد ‘ ان کے دادا اور دادا کے بڑے بھائی سید عالم شیر گیلانی کے مزار بھی موجود تھے۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہم گاؤں کے باہر چلتے ہوئے بھمبر کے بند کی طرف رواں دواں ہوگئے جن کو دیکھنے کا شوق مجھے کافی عرصے سے تھا۔ کیونکہ بھمبرنالے کے حوالے سے ایک واقعہ جو سید گلزار الحسن شاہ کی ذات سے منسوب تھا اور کئی بار شاہ صاحب کی زبانی سن رکھا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک مرتبہ شاہ صاحب کے والد گرامی سید فضل شاہ صاحب نے سید گلزار الحسن شاہ صاحب جو ابھی دس سال کے ہوں گے ‘کو اپنی زمینوں پر جانے کا حکم دیا جو بھمبرنالے کے دوسری جانب واقع تھیں۔ شاہ صاحب کے والد یہ حکم دیتے وقت اس بات سے بے خبر تھے کہ بھمبر پانی سے چکا ہے اور اس کی طوفانی لہریں خطرے کی حد سے نکل چکی ہیں۔ جب انہیں یہ احساس ہوا تو اس وقت شاہ صاحب گھوڑے پر بیٹھ کر دریا کے درمیان پہنچ چکے تھے۔ یہ بات شاہ صاحب خود بتاتے ہیں کہ گھوڑے کے کان اور ان کا سر ہی دور سے نظر آتا تھا‘ باقی سب کچھ پانی میں ڈوب چکا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر سب نے بند پر کھڑے ہوکر کلمے کا ورد شروع کر دیا اور شاہ صاحب کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جانے لگیں لیکن کسی بھی مرحلے پر شاہ صاحب نے کمسن ہونے کے باوجود بھی ہمت نہ ہاری اور دریا کی چوڑائی رکھنے والے بھمبرنالے کو اپنے والد کے حکم سے پار کرہی لیا۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ آج ہمیں وہ تمام مقامات دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔
    اس دوران شاہ صاحب نے بند پر کھڑے ہو کر دوسرے کنارے پر زمینوں کی نشاندہی کی جو ان کیملکیت تھیں۔ چلتے ہوئے شاہ صاحب کے چھوٹے چچا سید اسلم شاہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ جھنڈ شریف تحصیل کھاریاں میں حافظ علم دین کا مزار ہے جن کی کرامتیں اس علاقے کے لوگوں میں بہت مشہور ہیں۔ اس حوالے سے دو واقعے انہوں نے سنائے کہ ایک مرتبہ دریائے چناب میں شدید سیلاب آیا ہوا تھا‘ آسمان سے طوفانی بارش جاری تھی‘ حافظ صاحب مصلے سے اٹھ کر اپنے مریدوں کو فرماتے ہیں کہ دریائے چناب کے دوسری جانب بندھی ہوئی بھینسیں خطرے میں ہیں جہاں وہ باندھی ہوئیں ہیں‘ ان کی چھت گرنے والی ہے۔ ہمیں فوراً وہاں پہنچنا ہے۔ مریدوں نے کہا کہ حضرت صاحب دریا میں طغیانی ہے اور آسمان سے طوفانی بارش ہو رہی ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایسے حالات میں کیسے دریا کے پار جایا جا سکتا ہے۔ مریدوں کے یہ الفاظ سن کر حافظ علم دین صاحب نے فرمایا کہ چھوڑو ساری باتیں‘ گھوڑے پر سوار ہو کر کہا میرے پیچھے بیٹھو‘ ہم خود چلتے ہیں اور کسی دشواری کے بغیر ہی ڈیرے پر پہنچ گئے۔ مرید کے بقول کہ اس نے راستے میں نہ کہیں دریا دیکھا اور نہ ہی طوفانی بارش کا کہیں سامنا ہوا۔ یہ حافظ صاحب کی کرامت تھی۔ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ہر صبح کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرتے تھے۔ ایک اور کرامت ان کی ظاہر ہوئی۔ کسی نے شادی کے لڈو نکالنے کے لیے کوئی حلوائی بلا رکھا تھا اور وہ حلوائی اپنے کام میں مشغول تھا کہ ادھر سے حافظ علم دین صاحب کا گزر ہوا۔ انہوں نے چند لڈوں کا تقاضا کیا لیکن حلوائی نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ہمت ہے تو ابلتے ہوئے تیل سے نکال کے دکھاؤ۔ یہ سنتے ہی حافظ صاحب نے اپنا ہاتھ ابلتے تیل میں ڈال دیا اور جتنے لڈو کڑاہی میں موجود تھے سب نکال لیے۔ ان کے جانے کے بعد لڈو بننے کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ولی کے ہاتھ لگنے سے آگ کا اثر جاتا رہا اور آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ بہت کوشش کی لیکن لڈو پکنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ جب گھروالوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے حافظ صاحب کے پاس جا کر درخواست کی کہ لڈو بنانے کی اجازت دے کر ناراضگی معاف کر دیں۔ حافظ صاحب مسکرائے اور کہا کہ حلوائی کو فوراً تبدیل کر دو لڈو بننے شروع ہو جائیں گے اور پھر اسی طرح ہوا۔ سید اسلم شاہ صاحب شفقت بھرے انداز میں ہمیں اولیائے کرام کی باتیں بتا رہے تھے اور ہم بڑے انہماک کے ساتھ سب باتیں سن رہے تھے۔ اس طرح چلتے چلتے ہم سید فضل حسن شاہ صاحب کے دربار عالیہ پر پہنچ گئے جو ڈیزائن کے لحاظ سے بھی بڑا منفرد تھا اور اونچائی بھی خاصی تھی۔ بھمبر بند کے بالکل قریب واقع تھا مزار والے بزرگ بھی سید گلزار الحسن شاہ صاحب کے بزرگوں میں سے تھے۔ اس بزرگ کے نو بیٹے ہیں جن کے نام یہ ہیں: سید اعجاز حسین شاہ‘ سید افتخار حسین شاہ‘ سید امتیاز حسین شاہ‘ سید مختار الحسن شاہ‘ سید محمد فیض الحسن شاہ‘ سید محمود الحسن شاہ‘ سید وقار الحسن شاہ‘ سید رخسار الحسن شاہ اور سید محمد زاہد الحسن شاہ۔
    ان میں دو کے ساتھ تو ہماری بالمشافہ ملاقات ہو چکی ہے‘ بہت ہی پیاری شخصیت ہیں۔ صاحبزادوں کے حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے والد گرامی کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے کہ وہ کس مرتبے کے بزرگ ہوں گے۔ یہ مزار ان کی اپنی زمین پر ہے یہیں تلوں کے پودے بھی دیکھے تل سوکھنے کے لیے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ چند تل میں بطور نمونہ گھر بھی لے آیا۔ یہاں سے ٹانگے میں بیٹھ کر سادہ چک جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک بزرگ نے چھتیر کو ہاتھ پھیر کر لمبا کر دیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کونسا روز روز یہاں آنا ہے اگر یہ کرامت بھی دیکھ لی جائے تو زیارت کے ساتھ ساتھ سعادت بھی حاصل ہو جائے گی۔ سید اسلم شاہ صاحب جن کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر وہ گھوڑے کی دم کو پکڑ لیں تو گھوڑا بھاگ نہیں سکتا اور اس کا عملی مظاہرہ بھی وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ ہم سے الوداعی ملاقات کر کے چل پڑے سادہ چک سید گلزار الحسن شاہ صاحب کا ننھیال گاؤں ہے اور اب بھی اس گاؤں میں شاہ صاحب کے ماموں رہتے ہیں اور ایک بہن کی شادی بھی یہیں ہوئی ہے۔ ٹکاٹک کرتا ہوا ٹانگہ گجرات شہر پہنچ گیا۔ مسلم بازار میں پیدل سیر کر کے سرکلر روڈ سے ایک بار پھر ٹانگہ لیا تاکہ سادہ چک بھی دیکھ لیا جائے۔ آدھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم سادہ چک پہنچے وہاں ٹانگے سے اترتے ہی ہمیں خاصی بڑی مسجد دکھائی دی۔ شاہ صاحب کا ایک نوجوان عزیز جس کا نام عباس تھا‘ مل گیا۔ اس کے ساتھ ہم مسجد میں داخل ہوئے کیونکہ وہ چھتیر یہی نصب ہے جس کا ہر سو چرچا ہے۔ 6 انچ چوڑائی اور 10 انچ لمبائی کے 42 چھتیر نما بالے اب بھی موجود تھے حالانکہ باقی ماندہ مسجد میں بھی پہلے یہی چھتیر پڑا ہوا تھا۔ مسجد میں سید محمد صالح رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت کے عنوان سے سارا واقعہ لکھا ہوا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ قریب ہی دریائے چناب بہتا ہے جس میں بہت بڑا چھتیر کنارے آ کر لگ گیا جسے نکالنے کی لیے حکومت سمیت ہر کسی نے کوشش کی لیکن وہ چھتیر باہر نہ نکلا۔ تھک ہار کر حکومت نے اعلان کر دیا کہ جو نکال لے وہی چھتیر کا مالک سمجھا جائے گا۔ ادھر سید صالح محمد صاحب اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کے منصوبے سوچ رہے تھے کہ چھت پر ڈالنے کے لیے چھتیر کہاں سے آئیں گے۔ مریدوں نے آ کر سارا ماجرا سنایا تو حضرت سید محمد صالح رحمتہ اللہ علیہ دریا کے کنارے گئے اور اپنی کھنڈی سے کھینچ کر چھتیر گاؤں کی دہلیز تک لے آئے یہاں سے مزدوروں اور دوسرے لوگوں نے مسجد تک پہنچایا۔ کہتے ہیں کہ چھتیر کے ساتھ ساتھ پانی بھی آتا گیا اور چھتیر کو چھوڑ کر پانی واپس اپنی جگہ چلا گیا۔ جب مسجد تیار ہو چکی تو مستریوں نے بتایا کہ چھتیر کی لمبائی ڈیڑھ دو فٹ کم ہے۔ حضرت سید محمد صالح رحمتہ اللہ علیہ نے ہاتھ پھیر کر اس چھتیر کو مطلوبہ لمبائی سے بھی ڈیڑھ فٹ زیادہ کر دیا۔ آج بھی وہ چھتیر پختہ دیوار میں چنا ہوا نظر آتا ہی۔
    اس کے بعد حضرت خواجہ پیر معصوم شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت سید محمد حسین شاہ صاحب سے بالمشافہ ملاقات بھی کی۔ وہ کھانے کے لیے اصرار کرتے رہے لیکن ہماری جانب سے مسلسل انکار سن کر وہ خاموش ہوگئے۔ ان کے نیاز حاصل کرنے کے بعد قریب ہی بنے ہوئے مزاروں پر حاضری دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت پیر معصوم شاہ ان کے بزرگوں حضرت پیر جلال الدین شاہ گیلانی قادری اور حضرت پیر سید عبد الواسع شاہ جو دس سو ہجری میں بغداد شریف سے تشریف لائے تھے۔ ان کے مزارات پر حاضری دی اور ان کا فیض حاصل کیا۔ پھر سید باغ علی شاہ (جو مجذوب کے لقب سے مشہور ہیں اور جن کی قبر دفنانے کے بعد کھودی گئی تھی) کے مزار پر بھی حاضر ہوئے۔ یہ قصہ بھی عام ہے کہ سید باغ علی شاہ کو پہلے گجرات شہر میں دفن کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے دفن کرنے والے کو خواب میں بشارت دے کر کہا کہ جاؤ میرے خاندان والے ”سادہ چک“ میں رہتے ہیں اور نام بھی بتا دیا ۔ انہیں جا کر بتاؤ کے سید باغ علی شاہ گجرات شہر میں مدفن ہیں۔ ان کی لاش نکال کر گاؤں میں سیدوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفن کرو۔ چنانچہ اس وقت خاندان کا بڑا شخص قبر کھودنے کی اجازت لینے کے لیے گیا تو ڈپٹی کمشنر نے اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ لاش خراب ہو چکی ہوگی۔ سید خاندان کے فرد نے کہا کہ اگر لاش ہمارے خاندان کی ہے تو خراب نہیں ہوگی۔ اگر کسی اور خاندان کی لاش ہوئی تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے چنانچہ ان دلائل کے بعد قبر کھودنے کی اجازت مل گئی اور تھانیدار قبر سے کافی دور جا کر کھڑا ہو گیا کہ لاش سے بدبو آئے گی۔ جب قبر کھودی گئی تو لاش بالکل صحیح سلامت تھی‘ بدبو کی بجائے خوشبو کی پھوار نکل رہی تھی۔ تھانیدار کو بلا کر دکھایا گیا جو حیران ہوا۔ اس طرح سید باغ علی شاہ کی میت تین دن تک لوگوں کی زیارت کے لیے رکھنے کے بعد انہیں سیدوں کے لئے مخصوص قبرستان میں دفن کر دیا۔ ان کے مزار پر کھڑے ہو کر عجیب سا الگ رہا تھا۔ یہ سب بزرگ سید گلزار الحسن شاہ صاحب کے خاندان سے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا مرتبہ و مقام کس طرح بلند ہو جاتا ہے۔ سادہ طبیعت کے مالک‘ حسن اخلاق کے پیکر‘ سخی و ثروت‘ شاہ صاحب ایک عام سی طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کی سادگی ہی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔ یہاں سے فارغ ہو کر ان کے ماموں کے گھر چلے گئے جو کانوں سے تھوڑا کم سنتے تھے لیکن بولتے وقت پھول بکھرتے تھے۔
    ان سے بات کرنے کا ایک مخصوص طریقہ تھا اور یہ طریقہ صرف عباس شاہ کو ہی آتا تھا۔ یہیں پر ہمیں سید گلزار الحسن شاہ صاحب کے والد گرمی کی تصویر دیکھنے کو ملی حالانکہ میں اس سے پہلے بھی شاہ صاحب سے ان کے والد گرامی کی تصویر کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں پڑ رہی تھی- بہرکیف یہ حسرت یہاں پوری ہو گئی تھی۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ اس وقت ان کے ماموں ہی خاندان کے بڑے ہیں‘ باقی تمام لوگ ان سے چھوٹے ہیں۔
    سادہ چک‘ موضع کھیپڑانوالہ سے کافی بڑا تھا۔ اندرون شہر کی طرح اس کی گلیاں بہت چھوٹی تھیں جہاں صرف پیدل ہی چلا جا سکتا تھا۔ کوئی سواری ان میں داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ چائے تیار ہونے میں خاصی دیر لگ گئی حتیٰ کہ حاجی شریف صاحب کو خود کہنا پڑا کہ چائے میں اگر دیر ہے تو ہمیں اجازت دیجیے لیکن عباس علی نے ٹھہرنے کو کہا شاہ صاحب کے بقول یہاں سے چائے پینے کے بغیر نہیں جایا جا سکتا۔ کیونکہ اس طرح ان کے ماموں جان ناراض ہو جائیں گے جو صرف ہماری خاطر طبیعت کی ناسازی کے باوجود یہاں آ کر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ دیر بعد عباس شاہ صاحب چائے سے مزین ٹرے اٹھا کر لے آئے جس میں بسکٹوں کے علاوہ ابلے ہوئے کٹے انڈے بھی موجود تھے۔ یہ تکلف یقینا ان کے خاندان کی میراث تھی۔ بہرکیف ہم سب نے چائے پی اور ضرورت کے مطابق بسکٹ اور انڈے بھی کھائے پھر اجازت لے کر وہاں سے نکل پڑے۔ ان تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم مین سڑک پر آ گئے۔ مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے وعظ شروع ہو چکا تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر واقع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھیں لیکن سڑک پر وہاں جانے کے لیے کوئی ٹانگہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ دس پندرہ منٹ انتظار میں گزار دیئے۔ اتنے میں پونے دو کا وقت ہو چکا تھا چنانچہ یہیں پر حضرت سید محمد صالح رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور مسجد میں آ کر بیٹھ گئے۔ دو بجے جماعت کھڑی ہوگئی۔ نماز پڑھنے کے فوراً بعد ہم مین سڑک پر آ گئے تاکہ شہر جانے کے لیے ٹانگہ تلاش کیا جائے جلد ہی ٹانگہ آ گیا ہم اس میں سوار ہوگئے۔ موضع کھیپڑانوالہ سے یہاں تک میں فرنٹ سیٹ پر ہی سفر کرتا آیا تھا لیکن اب شاہ صاحب کے احترام کے باعث میں اور محی الدین پیچھے بیٹھ گئے جبکہ شاہ صاحب‘ حاجی شریف اور خالد فرنٹ سیٹ پر موجود تھے۔ مین سڑک کے دونوں جانب بنی ہوئی آبادی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ سادہ چک اس لحاظ سے دوسرے قصبات سے مختلف نظر آیا کیونکہ یہاں پر گورنمنٹ ہائی سکول اور سرکاری ہسپتال بھی موجود تھا یہ سہولتیں کسی عام قصبے کو میسر نہیں تھیں۔ سادہ چک اور گجرات کے درمیان میں ایک بھمبرنالہ آ گیا جسے نمبر2کہتے ہیں۔ سرزمین گجرات کے ہر گوشے میں لہلہاتی ہوئی فصلیں نظر آ رہی تھیں۔ یہ اس علاقے کی خوش بختی ہے کہ یہاں اردگرد بزرگوں کے ڈیرے لگے ہوئے ہیں جن کا فیضان سرزمین گجرات کے چپے چپے پر پھیلا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شاہ صاحب کے چچا جان سید اسلم شاہ صاحب نے 1965ء کا واقعہ سنایا تھا کہ جب بھارتی جہازوں نے گولہ باری کی تو کئی گولے پھٹ ہی نہ سکے اور جو پھٹے اس سے کوئی نقصان نہ ہوسکا۔ اس سرزمین پر حضرت شاہ دولہ دریائی‘ حضرت کانواں والی سرکار‘ حضرت ٹوپی والی سرکار‘ حضرت خواجہ معصوم‘ حضرت سید باغ علی شاہ صاحب‘ حضرت پیر جلال الدین شاہ گیلانی قادری‘ حضرت پیر سید عبدالواسع شاہ صاحب‘ حضرت حافظ علم دین جیسی عظیم روحانی ہستیاں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگ بہادر‘ پرعزم اور باوفا ہوتے ہیں۔ اسی سرزمین کے سپوت 1965ء کی جنگ میں بہادری کے ناقابل یقین کارنامے انجام دے چکے ہیں۔
    گجرات شہر پہنچ کر شاہ صاحب ٹانگے سے اتر گئے ان سے فرداً فرداً معانقہ کیا اور ہمارا ٹانگہ پرانے اڈے کی طرف چل پڑا جہاں سے ہمیں لاہور روانہ ہونا تھا۔ گجرات کے دورے کے دوران مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس شہر کے اردگرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد کا پہرہ ہے۔ ان کے لیے الگ قبرستان بنے ہوئے ہیں جہاں پہنچ کر روح کی تسکین ہوتی ہے۔ حضرت سید گلزار الحسن شاہ صاحب سید گھرانے کے فرد ہونے کی حیثیت سے ہم سب کے لیے پہلے ہی بہت محترم تھے لیکن اب ان کی قدر ومنزلت ہماری نظر میں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان کی شخصیت میں شرافت‘ دیانت اور سخاوٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہر کسی کے لیے ان کے دل میں پیار اور احترام کے جذبات ہیں۔ ہمارے تو وہ استاد ہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیں اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ہمیں شرم آنے لگتی ہے۔ ان کے چچا سید اسلم شاہ صاحب کی شخصیت اور ان کی بہادری نے ہمیں بہت متاثر کیا۔ ایک ٹانگ کٹ جانے کے باوجود وہ ایک بہادر شخص نظر آیا۔ ابھی پچھلے دنوں کا واقعہ ہے کہ ڈاکو ان کی بھینسیں اور گائیں رات کے وقت چوری کر کے بھمبرنالے میں اتر گئے۔ جب ان کے بچے نے اٹھ کر دیکھا تو مویشی غائب تھے۔ اس نے اپنے باپ سید اسلم شاہ صاحب کو جگایا‘ اس وقت رات کا 1بج رہا تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا لیکن ڈاکووں سے خوف کھانے کی بجائے شاہ صاحب کے چچا نے بہادری کے وہ کرشمے دکھائے کہ سننے والے کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مسجد کے سپیکر میں اعلان کر دیا گیا کہ گاؤں پر ڈاکوؤں کا حملہ ہو چکا ہے۔ گاؤں کے لوگ اپنا اپنا اسلحہ لے کر نکل آئے۔ سید اسلم شاہ صاحب نے اپنے تجربے کی بنا پر گاؤں کے لوگوں کو ڈاکوؤں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھیج دیا اور خود بند پر بندوق پکڑ کر کھڑے ہوگئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ ڈاکوؤں پر جب چاروں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی تو گھبرا گئے اور بھمبرنالے میں ہی تمام بھیسنیں اور گائیں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اس طرح انہوں نے اپنی ذہانت اور بہادری کی بدولت ڈاکوؤں کا حملہ ناکام بنا دیا۔ میرے ذہن سے ابھی کھیپڑانوالہ کی یادیں محو نہیں ہوئی تھیں کہ لاہور جانے کے لیے فلائنگ کوچ تیار ہوگئی۔ پونے چار بجے فلائنگ کوچ روانہ ہوئی اور شہر گجرات کو الوداعی نظروں سے دیکھ کر خدا حافظ کہا۔ کچھ ہی دیر بعد کوچ دریائے چناب کے پرانے پل پر پہنچ گئی چونکہ دریار تو بالکل خشک تھا۔ اس لیے تجسس سے نظر دوڑائی اور وہاں سے گزر گئے۔ میرے ساتھ چونکہ حاجی شریف صاحب بیٹھے ہوئے تھے جبکہ پچھلی نشست پر راز و نیاز میں کھوئے ہوئے خالد نظام اور محی الدین موجود تھے۔ ان کی کھسرپھسر سنائی تو دے رہی تھی لیکن بات پوری طرح سمجھ نہیں آتی تھی۔ دراصل کل رات کے واقعے کے بعد ان دونوں میں محبت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ ایک کو مارنے سے دوسرا چیخنے لگتا تھا جس طرح خالد کہتا محی الدین اسی طرح اس پر عمل کرتا۔ ان کی اچانک محبت نے صرف مجھے ہی پریشان نہیں کیا بلکہ حاجی شریف صاحب بھی وقتاً فوقتاً اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ پانچ بجے ہم گوجرانوالہ پہنچے لیکن یہاں ٹھہرے بغیر ہی لاہور کی جانب روانہ ہوگئے اور شام سات بجے لاہور پہنچ گئے۔ سیون اپ چوک جب ہم اترے تو اس کے ساتھ ہی اس خوشگوار سفر کا اختتام ہوگیا۔ صرف دو دن اپنے گھر سے دور رہے تھے اس بنا پر ہر چیز اجنبی سی دکھائی دے رہی تھی۔ بہرکیف اس سفر سے ہماری اس خواہش کی تکمیل ہوگئی جو عرصہ دراز سے ہمارے دل میں مچل رہی تھی۔



حضرت صوفی بندے حسن خاں
(بھی داغ مفارقت دے گئے)

    1947میں برصغیر پاک و ہند میں پاکستان کے نام سے جب نو آزاد مملکت معرض وجود میں آنے لگی تو فوج میں شامل مسلمانوں کے سامنے تین آپشن رکھے گئے۔ بھارت میں رہتے ہوئے بھارتی فوج کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان چلے جائیں اگر یہ دونوں پیشکشیں قبول نہیں تو فوج کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر اپنے گھر چلے جائیں جب یہ پیشکشیں پٹھان پروا ، فیض آباد کے رہنے والے دو سرفروشوں کو کی گئی تو ایک سرفروش (جس کا نام مستقیم خاں تھا) اس نے یہ کہتے ہوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا کہ وہ بھارت میں رہ کر کسی ہندو یا سکھ افسر کا حکم ماننے کی بجائے پاک سر زمین پر بسنے والے مسلمان بھائیوں کی چاکری کو زیادہ پسند کریں گے۔ جب اس فیصلے کی خبر مستقیم خاں کے چھوٹے چچیرے بھائی بندے حسن خاں کو ہوئی تو انہوں نے یہ دیکھے بغیر کہ ان کے والدین بہن بھائی اور آباؤ اجداد صدیوں سے اس سرزمین پر آباد چلے آ رہے ہیں۔ ان سب کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا تلخ اور مشکل فیصلہ کر لیا۔ اس وقت بندے خاں کی عمر بمشکل 21سال ہوگی۔ شاد ی کو بھی چندماہ ہی گزرے تھے۔ ان حالات میں بندے حسن خاں کا فیصلہ ناقابل فہم تھا۔ والدین بہن بھائیوں نے بہت سمجھایا کہ جس سر زمین پر آپ نے جانے کا فیصلہ کیا ہے نہ جانے اس کا مستقبل کیا ہو وہاں کیسے حالات کا سامنا کرنے پڑے۔ ان حالات میں جب نئے ملک میں کوئی بھی اپنا عزیز و اقارب نہ ہو دکھ سکھ کا ساتھی نہ ہو وہاں اپنوں کے بغیر کیسے زندگی گزارو گے۔ والدین اور بہن بھائیوں کے خدشات اپنی جگہ درست تھے بیس اکیس سال کی عمر کے نوجوان کے فیصلے کو اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی کہ ان میں پیش آمدہ حالات کو سمجھنے پرکھنے اور دیکھنے کا شعور نہیں ہوتا اور جذبات ہر فیصلے پر حاوی ہو جاتے ہیں۔1928 کو بھارت کے شہر فیض آباد کے نواحی قصبے پٹھان پروا میں پیدا ہونے والے اس نوجوان کے لیے حقیقت میں یہ بہت مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن انہوں نے اپنوں کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اس وقت پاکستان کو تجربہ کار فوجیوں کی اشد ضرورت تھی۔ اس فیصلے کے پیچھے یہ جذبہ بھی کار فرما تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کی تابعداری کرنے کی بجائے اپنے مسلمان بھائیوں اور پاک سرزمین کی حفاظت ان کے نزدیک زیادہ مقدس فریضہ تھا۔
    پھر مستقیم خاں اور بندے حسن خاں ایک ٹرین کے ذریعے بھارت سے 9نومبر1947 کو لاہور پہنچے۔ یہاں ان کے ساتھ آنے والے ایک اور بھائی لال خاں بھی تھے جو بعد میں حید آباد جا بسے۔ مستقیم خاں اور بندے حسن خاں کو پاک فوج کی میڈیکل کور میں جگہ مل گئی۔ ہندوستان میں انہیں19روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی پاکستان میں 29روپے ملنے لگی۔ یہ دونوں بھائی 20روپے بھارت میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو بھجوادیتے باقی 9روپے میں سارا مہینہ بسر کر تے۔ ان کے بقول9روپوں میں سے دو ایک روپے بھی بچ جاتے تھے۔
    1954 کو مستقیم خاں کو پاک فوج سے جبری ریٹائرڈ کردیا گیا۔ جب انہوں نے کرنل انچارج کے روبرو یہ کہا کہ وہ تو پاکستان میں اپنا گھر بار والدین چھوڑ کر آئے تھے کہ اس نو آزاد ملک کو اپنی صلاحیتوں سے آباد اور شاداب کر یں گے تو متعلقہ کرنل نے جواب دیا کہ آپ کا جذبہ بے شک عظیم ہے لیکن یہ پاکستان ہے مسافر خانہ نہیں۔ مستقیم کے بقول اس دن کرنل کے ان الفاظ نے ان کے دل کو چھری کی طرح چیر کے رکھ دیا۔ انہیں پاکستان آنے کے فیصلہ پر شدید دکھ ہوا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اس اجنبی ملک میں اپنا گھر بسایا۔دو شادیاں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد کی نعمت سے مالا مال کیا۔آج و ہ شخص ڈیرھ درجن پوتوں اور نواسوں کا وارث ہے۔
    بندے حسن خاں نے پاک فوج میں اپنی خدمات کا سفر جاری و ساری رکھا۔1962 میں انہیں بھی لانس نائیک کی حیثیت سے میڈیکل کور سے ریٹائرڈ کر دیا گیا۔ فوج کی سروس کے دوران وہ لاہور کے علاوہ نوشہرہ، ایبٹ آباد، ٹل اور کوئٹہ بھی تعینات رہے۔
    1965 کی پاک بھارت جنگ جب شروع ہوئی تو ان کو ایک مرتبہ پھر فوجی خدمات کے لیے طلب کر لیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد واپس بھیج دیا گیا۔
    فروری1950 میں بندے حسن خاں کی شادی بھارت سے ہی نقل مکانی کرکے آنے والے خاندان کی بیٹی رصفا نو بیگم سے ہوگئی۔ 1951 میں سب سے پہلے بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام زہرہ رکھا گیا پھر دسمبر1953 کو اس گلشن میں ایک پھول کھلا جس کا نام مشتاق احمد خاں رکھا گیا۔
    1955 کا سال اس لیے بھی اہم تصور کیا جاتا ہے کہ بندے حسن خاں خاندان کے کچھ اور لوگ بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے بھارت سے لاہور پہنچے۔ ان میں ان کے سگے بھائی تقی خاں، چچیرے بھائی رفیع خاں، سب سے بڑے بھائی کے بیٹے غلام مصطفےٰ خاں اور بندے حسن خاں کی پہلی بیوی بھی شامل تھی۔ اپنے خونی رشتہ داروں کی آمد یقینا بندے حسن خاں کے لیے نہایت خوش کن تھی۔ لیکن ایک ہی گھر میں دو بیویاں اکھٹی ہونے پر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ پہلی بیوی گھر پر حکمرانی کا اپنا حق جتا رہی تھی جبکہ دوسری بیوی رصفانو بیگم اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔ اس دوران پہلی بیوی کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام عائشہ رکھا گیا روز بروز لڑائی جھگڑے سے تنگ آ کر بندے حسن خاں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی۔ جس پر وہ بندے حسن خاں کا گھر چھوڑ کر تقی خاں کے گھر شفٹ ہوگی حالات کی ناساز گاری کو سازگار بنانے کے لیے چچیرے بھائی رفیع خاں نے بندے حسن خاں کی پہلی بیوی سے نکاح کر لیا اور ان کے بطن سے بدر خاں پیدا ہوا۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہ پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارت اپنے گاؤں پٹھان پروا چلی گئی اور وہاں کچھ عرصہ زندہ رہنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔
    بندے حسن خاں جو اکیلے ہی بھارت سے پاک سر زمین پر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کثیر اولاد سے نوازا۔ عائشہ کو ملا کر ان کی اولاد کی تعداد پندرہ بنتی ہے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ادویات کی سپلائی کو ذریعہ معاش کے طور پر اپنایا اور بہت عرصہ تک یہ کام کرتے رہے۔ دین کی طرف رغبت تو بچپن سے ہی تھی۔ میرے سوال کے جواب میں انہو ں نے خود بتایا کہ شعور کی حالت میں ان سے صرف تین جمعہ کی نمازیں چھوٹ گئی تھیں اور چھوٹنے کی وجہ ٹانگ کی ہڈی کا ٹوٹناتھا۔ ساٹھ کے عشرے میں ہی چند دوستوں نے انہیں دور حاضر کے کامل ولی اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ ان دنوں حضرت خواجہ معصوم اور حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری کا بہت چرچا تھا۔یہ مشورہ انہیں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دونوں میں سے جو انہیں بلائے گا۔ ان کے ہاتھ پر وہ بیعت کر لیں گے۔ لڑکپن سے ہی کثرت سے درودپاک پڑھنا ان کی عادت میں شامل تھا۔ کیونکہ دلوں کو درود پاک سے زیادہ سکون کوئی اور کلام نہیں دے سکتا۔کسی نے علامہ محمد اقبال سے پوچھا کہ برصغیر پاک و ہند میں شاعر تو بہت ہیں لیکن آپ کو جو مقام حاصل ہے۔ اس کی آخر وجہ کیا ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے فرمایا میں نے تین کروڑ مرتبہ درود پاک پڑھا ہے۔ درود پاک کی برکتوں سے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دنیا میں انہیں بلکہ آخرت میں بھی بخشش سے نواز رکھا ہے کشف قبور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ ایک دن وہ علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضر ہوئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ علامہ اپنی قبر میں بھی درود پاک کا ورد فرما رہے تھے۔ ان کی گلو گیر آواز میں گریہ زاری بہت تھی۔ اسی لیے تو بزرگ فرماتے ہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی قبریں، قبر نہیں ہوتیں بلکہ جنت کے باغوں میں سے باغ ہوا کرتی ہیں جس میں وہ ہر لمحے اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔
    بہرکیف بندے حسن خاں کو ایک رات خواب میں کرماں والوں (حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری) کی زیارت ہوئی۔ کرماں والوں نے فرمایا کہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ ہماری طرف کیوں نہیں آتے ۔ خواب میں اشارہ پا کر آپ اگلی صبح بذریعہ ٹرین حضرت کرماں والوں کی خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے۔ اتنے بڑے ہجوم میں بندے حسن خاں کو بھی جگہ مل گئی لیکن بزرگوں کی نشست سے ان کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ پھر جونہی حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری اپنے لیے مخصوص جگہ پر آکر بیٹھے تو انہوں نے حکم دیا کہ لاہور سے آنے والے لوگ آگے آ جائیں۔ یہ سن کر بندے حسن خاں بھی کرماں والوں کے نزدیک پہنچ گئے۔ چند ہی لمحوں بعد بزرگوں نے فرمایا بیلیا تمہیں کس نے بلایا ہے۔ بندے حسن خاں نے کہا آپ نے! اس پر حضرت کرماں والوں نے فرمایا تو تم ہمارا مرید ہونا چاہتے ہو۔ بندے حسن نے کہا آپ کی غلامی حاصل کرنے کے لیے ہی تو یہاں آیا ہوں۔ حالانکہ اس وقت آپ کلین شیو تھے اور حضرت کرماں والے بغیر داڑھی والوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے کہا اچھا بیلیا تم آج سے ہمارے مرید ہو۔ تہجد کے علاوہ پانچوں نماز پڑھنی ہے۔ داڑھی رکھنے کے ساتھ ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھنا ہے۔ گناہ کبیرہ سے حتی المقدور بچنا ہے۔ ان چند نصیحتوں کے بعد آپ کو واپس لاہور جانے کا حکم مل گیا۔ بندے حسن بتاتے ہیں کہ انہو ں نے اپنی زندگی میں صرف دو بار اپنے مرشد سے بالمشافہ ملاقات کی اور ان سے فیض حاصل کیا۔
    واپس آ کر بندے حسن خاں کی زندگی ہی بدل گئی ایک رات خواب میں مرشد پاک نے حکم دیا کہ بیلیا اگر تم باآسانی کرماں والے نہیں آسکتے تو لاہورمیں حضرت گوہر پیر کے دربار پر ہی حاضری دے لیا کرو۔ وہاں سے بھی تمہیں فیض ملتا رہے گا۔ چنانچہ آپ باقاعدہ ہر جمعرات کی شام حضرت گوہر پیر کے دربار پر جانے گئے۔ جب چالیس جمعراتوں کے بعد حضرت گوہر پیر سے فیض یاب ہونے کا وقت قریب آیا تو شدید طوفان نے آپ کو آگھیرا۔ بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ آپ اس شام حضرت گوہر پیر کے دربار پر پہنچ سکتے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو نوازنا ہو تو مشکلات کے ساتھ ساتھ آسانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ جب آپ حضرت گوہر پیر کے دربار پر پہنچے تو وہ اپنی قبر سے نکل کر مزار کے دروازے میں کھڑے مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تم آزمائش میں پورے اترے ہو اور ہر مشکل سے گزر کر میرے پاس پہنچے ہو تو فیض حاصل کرنا آپ کا حق ہے۔ پھر رازو نیاز کی باتیں ہوئیں اور منزلیں آسان ہوگئیں۔
    کسی کسی جمعرات حضرت گوہر پیر کی سواری صوفی بندے حسن خاں کے اس کمرے میں آنے لگی جو عبادت الہیٰ کے لیے انہوں نے مخصوص کر رکھا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ چونکہ مجھ سے وہ بہت پیار کرتے تھے اس لیے اکثر اوقات اپنی ظاہری اور باطنی کیفیات مجھ پر عیاں کرتے رہتے تھے۔
    میں سمجھتا ہوں ان کا یہ مجھ پر احسان تھا کہ انہوں نے مجھے اپنی سب سے ہونہار بیٹی (عابدہ) کے لیے پسند فرمایا۔ بہنیں تو عابدہ کی سبھی پاکباز اور سگھڑ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو خوبیاں عابدہ میں ودیعت کر رکھی ہیں۔ وہی اسے باقی بہنوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ صوفی بندے حسن خاں نے ایک اور احسان یہ کیا کہ جس وقت میں گھر سے بے گھر تھا۔ انہوں نے کئی ماہ تک ذہنی و جسمانی اور مالی مشقت کر کے مجھے گھر والا بنایا۔ جس میں آج میں اور ان کی بیٹی راحت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ کردار تو میری ساس کا بھی اس حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ لیکن سسر‘ بندے حسن خاں کی سرپرستی کو کبھی فراموش نہیں کیاجا سکتا۔
    گھر میں ان کا یہ روٹین تھا کہ وہ پہلے تہجد پڑھتے ۔ پھر قرآن مجید کی تلاوت کرتے نماز فجر کے بعد اپنے اور محلے کے بچے بچیاں ان کے پاس قرآن پاک پڑھنے آیا کرتے ہیں۔ صوفی خاندان کے تقریباً تمام بچوں نے انہی سے قرآن پاک پڑھا۔ ہر صبح نماز فجر کے وقت ہاتھ میں مضبوط ڈنڈا لیے وہ گھر کے تمام کمروں تک خود جاتے اور ہر بند دروازہ کٹھکھٹا کر کہ زور دار آواز میں اپنے بیٹوں کو نماز پڑھنے کے تلقین کرتے۔ ان کی وجہ سے گھر میں چونکہ ڈسپلن اور نظم و ضبط بہت زیادہ تھا۔ اس لیے کوئی بھی ان کی حکم عدولی کا تصور نہ کرتا۔ گھرکے کچھ افراد تو اٹھ کر نماز فجر پڑھ لیتے۔ بالخصوص اشفاق اور نثار باپ کے خوف سے نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکل تو جاتے لیکن مسجد جانے کی بجائے گھر سے کچھ فاصلے سے ہوکر واپس لوٹ آتے اور آ کر ایک بار پھر سو جاتے۔ حالانکہ باپ کے احکامات کے ساتھ یہ سراسر دھوکہ تھا لیکن بچپن اور لڑکپن میں ایسی حرکات سرزد ہو ہی جاتی ہیں۔
    خلق خدا کا درد ان کے دل میں اس قدر تھا کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہ میں چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کر رکھی تھی۔انتہائی محدود وسائل کے باوجود انہوں نے اس ڈسپنسری کو جاری و ساری رکھنے کے لیے کسی سے مدد کی درخواست نہیں کی بلکہ اپنی جیب سے ادویات خرید کر اس میں رکھتے۔ اس ڈسپنسری کا انچارج میری ہونے والی بیوی عابدہ کو بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت جانفشانی سے محلے کے غریب لوگوں کے لیے باپ کی ہدایت کے مطابق دوائی تیار کرتی۔ چونکہ یہ سارا کام خالصتاً انسانی خدمت کے جذبے کے تحت ہو رہا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس میں شفا بھی شامل کر رکھی تھی۔
    ان کی مجھ سے محبت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے اپنی زندگی کی جو چند راتیں ان کے ہاں بسر کیں صبح ان کی دستک سے پہلے میں ہی انہیں بیدار ملتا اور ہر نماز باقاعدگی سے پڑھتا۔ جبکہ باقی دامادوں کو یہ مرتبہ اور عزت حاصل نہیں تھی وہ اکثر مجھ سے سیاسی اور ملکی معاملات پر بھی گفتگو کرتے رہتے اور ہمیشہ میری ہی رائے کو پذیرائی بخشتے۔
    ایک دن میں اور آصف ویڈیو پر ٹائی ٹینک فلم دیکھ رہے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب اس فلم کے ہر طرف چرچے تھے اور پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ٹائی ٹینک کا نام تھا۔میں نے آصف کو کہا کہ سینما تو میں نہیں جاؤں گا اگر گھرمیں دیکھنے کے لیے مل جائے تو چند گھنٹے اس فلم کی نذر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ آصف چونکہ میرا اچھا دوست بھی ہے اس لیے اس نے بطور خاص میرے لیے یہ اہتمام کیا تھا۔ اس فلم میں چند مناظر قابل اعتراض بھی تھے۔ جونہی وہ منظر سکرین پر چلنے لگتا تو آصف اپنے ریموٹ سے منظر تو غائب کر دیتا۔ لیکن ایک جھلک نہ چاہنے کے باوجود بھی آنکھوں میں اتر جاتی۔ خالو واپس اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ آدھے گھنٹے کے بعد خالو پھر ٹی والے کمرے میں داخل ہوئے تو ہیرو ہیروین کے پیچھے بے تابی سے بھاگ رہا تھا۔ آصف نے پھر اس سین کو کٹ کر دیا۔ تیسری مرتبہ جب خالو کمرے میں داخل ہوئے تو ٹائی ٹینک جہاز ٹوٹ رہا تھا اور جہاز میں حشر کا سماں برپا تھا۔ خالو نے آتے ہی پوچھا کیا ہوا۔ میں نے کہا سمندری طوفان کی وجہ سے جہاز ٹوٹ رہا ہے۔ خالو نے ایک ہی فقرے میں بات ختم کر دی کہ جہاز میں جو کچھ ہو رہا تھا اسے ٹوٹ ہی جانا چاہئے تھا۔ ان کی یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے۔
    خالو مزاج کے اعتبار سے انتہائی سخت تھے لیکن بہوؤں کے معاملے میں انتہائی نرم۔ کئی مرتبہ قصور وار بہو ہونے کے باوجود اپنی بیوی کو ڈانٹ دیتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ نے ان کو بیوی بھی انتہائی فرماں دار، بردبار اور نیک شعار عطا فرمائی تھی کہ جس نے سخت سنگدستی اور بعض اوقات پیدا ہونے والے ناخوشگوار حالات کے باوجود ہر لمحے اپنے شوہر کا حکم سب سے مقدم رکھا۔ خود میرے انتخاب کا فیصلہ بھی میری ساس کی منشا کے خلاف تھا لیکن انہوں نے ہر حال میں قبول کیا۔ یہ یقینا ان کی اعلیٰ ظرفی اور فرماں برداری کی عمدہ مثال ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے خالو کو جہاں اور بہت سے نعمتوں سے نواز رکھا تھا وہاں نیک اور صالح اولاد بھی کسی انعام سے کم نہ تھی۔ ان کے کئی بیٹے ارض مقدس سعودی عرب ذریعہ معاش کے لیے جاتے اور آتے رہے ۔ اب بھی دو بیٹے ممتاز اور ندیم ارض مقدس پر موجود ہیں۔ ممتاز نے والد کو عمرہ کروانے کا اہتمام کیا۔ خالو ارض مقدس پہنچ بھی گئے۔ ایک کی بجائے کئی عمرے کئے۔ مسجد نبوی میں بے شمار نمازیں پڑھیں۔ مقدس مقامات کی زیارت کی۔ آپ حج کی نیت سے وہاں رکنا چاہتے تھے کہ طبیعت ناساز ہو گئی۔ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ انہوں نے دلاسہ دیا کہ عمرے کی سعادت حج بیت اللہ کے برابر ہی ہے پریشان نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور آپ نے پاکستان کی طرف رخت سفر باندھا۔
    پاکستان واپسی کے بعد ایک دوپہر آپ کو فالج کے مرض نے آگھیرا۔ دائیں جانب ہونے والے فالج نے اٹھنے بیٹھنے سے لاچار کر دیا۔ ایک طرف بیماری کی پریشانی تو دوسری طرف نمازوں کے چھوٹے جانے کا غم۔ اس لمحے آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ ڈاکٹروں نے فالج تشخیص کر دیا تھا۔ بلکہ ضروری انجکشن اور میڈیسن شروع کروا دی گئی تھیں۔ روتے روتے رات کو نیند آگئی۔ جب تہجد کا وقت ہوا تو بیدار آنکھوں نے دیکھا کہ ان کی خواب گاہ بقمہ نور بن چکی ہے۔ انہوں نے حیرت سے آنکھ کھولی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری اور حضرت گوہر پیر سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اٹھو تہجد کی نماز پڑھو۔ خالو نے کہا مجھے تو فالج ہو چکا ہے میں اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہوں۔ میں کیسے نماز پڑھوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں کچھ نہیں ہوا تم بالکل ٹھیک ہو۔ اٹھو اور نماز پڑھو، دوبارہ حکم پر خالو بستر سے اٹھے اور وضو کرنے لگے۔ اسی اثنا میں کمرہ ایک بار پھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ خالو کے بقول وہ حیران تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جب وہ بستر سے اٹھے تو ان کے تمام جسمانی اعضا بالکل صحیح تھے۔ کسی میں درد یا کھیچاؤ کا احساس بھی نہیں تھا۔ چنانچہ آپ نے حسب سابق تہجد اور پھر نماز فجر ادا کی تو گھر کے دوسرے افراد کی آنکھ بھی کھل گئی انہوں نے خالو کو نماز پڑھتے دیکھ کر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کا اظہار بھی کیا۔ تندرستی کی اطلاع پا کر خاندان کے کئی لوگ گھر پہنچے ان میں میں بھی شامل تھا۔ میں نے اتنی جلدی تندرستی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے وہ کہانی سنائی جو میں آپ کو اوپر سنا چکا ہوں۔انہوں نے اپنی زندگی میں بارہ بچوں کی شادیاں دھوم دھڑکے سے کیں سارے خاندا ن نے بھرپور خوشیاں منائیں۔ لیکن ان کی زندگی کا وہ تلخ اور پریشان کن لمحہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جب ان کی ایک نیک سیرت بیٹی روبینہ کو ایک احمق‘ پاگل اور حد سے گزرے ہوئے انسان نے آناً فاناً طلاق دے دی۔
    حالانکہ بظاہر وہ بڑے بہادر اور مضبوط دکھائی دیتے تھے لیکن بیٹی کو طلاق کا دکھ انہیں اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے زخموں پر مرحم‘ شفقت کی صورت میں رکھ دیا تھا۔ جس نے زندگی میں روبینہ کو ممکن حد تک خوشیاں دیں لیکن طلاق کا دکھ جو والدین کو ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس کرب سے خود گزر ا ہو۔
    خالو کی زندگی میں ایک لمحہ اور بھی کربناک آیا۔ کہ ایک اجنبی شخص ان کے پاس باقاعدگی سے آنے لگا۔ اجنبی شخص‘ خالو کو اپنی چرب زبانی سے جھانسہ دینے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ سعودی عرب کی کسی فرم میں انجینئر ہے اور کمپنی نے ہنر مند لوگ پاکستان سے لے جانے کی ذمہ داری اسے سونپ رکھی ہے۔ خالو نے ایک اچھے مقصد کے لیے اپنے دو بیٹوں ، تایا مستقیم کے بیٹے غلام مصطفے اور بھتیجے بدر خاں کے پیسے جمع کر کے (جو غالباً آج کے پندرہ سال پہلے 65ہزار روپے بنتے تھے)اجنبی شخص کو پاسپورٹوں سمیت دے دیئے۔ جو ویزوں کے حصول کا بہانہ بنا کر رفو چکر ہو گیا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔ چند ہفتوں کے بعد جب اجنبی شخص کے آنے کی امید نہ رہی تو باہر جانے کی تمنا رکھنے والے تمام افراد نے خالو سے پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ اتنی بڑی رقم واپس کرنا خالو کے لیے واقعی ایک مسئلہ تھا۔ پندرہ سال پہلے 65ہزار روپے کی ویلیو آج کے چھ سات لاکھ روپے سے کیا کم ہوگی۔ اس بنا پرکچھ دن خالو سخت پریشان رہے پھر کسی نہ کسی طرح تمام لوگوں کو وہ پیسے اپنی جمع پونجی سے واپس کر دیئے۔ حسن اتفاق سے وہ فراڈیاشخص مل تو گیا اور اسے سخت جدو جہد کے بعد اچھرہ تھانے کی حوالات میں بند بھی کروا دیا لیکن فراڈیے شخص نے لوٹے ہوئے کچھ پیسے تھانے والوں کو دے کر اپنی جان چھڑا لی اور خالو سمیت ہم سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔
    خالو چونکہ پیر و مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد دام برکاتہ کے پیر بھائی تھے اس لیے وہ ان کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے تھے بلکہ اس رشتے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے مشتاق احمد خاں کو ان کا مرید کروایا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشتاق کے باپ نے کہنے پر بیعت تو کر لی تھی لیکن وہ آج تک کبھی اہتمام سے اپنے پیر و مرشد کو ملنے نہیں گیا۔ ہاں اگر کہیں ان کا آمنا سامنا ہو جائے تو عقیدت سے مل ضرور لیتا ہے۔ خالو کی خواہش تھی کہ اگر انہیں پہلے موت آ جائے تو حضرت صاحب ان کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ حضرت صاحب کے دل میں بھی خالو کا بہت احترام تھا۔ وہ اکثر و بیشتر کئی حاجت مندوں کو ان کے پاس بھجواتے رہتے اور خدا کے فضل و کرم سے ان کو شفا بھی ہو جاتی ہے۔
    مجھے یاد پڑتا ہے کہ ریلوے کوارٹروں میں شادی کے بعد جب عابدہ نئی نئی آئی تھی تو اسے ڈراؤنی حیوانی چیزیں رات کے وقت خوفزدہ کرتی نظر آتی تھیں جب کئی بار یہ بات مشاہدے میں آئی تو میں نے ایک دن خالو سے اس کا ذکر کر دیااپنے موکلوں کے ذریعے پتہ چلا کر خالو نے بتایا کوارٹر کے پیچھے نیم کا درخت ہے اس پر بدروحوں کا سایہ ہے اور وہی بدروحیں ان کی بیٹی عابدہ کو تنگ کرتی ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے علم سے انہیں ختم کر دیا اور بہت دنوں تک ڈراؤنی شکلیں دوبارہ نظر نہ آئیں۔ مکہ کالونی کے گھر میں بھی کبھی کبھار خوف کا احساس ہوا کرتا تھا۔ جب بھی ہمیں یا کسی کو بھی پریشانی لاحق ہوتی تو وہ خالو سے رجوع کرتا اور اور وہ فوری طور پر اس کا سد باب کر دیتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں آصف خوبصورتی اور شاہ زوری کے اعتبار سے اپنے عروج پر تھا۔ ایک حیوانی چیز اس پر وارد ہوگئی۔ رات کے وقت وہ جب گھر کے بالائی برآمدے میں تنہا سوتا تو عورت کے روپ میں حیوانی چیز بیدار کر کے گھنٹوں اس سے باتیں کرتی۔ کبھی کبھار باتیں کرنے اور ہنسنے کی آوازیں نیچے صحن میں بھی سنی جاتیں۔ اس حوالے سے جب آصف سے پوچھا جاتا تو وہ اس بات کا اقرار کرتا۔ جب یہ بات خالو تک پہنچی تو انہوں نے بیٹے پر وارد ہونے والی بدروح کو بھی اپنے علم سے ختم کر دیا۔ خالو جہاں کثرت سے ہر لمحے درود پاک کا ورد کرتے رہتے تھے ۔ وہاں سورة المزمل کے زبردست عالم تھے۔بڑے بڑے جنات ان سے تھر تھر کانپتے تھے۔ وہ جب ہاتھ کے اشارے سے اعظم موکل کو آواز دے کر اسے حکم دیتے کہ سامنے بیٹھے ہوئے انسان کے اندر جا کر دیکھ کہ معاملہ کیاہے۔ جب موکل رپورٹ دے دیتا تو پھر متاثرہ شخص سے مخاطب ہو کر آپ ساری کہانی سنا دیتے۔ اکثر لوگ آپ کی زبان سے نکلنے والی کہانی کو ہی درست قرار دے دیتے۔ پھر آپ موکل کو حکم دیتے کہ کمرے سے باہر جا کر وارد ہونے والی چیز کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ جس کمرے میں خالو قرآنی آیات اور موکلوں کے ذریعے لوگوں کا علاج کرتے اس میں اس وقت بچوں اور بے وضو لوگوں کا داخلہ ہرگز منع تھا۔
    اللہ تعالیٰ نے پیر و مرشد کی دعا سے انہیں یہ علم بھی عطا کر رکھا تھا کہ وہ یہاں بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود شخص کو نہ صرف دیکھ سکتے بلکہ اس کا علاج بھی کر سکتے تھے۔ ایک شام ایک شخص ان کے پاس آیا اورنہایت درد مند لہجے میں کہا کہ ان کے عزیز کی امریکہ میں طبیعت بہت خراب ہے۔ اگر آپ اسے قرآنی آیات سے ٹھیک کر دیں تو میں آپ کی معقول خدمت کروں گا ۔ خالو نے اسی وقت اپنے موکلوں کو حکم دیا۔ جنہوں نے چند لمحوں بعد اس شخص کے بارے میں تمام حالات واقعات سے آگاہ کیا۔ جب خالو نے علاج کے لیے آنے والے شخص کے روبرو تمام حالات بیان کئے تو وہ حیران اور ششدر رہ گیا۔ خالو نے اسے کہا جاؤ فون کر کے پوچھو کہ تمہارا عزیز ٹھیک ہو گیا یا نہیں۔ دوسرے دن وہ شخص آیا میرے روبرو اس نے خالو کو بتایا کہ امریکہ میں ان کا عزیز کل سے بالکل ٹھیک ہے۔ جس پر اظہار تشکر کے طور پر کچھ نذرانہ بھی پیش کیا۔ جس پر میں نے مذاقاً کہا خالو ففٹی ففٹی ہونا چاہیے خالو نے قہقہ لگایا اور پیسے بٹوے میں ڈال لیے۔ میں نے کبھی ان کا پرس خالی نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ نے درودپاک پڑھنے کے طفیل بے پناہ رزق سے نواز رکھا تھا۔
    پھر جوں جوں عمر بڑھتی گئی۔ مختلف امراض نے انہیں گھیرنا شروع کر دیا۔ ہائی بلڈ پریشر کا مرض تو پہلے ہی انہیں لاحق تھا۔ پیشاب میں رکاوٹ نے بھی انہیں بے حال کردیا۔ پہلے سی ایم ایچ پھر سروسز ہسپتال میں مثانے کا آپریشن ہوا۔ پھر بھی پیشاب میں رکاوٹ کا مرض ختم ہونے کی بجائے تسلسل سے جاری رہا۔ ان کے سینے میں ریشے کی بہتات نے پریشان کر دیا۔ دماغی فالج کے حملے سے انہوں نے لوگوں کو پہچاننا بند کردیا۔ پہلے طبیعت پر اضطرابی کیفیت بہت حد تک طاری رہی۔ برآمدے میں رکھے ہوئے صوفے پر اگر انہیں بٹھایا جاتا تو وہ انتہائی کمزوری کے باوجود اٹھ کر اس کمرے کی طرف چل پڑتے جو ہمیشہ سے ان کی خواب گاہ رہا۔سب کو یہ خدشہ تھا کہ بے دھیانی میں چلتے ہوئے کہیں گر نہ جائیں اور خدانخواستہ انہیں ہڈی پر چوٹ نہ لگ جائے۔ بیماریاں تو پہلے ہی بہت تھیں ہڈی پر چوٹ انہیں مزید لاغر بنا دے گی۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے انہیں صوفہ پر بٹھا کر کپڑے سے اس طرح لپیٹ دیا جاتا کہ وہ خود نہ اٹھ سکیں میں جب گھر میں داخل ہوتا تو وہ مجھے بڑی بے بسی کے عالم سے حیرت سے دیکھتے لیکن میں چاہنے کے باوجود بالکل بے بس تھا۔ میرے بس میں نہیں تھا کہ ان کو تمام بیماریوں سے نجات دلا سکوں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑکر بہت دیر تک تھامے رکھتے اور کہتے میرا بابو آیا ہے۔ پھر جب خالہ (میری ساس) انہیں میرا ہاتھ چھوڑنے کے لیے کہتیں تو وہ چھوڑ دیتے۔ اس لمحے میں مذاق سے کہتا کہ ساری زندگی خالو نے رعب دبدبہ قائم رکھا ہے۔ بڑھاپے میں خالو، خالہ سے ڈرنے لگے ہیں۔ ان کی اضطرابی کیفیت کے حوالے سے متضاد خیالات سامنے آئے۔ حضرت صاحب اور بھائی مصطفے کے بقول ان کے قبضے میں جو ہوائی چیزیں تھیں وہ انہیں تنگ کر رہی تھیں حضرت صاحب کے نزدیک اگر وہ چیزیں کسی اور کے سپرد کر دی جائیں تو اضطرابی کیفیت ختم ہو سکتی تھی۔
    اس حوالے سے جب خالو ہوش میں تھے تو کہاکرتے تھے کہ ان کے بیٹوں میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی گدی کا وارث بن سکے۔ پانچ وقت وظائف اور پاکیزگی کو قائم رکھنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ کسی دوسرے کو وہ دینا نہیں چاہتے تھے۔
    دوسری جانب بھائی مصطفے کا خیال تھا کہ یہ چیزیں جن بزرگوں سے ملی ہیں وہیں جا کر چھوڑنی ہوں گی۔ اس مقصد کے لیے وہ خالو کو لے کر حضرت گوہر پیر اور حضرت کرماں والوں کے دربار بھی گئے لیکن اس عمل سے بھی انہیں کوئی افاقہ نہ ہوا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
    اسی طرح ایک مرتبہ انہیں آپریشن کے لیے سروسز ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا بلڈ پریشرمیں زیادتی کا مرض انہیں بہت عرصے سے لاحق تھا۔ آپریشن سے پہلے ان کا بلڈپریشر کنٹرول میں کرنے کے لیے ڈاکٹر میڈیسن کا بھرپور استعمال کروا رہے تھے اور بہت حد تک کامیاب بھی تھے۔ جب انہیں بلڈپریشر کنٹرول میں محسوس ہونے لگا تو انہوں نے چند دنوں بعد آپریشن کی ہدایت کر دی۔ اسی اثنا میں، میں ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی کوئی کتاب انہیں بجھوادوں تاکہ وہ ہسپتال میں رہتے ہوئے وہ اسے پڑھ سکیں۔
    میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی کتاب ”کارگل کے ہیرو“ انہیں پہنچا دی۔ خالو وہ کتاب پڑھتے رہے۔ دوپہر کو جب ڈاکٹروں نے ان کا بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ خالو کا بلڈ پریشر کو شوٹ کر گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے کونسی سی ایسی چیز کھائی ہے جس سے بلڈپریشر بڑھ گیا ہے۔ خالو نے کہا کہ میں نے کوئی ایسی چیز نہیں کھائی۔ صرف یہ کتاب پڑھی ہے تو ان کا فوجی خون جوش مارنے لگا۔ یہی وجہ ان کے بلڈ پریشر بڑھنے کی تھی۔
    ڈاکٹروں نے انہیں یہ کہہ کر ہسپتال سے چھٹی دے دی کہ گھر جا کر پہلے بلڈ پریشر کنٹرول کریں پھر آپریشن کے لیے ہسپتال آئیں۔ بنک کے بعد جب میں ہسپتال گیا تو سب نے مجھے شکوے کے انداز میں کہہ کر حیران کر دیا کہ آپ کی کتاب نے آپریشن کا سارا پروگرام اپ سیٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ بات واقعی میرے لیے حیران کن تھی۔
    گذشتہ دو سال سے وہ سخت علیل رہے۔ اس دوران انہیں کئی مرتبہ سروسز ہسپتال میں داخل بھی کرنا پڑا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گھر کا ایک فرد اگر ہسپتال میں داخل ہو تو سارا خاندان گردش میں آ جاتا ہے۔ نو میں سے سات بیٹے، نواسے اور پوتے باری باری نگہداشت کی ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔ تمام بیٹیاں بھی جان نچھاور کرتی ہیں۔ بحیثیت بیگم خالہ تو کبھی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوئی۔ بالآخر اتوار کی صبح پانچ بج کر پچاس منٹ پر وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب آنکھوں کے راستے ایک چمک سی نکلی اور مدتوں سے بے قرار جسم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قرار آ گیا اس وقت بیٹا انیس اور نواسہ سلیمان وہاں موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے بزرگ کو اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا جو نومبر 1947کو زمین جائیدار ،والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر تن تنہا پاکستان آئے تھے اور یہاں اس پاک وطن کی مٹی میں اپنا لہو شامل کیا۔ یہاں خوشیوں کے پھول کھلائے۔ یہیں شادی کی اور قوم کو ڈیڑھ درجن بچے دیئے۔ رحلت کے وقت ان کے نواسے نواسیوں سمیت خاندان کے افراد کی تعداد 60بنتی ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا
    خدا کرے یہ خاندان اسی طرح پھلتا پھولتا رہے۔
    اتوار کی صبح جب میں حسب معمول نماز فجر پڑھ کر واپس گھر پہنچا تو عابدہ کی آنکھوں میں باپ کی محبت کے آنسو تھے میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ابا فوت ہوگئے ہیں۔ ہمیں جلدی سے سیدن شاہ کالونی پہنچنا چاہیئے‘ ابھی ہم صوفی منزل سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ دور سے سوگواری کا احساس ہونے لگا۔ آصف ، اشفاق، نثار، فرقان، نوید رو رہے تھے۔ مشتاق موجود ضرور تھا لیکن میں نے اس کی آنکھوں میں آنسوآج بھی نہیں دیکھے شاید وہ کچھ زیادہ ہی سخت دل واقعہ ہوا تھا۔
    بچھی ہوئی دری پر بیٹھ کر میں تو باوضو درودپاک کا ورد کر رہا تھا ۔ تایا مستقیم بھی ذکر اذکار میں مشغول تھے جبکہ یہاں موجود باقی لوگ سوگوار ضرور تھے‘ کوئی خاموش بیٹھا زمین کو گھور رہا تھا، کوئی سگریٹ کے کش لے کر صدمے کو کم کرنے کی جستجو میں مصروف تھا۔ اس لمحے میں نے آصف کو مخاطب ہو کرکہا تمہارے والد ایک ولی کامل تھے۔ ساری زندگی درود پڑھنے میں گزری کیا ہی اچھا ہو گا اگر ہم سب باوضو ہو کر ان کی مغفرت اور قبر میں عذاب سے چھٹکارے کے لیے درود پاک یا کوئی قرآنی کلام پڑھتے رہیں۔ فارغ بیٹھنے سے اللہ کا ذکر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ آصف میرے کہنے پر اٹھا اور گھر سے صاف چادر لا کر بچھا دی اور اس پر گٹھلیاں رکھ دیں تاکہ یہاں موجود لوگ درود پاک کا ورد شروع کر سکیں۔ میں نے کہا جس شخص کا وضو نہیں ہے وہ کر لے تاکہ پاکیزگی کو ہر ممکن ملحوظ رکھا جائے۔ ابھی میں بات کر کے خاموش نہیں ہوا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ یہ تو قلوں کی صورت بن جائے گی۔ شہ پا کر دوسرے نے کہا دفن کرنے کے بعد درودپاک پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ چنانچہ اس لے دے میں گٹھلیاں اور چادریں اٹھانی پڑھیں اور سگریٹ نوشی کے شوقین حضرات نے ایک بار پھر سگریٹ سلگا لیے جبکہ باقی دنیاداری کی باتوں میں مشغول ہوگئے۔
    اسی اثنا میں اخبار آگیا اور تمام لوگوں کی توجہ مرنے والے سے ہٹ کر اخبار کی جانب مبذول ہوگئی۔ جنازہ اٹھانے کے لیے دوپہر تین بجے کا وقت مقرر تھا آصف کے بقول خالو نے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی تھی کہ موت کی صورت میں ان کی میت کو پہلے حضرت خواجہ بہاری لے جایا جائے پھرنماز جنازہ حضرت میاں میر کے دربار کے احاطے میں پڑھی جائے۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں میاں میر قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔
    اتوار کے دن میں صدیق اور قاری اکمل صاحب، صابر بٹ کے ہی مہمان رہے۔ جب میں نماز ظہر پڑھ رہا تھا تو دل میں گمان گزر ا کہ اگر پیرو مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد جنازہ پڑھائیں تو کیا ہی اچھا ہو ویسے بھی خالو زندگی میں اس خواہش کااظہار کر چکے تھے۔ چونکہ وقت بہت کم رہ گیا تھا اس لیے امکان نہیں تھاکہ حضرت صاحب کو کوئی لینے جائے۔ ویسے بھی حضرت صاحب کی طبیعت پچھلے کئی دنوں سے خراب تھی اور بخار بھی آ رہا تھا۔ ابھی میں نماز ظہر پڑھ کے فارغ ہوا ہی تھا کہ میرے بیٹے زاہد نے آ کر اطلاع دی کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ یہ سن کر میری خوشی کی انتہانہ رہی اور بھاگتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور رب کریم کا بھی شکر ادا کیا جس نے میری آرزو اور خالو کی وصیت پوری کردی۔
    تین بجے جناہ اٹھا لیا گیا۔ گھر کے درو دیوار ایک بار پھرچیخ پکار میں گم ہوگئے۔ اس گھر اور خاندان کا سب بڑا فرد 80سال کی عمر میں وفات پا کر آخری مرتبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا تھا۔
    اس لمحے مجھے حضرت سلمان علیہ السلام کا وہ واقعہ یاد آگیا جب ان کے دربار میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو ملک الموت نے حیرت سے دیکھا۔ تو وہ شخص خوفزدہ ہو گیا اس نے حضرت سلمان علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہوا کو حکم دیں کہ وہ اسے یہاں سے بہت دور چھوڑ آئے۔
    حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا اور وہ اسے مطلوبہ جگہ پر چھوڑ آئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے پوچھا کہ تم نے اس شخص کو کیوں خوفزدہ کیا۔ تو ملک الموت نے کہا کہ میں حیران تھا کہ اس شخص کی زندگی کے چند لمحے باقی ہیں اور میں نے اس کی جان فلاں ملک میں قبض کرنی ہے اور وہ چند لمحے پہلے تک آپ کی دربار میں موجود ہے۔ آپ نے ہوا کے ذریعے اس شخص کو مطلوبہ جگہ پہنچا کر میرا کام آسان کر دیا ہے۔ پھر وقت مقررہ پر اس شخص کی جان قبض کر لی گئی۔
    میں سوچ رہا تھا کہ پٹھان پروا میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ اس نے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے لاہور شہر کے ایک قبرستان اپنی زندگی کی آخری شام کرنی ہے۔
     بہر کیف جنازہ حضرت خواجہ بہاریکے دربار سے ہوتا ہوا حضرت میاں میر کے دربار میں آپہنچا۔ نماز عصر کے بعد سات لمبی لمبی قطاروں میں لوگ جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حاضرین سے مخاطب ہونے کا مشرف مقامی امام کو حاصل ہوا۔ نماز جنازہ حضرت مولانا محمد عنایت احمد دام برکاتہ نے پڑھائی اس موقع پر انہوں نے فرمایا کہ اگر مرنے والا نیک انسان ہو تو باقی کو بھی جنتی بنادے گا اگر جنازہ پڑھنے والوں میں کوئی نیک ہو تو میت سمیت سب کو بخشوا دے گا۔
    جنازے کے بعد جب لوگ صوفی بندے حسن خاں کا آخری دیدار کرنے لگے تو میں نے ان کے چہرے پر اتنا نور دیکھا کہ حیریت گم ہوگئی جب میری نگاہیں ان کی ادھ کھلی آنکھوں کی طرف گئیں تو وہ ایمان کی روشنی سے منور دکھائی دیں۔ اس لمحے میری زیان سے یہ الفاظ نکلے کہ جن آنکھوں نے دو مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہو وہ کیسے بے نور ہو سکتی ہیں ان کا جسم ان کا چہرہ ان کی آنکھیں تمام مرنے والے کی طرح ہرگز نہیں تھیں ۔ بلکہ ان کا شمار تو ان لوگوں میں تھا جن کے بارے میں قرآن پاک میں لکھا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ولیوں کو موت کا کوئی خوف اور میدان حشر کا کوئی غم نہیں ہوگا۔ نماز جنازہ کے بعد پیدل ہی چلتا ہوا میں قبرستان کے اس حصے میں پہنچ گیا جہاں تدفین ہونا تھی۔
    میت کو قبر میں اتارنے کا فریضہ خالو کے معتقد اور عقیدت مند شاہد ، اور آصف نے سر انجام دیا۔ مجھے یاد ہے کہ میت قبر میں اتارنے سے پہلے جب شاہد قبرکو صاف کر رہا تھا تو ایک کیڑا وہاں رینگتا ہوا نظر آیا۔ شاید نے اسے بھی اٹھا کر راستے باہر پھینکا۔ تاکہ وہ میت کو تکلیف نہ دے سکے۔
     سلیں نصب کر کے گارے سے دراڑروں کو بند کرنے کا فریضہ بھی شاہد نے ہی انجام دیا۔ پھر جب سورج درختوں کی اوٹ میں روپوش ہو رہا تھا اور آسمان پر ہر طرف ڈوبتے سورج کی سرخیاں عیاں تھی۔کسی نے اس لمحے ہوائی فائرنگ کر کے صوفی بندے حسن خاں کو آخری سلامی دی اور تجہیز و تکفین مکمل ہوگئی۔ آپ کے سرہانے کی طرف عبدالکریم اور سردارں بی بی زوجہ بابو خاں کی قبریں ہیں۔ جبکہ راستے سے بائیں جانب آپ کی دوسری قبر ہے۔ بے شک ہر جاندار کو موت تو آنی ہے لیکن اللہ کے بندے تو ہمیشہ اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے تیار رہتے ہیں۔صوفی بندے حسن خاں بھی اللہ کے نیک بندے تھے میں نے ان کی رفاقت کے چھبیس سالوں میں کوئی عمل ایسا نہیں دیکھا جو شریعت کے برعکس ہو۔ انہوں نے کبھی دانستہ نماز نہیں چھوڑی۔ بلکہ ان کی زبان پر ہر وقت اور ہر لمحے درود پاک کا ورد ہی جاری رہتا تھا کیا یہ امر کسی سعادت سے کم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ جو شخص جتنا درود پاک پڑھے گا قیامت کے دن وہ اتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ہوگا۔





روحانیت کا سفر
مشاہدات : محمد اسلم لودھی
    بچپن سے ہی میں نماز کی طرف راغب رہا ہوں‘ سن بلوغت سے لے کر آج تک مسجد سے رشتہ نہیں توڑا۔ کبھی کبھار وقتی مصلحتوں کا ضرور شکار رہا لیکن میری یہ سستی‘ کاہلی مکمل چشم پوشی میں نہیں بدلی۔
    صرف عشاء کی نماز چھوڑ کر باقی نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتا۔ عشاء کی نماز خاصی لمبی تھی اور پھر شیطان کا غلبہ بھی ہو جاتا تھا۔ کبھی سو جاتا اور کبھی دوستوں کی محفل اٹھنے نہ دیتی لیکن باقی نمازوں میں کسی قسم کی سستی نہ برتتا۔ قربان لائن جامع مسجد کے امام مولانا محمد بشیر صاحب کا میں بہت معتقد تھا‘ اکثر اوقات ان کے ہاں جانا ہوتا تو گھنٹوں محفل چلتی رہتی۔ دینی باتیں سیکھتے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔ کئی مرتبہ ان سے حسب ضرورت تعویز بھی لے لیتے۔ میرے والدین سمیت علاقے کے تمام لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی تو میں انہی سے رجوع کرتا اور ان کی دعاؤں اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ مشکل ِختم بھی ہو جاتی وہ سلسلہ قادریہ سے تعلق اور نسبت رکھتے تھے۔
    ایک رات میں سویا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک بڑے سے ہال میں موجود ہوں غیب سے آواز آئی کہ تمام لوگ نگاہیں جھکالیں حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لا رہے ہیں۔ اس وقت ہم اندھیرے میں کھڑے تھے اچانک ہال میں زبردست روشنی ہوئی۔ جرأت کر کے جب میں انہیں دیکھنے کے لیے نظریں اٹھانے لگا تو غیب سے آواز آئی خبردار کوئی شخص اپنی آنکھیں اوپر نہ کرے۔ قدموں پر نظر پڑی تو وہ اس قدر روشن تھے کہ اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ یہاں کھڑے ہوئے ہم تمام لوگ اپنے آپ کو بہت چھوٹا محسوس کر رہے تھے۔ ہال کا چکر لگا کر حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ باہر نکل گئے‘ آگے چل کر ایک اور جگہ ان سے صرف بات ہی ہوئی لیکن چہرہ مبارک دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
    جب صبح میں بیدار ہوا تو میرے دل میں ایک طوفان برپا تھا اور میں اپنی خوش قسمتی پر بہت نازاں تھا کہ مجھے ان کے قدم مبارک کی زیادت کرنے کی توفیق ملی۔ میں نے یہ واقعہ مولانا محمد بشیر صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ انہوں نے خواب سن کر مجھے کہا کہ اللہ کا تم پر خاص کرم ہے۔ حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت آپ کو کھینچ رہی ہے‘ اویسہ سلسلے کے کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا کہ حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کے دربار میں ضرور جایا کریں وہاں سے آپ کو فیض حاصل ہو گا۔ چونکہ حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ سے ہمیں پہلے ہی والہانہ محبت تھی اور میں ہفتے میں ایک بار ضرور وہاں حاضری کے لیے جایا کرتا تھا اب وہاں زیادہ مصمم ارادے سے جانے لگا۔
    پھر ایک مرتبہ جب تھکا ماندہ رات کو سویا تو مجھے خواب آیا کہ زور دار آندھی چل رہی ہے اور ہوا کی رفتار اتنی تیز ہے کہ میں ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم پر شمال سے جنوب کی جانب اڑا جا رہا ہوں۔ پلیٹ فارم پر بیٹھنے اور چلنے پھرنے والوں لوگ اس آندھی سے بے خبر ہیں لیکن وہ آندھی مجھے زمین سے کئی فٹ اوپر تیز رفتاری سے اڑائے لے جا رہی ہے۔ پلیٹ فارم کے آخر میں ‘میں نے ایک بزرگ کا مزار دیکھا لیکن بزرگ کا نام نہیں پڑھا جا سکا۔ اس ہجوم میں میرے والد بھی نظر آئے اور میں بلند آواز میں اپنے والد کو پکارتا رہا کہ خدا کے لیے مجھے پکڑو لیکن میری چیخ و پکار پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تو میری زبان سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو گیا جیسے ہی ورد شروع ہوا آندھی تھم گئی اور میر ے پاؤں زمین پر لگ گئے۔
    یہ خواب بھی میں نے مولانا بشیر صاحب کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ فوراً کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ اس وقت انہیں مرید کرنے کا حکم نہیں تھا وگرنہ میں ان کا ہی مرید ہو جاتا۔
    ایک اور خواب جس نے مجھے بہت دنوں تک پریشان کیے رکھا۔ وہ یہ تھا کہ بہت بڑا بیل جس کے سینگ خاصے خطرناک تھے وہ میری جانب بہت تیزی سے بھاگتا ہوا آ رہا ہے۔ میں نے اس سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن بچنے کی کوئی بھی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے کلمے کا ورد شروع کر دیا پھر جیسے ہی میں نے کلمہ پڑھا تو بیل پہلے وہیں رک گیا بعد میں اُسی رفتار سے واپس جانا شروع ہو گیا حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ بڑی گھبراہٹ کے عالم میں میری آنکھ کھلی کیونکہ جب خواب میں موت قریب ہو یا انسان کسی خطرے سے کھیل رہا ہو تو باوجود کوشش کے آنکھ نہیں کھلتی۔ بعض اوقات بڑبڑانے کی آواز ضرور دوسروں کو آتی ہے لیکن خواب میں موت سے ڈر کر جب انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان سے بھاگا نہیں جاتا اور اگر کسی خطرے سے بچنا چاہتا ہے تو بچ نہیں سکتا۔ وہ جتنی بھی جدوجہد خواب میں کرتا ہے اس کے ساتھ سویا ہوا انسان اس کی پریشانی سے بے خبر ہوتا ہے۔ خواب میں صرف اور صرف اُسے ہی سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ جب انسان کی جان نکل رہی ہوتی ہے تو قریب ہی کھڑے ہوئے عزیز و اقارب کس قدر بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ مرنے والا کتنے کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہے لیکن دیکھنے والے تو یہی محسوس کرتے ہیں کہ وہ بڑے سکون سے لیٹا ہوا ہے۔ حقیقی اور خوابی دنیا میں یہی واضح فرق ہے۔
    یہ میرا معمول تھا کہ میں جہاں بھی جاتا وہاں قریب اگر کوئی مزار ہوتا تو ضرور اس پر حاضری دیتا۔ مزارات پر حاضری دینے میں دلی سکون محسوس کرتا۔ دوستوں کی زبانی بزرگوں کی کرامات سنتا تو حسرت ہوتی کہ ہمارا تو کوئی مرشد ہی نہیں ہم کس کی تقلید کرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ کہنے کو تو سب کچھ کتابوں میں لکھا ہوا ہے لیکن جب تک استاد کامل نہ ملے اس وقت تک علم اور مہارت ذہن میں محفوظ نہیں ہوتا۔ خدا کی ذات تو برحق ہے اور ہمیشہ قائم بھی رہنے والی ہے۔ حضور ﷺ کی شان رسالت ”بعد از خدا بزرگ کوئی قصہ مختصر“ کی مصداق ہے لیکن ان تک پہنچنے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنے کے لیے کسی کامل بزرگ کی رہنمائی ضرور درکار ہوتی ہے۔ جس طرح دو انسان آپس میں بات کرتے وقت ٹیلی فون کا سہارا لیتے ہیں اسی طرح رب اور بندے کو ملانے کے لیے بھی کوئی وسیلہ درکار ہوتا ہے۔ اسی وسیلے کی تلاش میں کسی کامل بزرگ ہستی کا مرید بننے کا شوق میرے دل میں ہر لمحے موجود تھا۔
    جب ہم قربان لائن سے مکہ کالونی منتقل ہوئے تو میرے سسر صوفی بندے حسن خاں (جو خود بھی قطب زماں حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری کے مرید تھے) نے کہا کہ چلو میں تمہیں کرمانوالی سرکار کے ہاتھ پر بیعت کرا دیتا ہوں جو بڑے بزرگوں کے صاحبزادے تھے۔ میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں صرف بیعت ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی بھی حاصل کرنے کی تمنا رکھتا ہوں۔ میں تو ایسی ہستی کو اپنا پیر مانوں گا جس سے میرا ملنا‘ اس کے قریب جانا اور وقتاً فوقتاً ان سے رہنمائی حاصل کرنا میرے لیے ممکن ہو سکے۔ ہمارے دفتر میں کئی دوست ایسے بھی تھے جو سال میں ایک دو بار اپنے پیر ومرشد کے پاس تحائف لے کر جاتے اور ایک وقت کا لنگر کھا کر سارا سال لاہور میں ہی دھکے کھاتے پھرتے۔ بے شک دور حاضر میں کرمانوالی سرکار جیسا کوئی بزرگ روئے زمین پر موجود نہیں تھا لیکن میری یہ شرط وہاں پوری نہیں ہوتی تھی۔
    جب خالد نظام کے ساتھ علیک سلیک بڑھی تو اس کے ساتھ میں اور توصیف کبوتر پورہ کے قبرستان میں ہر صبح جانے لگے۔ دعائے مغفرت بھی پڑھ لیتے اور پرندوں کو دانہ بھی ڈال آتے کہ شائد یہی عمل ہماری بخشش کا سامان بن جائے۔ چونکہ خالد صاحب حضرت مولانا محمد عنایت صاحب کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت ہو چکے تھے اور عرصہ دراز سے ان کی ذات سے وابستہ تھے اس لیے وہ بار بار ہمیں ان کے پاس لے جاتے جہاں پہنچ کر میرے دل کو نسبتاً سکون ملتا۔
    یوں کبوتر پورہ جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری رہنے لگی۔ خوشگوار صبح کا اثر تمام دن مجھ پر طاری رہتا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب میں ہر روز مسجد طہٰ جانے لگا‘ دیر تک حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کی پر اثر باتیں سننے کو ملتیں۔ ان کی گفتگو کا براہ راست میرے دل پر بہت اثر ہوتا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں جس منزل کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹک رہا ہوں وہ منزل آ پہنچی ہے۔ میرے سامنے کئی لوگ مرید ہوئے جا رہے تھے میں ان کے سامنے بیٹھا ہوا نہایت بے بسی سے سب کچھ دیکھتا رہتا اور دل ہی دل میں سوچتا کہ میں بھی مرید ہو جاؤں کیونکہ مجھے حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کی شخصیت میں وہ سب کچھ نظر آ رہا تھا جس کی مجھے طلب تھی۔ ہر نماز کے وقت ان سے ملاقات ہو سکتی تھی وقتاً فوقتاً ان سے فیض حاصل کیا جا سکتا تھا وہ پیر کامل حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری کے مرید خاص بھی تھے۔ پھر ان کو کراچی سے سید ظہیر الحسن شاہ صاحب کی جانب سے چاروں سلسلوں میں بیعت کرنے کی اجازت بھی مل چکی تھی اس کے علاوہ مزید کئی بزرگان دین کی جانب سے بھی انہیں فیض مل چکا تھا۔ گلبرگ کے پورے علاقے میں آپ کی پاکبازی کی بہت شہرت تھی۔ کئی احباب کی زبانی یہ بات بھی سننے میں آئی کہ خود حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ جو شخص کرمانوالہ نہ آ سکے وہ لاہور میں حضرت محمد عنایت احمد صاحب کے پاس چلا جائے اسے وہاں بھی اتنا ہی فیض حاصل ہو گا۔ اسی لیے تو جنید اشرف بٹ کے علاوہ کئی لوگوں نے مسجد طہٰ کو ہی اپنا مسکن بنا رکھا ہے حالانکہ ان کے راستے میں اور گھر کے نزدیک کئی اور بھی مساجد موجود ہیں لیکن انہیں جو سکون یہاں نصیب ہوتا وہ کہیں اور نہیں ملتا۔
    یہ سب کچھ دیکھ کر دن بدن میری عقیدت بڑھتی جا رہی تھی۔ حضرت صاحب کے مرید خاص محمد منشا‘ محمد یوسف‘ ہدایت الرحمن کو دیکھ کر بھی دل بہت خوش ہوتا جن کا اوڑھنا بچھونا ہی درود سلام بنا ہوا تھا۔ وہ ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں باوضو ہو کر درود پاک پڑھتے اور انہی پاکباز ہاتھوں سے لنگر پکا کر ہم جیسے گنہگاروں کو کھلاتے کبھی بھی ان کے چہرے پر شکن نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ ہر وقت حضرت صاحب کی آؤ بھگت میں لگے رہتے ان کی کوشش ہوتی کہ حضرت صاحب کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو جبکہ صبح سے شام تک مسجد طہٰ میں عقیدت مندوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا۔ ہر نماز کے بعد عقیدت مندوں کی محفل منعقد ہوتی حضرت صاحب کے گرد جمع ہو کر ان کی پیاری پیاری باتیں سننے میں ہر کوئی فخر محسوس کرتا۔
    ایک دن موقع پا کر میں نے اپنے دل کی خواہش کا اظہار حضرت صاحب سے کر ہی دیا۔ میری بات سن کر آپ خاموش ہو گئے اور دوسرے دن آنے کے لیے کہا۔ تمام رات میں اسی سوچ میں گم رہا کہ کل کیا جواب ملے گا اگر انہوں نے مجھے ٹھکرا دیا تو میں کدھر جاؤں گا کیونکہ مسلک کے مطابق جس کا پیر نہیں اس کا کچھ بھی نہیں۔ پیر و مرشد کی رہنمائی کی قدم قدم پر ضرورت ہوتی ہے تاکہ انسان رب العزت اور ان کے پیارے نبی ﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک نہ جائے۔ کیونکہ قرآن پاک کی ابتدائی سورہ فاتحہ میں اللہ فرماتا ہے کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ عہد کیا کرو کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا ہے اور ان لوگوں کا راستہ نہ دکھا جن پر تیرا غضب ہوا۔ چنانچہ میں بھی اللہ کے اس نیک بندے کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا تھا جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے بہت انعام رکھا ہے۔ بڑے بڑے اولیاء کرام آپ کی بزرگی کی تصدیق کر چکے تھے علاوہ ازیں آپ کی کرامات کا سلسلہ تو بچپن ہی سے جاری تھا۔
    دوسری صبح جب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ حضرت صاحب کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو میرے دل میں طوفان برپا تھا اور یہ طوفان اسی طرح ہی ٹھنڈا ہو سکتا تھا اگر حضرت صاحب مجھے سینے سے لگا تے اور اپنی مریدی میں لے لیتے۔ چنانچہ موقع غنیمت جان کر میں نے ایک بار پھر کل والا سوال دھرایا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تمہیں حضرت میاں میر کے دربار عالیہ پر جا کر مرید کیا جائے گا۔ یہ سنتے ہی میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ حضرت میاں میر صاحب کے ساتھ تو مجھے بچپن ہی سے والہانہ محبت تھی اور ہفتے میں ایک آدھ بار ان کے دریار عالیہ پر حاضری دینا میرا معمول تھا یہی کیفیت میرے والدین کی بھی تھی۔
    دسمبر 1991ء بروز جمعرات نماز عصر کے وقت حضرت صاحب کی سرکردگی میں ہم حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پہنچ گئے۔ ان بزرگوں کے روبرو میرے ہاتھوں میں حضرت صاحب نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور وہ کلمات پڑھنے شروع کر دیئے جو مرید بننے کے لیے اکثر پڑھتے جاتے ہیں۔ آخر میں دعا فرما کر مجھے اپنے سینے سے لگایا جس سے روحانیت میرے جسم میں منتقل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی بعدازاں سب نے مجھے مبارک دی۔
    حضرت صاحب اپنے ہر مرید اور خاص عقیدت مندوں کو نصیحت فرماتے کہ ہر صبح کا آغاز پانچ سو مرتبہ درود سلام اور پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ سے کرنا چاہیے۔ نماز فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان ”سبحان اللہ وبحمدہ‘ سبحان اللہ العظیم“ اور تیسرے کلمہ کا ورد کثرت سے رزق کی تنگی دور ہو جاتی ہے جبکہ درود سلام انسان کی بلائیں ٹالنے اور حضور ﷺ کی محبت میں خود کو ڈھالنے کے کام آتا ہے۔ میں نے حضرت صاحب کی اس ہدایت پر عمل کرنے کا تہیہ کر لیا۔
    یہاں یہ بتاتا چلوں کہ حضرت صاحب کی باتوں میں اتنا اثر تھا کہ وہاں سے اٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ کئی بار تو میری بیوی بھی گھر سے مسلسل غائب رہنے پر پریشان ہو جاتی لیکن اس میں میرا قصور بھی نہیں تھا۔ اللہ والوں کی باتیں ہی اتنی پر اثر اور سبق آموز ہوتی ہیں کہ ان کی محفل سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر حضرت صاحب کی شخصیت میں اتنا پیار اور ہمارے لیے محبت رچی بسی ہوئی تھی کہ اس کا ذکر الفاظ میں مشکل ہے۔
    حضرت صاحب نے مجھے تہجد کی نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا۔ میں نے ان سے طریقہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ تہجد کی نماز دو رکعت سے بیس رکعت کی ہوتی ہے جتنی توفیق ملے اتنی پڑھ لیا کریں۔ انہوں نے حضرت کرمانوالی سرکار کا طریقہ تہجد بتایا کہ پہلی رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد پانچ مرتبہ سورة اخلاص جبکہ دوسری رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد تین مرتبہ سورة اخلاص پڑھی جاتی ہے اس طرح جتنی چاہیں رکعتیں پڑھ لی جائیں۔ میں نے فوراً نماز تہجد پڑھنے کا تہیہ کر لیا بلکہ پڑھنی بھی شروع کر دی۔
    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا۔ میں تہجد کے وقت بیدار ہونے کے لیے ٹائم پیس پر آلارم لگا لیتا تھا۔ آلارم ابھی بجا نہیں تھا کہ حقیقت میں مجھے کسی نے اٹھا دیا۔ میں نے جب آنکھیں کھول کر دیکھا تو میرے سامنے میرے پیر و مرشد کھڑے تھے۔ میں حیران رہ گیا کہ وہ کیسے آ گئے؟ میں نے انہیں نیند کے عالم میں کہا کہ ابھی تہجد کا وقت نہیں ہوا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ وقت ہو چکا ہے تم اٹھ کر تہجد پڑھو۔ میں حیران تھا کہ حضرت صاحب مجھے تہجد کے لیے اٹھانے کیسے آ گئے؟ اس تجسس میں میں نے تہجد کی نماز پڑھی اگر حضرت صاحب مجھے بروقت نہ اٹھاتے تو تہجد کی نماز رہ جاتی کیونکہ اس دن ٹائم پیس خراب ہو کر بند ہو چکا تھا۔ پھر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے جب مسجد طہٰ میں پہنچا۔ میں نے حضرت صاحب سے سوال کیا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے کسی دوسرے کے خواب میں جا سکتا ہے تو حضرت نے فرمایا کہ عام انسان نہیں اللہ والے ایسا کر سکتے ہیں بلکہ کسی کو پیغام دینے کا کام وہ خواب سے ہی لیتے ہیں۔
    میں نے ایک دن حضرت صاحب سے قبر کے حال کے بارے میں سوال کیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ قبر میں جہاں تھوڑی سی جگہ ہوتی ہے ہم کیسے رہیں گے؟ زندگی میں تو بڑے بڑے آرام دہ پلنگوں پر سوتے ہیں اور زندگی کی ہر آسائش ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ قبر میں جہاں کروٹ لینا بھی مشکل ہو گا وہاں قیامت تک بسیرا کیسے ہو گا؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا۔
    اس کے بعد میں درود سلام پڑھ کر رات کو خانہ کعبہ کی طرف چہرہ کر کے سو گیا تو مجھے خواب میں یہ احساس ہوا کہ میں فوت ہو گیا ہوں اور لوگ مجھے دفن کرنے کے لیے قبرستان لے کر جا رہے ہیں جبکہ مجھے مکمل ہوش ہے اور میں لوگوں کی باتیں بھی سن رہا ہوں اور اپنے بارے میں فکرمند بھی ہوں کہ جہاں یہ لوگ مجھے لے کر جا رہے ہیں وہاں کیا ہو گا؟ خواب میں بھی میں جگہ کی تنگی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ مجھے جب قبر میں اتارا گیا تو میں نے دیکھا کہ مجھ سے پہلے وہاں بہت سے لوگ موجود ہیں اور جہاں تک میری نظر گئی لوگوں کا ہجوم ہی نظر آیا۔ پھر جب میں قبر سے نکلنے کے لیے اس جگہ پر پہنچا جہاں سے مجھے قبر میں اتارا گیا تھا تو مجھے غائب سے آواز آئی کہ خبردار تم باہر نہیں نکل سکتے۔ اندر جہاں چاہو چل پھر لو چنانچہ میں اندر ہی چلتا پھرتا رہا وہاں بہت سے ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو مجھ سے پہلے فوت ہو چکے تھے وہاں ہر کوئی دنیا سے بے نیاز اور بے خبر تھا۔
    اس خواب نے میرے سوال کا ہوبہو جواب دے دیا تھا۔ دوسری صبح جب میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے فرمایا کہ کیوں بھئی قبر کا حال دیکھ لیا ہے؟ میں بہت حیران تھا کہ ان کو میرے خواب کی کیسے خبر ہو گئی؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ میرے پیر و مرشد کی کرامت تھی انہوں نے مجھے بتایا ہی نہیں بلکہ دکھا بھی دیا تھا۔ اس دن سے مجھے قبر سے خوف نہیں آتا اور میں سوچتا ہوں کہ جہاں اتنے لوگ پہنچ گئے ہیں‘ وہاں میں بھی چلا جاؤں گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جیسے مجھے اس دنیا میں آنے سے پہلے کا علم نہیں اسی طرح آگے جا کر مجھے اس دنیا کی خبر نہیں ہو گی۔
    بہرکیف زندگی بہت تیزی سے گزرتی جا رہی ہے اور میں اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے کامل مرشد کی صحبت اور سرپرستی نصیب ہوئی ہے۔ جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے تو وہ میری مدد کو آن پہنچتے ہیں‘ گفتگو کرتے وقت میرے سامنے دلائل کے انبار لگ جاتے ہیں یہ سب اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی دعاؤں سے میرے پیر و مرشد کا کمال ہے۔
    حضرت صاحب کی کرامات کے حوالے سے بہت سی باتیں ایسی ہیں‘ جن کا ذکر یہاں ضروری بھی ہے‘ لیکن اختصار کی وجہ سے اس پر اکتفا کرتا ہوں۔ اگر کسی کو اس حوالے سے دلچسپی ہو تو وہ میری کتاب ”نورالہی کے پروانے“ پڑھ سکتا ہے‘ جس میں پیرومرشد سمیت سترہ 17 اولیا کرام کے ایمان افروز واقعات شامل ہیں۔ جن کو پڑھ کے ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور دنیاکا ہلہ گلہ چھوڑ کر خدائے بزرگ و برتر سے دل لگانے کو جی چاہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی محبت میں ڈوب جانے کو دل کرتا ہے۔
    سچ تو یہ ہے کہ یہ دنیا صرف چند روزہ ہے‘ جس میں ہمارا قیام انتہائی مختصر عرصے کے لیے ہے۔ نبیوں میں سب سے زیادہ عمر پانے والے نبی حضرت نوح  سے ان کی روح قبض کرتے وقت حضرت جبرائیل  نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی تم نے دنیا کو کیسا پایا۔ ہزار سال زندہ رہنے والے نبی  نے جواب دیا دنیا ایک مکان کی مانند ہے‘ جس کے دو دروازے ہیں‘ ایک دروازے سے داخل ہوا اور دوسرے سے نگل گیا۔ یہی دنیا کی حقیقت ہے‘ لیکن اس چند روزہ زندگی میں ہم جو کچھ کر جاتے ہیں مرنے کے بعد ہمیں اسی کا حساب دینا ہے۔ اس لیے اگر ہم دنیا میں اپنے دین کے مطابق زندگی گزار لیں تو آخرت بھی آسان ہو جائے گی‘ ورنہ بہت سی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اللہ ایسے مشکل حالات سے ہمیں محفوظ رکھے اور نبی کریم ﷺ کے صدقے ہمارے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہمیں بخش دے۔










چند خوابوں کا ذکر
                    تحریر : محمد اسلم لودھی

خواب انسانی زندگی کا اہم حصہ تصور کیے جاتے ہیں ۔میرا شمار ان لوگوں میں جو آنکھیں بند کرتے ہی خواب کی دنیامیں پہنچ جاتے ہیں ۔میری زندگی بے شمار خوابوں سے بھری پڑی ہے کچھ خواب تو روحانیت سے آراستہ ہوتے ہیں تو کچھ خوفناک خواب بھی مجھے بے چین کردیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواب میں اگر کوئی میٹھی چیز کھاتا ہوں تو نیند سے بیدار ہونے کے بعد اس کا ذائقہ میری زبان موجود رہتا ہے ۔
گنج عنایت سرکار  سے والہانہ محبت کا اظہار تو میں کرتا ہی رہتا ہوں کیونکہ آپ  کے ہاتھ بیعت کرنے کا واقعہ بھی ایک خواب کا تسلسل ہے ۔ جس کا ذکر شاید پہلے کتاب میں شامل ہوچکا ہے ۔ پھر بھی واقعات کو تسلسل دینے کی خاطر میں اس خواب کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ایک رات خواب میں  میں ایک بہت بڑے ہال نما کمرے میں موجود تھا جہاں ہر طرف نور کی بارش ہورہی تھی مجھ سمیت وہاں موجود تمام افراد نظریں جھکائے کھڑے تھے کہ اچانک عالم غیب سے آواز آئی کہ تمام لوگ نگاہیں نیچی رکھیں ابھی حضرت اویس قرنی  تشریف لارہے ہیں۔اس عظیم ہستی کا نام سن کر میں بہت خوش ہوا کہ آج آپ  کی زیارت بھی نصیب ہوجائے گی چند لمحوں بعد میں نے محسوس کیا کہ ایسی نورانی شخصیت میرے دائیں جانب سے بائیں جانب گزری ہے چونکہ میری نگاہیں جھکی ہوئی تھیں اس لیے میں صرف آپ  کے پاؤں مبارک ہی دیکھ سکا جو اس قدر روشن تھے کہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔جونہی میں نے نظریں اٹھا کر آپ  کا چہرہ مبارک دینے کی آرزو کی توعالم غیب سے ڈانٹ کے انداز میں کسی نے کہا خبردار اپنی نگاہیں نیچی ہی رکھیں۔نیند سے بیدار ہونے کے کئی دن بعد تک مجھ پر روحانیت کا بہت اثر رہا ۔ اس خواب کا ذکر میں نے جامع مسجد قربان لائن لاہور کے امام حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کے روبرو کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کو اویسہ سلسلے سے فیض حاصل ہوگا آپ حضرت میاں میر قادری  ضرورجایا کریں۔حضرت میاں میر قادری  سے چاہت اور محبت کا سلسلہ تو پہلے ہی دراز تھا اس خواب کے بعد باقاعدگی سے ہر جمعرات کو ان کے دربارعالیہ پر حاضر ہونے لگا ۔پھر قدرت مجھے پیرعنایت سرکار  کے آستانے پر لے آئی تو آپ  نے میری بار بار درخواست کے باوجود مرید نہ کیا لیکن جب اصرار حد سے زیادہ بڑھا تو آپ  نے فرمایا کہ حضرت میاں میر قادری  کی خدمت میں حاضر ہوکر وہاں آپ سے بیعت لی جائے گی ۔ تاکہ حضرت میاں میر قادری  کا فیض بھی آپ کو مل سکے ۔پیرو مرشد کی یہ بات میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی چنانچہ غالبا 1991ء کی ایک صبح حضرت میاں میر قادری  کے دربار عالیہ پر پیرو مرشد کے ہمراہ حاضر ہوا اور وہاں مجھ سے بیعت لی گئی ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ صرف میں مرید نہیں ہوا بلکہ میرے والدین سمیت خاندان کے کئی افراد پیرعنایت سرکار  کے ہاتھوں پر بیعت کرچکے ہیں ۔1994 میں جب میرے والد گرامی ( محمد دلشاد خان لودھی ) کا انتقال ہوا تو آپ بطور خاص گھر تشریف لائے پھر آپ  نے ہی میرے والد کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
ایک خواب کا ذکر خود پیر و مرشد کچھ اس طرح بتاتے ہیں -:
ابھی والد گرامی کو فوت ہوئے چند د ن ہی گزرے تھے کہ ایک رات والد گرامی آپ  کے خواب میں آئے محفل میلاد مصطفی ﷺ منعقد ہے تمام لوگ نعت خوانی اور ذکر و فکر میں مشغول ہیں میرے والد سب سے پیچھے بیٹھے ہوئے اور اسی ذکر و فکر میں مشغول ہیں محفل ختم ہوئی تو وہاں پر موجود لوگوں نے آپ  کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے ۔ آپ  نے وہ ہار میرے والد کے گلے میں ڈال دیئے ۔آپ  نے میرے والد گرامی سے پوچھا کہ یہاں تمہارا کیا حال ہے تو والد گرامی نے جواب دیا کہ خدا کا شکر ہے آپ کی دعاؤں کے طفیل میں یہاں پر عافیت سے ہوں ۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا حتی کہ وہ دن بھی آپہنچا جب 31 جولائی 2011ء کو حضرت مولانا محمد عنایت احمد دام برکاتہ عالیہ ( پیر عنایت سرکار  ) کا انتقال ہوگیا ۔آپ کے جسمانی وصال کے ٹھیک تین دن بعد آپ  میرے خواب میں تشریف لائے اور منظر کچھ یوں تھا۔ دور دور تک لوگوں کا ہجوم تھا تمام لوگ نماز جمعہ کے لیے صفیں باندھ رہے تھے آپ  امامت کے مصلے پر کھڑے تھے جبکہ میں آپ کے بالکل پیچھے موجود تھا چند لمحوں بعد آپ  نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تکبیر پڑھو ۔ میں نے بلند آواز میں تکبیر پڑھی تو آپ  نے امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ جبکہ لامحدود تعداد میں لوگوں نے آپ کی اقداء میں نماز جمعہ ادا فرمائی ۔
نماز جمعہ پڑھنے کے بعد آپ  میرے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ گئے موٹرسائیکل چل رہی تھی اور آپ مجھے سے مخاطب ہوکر فرما رہے تھے کہ نماز جمعہ کی فرض نماز کے بعد آپ تین مرتبہ آیت کریمہ ضرور پڑھ لیا کریں ۔ میں نے ایک بار پھر پوچھا کہ حضرت صاحب صرف تین مرتبہ تو آپ  نے فرمایا تین مرتبہ ہی کافی ہے ۔ چنانچہ اس دن کے بعد میں نے ہر نماز فرض کے بعد کم ازکم تین مرتبہ آیت کریمہ ضرور پڑھتا ہوں ۔
مفتی ڈاکٹر محمد سلیمان قادری نعیمی فرماتے ہیں کہ مرنے والا اگر کوئی اچھی نصیحت کرے تو اس پر ضرور عمل کرنا چاہیئے کیونکہ وہ جس دنیا میں پہنچ چکا ہے وہ سچ کہتا ہے ۔ یہ تو ایک عام انسان کی بات ہے لیکن پیر و مرشد عنایت سرکار  کا مقام اور مرتبہ تو ویسے ہی عام انسانوں سے کہیں زیادہ بلند ہے۔
اس کے بعد موٹرسائیکل پر ہی میں حضرت صاحب کو لے کر اپنے والدین کے گھر پہنچ گیا جہاں میری والد مرحومہ کھانا تیار کررہی تھیں جبکہ والد صاحب چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے پیرو مرشد کو دیکھ کر نہ صرف سب نے خوشی کا اظہار فرمایا بلکہ بے شمار راز و نیاز کی باتیں بھی ہوئیں ۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے مرنے والے سبھی ایک جگہ پر ہی اکٹھے ہوتے جارہے ہیں جہاں جہاں جس جس سے جس کی جان پہچان ہے اور عقیدت و محبت ہے وہ اس سے مل کر خوشی محسوس کرتا ہے ۔
پیرعنایت سرکار نے ایک محفل میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پانی مچھلی کی غذا ہے پانی کے بغیر مچھلی اپنا وجود برقرارنہیں رکھ سکتی ۔ مچھلی کو مرچ مصالحے لگا کر جب ہم کھاتے ہیں تو پیٹ میں جاکر بھی مچھلی انسانی پیاس کی صورت میں پانی مانگتی ہے ۔ اسی طرح وہ انسان جو دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالی کی حمد وثنا کرتا ہے نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود پاک بھیجتا ہے کم ازکم پانچ نماز پڑھنے کی صورت میں اپنے خالق کے سامنے جھکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ موت کی صورت میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ کام جاری نہ رکھ سکے جو وہ دنیامیں اہتمام سے کرتا رہا ہے ۔ اللہ تعالی اپنے ہر نیک بندے کو یہ توفیق عطا فرماتا ہے کہ قبر میں پہنچ کر بھی حمد ثنا جاری رکھے ۔
پیر عنایت سرکار  جسمانی وصال کے بعد اب تک پانچ چھ مرتبہ میرے خواب میں تشریف لا چکے ہیں ہر خواب کی کہانی پہلے سے مختلف ہوتی ہے لیکن ایک بات مشترک دکھائی دیتی ہے کہ آپ  نہ صرف مسجد امامت کے مصلے پر دکھائی دیتے ہیں بلکہ میلا دمصطفے ﷺ کی محفلوں کی صدارت فرما رہے ہوتے ہیں ۔
میرے بہت ہی اچھے دوست اختر حسین جن کو میں پیار سے مفتی منیب الرحمن کا چاند کہہ کر پکارتا ہوں ہر نماز کے بعد ان سے روحانیت پر گفتگو کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جبکہ مفتی ڈاکٹر محمد سلیمان قادری  بھی میرے خوابوں کی تعبیر اور شریعت کے حوالے سے رہنمائی کرتے رہتے ہیں ۔اس کے باوجود کہ اختر حسین صاحب پیر عنایت سرکار  کے مرید نہیں ہیں بلکہ وہ لاہور کے نواحی قصبے کالا شاہ کاکو میں حضرت میاں محمد حنفی سیفی دام برکاتھم عالیہ کے دست مبارک پر بیعت ہیں ۔شکل وجاہت کے اعتبار سے وہ اپنے مرشد کے ہو بہو برتو ہیں ۔ جبکہ صوم صلوة کے انتہائی پابند اور پاکیزہ خیالات کے حامل انسان ہیں ۔انہوں نے ایک دن دوران گفتگو مجھے بتایا کہ ان کے خواب میں پیرعنایت سرکار  تشریف لائے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ سبز لباس پہن کر میرے مزار پر آیاکریں ۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ سبز لباس پہن کر میں کیسے ان کے مزار پر جایا کروں جبکہ میں ان کی عقیدت اور محبت اپنے دل میں رکھتا بھی ہوں ۔اختر حسین صاحب نے مزید بتایا کہ اسی خواب کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ میں مکہ کالونی کے بازار میں کھڑا ہوکر پیر عنایت سرکار  کا مزار مبارک دیتا ہوں راستے میں جتنی بھی عمارتیں اور گھر ہیں وہ رکاوٹ نہیں بنتے ۔ مجھے بالکل صاف مزار مبارک کا مینار دکھائی دیتا ہے ۔
میں نے کہا اگر اب میری پیر و مرشد  سے خواب کے حالت میں ملاقات ہوئی تو میں یقینا آپ کے اس خواب کے بارے میں پوچھوں گا ۔حسن اتفاق سے چند ہفتے ہی گزر ے ہوں گے کہ ایک بار پھر پیر و مرشد سے خواب میں ملاقات ہوگئی آپ میلا د مصطفے ﷺ کی محفل میں موجود تھے میں پیرومرشد کے بالکل قریب دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا جبکہ بائیں جانب محمدافضال جو پیر عنایت سرکار  کے اولین مریدوں میں شامل ہے وہ بیٹھاہوا جبکہ سامنے دور دور تک محفل میلاد میں لوگ باوضو حالت میں موجود ہیں ۔جب محفل میلاد اختتام کو پہنچی تو میں نے پیرو مرشد سے پوچھا کہ حضرت صاحب اختر حسین جو میرے ساتھ ہی مکہ کالونی میں رہتے ہیں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نے ان کو خواب کی حالت میں حکم دیا ہے کہ وہ سبز لباس پہن کر آپ کے دربار میں آیاکریں کیا ایسا کرنا ضروری ہے ۔ میری بات حسب معمول توجہ سے سننے کے بعد پیر عنایت سرکار  نے فرمایا ۔اختر حسین کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ مزارپر ضرور آیا کریں بے شک سفید لباس ہی کیوں نہ پہنا ہو۔ پھر میں نے کہا کہ اختر صاحب ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ مکہ کالونی مین بازار میں کھڑے ہوکر ان کو آپ کے مزار مبارک کا گنبد دکھائی دیتا ہے اور راستے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی کیا یہ بھی سچ کیا ہے ۔ پیر عنایت سرکار  نے فرمایا اختر حسین جو کہتا ہے بالکل ٹھیک کہتا ہے وہ اور اس کا بھائی صفدر بالکل ٹھیک راستے پر گامزن ہیں ۔
اگلی صبح جب میں نے اختر حسین صاحب کے روبرو اس خواب کا ذکر کیا تو وہ بہت خوش ہوئے بلکہ مجھے جامع مسجد رضویہ قادریہ مکہ کالونی گلبر گ تھرڈ لاہور کی انتظامی کمیٹی کے صدر صوفی محمداکرم صاحب نے بھی تاکید کی کہ میں بھی پیر عنایت سرکار  کا عقیدت مند ہوں اور زندگی میں بھی ان سے والہانہ محبت کااظہارکرتا رہا ہوں ان کا ہر حکم میرے لیے قانون کا درجہ رکھتا تھا اس لیے اگر اب خواب میں آپ کی ملاقات پیر عنایت سرکار  سے ہوتو میرا سلام بھی ان تک پہنچا دیں ۔میں نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ پیرو مرشد میرے خواب میں تشریف لاتے ہیں نہ صرف میری بات سنتے ہیں بلکہ مجھے مختلف شخصیات کے متعلق ہدایات بھی دیتے ہیں ۔
اسی طرح ایک مرتبہ خواب میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ہم تین افراد موجود تھے ایک پیرعنایت سرکار   دوسرے ................... اور تیسرا میں وہاں موجود تھا پیرو مرشد کرسی پر براجمان تھے جبکہ میں لکڑی کے بنے ہوئے ایک سٹول پر بیٹھاہوا تھا حضرت صاحب کسی موضوع پر گفتگو فرما رہے تھے کہ اسی اثنا میں بھائی صاحب ( یہ جامع مسجد طہ گلبرگ تھرڈ لاہور) کی مسجد کمیٹی کے پہلے جنرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور برادرم خالد نظام کے قریبی رشتہ دار تھے ۔ وہ بھی کبوتر پورہ میں ہی اپنے اہل وعیال کے ہمراہ رہائش تھے ان کی زندگی کا زیادہ تر وقت مسجد طہ میں ہی گزرتا۔نماز جنازہ ہو  میلاد مصطفے کی محفل ہو  محفل نعت ہو  قل شریف کا ختم ہو  بھائی صاحب پیر عنایت سرکار  کے ساتھ ساتھ ہوتے تھے لیکن کچھ عرصہ پہلے وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ۔ چونکہ سب سے پہلے بینچ پر بیٹھا ہوا تھا اس لیے انہوں نے کمرے میں آتے ہی سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کیا ۔مصافحہ کرتے ہوئے میں نے تعجب آمیز لہجے میں کہا بھائی صاحب آپ تو فوت ہوچکے ہیں تو انہوں نے کہا نہیں میں تو زندہ ہوں اور تمہارے سامنے ہوں ۔پھر پیر عنایت سر کار سے بھی ملاقات کی اور کچھ دیر گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا اور خواب ختم ہوگیا ۔
ایک اور خواب میں دربار شریف کے بلند چبوترے پر آپ تشریف فرما ہیں بہت سے لوگ اردگرد موجود ہیں میں بھی وہاں موجود ہوں ۔پیر عنایت سرکار  کے ہاتھ میں ایک موٹی سی کتاب ہے جس کے ٹائیٹل کا رنگ سرخ ہے انہوں نے وہ کتاب پہلے خود دیکھی پھر وہی کتاب مجھے عنایت فرمادی ۔کسی بات کا تذکرہ ہوا تو آپ  نے فرمایا یہ کام ہدایت الرحمن کرے گا ۔ جب محفل ختم ہوئی تو میں نے اپنی قوت سماعت میں کمی کے بارے میں دعا کے لیے درخواست کی تو آپ نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر مجھے مخاطب ہوکر فرمایا یہ ڈاکٹر بشیر ہیں یہ آپ کے کانوں کا شافی علاج کریں گے ۔ خواب ختم ہونے کے بعد نہ تو میں ڈاکٹر بشیر تک پہنچ سکااور نہ ہی ڈاکٹر بشیر کے بارے میں مجھے کوئی معلومات حاصل ہوئیں ۔






















قبرستان میں ایصال ثواب کا مستند طریقہ


حضرت مالک بن دینار  فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کی رات قبرستان میں گیا ۔ میں نے دیکھا کہ وہاں نور چمک رہاہے ۔ میں نے خیال کیا کہ اللہ تعالی نے قبرستان والوں کو بخش دیا ہے۔غیب سے آواز آئی اے مالک بن دینار یہ مسلمانوں کا تحفہ ہے جو انہوں نے قبروں والوں کو بھیجا ہے ۔ میں نے کہا تمہیں خدا کی قسم مجھے بتاؤ کہ مسلمانوں نے کیا تحفہ بھیجا ہے ۔؟
آواز آئی ایک مومن نے وضو کرکے دو رکعتیں پڑھیں ان دو رکعتوں میں سورة فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں قل یا ایھا لکافرون ۔لااعبدماتعبدون ۔ ولا انتم عبدون ما اعبد۔ ولا اناعابد ماعبدتم ولا انتم عبدون ما اعبد ۔ لکم دینکم ولی دین ۔اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص (قل ھو اللہ احد ) پڑھی اور کہا اے اللہ ان رکعتوں کا ثواب میں نے ان تمام قبروں والے مومنین کو بخشا ۔ پس اس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہم پر یہ روشنی اور نور بھیجا ہے اور ہماری قبروں میں کشادگی اور فرحت پیدا فرما دی ہے۔حضرت مالک بن دینا ر  فرماتے ہیں اس کے بعد میں ہمیشہ دو رکعتیں پڑھ کر ہر جمعرات کی رات مومنین مرنے والوں کو بخشتا رہا۔ایک رات میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا  فرمایا اے مالک بن دینار  بے شک اللہ نے تجھ کو بخش دیا ۔ جتنی مرتبہ تو نے میری امت کونور کا ہدیہ بھیجا ہے اور اتنا ہی اللہ نے تیرے لیے ثواب کیا ہے او راللہ تعالی نے تیرے لیے جنت میں ایک محل بنایا ہے جس کا نام منیف ہے۔ میں نے کہا منیف کیا ہے ؟ فرمایا جس پر اہل جنت بھی رشک کریں گے ۔             (کتاب: شرح الصدور ازامام جلال الدین سیوطی  ص 128 )
توثیق : ڈاکٹر فیض احمد چشتی خطیب جامع مسجد مکہ کالونی گلبرگ تھرڈلاہور ( طالب دعا : محمد اسلم لودھی )




نماز کی قبولیت کے حوالے سے
 ایک صحابی کا آپ ﷺ سے سوال

ایک صحابی نے حضور ﷺ سے پوچھا یارسول اللہ ﷺ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہماری نماز قبول ہوگئی ہے ۔؟
آپ ﷺ نے فرمایا جب تمہارا اگلی نماز پڑھنے کو دل کرے تو سمجھ لینا کہ تمہاری نماز قبول ہوگئی ہے ۔ سبحان اللہ         ( طالب دعا : محمد اسلم لودھی )

نماز حاجت

دعاؤں کی مقبولیت اور حاجتوں کے پورا ہونے کے لیے ایک مجرب نسخہ نماز حاجت ہے۔ حضور ﷺ کو جب بھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپ ﷺ دو رکعت یا چار رکعت پڑھتے ۔ حدیث میں ہے پہلی رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد تین مرتبہ آیت الکرسی دوسری رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة اخلاص ۔ تیسری رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة الفلق اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورة الناس ایک ایک بار پڑھے ۔ توگویا اس نے شب قدر میں چار رکعتیں پڑھیں ۔( ابو داؤد )         ( طالب دعا : محمد اسلم لودھی )

                کلمہ طیبہ کی برکات
حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ اپنے بچوں کو سب سے پہلے کلمہ طیبہ سناؤ اور اپنے مرنے والوں کو بھی ۔ کیونکہ جس شخص کا اول و آخر کلام لا الہ الا اللہ اور پھر وہ ہزار سال بھی زندہ رہے تو اس سے کسی گناہ کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا ۔ ( کنزالعمال )
            قبریں والے بھی دیکھتے ہیں
    حضرت اسد بن موسی  سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست کاانتقال ہوگیا۔ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ سبحان اللہ ۔ تم قبرستان میں آئے ۔ کسی اورکی قبر پرفاتحہ کہہ کرچلے گئے لیکن میری قبر پر نہ آئے۔میں نے پوچھا منوں مٹی کے نیچے دب جانے کے بعد تم کو اس بات کا کیسے پتہ چلا ۔اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ جب پانی شیشہ میں ہو تو کیسے نظر آتا ہے۔؟
                                (شرح الصدور ۔ از امام جلال الدین سیوطی )

               









پانچ چیزوں کی تلاش

روض الریاحین (یافعی) میں شفیق بلخی سے روایت ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے پانچ چیزوں کی تلاش کی تو انہیں پانچ چیزوں میں پایا۔
-1    گناہوں کے چھوڑنے کو نماز چاشت میں
-2    قبروں میں روشنی کو نماز تہجد میں
-3    منکر نکیر کے سوالوں کے جواب کو تلاو ت قرآن میں
-4    پل صراط سے گزرنے کو روزہ اور صدقہ میں
-5    سایہ عرش کو گوشہ نشینی میں
( روضة الریاحین از امام عبداللہ یافعی علیہ الرحمہ) طالب دعا: محمد اسلم لودھی                       

قبر میں نماز اور تلاوت قرآن پاک
حضرت حافظ ابوبکر خطیب نے روایت کیا کہ عیسی بن محمد  نے کہا میں نے ایک روز حضرت ابوبکر بن مجاہد کو خواب میں دیکھا کہ وہ قرآن پا ک پڑھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ تو فوت ہوچکے ہیں پھر کیسے پڑھ رہے ہیں؟تو انہوں نے کہا میں ہر نماز کے بعد اور ختم قرآن کے بعد دعا کرتا تھا کہ اے اللہ تو مجھے قبر میں تلاوت قرآن پاک کی توفیق دینا ۔ اللہ نے دعا قبول کی اور مجھے یہ توفیق بخشی ۔
حضرت طلحہ بن عبداللہ  نے کہا میں ایک رات عبداللہ بن عمرو بن حزام  کی قبر کے قریب لیٹ گیا۔ میں نے اس لمحے تلاو ت قرآن پاک کی آواز سنی۔ میں نے یہ واقعہ حضور ﷺ سے عرض کردیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ عبداللہ  کی آواز تھی کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی روحیں یاقوت و زبرجد کی قندیلوں میں لے جا کر جنت کے بیچ لٹکا دی ہیں جب رات ہوتی ہے تو ان کی روحیں جسموں میں لوٹا دی جاتی ہیں پھر صبح کو ان کے مقام پر واپس کردیاجاتاہے ۔
        (شرح الصدور ۔ کتاب الروح از امام جلال الدین سیوطی ) طالب دعا: محمد اسلم لودھی
       
           







قبرستان میں سورة اخلاص کا ثواب

قاضی ابوبکر بند عبدالباقی نے سلمہ بن عبید سے روایت کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ حماد مکی نے بتایا کہ ایک رات میں مکہ کے قبرستان کی طرف چلا گیا اور قبر پر سر رکھ کر سوگیاتو دیکھا کہ قبروں والے حلقہ در حلقہ کھڑے ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا قیامت قائم ہوگئی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں ۔ لیکن ہمارے ایک مسلمان بھائی نے سورة اخلاص پڑھ کر ہم کو ثواب پہنچایا ہے وہ ثواب ہم ایک سال سے تقسیم کررہے ہیں۔    (شرح الصدور ۔ از امام جلال الدین سیوطی ) طالب دعا: محمد اسلم لودھی









نورانی طباقوں میں رکھ کر
 دعا مرنے والوں کو پیش کی جاتی ہے
حضرت انس  نے روایت کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جب کوئی شخص مرنے والے کو ایصال ثواب کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اسے نور انی طباق میں رکھ کر قبر کے کنارے پر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اے قبر والے یہ ہدیہ تیرے لیے بھیجا گیا ہے اسے قبول کر ۔یہ سن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی محرومی پر غمگین ہوتے ہیں ۔
حضرت یسار بن غالب  نے فرمایا کہ میں نے ایک رات خواب میں حضرت رابعہ بصری  کو دیکھا ۔ میں اکثر ان کے لیے دعا کیا کرتا تھا۔ حضرت رابعہ بصری  نے مجھے کہا کہ اے یسار ۔ تمہارے بھیجے ہوئے ہدایہ مجھ کو نورانی طباقوں میں ریشمی رومالوں سے ڈھک کر پیش کیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت قبر میں گناہوں سے لتھڑی ہوئی داخل ہوگی لیکن روزقیامت جب قبروں سے نکلے گی تو گناہوں سے پاک ہوگی ۔کیونکہ وہ مومنین کی دعاؤں سے بخش دی جائے گی ۔
    (شرح الصدور ۔ کتاب الروح از امام جلال الدین سیوطی )
                     طالب دعا: محمد اسلم لودھی



1 comment: